آخر مسئلہ ہے کہاں؟ قومی اہداف، طرز سیاست، وژن اور وسائل

مصنف کی تصویر
ذوالفقار علی

 

(ذوالفقارعلی)

1۔قومی اہداف

سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے قومی اہداف واقعی اس ملک میں عوام کی ضرورتوں اور امنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کئے گئے ہیں؟ میری دانست اور مشاہدے کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم اگر پاکستان کے سالانہ بجٹ کا جائزہ لیں تو ہمیں کافی واضح قسم کے اشارے ملتے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کے اہداف اور قوم کی ضروریات میں کوئی تال میل نہیں!

اس تناظر میں اقوام عالم کے ساتھ “ملینیم ڈویلپمنٹ گولز” (MDGs, Millennium Development Goals) کے نام سے ایک سو ترانوے ممالک کے ساتھ پاکستان کی حکومت نے بھی دستخط کیے تھے اور 2015 تک ان اہداف کو حاصل کرنا طے پایا تھا۔ ان اہداف میں شدید غربت کا خاتمہ، بنیادی تعلیم کا حصول، صنفی مساوات gender equality کا فروغ اور خواتین کو با اختیار بنانا، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، زچہ و بچہ mother and child کی صحت میں بہتری، ایچ آئی وی/ ایڈز، ملیریا اور دیگر بیماریوں کے روک تھام، ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا اور عالمی ترقیاتی کاموں کے لئے شراکت داری کا قیام شامل ہے۔ تاہم پاکستان ان اہداف کے حصول میں ناکام رہا، البتہ پرائمری کی سطح پر بچوں کے اندراج اور بیماریوں کی روک تھام کے اہداف میں جزوی طور پر کچھ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔

مندرجہ بالا سات اہداف targets کا تعلق بنیادی طور پر عوام سے جُڑی بنیادی ضروریات اور حقوق سے ہے جن کو ریاستی سطح پر کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ ہماری ریاست ان اہداف کو حاصل کرنے کی بجائے کہیں اور الجھی رہی یا الجھا دی گئی۔ جس سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ریاست اور عوام کی ترجیحات الگ الگ ہیں شاید اس لئے ریاست اور عوام میں شدید بیگانگی پائی جاتی ہے۔ اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ “سرکاری مال ایہہ لُٹو” (سرکار کا مال ہے اسے جتنا مرضی لوٹ لو)۔جو اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ سرکار اور عوام کا تعلق کتنا کمزور ہے۔

2۔طرز سیاست

ہمارے ہاں جو طرز سیاست رہی ہے وہ انفرادی شخصیتوں کی سوچ اور دانش کی محتاج رہی ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک انفرادی فیصلوں، مفادات اور ترجیحات کا دور دورہ رہا ہے۔ جب طاقت یا اختیار کسی ایک ادارے یا شخصیت کے گرد مجتمع ہو جائیں تو پھر وسیع لوگوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث ان کی مشکلات کا ادراک کرنا ممکن نہیں رہتا۔ جس کی وجہ سے سیاسی انتشار اور لوگوں میں بے چینی کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ فوجی آمریت کے دنوں میں یہ رجحانات واضح طور پر کئی شکلوں میں سماج کی مختلف پرتوں پر دیکھے گئے۔ مضبوط بیورو کریسی، سیاسی پارٹیوں کا غیر جمہوری ڈھانچہ، اہل اقتدار کیلئےجوابدہی کا کمزور نظام اور عسکری اداروں کے سیاست میں دخل اندازیوں کی وجہ سی عوامی طرز سیاست دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی جس نے پورے گورننس کے نظام کو ناکارہ کرکے رکھ دیا۔ اس ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے۔ جس کی وجہ سے طاقتور لوگوں نے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے سر براہان سے تعلقات استوار کیے اور اس کا خمیازہ عام عوام کو بھگتنا پڑا۔

3۔وژن

وژن ایک ایسی خوبی اور صفت ہے جو عملی تجربات، مشاہدات اور حالات کے ذریعے ہمارے شعور کا حصہ بن کر ہماری یاداشتوں میں محفوظ ہوتی رہتی ہے اور اس صلاحیت کو بڑھاوا دیتی ہے، جس کے باعث ہم مختلف النوع درپیش اور آنے والے مسائل کا ادراک کرکے اُن کا بروقت حل نکالتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہماری لیڈرشپ کے تجربات، مشاہدات اور حالات کی نوعیت زمین اور اپنی دھرتی سے جُڑے لوگوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کی ترجیحات، دُکھ سُکھ کی نوعیت اور یاداشتوں کی کہانی الگ تھلگ ہے جس کی وجہ سے اُن کی طرف سے مفاد عامہ public interest میں اُٹھائے گئے اقدامات اکثر زمینی حالات کے بر عکس ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں قومی سطح کے فیصلے وقت کے جبر میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں اور ہر بار ہمیں ایک عارضی پالیسی کے ذریعے مُلکی معاملات کو چلانا پڑتا ہے۔ جس میں “ڈو مور” ، روگ ریاست، مبہم خارجہ پالیسی، سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹر، تزویراتی گہرائی strategic depth ، اچھے اور بُرے طالبان، پراکسی وار اور عالمی تنہائی International isolation کا شکار جیسی اصطلاحات اور ان سے جُڑے خدشات اکثر سننے کو ملتے رہتے ہیں اور ہماری اشرافیہ ان الزامات کی تردید کرکے اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے۔ مگر ان کے تدارک کیلئےکوئی ٹھوس اقدامات اور پالیسی ترتیب نہیں دے پاتی جو اُن کے وژن vision کی غمازی کرتی ہے۔

4۔وسائل

جہاں تک مادی وسائل material resources کی بات ہے تو اس معاملے میں یہ خطہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جغرافیائی خدوخال، معدنی وسائل، موسموں کی فیاضی، سمندروں کے وسیع کنارے، ہری بھری فصلیں، جھومتے دریا اور زرخیز مٹی اس چیز کی گواہ ہیں کہ قدرت نے ہمیں نوازنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ جہاں تک انسانی وسائل کی دستیابی کی بات ہے تو اس میدان میں ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے۔ دُنیا جس تیزی سے جدیدیت modernity اور نت نئی مشینری latest equipment and machinery اور ایجادات کی طرف بڑھ رہی ہے تو ہمیں بھی جدید دنیا کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آھنگ کرنے کیلئے کچھ واضح لائحہ عمل مرتب کرنا پڑیگا۔ ورنہ ہمارے مادی وسائل کا زیاں ہوتا رہیگا جیسے 70 سال سے ہو رہا ہے۔

5۔مسئلہ ہے کہاں

پاکستان بننے کے بعد ہماری اشرافیہ elites کی طرف سے جو سوچ اور رویہ روا رکھا گیا اس کے اثرات ہمارے پورے سماج state and society پر بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ ہم ابھی تک یہ نہیں طے کر پائے کہ اس ریاست کو کس نظام کے تحت چلانا ہے۔ ہماری ریاست کا بیانیہ state narrative کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ ہمارے داخلی معاملات کس قسم کے ہیں اور یہ مسائل کس نہج پر پہنچ چُکے ہیں۔ ہمارے ہیروز اور دھرتی واس indigenous people کون لوگ ہیں۔ اس خطے کی تہذیب و ثقافت کے خدوخال کس قسم کے ہیں۔ محب وطن اور غدار کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ مقامی زبانیں، کھیل، دانش، لوک کہانیاں، لوک گیت، آپسی میل ملاپ اور ماحولیاتی زنجیر ecological chain کی کیا اہمیت ہے۔ ہم عرب و عجم کے زیر سایہ ہیں، یا ہماری اپنی بھی کوئی شناخت ہے۔ نصاب، تاریخ اور سماجیات میں ہمیں کیا پڑھانا ہے، کیا نہیں پڑھانا۔ ہمیں اپنے ماضی میں زندہ رہ کر جینا ہے؟ یا کچھ کر کے دکھانا ہے۔ ہمارا آئین Constitution of Pakistan کس نوعیت کا ہو اور لوگوں کے بنیادی حقوق fundamental rights کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اداروں کے فرائض اور جوابدہی کس چڑیا کے نام ہے۔ ہماری اخلاقی اور سماجی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کون سے عوامل اور شخصیات ہمارے سماج کو مذہب اور فرقے کے نام پر لڑوا کر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔ وسائل کی تقسیم اور وہاں کے باشندوں کو اہمیت کس طرح دینا ہے۔ یہ سب ایسے سوالات اور مسائل ہیں جن کا تدارک اور ادراک بہت ضروری ہے۔

6۔حل

  • اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور مقامی وسائل کو زیر استعمال لانے کیلئے مقامی آبادی کی شراکت داری کو یقینی بنانا۔
  • ریاست کے بیانیے کو نئے سرے سے ترتیب دینا۔
  • ہر سطح پر جوابدہی کے عمل کو مقامی سطح پر غیر جانبدار لوگوں کی شراکت اور معلومات تک رسائی کو یقینی بنانا۔
  • تعصب پر مبنی نصاب کا خاتمہ، جدید اور سائنسی علوم کے فروغ کیلئے تجربہ کار اور قابل لوگوں کی کمیٹیاں تشکیل دے کر مناسب نصاب مرتب کرنا۔
  • ریاست پاکستان سے لڑنے والے فرقہ پرستی پر مبنی تنظیموں کی بیخ کنی کرنا۔
  • بلوچستان کے لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر قومی دھارے میں شامل کرنا اور مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں لا کر پیش کرنا۔
  • عورتوں کے خلاف تشدد، امتیاز اور سماجی نا انصافی کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا۔
  • زرعی اصلاحات کے ذریعے پڑھے لکھے بے زمین اور زراعت کا پس منظر رکھنے والے نو جوانوں کو زمین الاٹ کرنا۔
  • دینی مدارس اور مساجد کو رجسٹرڈ کرنا اور ان کو
    ریاستی تحویل میں لے کر وہاں کے معلموں اور بچوں کو جدید علوم کی ٹریننگ دینا اور انھیں حکومت سے منظور شدہ نصاب syllabi رائج کرنے کی ترغیب دینا۔ تاکہ وہ افرادی قوت کی تیاری human resource development میں ممد و معاون ہو سکیں۔
  • مقامی تھانوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے مختلف جماعتوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد کی کمیٹی تشکیل دینا جو ہر ماہ کارکردگی رپورٹ تیار کر کے حکومت کے متعلقہ حکام تک پہنچائے۔
  • دیہاتوں کو زیادہ سے زیادہ بنیادی سہولیات بہم پہنچانا اور وہاں کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے مقامی باشندوں سے تجاویز مانگنا اور پھر انہی کے ذریعے بتائے گئے منصوبے کی تکمیل و نگرانی کروانا۔
  • کلچرل پروگرام اور مقامی کھیلوں کی بحالی کیلئے دیہاتوں میں سہولیات دینا تاکہ دیہاتوں میں پنپنے والی شدت پسندی violent extremism کا قلع قمع کیا جا سکے۔
  • ادبی پرگراموں اور اسٹڈی سرکل کو حکومتی سطح پر ترویج دینا۔
  • مقامی صنعتوں اور لوک ورثہ Folk Culture کی حفاظت اور ترویج کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا۔ ماحولیاتی شعور
  • environmental consciousness اجاگر کرنے کیلئے ریڈیو پروگرام اور لٹریچر کا انتظام کرنا۔
  • بچھڑے ہوئے  homeless اور غریب طبقات کے بچوں کیلئے تعلیمی وظائف educational stipends مقرر کرنا تاکہ وہ لوگ بھی مین سٹریم کا حصہ بن سکیں۔

اس طرح کے اقدامات سے ہم اپنے مُلک کو با عزت قوموں کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں اور معاشرے کے زوال کو روک سکتے ہیں، ورنہ آنے والا کل مشکل سے مشکل تر ہوتا جائیگا۔

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔