رحیم معینی کرمانشاہی، نیّر مسعود اور صبرِ خدا
از، ڈاکٹر ارسلان راٹھور
نومبر 2015ء کی بات ہے جب رحیم معینی کرمانشاہی دنیا سے گزر گئے۔
اُن دنوں انٹرنیٹ عام نہ ہوا تھا۔ میں وولنر ہاسٹل میں مقیم تھا۔ صبح کا عمل ہو گا۔ چائے کی پیالی لیے اخبار سٹینڈ پر کھڑا تھا۔ جہازی صفحے کے کنارے پر طوفانی خبر پڑھی: رحیم معینی… معروف ایرانی نغمہ نویس نوّے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ایک عہد تمام ہوا۔
رحیم معینی سے میرا تعارف نیّر مسعود کی معرفت ہوا تھا۔ نیّر مسعود نے شب خون کے شمارے میں ان کی طویل نظم، صبرِ خدا، کا ترجمہ کیا تھا۔ مجھے نظم کا سادہ اور پُرکار اسلوب بہت بھایا۔ ترجمہ شان دار تھا۔ یہ بھی ملحوظ رہا کہ جس نظم کو نیّر مسعود نے ترجمہ کیا ہے اور جو شاعر شمس الرحمٰن فاروقی کو پسند ہے، وہ معمولی نہ ہو گا۔
نیّر مسعود کی نثر اور فاروقی صاحب کا انتقاد ہمارے دو ٹھکانے تھے۔ یعنی ‘دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے۔’ جہاں یہ نام دکھائی دیتے، تحریر کو آنکھوں سے لگاتے اور مراد دل کی پاتے۔
بعد میں تاریخِ فرھنگ و ادبیات ایران، نظر سے گزری۔ تعارف مزید محکم ہوا۔ میرے کمرے میں رحیم معینی کے گیت گونجنے لگے۔
طاؤس ، آبشار ، کودکی ، سرو و صنوبر ، سفر کردہ و بازگشتہ ، راز خلقت۔۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک!
تاج رنگینی بہ سر داشت
خرمنی گل جای پر داشت
در میان سبزہ ہر سو
بی خبر از خود گذر داشت…
(اس کے سر پر رنگوں کا تاج سجا تھا
اس کے پر پھولوں سے لدے تھے
ہر سو پھیلے ہریالی میں وہ یوں تھا
جیسے خود سے بے خبر ہو کر گزر رہا ہو)
شاید میری شاعری میں فطرت کے گھنے استعاروں کا ایک سبب یہ گیت بھی ہوں!
رحیم معینی 1925ء کو کرمانشاہ (ایران) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کریم معینی معروف سیاسی شخصیت تھے جو بعد ازاں شاہی عتاب کا شکار ہوئے۔ فنونِ لطیفہ کا شوق معینی خانوادے کے خمیر میں شامل تھا۔ رحیم کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ ابتداء میں وہ نقّاشی کی طرف مائل ہوئے، لیکن بعد ازاں شعر و ادب کی دنیا کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ جوانی میں ان کی مصوری کے نمونے اساتذہ کو حیران کرتے تھے۔
صحافت کی ہما ہمی نے بھی انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ متعدد قومی اخباروں میں لکھتے رہے۔ ان کی تحریروں کے مرموز عنوانات لوگوں میں خاصے مقبول ہوئے۔
شعر کہنے کا جوہر ان کے تخیل میں برابر روشن تھا۔ کہا جاتا ہے ، نقاشی اور شعر گوئی نے مل کر انھیں “تصویری نغمے” لکھنے کی طرف مائل کیا۔
ان کے لکھے ہوئے پہلے گیت، اے وطن پرستان قسم بہ ایران، نے ان کے مستقبل کا جادہ ہم وار کر دیا۔ اگر چِہ اس وقت ایرانی موسیقی کی فضاء ملکُ الشُّعرا، عارف، رہی معیری، امیر جاہِد، سالک اصفہانی اور نواب صفا جیسے شعراء کے مصرعوں سے گونج رہی تھی۔ لیکن رحیم معینی کے تازہ دم اور ہرے بھرے اسلوب نے فارسی گیت کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کے شعروں میں تنہائی سے پھوٹنے والے خفی استعارے پوری توانائی سے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ وہ بصری شعراء (visual poets) کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔
آبشار نامی نغمے کا اختتامی شعر دیکھیے:
تا نیفتم بر نمی خیزد خروش از سینہ ام
تا نجوشم کی بہ دریا می رسانم آستیں؟
(جب تک میں نہ گر جاؤں، میرے سینے سے فریاد بلند نہیں ہوتی،
جب تک میں جوش میں نہ آؤں ، اپنی آستین دریا تک کیسے پہنچا سکتا ہوں؟)
ظاہر ہے ، میں رحیم معینی کے گیتوں کے لا شعوری کنایے سمجھنے سے قاصر ہوں۔ لیکن ایسا لگتا ہے، ان سب باریکیوں کی چوب ان کے تنہا، متذبذب اور ایک طرح سے secluded بچپن میں گڑی ہے۔ پہلوی آمریت نے ان کے دادا اور والد کی زرخیز زمینیں ضبط کر لیں تھیں۔ یہ زمینیں خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ تھیں۔ بچپن باپ دادا کی بد حالی کو دیکھتے گزرا۔ صحرا کی زمین کا بنجر قطعہ بچ رہا تھا۔ رحیم اس قطعے پر بیٹھتے اور مرغِ خیال کو آسمان کی وسعتوں میں اُڑنے دیتے۔ انھوں نے تقریباً ہر گفت گو میں ان بنجر زمینوں میں اپنے خرام و تفکر کو تخلیق کا سر چشمہ قرار دیا ہے:
“یہ مردہ اور خاموش زمین، جس میں ایک درخت کا نشان نہ تھا، میری تفریح گاہ بن گئی۔ میں پہروں تنہائی میں رہتا، اکیلا صبح و شام گزارتا، دور دراز کے منطقوں میں جاتا، کسی تودے پر بیٹھ جاتا اور افق کو گلابی نظروں سے تاکا کرتا۔
کبھی کوئی پرندہ اچانک میرے قریب سے اُڑ کر جاتا۔ وہ میری نظروں سے پوشیدہ مٹی کی تہوں میں ہوتا۔ کبھی کوئی سانس روک دینے والا خوش نما لہریا سانپ میرے قریب سے گزرتا، اور میری طرف آتا۔ لیکن اگر میں اسے نہ چھیڑتا تو وہ بھی مجھے کچھ ضرر نہ پہنچاتا۔
یہ لق و دق میدان معروف حُسن اور انسانوں سے خالی تھا۔ میرے افکار اسی عرصے میں پھوٹتے رہے۔ راتیں خاص طور پر رومان پرور تھیں۔ میں شفاف آسمان میں ستاروں کو جھلملاتے دیکھتا اور خود سے ہزاروں سوال پوچھتا… اسی ماحول نے مجھے شعر کہنا سکھایا۔”
اس نادر مشاہدے کا حامل گیت نگار کیسا وقیع ہو گا! یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
نیّر مسعود نے لکھا ہے، ایرانی فکشن جس صلابت کے ساتھ اپنے جغرافیے اور نباتیہ و حیوانیہ (flora and fauna) سے جُڑا ہے ، وہ جدید ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بات ایرانی شاعری اور گیت نگاری پر بھی صادق آتی ہے۔ رحیم معینی کے گیتوں میں چاند کی منزلیں، سورج کے سایے اور برف کی شکلیں اس سادگی و روانی سے ملتی ہیں کہ دنیا انھی چیزوں اور کیفیتوں سے عبارت نظر آتی ہے۔ شاید اس میں فرانسیسی ادب سے اثر پذیری کا بھی حصہ ہو۔ جدید ایرانی ادب پر فرانسیسی ادب کے گہرے سائے ہیں۔
من پیکر خرم و آزادم
غرق سرورم و دلشادم
اگر برف زمستان ها یک جا
بر سرم ریزد
برگ و برم نمی ریزد
(میں سراپا خوش حال اور آزاد ہوں
سرور و مستی میں ڈوبا ہوا اور مسرت سے دل شاد
اگر سردیوں کی ساری برف یک مُشت میرے سر پر گر جائے
تب بھی میرے پتّے اور پھول نہیں جھڑ سکتے)
رحیم معینی کے گیتوں سے مجھے گوگول یاد آتے ہیں۔ گوگول نے یوکرائن کے آسمان کو ایک کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ جہاں جائیں، جس سے ملیں، سانس لیتا اور نت نئی شکلوں میں ڈھلتا آسمان ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ یہی کیفیت رحیم معینی کے گیتوں کی ہے۔
گیتوں کے علاوہ رحیم معینی نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں شمع ھا بسوزید، خورشید شب اور فطرت شامل ہیں۔ خواب نوشین گیتوں کا مجموعہ ہے۔ جدید ایرانی شاعری میں مثنوی کے احیاء میں بھی معینی کا اہم حصہ ہے۔ انھوں نے رومی کی مثنوی سے متأثر ہو کر مثنوی فطرت لکھی۔ حافظ بر خیز، ان کے حافظ پر مقالات و خطبات کا مجموعہ ہے، جو حافظ شیرازی کی تفہیمِ جدید کے سلسلے کا اہم سنگِ میل ہے۔ ایرانی قوم پرستوں کی نظر میں رحیم معینی کی سب سے اہم کاوش شاہ کار ہے۔ شاہ کار اٹھارہ جلدوں پر مشتمل منظوم ایرانی تاریخ ہے۔
اسے شاہ نامۂِ جدید خیال کرنا چاہیے۔ یہ تاریخ دو لاکھ اشعار پر مشتمل ہے جو تقریباً آٹھ ہزار صفحات پر محیط ہیں۔
رحیم کو سبکِ ہندی سے خاص محبت تھی جس کا اظہار انھوں نے ہر گفت گو میں کیا ہے۔ بصری شعر کے اولین نمونے امیر خسرو کی مثنویوں میں ملتے ہیں۔ رحیم اس ہندوستانی گنجینے سے محروم نہ رہے ہوں گے۔
شاعری کے علاوہ رحیم نے دستوئیفسکی کے شہرۂِ آفاق ناول ، برادرکرامازوف کا فلمی سکرپٹ بھی لکھا۔ سکرپٹ کا عنوان “وسوسۂِ شیطان” تھا۔ اس بے مثال سکرپٹ کو محمد زرین دست نے اپنی بہترین ہدایت کاری کے ساتھ پیش کیا۔
رحیم معینی کی مجموعی کتابوں کی تعداد بیس ہے۔ پانچ سو گیت اس پر مستزاد ہیں۔ ان کے گیتوں کے انگریزی تراجم کو امریکی ڈراموں میں بھی گایا گیا ہے۔ (ان میں فوکس پروڈکشن کی مشہور سیریز How I Met Your Mother کا گانا Ecstasy بھی شامل ہے۔)
رحیم معینی کا انتقال 2015 میں ہوا۔ انھیں متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
ان کے غرفہ دار مزار کے ایک جانب دیدہ زیب خط میں “عجب صبری خدا دارد” کندہ ہے۔ یہ اُسی نظم کا ابتدائی مصرع ہے جسے نیّر مسعود نے ترجمہ کیا ہے۔ نظم نو مختصر حصوں پر مشتمل ہے، ہر حصے کا پہلا ٹکڑا عجب صبری خدا دارد، سے شروع ہوتا ہے۔ شب خون میں اصل فارسی متن اور اردو ترجمہ پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ نیّر مسعود کے ترجمے کی خوبیاں علیحدہ باب ہیں، جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں۔
سرِ دست اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے:
۱.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
تو اس پہلے ہی لمحے میں
کہ جب گم راہ انساں ظلم پر مائل نظر آتا
میں دنیا کو بہ ایں زیبائی و زشتی
ملا کر خاک میں ویرانہ کر دیتا
۲.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
اور ان بھوکوں کے ہم سایے میں عیش و نوش کی محفل جمی مجھ کو نظر آتی
وہیں خاموش ہر جام لبالب کے لبوں کا
نعرۂِ مستانہ کر دیتا!
۳.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
کسی کو دیکھتا عُریاں و لرزاں اور کسی کو پہنے ملبوسات رنگیں
زمین و آسماں کو واژگوں مستانہ کر دیتا
۴.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
نہ طاعت کا صلہ دیتا
نہ سنتا اہلِ استبداد کی فریاد استغفار و توبہ
ٹکڑے ٹکڑے دست زاہد میں نمایاں
سبحۂِ صد دانہ کر دیتا
۵.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
تو اس مجنون صحرا گرد و بے ساماں کے دل کے چین کی خاطر
ہزاروں لیلئِ ناز آفریں کو در بہ در
آوارہ و دیوانہ کر دیتا
۶.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
تو ان عشاق سرگرداں کے دل کی شمع سوزاں پر
سراپائے وجود بے وفا معشوق کو
پروانہ کر دیتا
۷.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
تو عرش کبریائی پر بہ ایں صبر خدائی
گر کسی نو دولتے کو گردش افلاک کے ماروں پہ مشق ناز کرتے دیکھ لیتا
گردشِ افلاک کو معکوس بے تابانہ کر دیتا
۸.
خدا بھی کتنا صابر ہے
جو میں اس کی جگہ ہوتا
تو خیرہ دیکھتا جب علم عالم سوز و مردم کش کی برق فتنہ سے انساں کی آنکھوں کو فقط عشق و وفا کی بات باقی چھوڑتا، باقی
تمام افکار کو افسانہ کر دیتا!
۹.
خدا بھی کتنا صابر ہے
میں کیوں اس کی جگہ بیٹھوں
یہی بہتر کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہے اور انسان کی ہر زشت کاری کا تماشا دیکھنے کی تاب رکھتا ہے
وگرنہ میں جو اس کی جا پہ ہوتا
جاہل و فرزانہ کی تفریق سے
انصاف کو رسوا نہ کر دیتا؟
خدا بھی کتنا صابر ہے! خدا بھی کتنا صابر ہے!
اصل فارسی نظم کو کئی معروف موسیقار گا چکے ہیں۔ شاید نیّر مسعود نے بھی اولاً اسے ریڈیو ہی پر سنا ہو اور ترجمہ کیا ہو۔ ادبیاتِ عالیہ کے علاوہ، نیّر مسعود فلموں اور ریڈیو کو معاصر ادب کا اہم وسیلہ جانتے تھے۔ پرانی فلموں اور گانوں کے حوالے سے ان کی معلومات حیران کر دینے والی تھیں۔
(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو انیس اشفاق مونو گراف: نیر مسعود ہمہ رنگ ہمہ دوراں)
صبرِ خدا، کے کئی مصرعوں سے جواں مرگ اردو شاعر دانیال طریر کی طویل نظم، خدا مری نظم کیوں پڑھے گا، یاد آتی ہے۔ دانیال طریر پڑھے لکھے شاعر تھے، فارسی سے بَہ خُوبی آگاہ تھے۔ قیاس ہے، یہ نظم ان کے سامنے رہی ہو گی۔
بہ ہر صورت، نظم کا ترجمہ میری دستکی پر محفوظ رہ گیا تھا جو اس تحریر کی صورت میں سامنے آ گیا۔
افسوس کہ ادبیات کے بین الاقوامی ادب کی چھ ضخیم جلدوں میں کہیں بھی رحیم معینی کا نام جگہ نہیں پا سکا۔
