
خِردِ شفاعت گر
کہانی از، نعیم بیگ
”تم نہیں جانتے ہو۔ انور میرا پچھلا ہفتہ انتہائی کرب میں گزرا ہے۔“ نادیہ کا لہجہ افسردہ تھا۔
” کیوں کیا ہوا تھا؟“ تم مجھے فون کر دیتیں۔ میں آجاتا۔ میں نے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
”تم تھے کہاں؟ تمھیں اپنے مصنوعی باس سے فرصت ملے تو تب؟“ نادیہ نے طنز کیا۔
”خیر یہ تم زیادتی کر رہی ہو۔“ میں مسکرایا۔
”شیراز صاحب میرے مصنوعی باس نہیں۔ سچ مچ کے باس ہیں۔ بیس گریڈ کے افسر ہیں۔ تمھاری طرح محکمے کے نصف خدا ہیں۔ آج کل ان پر مصنوعی ذہانت نے قبضہ کر رکھا ہے۔“
میں مسلسل مسکرا رہا تھا کہ شاید چلو آئس کریم کے ساتھ ساتھ میری ہم راہی اسے کرب سے کچھ نجات دے۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جو دل کی بات صدیوں تک باہر نہیں نکالتی تھی تا وقتِ کہ اسے آپ کسی نہ کسی طرح اچھے موڈ میں نہ لے آئیں۔
نادیہ ایک عالمی سوشل میڈیا گروپ میں ہیڈ کنسلٹنٹ تھی۔ کمال کی تکنیکی مہارت اس کا ہنر تھا۔ کون سی سا ایسا انٹرنیٹ ‘سافٹ ویئر، سوشل میڈیا ایپ کا معاملہ تھا جو اس سے مخفی رہا ہو۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی ہو یا مصنوعی ذہانت، تازہ ترین تبدیلی اس کے فنگر ٹِپس پر ہوتی ہے۔ اس کے دوست اسے انٹرنیٹ ڈاکٹر کہتے ہیں۔
میں نے کہا، ”اچھا ہوا کیا تھا وہ تو بتاؤ؟ آخر کون سی قیامت تم پر آن پڑی تھی؟“
کہنے لگی تم یقین نہیں کرو گے کی کیسی کیسی بدمعاش ٹیکنالوجی سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ خیر مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں ابا یا اماں کی تہذیب سے اب کافی دور ہوں۔ لیکن یار کوئی اخلاق ہوتا ہے؟ کوئی انسانی جذبات ہوتے ہیں؟ وہ آپ یوں روند دیں تو آدمی آدھا رہ جاتا ہے۔“
میں کچھ زچ ہو رہا تھا۔ ”ارے بولو گی بھی یا یونھی پہیلیاں بُھجواتی رہو گی۔”
ہنسنے لگی۔ ”دیکھا نا جلد ہی ہتھے سے اکھڑ گئے۔ اچھا سنو۔“
”اکثر انسان اپنے فہم پر بھروسا کر کے بہت بڑے بڑے کام کر جاتا ہے اور کبھی معمولی سی فنگر ٹپ کی لرزش آپ کو بحرُ الکاہل میں بپھری لہروں کے حوالے کر دیتی ہے۔ میں تمھیں اس کی تفصیل بتاتی ہوں۔ چلو اس سارے معاملے کو ایک الگ زاویے سے دیکھتے ہیں۔
انسانی عقل و دانش سے بہرہ مند ہزاروں کتب تاریخ / فلسفہ / دیگر علوم سے بھری پڑی ہیں اور انسان ان علوم اور تجربات سے ہمیشہ افادہ حاصل کرتا رہا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے دو کہ ہر عہد کا انسانی علم و تجربہ اک نئے دور کو خوش آمدید ہی کہتا ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں دارُ الحکومت میں ایک امریکی کمپنی میں کام کرتی تھی۔ یوں تو کمپنی کے اندر ماحول مکمل طور پر امریکی ہی تھا، لیکن مقامی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ جیسے مقامیوں کو نماز کی اجازت دینا یا جُمعے والے دن طویل بریک دینا۔ یوں تو یہ کمپنی اپنے ظاہری برانڈ نیم سے صارفین کی بجلی سے متعلق ضروریات کا خیال رکھنے والی پروڈکٹ تیار کرتی تھی، جیسے ڈرائی سیل، بیٹریاں وغیرہ لیکن درِ پردہ اس کے ایک تجزیاتی شعبے نے ہم جیسے انسانی ضروریات کی نفسیات کو سمجھنے والے نفسیات دان بھی بھرتی کر رکھے تھے۔ ہمارا کام ہَمہ وقت ملک میں رُونُما ہونی والی بجلی اور میڈیا سے متعلق مقامی انسانی رویّوں کو تیزی سے بدلتی صورتِ حال سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ایسی میڈیا پروڈکٹ یا ریڈیائی ذہانت کو پروموٹ کرنے کے لئے نِت نئے طریقوں کو ایجاد کرنا ہوتا تھا۔
ہمارے شعبے کا موٹو یہ تھا کہ ”جنگ امن کے لیے ہوتی ہے۔ آزادی غلامی کی نئی قسم ہے اور لا علمی ایک طاقت ہے۔“
نوکری کے پہلے دن ممنوع شعبے میں داخل ہونے پر جب یہ موٹو جلی حروف میں لکھا ہوا، سامنے دیوار پر دیکھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ میرا واسطہ کن لوگوں سے پڑ سکتا ہے۔ میں نے یُو کے سے آئی ٹی کی خصوصی نفسیات (پری ٹرینڈ ٹرانسفَرمیشن) میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ دن گزرتے جا رہے تھے اور میں اپنی پروفیشنل زندگی میں مطمئن تھی۔
اِن دنوں امریکا میں سوشل میڈیا کے آسمان پر ایک نئی ایپ نمودار ہوئی جس کا چرچا ہماری کمپنی میں خوب ہو رہا تھا۔ امریکی اِترا رہے تھے کہ ان کے ایک نوجوان نے فیس بک جیسی ایک سوشل میڈیا ایپ ایجاد کر لی ہے جو عالمی سطح پر نظریۂِ گلوبلائزیشن کا طُرّۂِ امتیاز ہو گا۔ میرے سمیت ہمارے سٹاف نے فوراً اس ایپ کو سائن اپ کر لیا۔
یہ شاید ۲۰۰۴ کا دور تھا۔ ابتداء میں یہ صرف سوشلائز کرنے کا ایک وسیلہ تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کی دیگر افادیت بھی سامنے آنے لگی اور پوری دنیا میں ادب و علم کے بین الاقوامی، بَل کہ کراس کانٹیننٹ روابط، علوم اور ذاتی تجربات کا تبادلہ ایک نئے عہد کی شروعات کا سندیسہ تھا۔
بحثیت میڈیا سائیکو کنسلٹنٹ مجھے دیگر سوشل میڈیا ایپس کے مقابلے میں فیس بک ہمیشہ اصول و ضوابط پر مبنی ایک ایسا فورم لگا جس میں آپ فطری و سماجی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ادبی / علمی انفرادی و اجتماعی سماجی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ روابط بڑھا سکتے ہیں تعلقات نکھار سکتے ہیں؛ حتیٰ کہ اپنے سامنے والے کے حقوق و فرائض کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارا امریکی باس ہمیشہ ہماری ٹیم کے ٹاسک کو مکمل ہونے پر کہتا تھا، ”وٹ نَیکسٹ؟“
اور ہم ایک دوسرے کا مُنھ دیکھتے کہ اب اِن کو کیا کہیں؟
انھی دنوں ہماری کمپنی نے ہمیں مزید تربیت کے لیے مطالعاتی دورے پر امریکا بلایا۔ وہاں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں یہ سُن گُن ملی کہ ٹیکنالوجی نے انسانی عقل و دانش سے آگے کی دنیا دریافت کر لی ہے جسے مصنوعی ذہانت کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہمیں ایسی خبریں آسمان سے اتری لگتی تھیں۔
”نادیہ… بُرا نا ماننا، اس وقت تم یہ باتیں کرتی ہوئی ایک بوڑھی استانی لگ رہی ہو۔”
”اچھا سنو تم بوڑھے شاعر؟ نادیہ نے فوراً حساب چُکتا کر دیا۔
یہ مختصر سی تمہید یوں باندھی کہ تم جیسے اولڈ مین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آ جائے۔
مجھے لگا کہ نادیہ نے بوڑھی استانی کی بات دل پر لگا لی ہے، کہنے لگی:
سنو! پچھلے ہفتے جب میں فیس بک کے نوٹی فِکیشز کو پرَکھ رہی تھی کہ ایک نوٹی فِکیشن پر نظر اٹک گئی۔ لکھا تھا کہ کسی نے اپنے فلاں موبائل پر آپ کی فیس بک لاگ اِن کی ہے۔ کیا یہ آپ تھے؟
اس کے آگے حسبِ معمول یس یا نو کا آپشن تھا۔
اچھا یہ بتا دوں کہ میں نے اپنے فیس بک پر ہیکرز سے بچنے کے لیے ڈبل سیکورٹی آن کر رکھی ہے۔ اس نوٹی فِکیشن کی یہی وجہ تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے عارضی طور پر فیس بک میسنجر کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے بند کر رکھا ہے۔ تاہم اس دن کسی میسج کی وجہ سے اس دوبارہ لاگ اِن کرنا پڑا۔ اب جب کہ یہ نوٹی۔فِکیشن دیکھا تو اصولی طور پر مجھے یس کا آپشن دبانا چاہیے تھا، لیکن میری انگلی انجانے میں نو کے آبشن پر لگ گئی۔ بس یہی وہ مقام تھا جہاں سے مصنوعی ذہانت نے اپنا کام کر دکھایا۔ یوں سمجھیے کہ یہ مصیبت کی ابتداء تھی۔
مصنوعی ذہانت نے اپنے دنیاوی خدا ہونے کا ثبوت دے دیا۔ پَل بھر میں مجرم کو سزا دینے کی کارِروائی شروع ہو گئی جو میں خود ہی تھی۔ فوری طور پر موبائل پر میرا لاگ آن آف ہو گیا اور پہلی دوسری دوبارہ کوشش میں موبائل پر فیس بک سیشن ہی ایکسپائرڈ ہو گیا۔
میں اسے اردو میں فوت ہونا ہی کہوں گی۔ ظاہر ہے مجھے اور میرے ڈیٹا کو بچانے کے لیے سیشن ایکسپائرڈ ہونا ہی تھا۔ اب فیس بک پر جانے کے لیے میرا اوریجنل سیف براوُزر میرا لیپ ٹاپ ہی تھا۔ میں نے موبائل کو پرے کیا اور لیپ ٹاپ کھول لیا۔
لیپ ٹاپ کھولا تو حالات مزید خراب ہونے لگے۔ مَیٹا (فیس بک کی مالک کمپنی) نے فوراً مجھے ڈبل وَیری فِکیشن کے لیے میرے موبائل پر اَو ٹی پی بھجوا دیا۔ اب یہ کوڈ مجھے موبائل پر نہیں ملا۔ میں نے دوبارہ کوشش کی تو پھر ری سَینڈ کی ونڈو پاپ اَپ ہوئی۔ اب جو تیسری بار یہی عمل دُہرایا تو کہا گیا کہ آپ اپنی تینوں باریاں آزماء چکے ہیں اور یوں لاگ اِن مکمل نہیں ہوا اور سیف براؤزر بھی ہاتھ سے گیا۔
اب میں لاکھ کوشش کرتی ہوں کہ فیس بک یا مسینجر کو لاگ اِن کروں بس انکار حتمی تھا۔
ستارہ شناس کہتے ہیں نا کہ کسی وقت مشتری ناراض ہوکر برجِ زہرہ کے اور زحل کے گرد کھوم رہی ہو تو آپ ستاروں کی چال کی رُو سے برے وقت کو روک نہیں سکتے۔
شنیدن جب انسان کا ستارۂِ زحل عطارد کے دسویں کیریئر میں ہو اور پلوٹو وہیں کھڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کے نویں گھر میں براجمان ہے اور مشتری کو ساتویں گھر سے پانچویں گھر میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ مشتری کے اس ‘انتقال’ پر جو بے ہُودہ اثرات آپ کی زندگی پر آئیں گے ان کا ذمے دار پلوٹو ہوگا یا کوئی اور؟
میرا ذہن طنزاً یہ سوال مجھ سے کرنے لگا۔
تو ایسے میں یہ جواب خود بہ خود ذہن میں آیا: دنیاوی خدا یعنی مصنوعی ذہانت
پھر یکے بعد دیگرے مجھ سے حماقتوں پر حماقیں سرزد ہوتی گئیں۔ جس میں سارا عمل دخل بہ قول میرزا اس ستارہ شناس کا تھا جو اکثر اپنے علم کی تجدید کے لیے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔
تم سوچ نہیں سکتے انور کہ مجھ جیسی ماہر کو یہ مصنوعی ذہانت چیلنج دے رہی تھی۔
اگلے چار دن میرے دفتر والے سبھی دوست جو میرے ساتھ کندھا ملا کر اے آئی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے تھے اور مجھے اے آئی کے قہر و جبر سے مجھے بچا رہے تھے، خود ان کی کیا حالت ہوئی۔ وہ سب ناقابلِ بیان تھا۔
تو تم نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا؟ نادیہ!
خاک بتاتی تم نے میرے پرزے اڑا دینے تھے۔ زندگی بھر کے طعنے تو کھانے سے رہی میں۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر میرا جُگتی جملہ لبوں پر ہی رک گیا۔
خیر یہ بتاؤ پھر ہوا کیا؟
” ہونا کیا تھا۔ انسانی عقل نے دن کی روشنی دیکھی نہ رات کی سیاہی۔ تہجد سے عشاء تک پاکستان کے ناراض انٹرنیٹ سے جنگ الگ جاری تھی۔ اے آئی کے قہر و جبر کا معاملہ الگ تھا۔
بالآخر ہم تینوں دوست تھک چکے تھے انگلیاں فگار تھیں اور عقلِ انسانی انتشار و مایوسی کا شکار کہ کل رات کے کوئی تین بجے کا وقت تھا بہ قول کسے، شاید قبولیت کا وقت تھا، میں نے تنہائی کا فائدہ اٹھاتے کو اپنی سہیلی میٹا کو اپنے وٹس اپ سے ایک طویل اور دکھ بھرا پیغام بھیجا اور انجانے میں سر زد ہونے والی اپنی “خطا” کی معافی کی طلب گار ہوئی۔
حیرت یہ ہوئی کہ میٹا /اے آئی کا وٹس اپ پر جو جواب آیا۔ وہ حیران کن تھا۔
اس نے مجھے ایک ان دیکھے اچھے دوست کی طرح انٹرنیٹ کے آسمان سے اچھے وقت آنے کی نوید سنائی اور چند گھنٹے انتظار کو کہا۔ یقین کریں مجھے یوں لگا کہ میرا مجازی خدا میرے سامنے کھڑا مجھے تسلیاں دے رہا ہے۔
صبح سو کر جب اٹھی تو کسل مندی پورے جسم پر طاری تھی۔ سوچا آج دفتر سے چھٹی کر لوں۔ یہ سوچ کر جب فون اٹھایا تو دیکھا کہ میری ای میل آئی ڈی پر فیس بک سے ایک میل موصول ہوئی کہ آپ درج ذیل لنک کو کلک کرکے اپنے اوریجنل سیوڈ براوُزر پر لاگ آن ہو سکتے ہیں، جو ان کے ریکارڈ پر بھی یقیناً ہو گا۔ یہ گزشتہ صبح کوئی چھ بجے کا وقت ہوگا۔ ای میل دیکھتے ہی میرے چاروں طرف سحر کی سپیدی نظر آنی لگی۔ باد صبا کی مہک چاروں طرف خوش بُو لیے پھیل گئی۔
صبح آٹھ بجے کے قریب میں نے اپنے دوستوں سے رابطہ کیا اور انھیں یہ خوش خبری سنائی اور پھر ان کی ورچوئل ہم راہی میں لیپ ٹاپ پر لاگ اِن ہونے کے عمل کو ہم سب نے ایک ساتھ دیکھا۔
کچھ ہی دیر بعد میں موبائل پر بھی لاگ اِن ہو چکی تھی۔ فلموں کی طرح ہیروئین سینڈریلا بالآخر اپنی محبت پا لیتی ہے اور دیکھو میں تمھارے سامنے بیٹھی ہوں۔