مدفن بیج

بلال مختار

مدفن بیج

کہانی از، بلال مختار

اس سے ملاقات نہ ہی ہوتی تو بھلا تھا، اس نے بہت سے سوالوں کے جواب ادھورے چھوڑ دیے۔ مگر سب سے خوف ناک بات اس سے ملاقات اس کی زندگی کے اخیر لمحوں میں سے ایک تھا۔ ایکا ایکی میں اس کے مغز کا کچھ حصہ میری چائے کی پیالی میں آ گرا تھا۔ ہاں، سرِ بازار اسے کسی نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ میں اس کی انٹرویو نُما فلمنگ کر رہی تھی اور فائرنگ والے نے میرے کیمرے پہ بھی شاٹ لیا تھا۔ آٹو سیونگ کی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے ریکارڈنگ مجھ سے کھو گئی۔ ہاں، اپنی یاد داشت کی بناء پہ میں اس سے ملاقات کو تحریر کروں گی۔

ٹرین دونوں اطراف میں ڈول رہی تھی۔ یہ کافی عجیب طرح کا تجربہ تھا جو میری توقع سے کہیں ہٹ کے تھا۔ دونوں اطراف میں ہچکولے کھاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا کہ ابھی پٹڑی سے اترے مگر سفر جاری تھا۔ میں پوری کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح فون پہ توجہ مرکوز کر سکوں مگر بار ہا بد مست شرابی جیسے کیبن میں بیٹھ کر کسی ایک نکتے پہ ارتکاز کرنا جوئے شیر لانا جیسا معلوم ہو رہا تھا۔ چند ثانیے بعد ٹرین ایک بار پھر سے پُر سکون انداز میں پٹڑیوں پہ سرکتی گئی۔

موبائل کے اوپری کنارے میں نوٹیفیکشن کو کلک کیا تو ہالہ کا پیامچہ آیا ہوا تھا۔ اس نے اپنی تازہ تصاویر بھیجی تھیں، اک تصویر میں وہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ ساحلِ سمندر پہ سرفنگ کرتی ہوئی پانی میں گر رہی تھی۔ شاید ساتھ کی سہیلیوں میں سے کسی نے عین موقع پہ لمحہ قید کر دیا تھا۔ ایسی دیگر تصاویر میں وہ تر و تازہ اور خوش سی معلوم ہو رہی تھی۔

ابھی بغور دیکھ کر تصاویر سے مکمل لطف اندوز ہونے کی ٹھانی ہی تھی کہ ایک دفعہ پھر سے ٹرین نے چکرانے پہ مجبور کر دیا۔ بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے فون کی سکرین کو لاک کر کے پرس میں رکھنا پڑا۔ جُوں ہی نظریں اٹھائیں تو میرے بالکل سامنے اک بوڑھی خاتون کو کھڑکی کی اور سے اس پار مگن پایا۔

اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا بھرا تھا، ایسے جیسے آثارِ قدیمہ والوں نے کسی مقام پہ خوب کھدائی کی ہو اور اس مقام کی ڈرون سے فضائی تصویر لی ہو۔ آنکھوں میں سفیدی کی جگہ پیلاہٹ نے لی ہوئی تھی۔ ہونٹ سکڑے ہوئے اور کان کسی حد تک اوپر کو اٹھے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں پھوڑے اور پھنسیاں بھی تھیں۔

اولین قیاس حقائق سے کہیں دور نکلا، جسے میں غلط مقام پہ کی گئی کھدائی سے منسوب کر رہی تھی وہ کبھی پانی کی ٹھنڈی نہروں سے بہتا تھا۔ خواب کیا ہوتے ہیں، ان خوابوں کو سات سات تالوں میں ڈال کر تباہ کر دینا کیسا تجربہ ہوتا ہے، مجھے اس دن کسی حد تک ادراک ہوا۔

پر ٹھہریں میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ میں کیسے ایک رات پہنچی۔ درا صل نیورو سے واپسی کے ٹھیک اگلے ہی مہینے مجھے اک ہائی سکول میں انگریزی بطور غیر ملکی زبان پڑھانے کا موقع ملا۔ تقریباً تین سال دنیا بھر سے آئے مہاجرین و علم کے پیاسوں کو زبان دانی پہ لیکچرز اضافی سر گرمی تھی۔ بہ ہر طور، ہفتے کے پانچوں ایام بچوں کو پڑھانا اور باقی مانندہ دونوں میں لینگویج اکیڈمی میں سکھاتے رہنا دل چسپی سے عاری نہیں تھا۔ خیر مسلسل تین سال تک ایک ہی رو میں اک ہی رنگ کی زندگی گزارے جانا عجیب سے عجیب تر معلوم ہونے لگا۔

کبھی کبھار ایسے معلوم ہوتا کہ میں کسی روبوٹ کی صورت میں زندگی گزار رہی ہوں۔ حقیقی دل چسپی، نیا پن، تازہ ہوائیں، نئی روایتیں، خواب ناک قَلعے، سمندروں سے فاصلے اور بہت کچھ انوکھا زندگی سے دور دور معلوم ہوتا تھا۔ بل کہ اکثر ایسی روز مرہ کی زندگی سے باس سی محسوس ہوتی۔ مارگریٹ سے ملاقات تک یہ ’مردگی سی ایسے ہی ہنکارے بھرتی رہی۔ مارگریٹ اور مجھ میں ایک بات یکساں تھی، دونوں گھومنے پھرنے کے شیدائی تھے مگر حالات و واقعات میں ایسے جھکڑے تھے کے تازہ ہوا کا خیال کرنا بھی سوچوں کو مزید کائی دار کرنے سے نہ روک پاتا۔ ایسے ہی اک دن باتوں باتوں میں اس نے ایک جاب کا تذکرہ چھیڑا۔

’’ہاں! باقی سب تو ٹھیک ہے پر یہ کانٹریکٹ کی بات نہیں ہضم ہوتی،‘‘ میں نے کافی کا کپ ایک سِپ لیتے ہوئے پوچھا۔

’’دیکھو! تمھاری جاب مذکورہ کمپنی میں مستقل بنیادوں پر رہے گی، جب کہ تمھیں مختلف ریجن کے ۶ سے ۸ ماہ کے کانٹریکٹ دیے جائیں گے۔ جیسے ہی ایک کانٹریکٹ مکمل کرو گی تو دوسرا کانٹریکٹ تمھارا منتظر ہو گا۔‘‘ مارگریٹ نے اپنی زلفوں کو مزید کانوں کی طرف اندر کو سَرکاتے ہوئے کہا۔

’’مطلب جاب کی جاب اور سفر کا سفر بھی رہے گا؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔

’’ہاں! بس تم ہامی بھرو تو دونوں جاب کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ اور ہاں ایک بات اور…‘‘

میں نے استفسار کیا تو پتا چلا کہ مزید چھ مہینے تک مذکورہ کمپنی سے بول چال اور لکھنے میں باقاعدہ ٹریننگ لینی ہو گی۔ خیر جیسے تیسے انٹرویو اور ٹریننگ بھی مکمل کر دی۔ سند یافتہ انگریزی زبان کی ممتحن بن جانے کے دوسرے ہی ہفتے مجھے گھانا کا کانٹریکٹ ملا۔ کانٹریکٹ کی مدت چھبیس ہفتے تھی۔ اک مہینے کا وقفہ میسر آتے ہی میں نے مذکورہ ہائی سکول سے مستعفیٰ ہونے کے علاوہ امیگریشن کی جملہ ضروریات پوری کر دیں۔

ابھی میں ٹیما میں دو دن کے امتحانات لینے کے بعد واپس دار الحکومت اک را بذریعہ ٹرین جھولے کھاتا سفر طے کر رہی تھی۔ وہ بوڑھی عورت اب بھی دنیا و ما فیھا سے بے خبر روزن کے اس پار دیکھ رہی تھی، خالی خالی آنکھیں جانے کیا تلاش رہی تھیں۔ اچانک ہماری نظریں ملیں تو میں نے مسکراہٹ دی مگر وہ بالکل بھی نہیں مسکرائی۔ ہاں! بغور دیکھا تو اس کے رخساروں کے کناروں پہ ہلکا ہلکا پھیلاؤ تھا۔ غیر محسوس حد تک مسکان.. خدا کی پناہ۔

’’بچوں سے ملنے جا رہی ہیں کیا؟‘‘ میں نے وقت گزاری کے واسطے پوچھا۔

’’بچے… میرے بچے… ؟‘‘ اس نے ہاتھوں سے اپنی طرف اشارتاً کہا تو میں نے سر ہلایا۔ وہ مسکرا دی اور گویا ہوئی۔

’’میرے کوئی بچے نہیں ہیں۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔‘‘

’’اوہ! سوری! جان کر افسوس ہوا،‘‘ میں نے ہم دردی کے واسطے اضافہ کیا۔’’ تو آپ اپنے شوہر یا کسی کام سے جا رہی ہیں؟‘‘

سوال سننے تک تو مجھے دیکھا مگر جواب دینے کو ہونٹ ہلتے ہی چہرے کا رخ مجھے سے ہٹ کر کھڑکی سے اس پار کر دیا۔

’’میری کبھی شادی ہی نہیں ہوئی۔ ہاں! چاولوں کے گودام پہ خشک کرنے جانا ہے، میں وہاں کام کرتی ہوں۔‘‘

میں اسے زیادہ کھرچنا نہیں چاہتی تھی، یہ اندیشہ کہ اگر میں نے پوچھا تو کسی زخم کی طرح خون بہہ جائے گا۔ اسے کچھ وقت دیا کہ مجھ سے سوال کرے۔ ایسا ہی ہوا۔ میں نے قربت بڑھانے کے لیے اپنی اضافی اور دل چسپ معلومات کو شامل کیا۔

پھر کچھ دیر گفتگو کے بعد خاموشی نے کیبن میں جگہ لی۔

’’اچھا تمھارے ماں باپ بہن بھائی…،‘‘ میں ابھی اپنا جملہ مکمل کرنے ہی پائی تھی کہ اس نے ایک بار پھر سے میری آنکھوں میں دیکھا۔ مجھ سے دیکھا نہیں گیا، لیکن نظریں ہٹانا ایک دوسرے پہ اعتماد کے موقع کو گنوانے کے مترادف تھا۔ شکر ہے کہ ٹرین کے ہچکولے نے پھر سے ہماری ویو لینتھ اور بنے زاویوں کو چھیڑا۔

’’ہمارے ماں باپ نہیں ہوتا … اور نہ ہی اولادیں …  ہم خدا کی ملکیت سمجھی جاتی ہیں۔‘‘

میرا پہلا قیاس یہ تھا کہ شاید جس طرح عیسائیت میں نن کا تصور ہوتا ہے تو ان کے ہاں بھی ایسا ہی ہو گا مگر آئندہ کے واقعات سے مختلف سوچ بر آمد ہوئی۔ اسی دوران اس نے مجھ سے معذرت کی اور اٹیچڈ باتھ روم کی جانب چل دی۔ پانچ سات منٹ بعد باہر آئی تو سیٹ سے اپنا سامان لیا اور دوسرے کیبن میں جا کر بیٹھ گئی۔ مجھے اس کی اس موو نے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ کچھ تھا جس کی پردہ داری تھی اور وہ قفل ڈالے مجھ سے احتراز کر رہی تھی۔ خیر، میں نے غیر محسوس انداز میں جھانکا تو وہ دوسرے کیبن میں بھی کھڑکی سے باہر کچھ تلاش رہی تھی۔

تقریباً آدھ گھنٹے کی ورزش نما مسافت کے بعد ہم ایک را پہنچے۔ یہ گھانا کا مرکز ہے اور لگ بھگ 28 لاکھ نفوس آبادی پر مشتمل ہے۔ تمام رستے میں، میں اپنے سے اندازے اور خیالات بُنتی رہی کہ بوڑھی کے آخری جملہ کا سیاق و سبا ق کیا ہو سکتا ہے۔

خوش قسمتی سے ٹرین سے اترتے ہی میرے سامنے وہی بوڑھی کھڑی تھی۔ ایسے جیسے میرا انتظار کر رہی ہو۔ میں نے غیر متوقع حالات کو بھناپتے ہی مسکراہٹ سے کام لیا۔ اس نے اتنا ہی کہا:

’’تم جاننا چاہتی ہو… ؟‘‘ اور میں نے جواباً صرف سر ہلایا۔

’’مگر ایک شرط پہ کہ تم میری شناخت کو واضح نہیں کرو گی۔ مجھے پہلے سے خطرہ ہے اور اب میں باقیوں کو جاں بلب عذاب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پاس کم وقت ہے سو اک اک پیالی چائے کی پی کر وہ اپنے کام کو نکل پڑے گی۔ اس دوران جو کچھ ہو سکا وہ مجھے شیئر کرے گی۔

کچھ دیر بعد ہم ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اس نے آغاز کرتے ہوئے کہا:

’’میرے ماں باپ ہیں مگر میں انہیں اپنا والدین نہیں مانتی۔ میرا شوہر ہے مگر میں اسے اپنا شوہر نہیں کہہ سکتی۔ ہمیں خدا کی زوجہ کہا جاتا ہے مگر میں اس سے انکاری ہوں۔ ہاں! کسی کو اپنا مانتی ہوں تو وہ میرا دس سالہ بیٹا ہے؛ جس کی وجہ سے مجھے زندگی جینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔ کیا تم سمجھ سکتی ہو کہ ہماری زندگیوں میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب ہم سرد پڑ جاتے ہیں؛ جس مقام و منزل پہ ہوں، وہیں پہ رکنا چاہتے ہیں؟ بس اک طرح کا فل سٹاپ۔‘‘

’’فل سٹاپ! مگر کیوں؟ ہمارے ہاں عموماً کہا جاتا ہے کہ رکا پانی بھی بد بو دار اور صحت کے لیے خطر ناک ہے۔ تو زندگی کا جمود۔‘‘ در اصل میں جاننا چاہتی تھی کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ رک جانا بھی پسند کیا جاتا ہے۔ مجھے کسی حد تک سڈنی میں گزرے سالوں کا خیال آیا کہ جہاں میں بھی ایک سائیکل میں جیے جا رہی تھی۔ نہ ہی ترقی یا ڈی موشن کی فکر… بس اک دائرہ نما سا، نہ مٹنے والا سفر۔

’’میں شروع سے بتلاتی ہوں۔ میری کہانی مجھ سے اُوپری نسل سے جڑی ہے۔ وہی محبت بھری کہانی اور سماج کا وِلن جیسا کردار؛ سو میرے ماں باپ نے بھاگ کر شادی کر لی۔ جیسے تیسے وقت گزرا۔ میری پیدائش سے کچھ مہینے پہلے میرا باپ اک چوری کرتا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ معمولی سزا بھگتنے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔ اک دن مقامی پادری کے ہاں اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا تو پادری نے اسے ڈرانا شروع کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم اور تمھاری فیملی پہ کوئی عذاب اترنے کو ہے۔ تمھیں اس سے پہلے کوئی بلیدان یا ازالہ کرنا ہو گا، وگر نہ خدا کی طرف سے تم پہ پھٹکار ہو گی۔ پادریوں کی حیثیت یہاں پر کسی منسٹر سے کم نہیں ہوتی، وہ اپنے علاقہ کے با اثر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘

میں نے اسے روکتے ہوئے کہا:

’’تو کیا تمہارا باپ چور… یا…ں کرتا تھا یا؟‘‘

’’ارے نہیں نہیں۔ تم بتاؤ، ہم میں سے کتنے انسان پارسا ہیں، گناہوں اور غلطیوں سے پاک؟‘‘

’’ہاں کچھ کچھ… ‘‘ میں نرم لہجے میں کچی سے دلیل گھڑنے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے کاٹا۔

’’میں آج تک کسی بھی پارسا انسان سے نہیں ملی۔ ہم میں سے ہر کوئی کہیں نہ کہیں غلطیوں سے لتھڑا ہوتا ہے۔ بس میرے باپ نے بھی اپنا چھوٹے موٹے گناہوں کا اعتراف کرنا تھا کہ پادری نے ڈرانے کا ہر ممکن تیر آزما لیا۔ خیر باپ گھر آیا، حاملہ بیوی کو بتایا کہ جس کے پیٹ میں میں پل رہی تھی۔ دونوں اس رات متفکر رہے اور اگلے دن اسی پادری کے پاس پھر سے ملنے گئے۔ اب کی بار پادری نے ماں کے بڑھے ہوئے پیٹ کو دیکھ لیا۔‘‘

اس نے چائے کی پیالی ایک کنارے سے انگلی کے زور سے تھوڑا سا کھسکائی اور پھر جیسے کہیں گم ہو گی ہو۔ پھر کچھ لمحوں بعد جاگی جاگی سی کہنے لگی؛ یہ بالکل ایسے تھا کہ جیسے ماضی کے پیٹ میں ڈوب کر وہ بہت کچھ سننا چاہ رہی تھی۔ مجھے ایسے لگا کہ ماں کے پیٹ سے سنی آوازوں کو شاید دُہرا رہی ہو۔ ان کے معنی ڈھونڈ رہی ہو۔

’’اس دن ماں نے بھی اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، والدین میں یکساں گناہ اپنے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف بھاگ کر شادی کرنا تھا۔ اب اس پادری کا کہنا تھا کہ چُوں کہ میرے والدین نے بہت سے چھوٹے موٹے گناہ کیے ہیں، اسی سبب ہم پہ معاشی بحران رہے ہیں اور میرا باپ چوری چکاریوں میں گھستا گیا ہے۔‘‘

’’تو اس نے یقیناً کوئی حل دیا ہو گا؟‘‘ میں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے اور دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا:

’’ہاں! اس کا کہنا تھا کہ اب ان گناہوں کا ازالہ زچہ کے پیٹ میں پلتے بچہ سے ہو سکتا ہے۔ انہیں میری قربانی سے ہی کفارہ کا موقع ملے گا۔ اس بچے کو خدا کے حوالے کیا جائے گا اور وہ اس بچے کو اپنی بیوی کے طور پہ لے گا۔ زمینی طور پہ خدا کی نمائندگی خود پادری کرے گا اور وہ بچہ زندگی بھر کسی سے بھی شادی نہیں کر سکے گا۔‘‘

’’لیکن بچہ اگر بیٹا ہوا تو بیوی اور کفارہ کی شکل تو بدل نہیں جائے گی؟ اسے کیا پتا کے پیٹ میں بیٹی ہی ہو گی؟‘‘ میرے سوال پہ وہ کچھ ہچکچائی اور کہنے لگی۔

’’ اس کا تو مجھے بھی نہیں پتا مگر ان پادریوں کو پتا چل جاتا ہے۔ اور اگر بیٹا ہو تو عبادت سے کفارہ کیا جاتا ہے۔‘‘ مجھے اس بوڑھی کی بے ڈھنگی سی دلیل سے کچھ اطمینان نہ ہوا مگر میں ایک نیا موضوع جنم نہیں دینا چاہتی تھی۔

میں نے پیالی کو ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے کہا: ’’تو پھر تم پیدا ہوئی اور خدا کی بیوی قرار دی گئی؟‘‘

’’ہاں! مجھے کلیسا میں ہی پالا گیا۔ مگر یہ کلیسا ہمارے گاؤں سے کوسوں دور جنوب کی جانب تھا۔ جہاں میں بڑی ہوئی، وہاں میں نے نو خیز لڑکیوں کو ڈربوں کی صورت رہتے دیکھا۔ ایسے جیسے بہت سے چوزوں کو چھوٹے چھوٹے کمروں میں رکھا جاتا ہو۔ پھر میرے ہم عمر بچوں کی وافر تعداد۔ میں جب سترہ سال کی ہو گئی تو مجھے پادری کی رہاش گاہ میں لے جایا گیا اور با قاعدہ رسم سے خالق کی زوجہ بنوایا گیا۔‘‘

’’مطلب! اس پادری نے خدا کا نام استعمال کر کے تمھیں اور بہت سی لڑکیوں کو اپنے حَرم میں جمع کیا اور اپنی خواہشات کی تکمیل کرتا رہا؟‘‘

اس نے چُسکی ذرا زور سے لی، ایسے جیسے میری آواز کا والیم اپنے شور میں ضم کرنا چاہ رہی ہو اور کہنے لگی:

’’بات یہیں تک نہیں۔ در اصل اسے مزدوروں کی پلاٹون مل گئی۔ جنہیں کچھ نہیں دینا بَل کہ صرف اور صرف حاصل ہی کرتے رہنا ہے۔ کھانا پکانا، چاول کے کھیتوں کو دیکھنا، بہت سے پانی کا انتظام کرنا اور پہاڑی کی دوسری جانب اک چشمہ سے پانی بھر بھر کر لانا۔‘‘

’’تم پھر یہاں تک کیسے پہنچی؟‘‘

اس کی آنکھوں میں روشنی سی آ گئی۔ وہ ابھی کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اس کے دماغ میں سے سوراخ سا ہوا اور بھیجہ میری پیالی میں آن گرا۔ وہ روشن آنکھوں سے بہت سے سوال چھوڑے بہت سے جوابوں کو تلاشتی اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔

    ***

نوٹ از لکھاری: مدفن بیج، گزشتہ شائع شدہ افسانہ روشنی کا ہالہ سے کسی حد تک پیوستہ ہے اور افسانوں کی نئی شکل اور سیریز کی کوشش ہو گا۔ جس میں مرکزی کردار اک افسانہ سے دوسرے افسانہ میں حرکت کرے گا۔ لیکن ہر افسانہ انفرادی طور پہ اپنی جدا حیثیت بھی رکھے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس تکنیک پہ کبھی اور کہیں تجربہ کیا گیا ہے، پر میرا قوی ارادہ افسانہ کو اک نئی جہت سے رُو شناس کروانے کا بھی ہے۔