
زبان، طاقت اور شناخت بہ حوالہ گوگی وا تھیونگو کا ادبی و فکری منظر نامہ
از، فضل کبیر
جب ادب نو آبادیاتی تجربے کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، تو وہ محض جمالیاتی اظہار نہیں رہتا، بَل کہ شناخت، طاقت، اور ثقافت کے درمیان جاری کش مکش کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ کینیا سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب، نقاد اور دانش ور گوگی وا تھیونگو (Ngũgĩ wa Thiong’o) کا شمار ان مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے ادب کو سامراجی ثقافتی غلبے کے خلاف مزاحمت اور افریقی تشخص کی بازیافت کا ذریعہ بنایا۔
گوگی کا فکری سفر بیسویں صدی کے اُس دور سے جڑا ہے جب افریقی اقوام نوآبادیاتی تسلط سے نجات کی جدوجہد میں مصروف تھیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم مکریرے یونی ورسٹی (یوگنڈا) اور بعد ازاں لیڈز یونی ورسٹی (برطانیہ) میں ہوئی، جہاں وہ فرانز فینن، ایڈورڈ سعید، چینوا اچیبے اور دیگر مابعد نوآبادیاتی مفکرین کے نظریات سے متأثر ہوئے۔
تاہم گوگی کی فکری انفرادیت اس میں مُضمر ہے کہ وہ مغربی تھیوریز پر انحصار نہیں کرتے، بَل کہ افریقی روایات، مقامی دانش، اور زبانی ثقافت کو اپنے بیانیے کی بنیاد بناتے ہیں۔ ان کی تحریریں سامراجی جبر اور لسانی استِعمار کے خلاف ایک مزاحمتی بیانیہ ترتیب دیتی ہیں، جو افریقی عوام کی خودی، شناخت اور شعور کو مرکز بناتی ہیں۔
گوگی کے ابتدائی ناولز، بالخصوص:
Weep Not, Child (1964)
The River Between (1965)
A Grain of Wheat (1967)
افریقی معاشرتی ڈھانچے، آزادی کی تحریک، اور استعماری تشدد کی علامتی اور جذباتی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ Weep Not Child میں آزادی کی جدوجہد کو ایک بچے کی معصوم نگاہوں سے دیکھنا، سامراجی بیانیے کی انسانی سطح پر تنقید ہے۔ A Grain of Wheat میں آزادی، غداری، قربانی اور اجتماعی شعور کے پیچیدہ رشتے ایک گہرے فکری بیانیے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
یہ ناول فرانز فینن کے تصورِ جدلیات؛ غلامی اور آزادی کے درمیانی کش مکش کی عملی تفسیر کہے جا سکتے ہیں۔ گوگی کے ہاں آزادی صرف سیاسی تبدیلی کا نام نہیں، بَل کہ لسانی اور فکری خود مختاری کا احیاء بھی ہے۔
گوگی کی فکری زندگی کا سنگِ میل ان کی شُہرۂِ آفاق کتاب “Decolonizing the Mind:The Politics of Language in African Literature 1986” ۔ یہ متن ما بعد نو آبادیاتی تنقید میں ایک بنیادی حوالہ بن چکا ہے، جس میں گوگی نے یہ استدلال پیش کیا:
“Language carries culture, and culture carries… the entire body of values by which we come to perceive ourselves and our place in the world.”
یہاں گوگی ایڈورڈ سعید کے Orientalism میں پیش کردہ علمیاتی طاقت (epistemic power) کے تصور کو لسانی قالب میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے مطابق، زبان محض ابلاغ کا وسیلہ نہیں، بَل کہ ایک تہذیبی حافظہ، تاریخی شُعُور، اور فکری خودی کا مظہر ہے۔ نو آبادیات نے مقامی زمینوں پر ہی نہیں، ذہنوں اور زبانوں پر بھی قبضہ کیا۔
اسی بنیاد پر گوگی نے 1970 کی دھائی کے بعد انگریزی زبان میں لکھنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی مادری زبان گیکویو (Gikuyu) میں لکھنا شروع کیا۔ یہ اقدام لسانی استعمار کے خلاف ایک علمی و علامتی مزاحمت تھی۔
گوگی صرف ناول نگاری تک محدود نہیں رہے، بَل کہ تِھیئٹر کو بھی عوامی بیداری کا ذریعہ بنایا، ان کا ڈراما:
I Will Marry When I Want (1977)
(Ngũgĩ wa Thiong’o and Ngũgĩ wa Mirii)
گیکویو زبان میں تحریر کیا گیا اور کینیا کے دیہی علاقوں میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے میں معاشی نا برابری، طبقاتی استحصال، اور مذہبی منافقت کو بے نقاب کیا گیا۔ یہی ڈراما گوگی کی قید کا سبب بھی بنا، جو اس حقیقت کی علامت ہے کہ “آزاد” افریقی ریاستیں اکثر نو آبادیاتی طرزِ حکومت کی توسیع شدہ شکلیں بن جاتی ہیں۔
Devil on the Cross (1980)
Wizard of the Crow (2006)میں استعماریت کے نئے چہروں، عالمی مالیاتی اداروں، قرض کی سیاست، آمریت، اور مقامی اشرافیہ پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ Wizard of the Crow ایک فنتاسی بیانیہ ہے جو طنز، علامت اور سیاسی شعور کا امتزاج ہے۔ یہاں گوگی ہمیں دکھاتے ہیں کہ استِعمار صرف ماضی کا قصہ نہیں، بَل کہ وہ آج بھی نئی شکلوں میں معاشی اور ثقافتی سطح پر قائم ہے۔
Detained: A Writer’s Prison Diary (1981)
In the House of the Interpreter (2012)
Birth of a Dream Weaver (2016)
نگوگی کے ذاتی اور ادبی سفر کو نہایت ایمان داری سے بیان کرتی ہیں۔ یہ کتب نہ صرف ان کے ذاتی تجربات کی عکّاس ہیں، بَل کہ ایک ایسے ادیب کی ذہنی تشکیل کی رُوداد بھی ہیں جو زبان کو آزادی کا اوزار اور ادب کو مزاحمت کا ہتھیار سمجھتا ہے۔
اگر چِہ گوگی وا تھیونگو کو نوبل انعام نہیں ملا، مگر ان کا علمی و ادبی اثر افریقی سرحدوں سے باہر پوری دنیا میں محسوس کیا گیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف ما بعد نوآبادیاتی مطالَعے کو زبان کے زاویے سے ایک نئی جِہت دی، بَل کہ ادب کو مزاحمت، شعور، اور فکری خود مختاری کا عملی میدان بھی بنایا۔
ان کا جملہ:
“To starve a people of their language is to starve them of their soul.”
ان کی فکری جدوجہد کا نچوڑ ہے۔
گوگی کی تحریریں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بَل کہ ایک وجودی و تہذیبی حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جو شناخت کو سنوارتی، آزادی کو معنیٰ دیتی، اور ظلم کے خلاف مزاحمت کو زندہ رکھتی ہے۔
گوگی وا تھیونگو کے ادبی و فکری منظر نامے کو سمجھنا در اصل ادب کی طاقت، زبان کی سیاست، اور شناخت کی بازیافت کو سمجھنے کے مترادف ہے۔ ان کا کام نہ صرف افریقی ادبیات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، بَل کہ عالمی فکری روایت میں بھی ایک روشن مثال ہے کہ ادب اگر شعور سے جُڑا ہو، تو وہ بغاوت، مزاحمت اور آزادی کی سب سے مؤثر صورت اختیار کر سکتا ہے۔