
تخلیقی عمل میں غیب و حضور کا قضیہ
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
ایک معروف فیس بُک فورم پر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا واقعی پورے کے پورے مصرعے اور اشعار اچانک شاعر کے ذہن میں کوندے کی طرح لپکتے ہیں؟ بعض قارئین نے آمد و آورد کے حوالے سے اس سوال پر بہت عمدہ اظہارِ خیال کیا ہے اور مجھے بھی طالب علمانہ سطح پر اس موضوع پر لکھنے کی تحریک دی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شاعری میں آمد اور آورد کی اصطلاحیں برتی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب شعر از خود شاعر پر الہام کی طرح اترتا ہے تو اسے آمد کہتے ہیں جب کہ آورد میں شعر کو مشق اور کوشش سے وضع کرنا پڑتا ہے۔ کیا شاعر کو شعر گھڑنے کی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے یا اس کا ذہن شعر کہنے میں اتنا راسخ ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔ یہ واقعی ایک دلچسپ بحث ہے کہ کیا شاعری میں آمد محض ایک الہامی کیفیت ہوتی ہے یا اس کے پیچھے مستقل محنت اور مشق و ممارست کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔
کیا آمد میں الہام ہوتا ہے۔ اس میں خیال القا یا ودیعت ہوتا ہے اور اس کا تخلیقی عمل سے کیا رشتہ ہے؟ ادب کے مابعد جدید دور میں بھی اس سوال کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے نئے گوشے سامنے آئے ہیں۔ الہام ایک ایسا لفظ ہے جو بنیادی طور پر خیالی یا روحانی طور پر متاثر ہونے یا کسی چیز کی خبر دینے کی حالت کو بیان کرتا ہے۔ اسلامی روایات میں الہام خاص طور پر خدا کی طرف سے علم، ہدایت یا خیالات کا نزول سمجھا جاتا ہے جسے کسی خاص شخص یا نبی پر نازل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جہاں فرد کو غیر معمولی طور پر روشنی یا بصیرت ملتی ہے جو اس کےاعمال یا تخلیقات میں رہنمائی کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں انسپائریشن بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ اردو میں انسپائریشن کا ترجمہ الہام بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ ہندی کا لفظ پریرنا بھی مناسب نہیں۔ تحریک موزوں لفظ ہے جو آمد کا نعم البدل بن سکتا ہے۔ جب شاعر کو کسی فن پارے کے مطالعے سے لکھنے کی تحریک ہوتی ہے تو یہ بھی ایک طرح کی آمد ہی ہوتی ہے ۔ جب شاعر کے ذہن پر بغیر کسی کوشش کے خیالات یا اشعار وارد ہوتے ہیں تو اسے بھی آمد ہی کہنا چاہیے۔ اسی طرح وہ تخلیقی کیفیت بھی آمد ہوتی ہے جس کے عقب میں کوئی گہرا احساس، تجربہ یا مشاہدہ ہوتا ہے جو اچانک شعری صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تخلیق کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ فن کار کا اپنا ہی وجود ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل میں شاعر کو روانی اور رکاوٹ، دونوں مرحلوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جب شاعر تخلیقی ٹرانس میں ہوتا ہے تو وجود کی دیوار اس کے راستے سے ہٹ جاتی ہے اور وہ روانی سے شعر کہتا چلا جاتا ہے لیکن جب ٹرانس ٹوٹ جاتا ہے تو دیوار دوبارہ حائل ہو جاتی ہے اور کوشش کے باوجود وہ شعر نہیں کہہ پاتا۔ کبھی کبھی تو یہ رکاوٹ ایک لمبے عرصے پر پھیل جاتی یے اور کبھی کبھی اچانک ختم بھی ہو جاتی ہے۔ تخلیقی بلاکیج کے پیدا اور ختم ہونے میں مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں جو باہمی طور پر متحد بھی ہوسکتے ہیں اور متخالف بھی تاہم ایک چھوٹی سی تبدیلی کبھی کبھار فنکار کو خلا میں چھوڑ دیتی ہے اور کبھی کبھار تخلیق کی نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔ گویا آمد میں روانی اور رکاوٹ، دونوں صورتوں کا امکان موجود ہوتا ہے۔
آمد کے بر عکس آورد وہ محنت ہے جو شاعر کو اپنی مہارت کے لیے کرنا پڑتی ہے۔ اس کے لئے اسے بحر، قافیہ، ردیف کے انتخاب اور لحن ولہجہ جیسے عناصر کے ذریعے اپنے ذہن کی فعال قوتوں اور تجربوں کو استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ ایک طرف تخلیقی ذہن میں کچھ ایسی کیفیات ہوتی ہیں جو آمد کا باعث بنتی ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ایک ماہر شاعر اپنے تجربات کی بنیاد پر ایسی کیفیات پیدا کر سکتا ہے کہ اسے شعر کہنے کے لئے زیادہ کاوش نہ کرنی پڑے۔ گویا مشکل اور آسانی کا معاملہ آورد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات طبعی عمل کے تحت شاعر کے ذہن میں خیالات خود بخود آتے ہیں۔ اسی طرح تجربہ کار شاعر کی مہارت بھی اسے شعر کی تشکیل میں مدد دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ محنت کے بغیر بھی بہترین اشعار تخلیق کر سکتا ہے۔ شاعری میں آمد اور آورد کا یہ ایک دوسرے سے گتھا ہُوا تعلق بہت معنی خیز بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔ بہترین شاعر وہ ہوتا ہے جو ان دونوں کے گتھے ہوئے تعلق کو سسمجھ سکے یعنی وہ اپنی تخلیقی قوت کو پہچانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی مہارت کو بھی بروئے کار لائے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آمد کس چیز کی ہوتی ہے۔ کسی بے لفظ کیفیت کی ہوتی ہے یا بے صورت ہیولے کی یا پھر ڈھلے ڈھلائے کسی مصرعے یا شعر کی۔ ڈاکٹر عابد سیال کی یہ رائے بھی صائب ہے کہ “آمد خیال کی ہوتی ہے۔ مصرع صناعی اور ہنر ہے۔ گہری ریاضت سے گزرے ہوئے تخلیق کار کے لئے اس کا ہنر بھی آمد جیسا ہوتا ہے”۔ اس رائے سے فوری طور پر آتش کا یہ شعرذہن میں آتا ہے۔
بندشِ الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
گویا شاعری مرصع سازی کا وہ فن ہے جو ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔ الفاظ کو ایک خاص ترتیب میں لانا اور انہیں ایک دل کش شکل دینا، بالکل ایسے ہی ہے جیسے نگینوں کو جَڑنا۔ مطلب یہ کہ تخلیقی عمل محنت، مہارت اور بصیرت کا متقاضی ہوتا ہے۔ آمد کے مقابلے میں “صناعی” یا “مرصع سازی” کی بات کی جاتی ہے تو یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ایک تجربہ کار شاعر نے اپنی مہارت، ریاضت، اور تکنیکی علم کی بنیاد پر شعر کو تشکیل دینے کی صلاحیت حاصل کی ہے۔ اس کا ہنر بھی آمد کی طرح اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ ایک شاعر کی ماہرانہ صلاحیت اور تجربہ کاری اس کی آمد کی کیفیت پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ جتنی زیادہ ریاضت، اتنی ہی زیادہ مہارت۔ جیسے جیسے شاعر اپنے کام میں پختہ ہوتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے وہ آمد کی کیفیت میں زیادہ اعتماد کے ساتھ شعر کہتا ہے۔ ایک اچھے شاعر کی شناخت اسی صلاحیت میں مضمر ہے کہ آمد و آورد دونوں کو کیسے ممزوج کرتا ہے۔ یہی وہ جمالیاتی نقطہ ہے جہاں تخلیقی اور تکنیکی پہلو مل کر ایک شعری تجربے کو ظہور میں لاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شاعر کا تکنیکی علم، مشاہدہ ، مطالعہ اور تجربہ شعر کو ایک منفرد شکل دیتا ہے جس میں معنوی اور فنی پہلو بخوبی نمایاں ہوتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ آمد کے اشعار یا مصرعے جو بے ساختہ طور پر از خود طلوع ہوتے ہیں، بعض اوقات ان میں زیادہ گہرائی نہیں ہوتی ۔ ایسے شعر بنیادی طور پر شاعر کی جذباتی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں لیکن ان میں معنوی اور تکنیکی سطح پر کچھ کمی ہوتی ہے۔ جب شاعر شعر کو خود وضع کرتا ہے اور پھر اسے تراشتا ہے تو وہ اس کے معنوی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ یوں تکنیکی مہارت، قافیہ آرائی، ردیف پیمائی اور خیال کی گہرائی سے ایک جامع تخلیق وجود میں آتی ہے۔ لیکن تراشنے کے عمل میں بعض اوقات خیال کی صورت وہ نہیں رہتی جو ابتدا میں ہوتی ہے۔ اس میں غیریت یا دوری پیدا ہو جاتی ہے جسے اردو کی ابتدائی تنقید میں تخیل کی بے اعتدالی کا نام دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ محالات کی تہ پر تہ قائم کرتے جانا تخیل کی خامی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ محال بات اس طرح سے ادا کی جائے کہ بظاہر ممکن بن جائے۔ اصلاً محالات و ممکنات کا معاملہ تخیل آفرینی میں شعری وسائل کے استعمال پر منحصر ہوتا ہے۔ کلاسیکی ادب کے برعکس مابعدِ جدید ادب میں محال یا غیر حقیقی عناصر کو قبول کیا جاتا ہے لیکن یہ اس طرح برتے جاتے ہیں کہ وہ حقیقت کی مختلف پرتوں میں رچ بس جائیں۔ غیریت یا دوری بھی تخیل میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتی ہے۔ مابعد جدید تخیل میں عدم تسلسل اور تنوع کی اہمیت مسلّم ہے۔ یہاں یہ ضروری نہیں کہ تخیل ہر صورت میں متناسب اور مثبت ہو۔ مختلف خیالات اور تصورات کا ایک ساتھ پیش ہونا اس کی خوبی سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ بظاہر بے ترتیب لگیں۔ مابعد جدید نظریہ محال باتوں کو بظاہر ممکن بنانے کے بجائے تخیل کی چالاکی اور زیرکی پر زور دیتا ہے۔ یہاں تخیل کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ قاری کے تجربات اور مفاہیم کو چیلنج کرے۔ مابعد جدید تخیل میں شعری وسائل کا استعمال روایتی حدود کے اندر نہیں رہتا۔ ان وسائل کو نئے اور غیر متوقع طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے جس سے تخیل کی طاقت کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مابعد جدید ادب میں تخیل آفرینی ایک تجرباتی فضا میں ہوتی ہے جہاں تخیل کی ہر شکل اور ہر تعبیر کا سواگت کیا جاتا ہے، چاہے وہ اجنبی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اجنبیت بھی تخیل کے سفر میں ایک نئی راہ کھولتی ہے۔ مابعد جدید ادب میں مختلف ثقافتی، سماجی اور ذاتی تجربات کا مکالمہ ہوتا ہے جو تخیل کو توسیع و تعمیق سے ہمکنار کرتا ہے۔ نتیجتاً تخیل کی ایک غیر روایتی اور پیچیدہ شکل معرضِ وجود میں آتی ہے جو تخلیق کے نئے منطقوں کی غماز بھی ہوتی ہے۔ اردو شاعری میں لسانی تشکیلات کا نظریہ بھی اسی اختراع سے جُڑا ہُوا تھا۔ بہرکیف بحث کے ہر مرحلے میں مختلف پہلوؤں کے ساتھ یہ بات ابھر کر سامنے آ رہی ہے کہ شعر کا تخلیق عمل ایک فن ہے جس میں متعدد عناصر عمل آرا ہوتے ہیں۔ ایک عمدہ شاعر وہ ہوتا ہے جو ان کو فنی سطح پر بروئے کار لاتا ہے۔ اس طرح شعر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں رہتا، جذباتی اور جمالیاتی اظہار بھی بن جاتا ہے۔ ضیا بلوچ نے لکھا ہے کہ “جو کچھ علم اور تجربے کی صورت میں دماغ “جذب” کرچکا ہوتا ہے، اُسے زیادہ سے زیادہ فعّال بنانے کے لیے مشق اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ محنت اور مشق جس قدر زیادہ ہوگی، فعّالیت بھی اسی حساب سے بڑھے گی”۔ واقعی، علم اور تجربہ کی شکل میں جو کچھ شاعر کے ذہن میں موجود ہوتا ہے، اسے فعّال بنانے کے لیے محنت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہےجو تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے اور نئے خیالات کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ دونوں عناصر مل کر شاعر کو ایک منفرد اور اثر دار تخلیق کے قابل بناتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ تصور بھی موجود رہا ہے کہ جس طرح پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اسی طرح شاعر پر شاعری اترتی ہے، اس لئے شاعری کو کلاسیکی تنقید میں الہامی کہا جاتا تھا مگر نئی تنقید کے بعد ساختیاتی و پسِ ساختیاتی تنقید کے آنے سے پتہ چلا کہ الہام کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا؟ کلاسیکی تنقید میں یہ نظریہ ناصرف تخلیقی عمل کی عظمت کو تسلیم کرتا تھا بلکہ شاعری کو ایک مقدس اور روحانی عمل کے طور پر پیش کرتا تھا۔ نئی تنقید نے اس خیال کو چیلنج کیا۔ اس نظریے کے تحت شاعری کو محض ایک الہامی عمل سمجھنے کے بجائے اسے ایک ساختیاتی اور تکنیکی عمل کے طور پر دیکھا جانے لگا جس کے مطابق شاعری کی ساخت، زبان، اور علامتوں کے استعمال پر توجہ دی جاتی ہے۔ مراد یہ کہ شعر کی تخلیق میں شعور، تجربہ، اور ادبی مہارت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر بتاتا ہے کہ معنی مستقل نہیں ہوتے اور ہر تخلیق میں مختلف تفسیری امکانات موجود ہوتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ شعر تخلیق کرنے کا عمل زیادہ پیچیدہ اور متعدد عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اصلاً شاعری کا تجزیہ تاریخی، ثقافتی، اور سماجی سیاق و سباق میں ہوتا ہے۔ معاشرتی پس منظر میں شاعر کے تجربات اور وقت کے اثرات شعر کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک تبدیلی تھی جس نے شاعری کی تفہیم کو ایک نئی جہت دی۔ انسان کی سرشت اور علم کے حوالے سے تنویر وصفی کا یہ اقتباس بھی دیکھتے چلئے جس میں میں دو اہم نکتے پیش کئے گئے ہیں۔
“نفسی علوم میں شعور، لا شعور، تحت الشعور کی درجہ بندی قدرے نئی ہے۔ یونانی فلاسفہ نے الہیات میں جو فکری زاویے ترتیب دیئے اور مشرق کے مفکرین نے اس سلسلے میں گیان و دھیان کی مشقوں میں جو روحانی تجربات کئے، مسلمان صوفیا نے انھیں کے آمیزے سے کشف و الہام کا ایک نیا جہان ترتیب دیا۔ (شیخِ اکبر) ابنِ عربی تو نبوت عامہ کے جاری و ساری رہنے کے قائل ہیں اور اُن کے لا تعداد متبعین بھی۔ اگر اقبال بھی یہ نطریہ رکھتے ہوں تو کچھ نئی بات نہیں ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ آدم کی سرشت ہی کُل علوم سے مملو ہے کہ بر وقت تخلیق جو ‘کل اسماء’ اسے تعلیم کئے گئے وہی اس کے علم و صلاحیت کی حد ہیں اور خیالات کا وہ ازلی منبع جسے ہم لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ اس سے دگر انسان کچھ سوچ نہیں سکتا۔ سو فرشتے کے توسط سے ملی وحی اور ذاتی الہام ایک درجے کی چیز نہیں ہیں۔ جسے الہام سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ ازل سے لاشعور میں موجود افکار و خیالات کا شعور کی سطح پر ابھر آنا ہے ۔۔ اور یہ عمل حادثاتی یا اکتسابی طور پر ممکن ہے۔”
پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ شاعر کی ادبی حیثیت درحقیقت اس کی تخلیقی صلاحیت سے جُڑی ہوتی ہے جو اس کے لاشعور میں موجود علم اور تجربے سے پھوٹتی ہے۔ جب شاعر اپنے خیالات کو الفاظ میں ڈھالتا ہے تو وہ دراصل ازلی علم کی ایک جھلک ہی پیش کرتا ہے، جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس تناظر میں شعر و ادب کو ایک روحانی عمل سمجھا جاتا ہے جہاں شاعر الہام کے ذریعے لاشعور کی گہرائیوں سے جو علم نکالتا ہے، وہ اس کے تخلیقی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر “کُل اسما” ہی تخلیقی عمل کا سرچشمہ ہیں تو نبوتِ عامہ کے نظریے کے مطابق تخلیق کاروں کی ادبی و تقافتی حیثیت تو اور بھی بڑھ جاتی ہے کیوں کہ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جن کی بصیرت حیات و کائنات کے مختلف پہلوؤں کو بہ رنگِ دگر دیکھنے اور دکھانے کا پیمانہ عطا کرتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بلاشُبہ وحی براہِ راست خدا کی طرف سے آتی ہے جبکہ شعر سے جُڑی ہوئی الہامی کیفیت انسانی لاشعور کے اندر موجود افکار کی بیداری کا نتیجہ ہوتی ہے جو تخلیقی عمل کے دوران نمودار ہوتی ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب یا اتفاق کارفرما ہوتا ہے ۔ گویا دونوں عمل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک مقدس اور متعین ذریعے سے آتا ہے اور دوسرا انسانی تجربے اور شعور کی گہرائیوں سے نکلتا ہے۔ آمد و آورد اورعقل و وجدان کی مختلف جہتوں سے جُڑے ہوئے یہ دونوں نکتے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔ رحمان حفیظ نے شاعری میں آمد اور آورد یا غیب و شہود کے قضیے کو اپنے تخلیقی عمل سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے؟
“الہام کا تعلق مختلف تخلیقی فارمیٹس، مرحلۂ ریاضت، موڈ اور دیگر کئی عوامل پر ہو سکتا ہے لیکن اس خاکسار کے تجربے کی حد تک یہ کہنا کہ شعر بنے بنائے نازل ہوتے ہیں غلط ہے ماسوائے استثنئائی حالتوں کے جن میں بعض اوقات کوئی مصرع بنا بنایا سا آن وارد ہوتا ہے مگر اس کے پس منظر میں بھی کوئی ریاضت، مسلسل مطالعہ ، توارد وغیرہ ہو سکتے ہیں لیکن شعر کا الہامی ہونا میرے تجربے کا حصہ نہیں ہے۔ ہاں، خیالات و تصورات، زیادہ تر کلمات و مرکبات یا کبھی کبھار مصارع کی شکل میں، ورود ضرور کرتے ہیں اور ان کی لسانی اشکال کا انحصار بھی آپ کی اپنی لسانی صلاحیت اور مشق پر ہوتا ہے لہٰذا اس میں بھی الہامیہ آمد کا امکان کم سے کم ہے۔ شاعری کا الہامی ہونا صرف ان معنوں میں درست ہو سکتا ہے کہ دوران تخلیق شاعر احساس کی ایک اعلیٰ سطح پر کہیں کنیکٹڈ ہوتا ہے اور وہیں سے اسے وہ کیفیات نظر آنے لگتی ہیں جو عام آدمی کی آنکھ سے اوجھل ہوتی ہیں اور وہ اپنی صلاحیت اور ریاضت کی بنیاد ان کیفیات کو حیطۂ اظہار میں لے آتا ہے”۔
مطلب یہ کہ شاعر کی تخلیق کا عمل ایک مشترکہ میکانزم ہے جس میں داخلی ریاضت اوراحساسات کی بیداری کے ساتھ ساتھ بعض اوقات الوہی یا کسی بلند تر حقیقت سے جُڑنے کا عمل شامل ہوتا ہے اور اس کے پیچھے بھی شاعر کی ذہنی استعداد ہی کارفرما ہوتی ہے۔ الہام صرف اوور صرف ایک ذہنی یا روحانی کنکشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ مطلوب الرسول نے اس کنکشن کو غلط قراد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ “آمد کا یہ مطلب لینا کہ شاعر پر ایک خاص ” الہامی” کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس وقت کسی خاص جگہ جُڑا ہوتا ہے، قطعاً غلط ہے۔ آمد ایک شاعر بلکہ تخلیق کار کا وہ خاصہ ہے جو اسے دیگر غیر تخلیقی لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔” یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ تخلیقی عمل کے لیے بہت سی تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے مطالعہ، غور و فکر، اور مختلف تجربات۔۔۔ یہ سب مل کر ایک شاعر کی آمد کی کیفیت کو تشکیل دیتے ہیں۔ آمد کا یہ بھی مطلب ہے کہ شاعر اپنے خیالات میں آزاد ہے اور وہ اپنے تخلیقی عمل کو کسی خاص روایتی طریقے میں قید نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا کہ آمد ایک مہارت ہے، تخلیقی عمل کو زیادہ قابل فہم اور حقیقت پسندانہ بناتا ہے لیکن ایک چیز طبعِ موزوں بھی ہوتی ہے جس کے بارے میں محمد افتخارالحق نے لکھا ہے کہ:
“یہ عنصر بہت اہمیت رکھتا ہے جیسے دعا کی قبولیت کی کوئی خاص گھڑی ہوتی ہے، اسی طرح کئی شعرا پر وجدانی کیفیت کے مخصوص لمحات ہوتے ہیں جن میں کئی تراشیدہ مصرعوں کا نزول ہوجاتا ہے تاہم ان مصرعوں کی نوک پلک سنوار کر انھیں پیشکش کے قابل بنانے کا عمل یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ یوریکا کی طرز پر شعری آمد کے موضوع کا خالص سائنسی تجزیہ کس حد تک ممکن ہے۔”
طبع موزوں ایک ایسی صلاحیت ہے جو تخلیقی عمل میں موزونی یا ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ محض مصرعے موزوں کر لینے یا منظوم کرلینے سے کوئی شاعر نہیں بن جاتا۔ اس کے لئے خلقی صفات کا ہونا لازم ہے۔ طبعِ موزوں کو تخلیق کی فطری وجدانی خواہش یا وجدانی بیداری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یوریکا بھی “پا لینے” کی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جس کا نعرہ کسی بڑی سائنسی دریافت یا انکشاف کے وقت بلند کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جب کسی مسئلے کا اچھوتا حل یا کسی تجربے کا نیا رخ اچانک ذہن میں آتا ہے مگر شاعری میں اس کے سائنسی تجزیے کی بات کریں تو یہ ایک حد تک ہی ممکن ہے مثلاً یہ جاننے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ انسانی دماغ کے کون سے حصے اس وقت فعال ہوتے ہیں جب کوئی شاعر تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی اثرات کس طرح تخلیقی عمل میں وارد ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ نفسیات کے ذریعے تخلیقیت کیسے کام کرتی ہے۔ اسی طرح ریاضیاتی ماڈلز کا استعمال کر کے تخلیقی عمل کی پیش گوئیوں کو بھی مرتب کیا جا سکتا ہے لیکن شاعری کی روح کا سائنسی تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ اعداد و شمار انسان کے جذباتی تجارب کا بدل نہیں بن سکتے۔ شاعری کی آمد اور آورد کا عمل غیر سائنسی ہوتا ہے اور اس کی بنیاد جذبات، تجربات اور حسیات پر ہوتی ہے۔ سائنسی تجزیہ چونکہ منطقی اور تجرباتی بنیادوں پر ہوتا ہے، اس لئے شاعری کی ذاتی اور وجدانی نوعیت کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ البتہ سائنس کی آگہی سے ادب کی نظری تنقیدوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو کگنیٹو یعنی وقوفی سائنس تخلیقی عمل کو ایک ذہنی سرگرمی مانتی ہے جس میں خیالات کی تشکیل میں نیورولوجیکل پراسیس بھی شامل ہوتا ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جسے پریفرنٹل کارٹیکس کہتے ہیں، تخلیقی عمل میں زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ یہ دایاں دماغ ہے جو فنون لطیفہ کو تحریک دیتا ہے جب کہ اس کے برعکس بایاں دماغ منطقی تجزیے میں مددگار ہوتا ہے۔ فلو تھیوری کا داعیہ یہ ہے کہ تخلیق کے دوران انسان مکمل طور پر اپنے کام میں ڈوبا ہوتا ہے۔ یہ خاص قسم کی ایک استغراقی حالت ہوتی ہے جو تخلیقی پراسیس کو مہمیز کرتی ہے۔ ایوولیوشنری سائنس کے مطابق انسان کی تخلیقی صلاحیتیں جو ارتقا کے نتیجے میں ترقی پذیر ہوئی ہیں، ماحول میں پیدا ہونے والی نو بہ نو مشکلات و مانعات کا سامنا کر کے انسانوں کے لئے مفید کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نیوروبیالوجی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نیورونز کی سرگرمیاں تخلیقی سوچ میں کس طرح انقلاب پیدا کرتی ہیں اور دماغ کے ڈوپامین جیسے مختلف کیمیکلز تخلیقی عمل کو بیدار کرتے ہیں۔ مائنڈ بیالوجی کا نظریہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ذہن اور جسم کا تعامل کیسے تخلیقی صلاحیتوں کو انگیخت کرتا ہے۔ اس میں نیند، تھکن، خوراک ، ورزش اور بیماری و صحت مندی کےعوامل بھی موجود ہوتے ہیں۔ ذہنی طور پر انشراح و انقباض کی صورتیں بھی اس تعامل کا حصہ ہوتی ہیں۔ بائی کیمرل مائنڈ تھیوری کے مطابق قدیم معاشروں میں دماغ دو حصوں پر مبنی تھا۔ ایک حصہ سوچنے پر مامور تھا تو دوسرا ان غیبی آوازوں پر کان لگائے رہتا تھا جو فیصلہ سازی اور تعیّنِ اعمال میں معاون ہوتی تھیں۔ اب یہی آوازیں جدید معاشروں میں خود آگاہی اور باطنی بیداری میں بدل گئی ہیں۔ سائنس سے ادب کی طرف آئیں تو ساختیاتی نظریات کے مطابق، زبان ایک نظام کی طرح عمل پیرا ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل میں الفاظ کی ساخت، علامات کی تفہیم، اور معانی کے نیٹ ورک پر زور دیا جاتا ہے۔ شاعر ایک ثقافتی اور لسانی ڈھانچے میں کام کرتا ہے جس سے معنی پیدا ہوتے ہیں جب کہ پس ساختیاتی نظریات معنی کی عدم موجودگی اور متن کی لچک پر زور دیتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق تخلیقی عمل میں شاعر کا کردار معنی پیدا کرنے میں اہم تو ہوتا ہے مگر یہ معنی کبھی اٹل یا فکس نہیں ہوتے۔ یہاں تخلیق کے عمل کو اس کے غیر متوقع نتائج اور نئی تشریحات کے زمرے میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ اسی لئے مابعدجدیدیت تخلیقی عمل کو غیر خطی گردانتی ہے اور معنی کو توڑتی ہے۔ اردو میں امتزاجی تنقید بھی اسی روش پر چلتی ہے اور تخلیقی عمل کو معرضِ بحث میں لاتی ہے۔ شاعری میں آمدو آورد اور غیب و حضور کی ساری بحث اس تسلسل خیال سے جُڑی ہوئی ہے جو تخلیقی عمل میں مادی رکاوٹوں کے باوجود ہمہ وقت جاری ساری رہتا ہے شاہین فصیح ربانی کا یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے جو تخلیقی عمل کے اسی پہلو سے منسلک ہے:
“شعرا کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں. مفسرین یقیناً کچھ اور مراد لیتے ہیں لیکن میں بحیثیت شاعر جب اس پر غور کرتا ہوں تو میرے ذہن میں اس کی تعبیر خیال کی وادیوں میں رہنا، فکرِ سخن میں رہنا، بنتی ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شاعری مچھلی کے شکار کی طرح ہے، شکاری کنڈی ڈالے اور ڈوری کو کسی چیز سے باندھ کر کہیں اور مصروف بھی ہو جائے تو پھر بھی کنڈی سے مچھلی لگ سکتی ہے۔ میرا تجربہ بھی یہی کہ مشقِ سخن کے دوران یا بعد میں بھی لاشعوری سطح پر فکرِ سخن کا عمل جاری رہتا ہے اور اسی کے نتیجے میں کوئی خیال الفاظ کے پیکر میں یوں اچانک ڈھلتا ہے کہ اس پر کہیں غیب سے اترنے کا گمان ہوتا ہے۔”
بلاشُبہ شاعر کے خیالات، احساسات، تصورات اور تجربات ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک تخلیقی بہاؤ کو جنم دیتے ہیں۔ شاعری ایک مسلسل ذہنی عمل ہے جو مستقل جاری رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاشعوری طور پر ذہن میں سارا لوازمہ پکتا رہتا ہے، چاہے شاعر اس پر براہ راست توجہ دے رہا ہو یا نہ دے رہا ہو۔۔ شاعر کی تخلیقی توانائی، مشق، اور زندگی کے تجربات اس عمل کو مزید تعمق دیتے ہیں۔ یوں کہیے کہ شاعری کی تخلیق محض ایک موقعے پر نازل ہونے والا خیال نہیں، ایک مسلسل جستجو اور تلاش کا وہ نتیجہ ہوتا ہے جو کئی مراحل میں ڈھلتا ہے۔ یہ تسلسل ہی شاعری کو گہرائی اور معنی بخشتا ہے اور اسے ایک خاص روحانی یا الہامی کیفیت سے جوڑتا ہے۔ یہ کیفیت اقبال کے اس شعر میں بھی موجود ہے۔۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
یعنی فن کی کوئی بھی صورت چاہے وہ بصری ہو، صوتی ہو یا لفظی ایک معجزہ ہے اور یہ معجزہ تخلیقی عمل میں خونِ جگر کی نمود سے وجود میں آتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو “مصرعِ من، قطرۂ خونِ من است” میں کی گئی ہے۔ تخلیقی عمل میں الہام کے کے حوالے سے غالب کا یہ شعر بھی پیش کیا جاتا ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
غالب کا یہ کہنا کہ مضامین “غیب ” سے آتے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تخلیقی عمل میں ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب شاعر اپنے ارادے سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی ماورائی کیفیت ہوتی ہے جہاں مضامین شاعر کے ذہن میں خود بخود آتے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ غالب الہام کو فن پر فوقیت دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ غالب نے اس شعر میں تخلیقی عمل کے چار مراحل غیب، مضمون، خیال اور خامہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی قلم تک آنے کی منزل سے پہلے تین منزلیں اور بھی ہوتی ہیں۔ غیب ابتدائی مرحلہ ہے جہاں غیر مرئی یا باطنی دنیا سے خیالات کی آمد ہوتی ہے۔ یہ ایک خاص حالت ہوتی ہے جس میں پوشیدہ بصیرت شاعر کو تازہ خیالات کی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ اس میں ذہن خود بخود کھلتا ہے اور نیا مواد حاصل کرتا ہے۔ غیب سے گرفت میں آنے والے امکانات اب ایک مضمون کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس مرحلے پر شاعر انہیں منظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مضمون کی تشکیل میں شاعر کے ذاتی تجربات، مشاہدات اور جذبات کی گہرائی شامل ہوتی ہے۔ مضمون کی شکل لینے کے بعد وہ خیال میں آ جاتا ہے۔ خیال ایک مخصوص سوچ یا تصور ہوتا ہے جو شاعر کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب شاعر اپنے موضوع کی گہرائی میں اترتا ہے اور اپنے مضامین کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں علامتوں، استعاروں، اور تشبیہوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ آخر میں خیال کو الفاظ کی شکل دینے کے لیے خامہ یعنی قلم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تخلیقی عمل کا آخری مرحلہ ہے جہاں شاعر اپنے خیالات کو لکھتا ہے۔ اس مرحلے پر شاعر اپنے علم، مہارت، اور تجربے کو بروئے کار لاتا ہے تاکہ وہ اپنے اشعار کو فنکارانہ انداز میں پیش کر سکے۔ متذکرہ چار مراحل تخلیقی عمل کی ایک جامع تصویر پیش کرتے ہیں جس سے باور آتا ہے کہ شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں۔ یہ پیچیدہ اور گہرے تجربات کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ اس کے ہر مرحلے کی اپنی ایک اہمیت ہے جو مل کر تخلیق کو خوبصورت اور بامعنی بناتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر وزیرآغا کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے غالب کے متذکرہ شعر کے حوالے سے ایک عالمانہ مضمون قلمبند کیا تھا۔ انہوں نے تخلیقی عمل کے مراحل میں اس آواز کو بھی شامل کیا تھا جو لکھنے کے عمل میں قلم سے نکلتی ہے جسے غالب نے نوائے سروش کا نام دیا ہے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں:
“غالب یہ کہہ رہا ہے کہ شعر وجود میں آنے کے لئے متعدد منازل سے گزرتا ہے ان میں سے پہلی منزل ’’غیب‘‘ ہے جو ایک بے انت خالی پن کا وہ عالم ہے جو اصلاً ’’ہونے‘‘ کا منبع اور مصدر ہے دوسری منزل اس سلوٹ یا کروٹ کی ہے جو ایک نورانی لکیر کی طرح، غیب کی سفید بے داغ چادر پر نمودار ہوتی ہے۔ تیسری منزل خیال آفرینی کا وہ جہاں ہے جس میں لکیریں اور سلوٹیں جڑ کر اور رنگوں کو خود میں جذب کرکے صورتوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ غالب کے اس شعر میں اگلا مرحلہ ’’نوائے سروش‘‘ کا ہے جو صریر خامہ سے ایک مختلف شے متصور ہوتی ہے۔ مگر غالب اس بات کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک صریر خامہ اصلاً وہی نوائے سروش ہے جو مضمون کے کوندے کے ساتھ ہی لپکی تھی لیکن جو بعد ازاں بصورت ’’صریر خامہ‘‘ سنائی دی۔”
’’نوائے سروش‘‘ اور “صریر خامہ” دو مختلف تصورات ہیں لیکن غالب نے انہیں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ صریرِ خامہ دراصل قلم کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز کا اعلامیہ ہے۔ یہ ایک مادی عمل ہے جس میں تخلیق کی جسمانی شکل ظاہر ہوتی ہے۔ جب قلم کاغذ پر چلتا ہے تو اس کی آواز ایک مخصوص غنائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ نوائے سروش روحانی یا الہامی آواز کی نمائندگی کرتی ہے۔ غالب کے خیال میں، اگرچہ “صریرِ خامہ” ایک مادی تجربہ ہے لیکن اصل میں یہ اسی “نوائے سروش” کا مظہر ہے جو غیب سے آنے والے مضامین کو وجود میں لاتا ہے۔ اصلاً غالب تخلیقی تجربے کو غیب اور حاضر دونوں کا مرقع سمجھتا ہے۔ اس کا تخلیقی عمل ایک ارتقائی سفر کی طرح ہے جہاں خیالات اور مضامین پہلے غیب میں موجود ہوتے ہیں یعنی ایک غیر مرئی لطیف حالت میں۔ یہ غیب کا پہلو تخلیق کی ابتدائی سطح ہے جہاں تخلیق کے امکانات پنپتے ہیں۔ دوسری جانب جب یہ خیالات “حضور” یا “شہود” میں آتے ہیں، یعنی لکھت یا اظہار میں آتے ہیں تو وہ مادی دنیا کی ایک حقیقت بن جاتے ہیں۔ غالب تخلیقی عمل کو ایک نورانی تجربہ مانتا ہے جہاں خیالات شکل یا صورت میں ڈھلتے ہیں۔ غالب کا نظریہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کا عمل صرف فکری نہیں بلکہ ایک روحانی اور وجودی تجربہ بھی ہے جس میں غیب کی تحریک بھی شامل ہوتی ہے اور حضور کی حقیقت بھی۔ غالب کی اسی فکر سے شیر اٖفضل جعفری نے بھی استفادہ کیا تھا۔
لازمی ہے کہ رہیں پیشِ نظر غیب و حضور
دونوں عالم کی خبر ہو تو غزل ہوتی ہے
گویا مادی اور روحانی دونوں دنیاؤں کی آگہی شعرگوئی کے لئے ضروری ہوتی ہے جسے فن کا جادو کہا جاتا ہے ۔ بقول عرفان صدیقی:
غزل تو خیر ہر اہلِ سخن کا جادو ہے
مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے
غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں حضور یعنی موجود حقیقت پہلے ہی سے ظاہر ہوتی ہے جس تک ہر شاعر آسانی سے پہنچ جاتا ہے لیکن اس میں فن کا جادو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس میں غیب یعنی نئے خیالات شامل ہوتے ہیں۔ گویا غیب اور حضور کے باہمی امتزاج کا عمل میں آنا ناگزیر ہے، بالکل اسی طرح جیسے یونیفیکیشن کی تھیوری مختلف عناصر میں اتحاد کی خواہاں ہے تاکہ اس تعامل و تفاعل کو جانا جا سکے جو کائنات کے درو بست میں موجود ہے۔ تخلیقی عمل میں “غیب” اور “حضور” بنیادی طور پر دو متضاد تصورات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ “غیب” اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے جو نظر نہیں آتی یعنی تخلیقی اظہار کے وہ توانا اور نامعلوم زاویے، تجربات اور امکانات جو ابھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے۔ اس کے برعکس “حضور” اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حقیقت میں موجود ہوتی ہے یا وہ معلوم حقیقت جو شاعر کی نظر میں ہوتی ہے یعنی وہ ادبی و ثقافتی ورثہ جو اس کے تخلیقی عمل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ غیب وحضور کے قضیے کو یونیفکیشن تھیوری سے جوڑیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف عناصر، خیالات، اور تخلیقی قوتیں کیسے مل کر ایک ایسی حقیقت کو تشکیل کرتی ہیں جو جامع ہوتی ہے۔ یونیفکیشن تھیوری کا مقصد مختلف قوتوں یا عناصر کو ایک واحد سسٹم میں لانا ہے، بالکل اسی طرح جیسے تخلیقی عمل میں مختلف خیالات اور تجربات مل کر ایک مکمل تخلیق کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ غیب کی طرف دیکھنے سے نئی تخلیقات کا آغاز ہوتا ہے جبکہ موجودہ حقیقت ان تخلیقات کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس طرح تخلیق کا عمل ایک مسلسل چکر کی طرح ہوتا ہے جس کے اندر غیب اور حضور باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔