جانے پہچانے اخلاق احمد کے افسانے
از، محمد امین الدین
ابھی چند لمحے قبل ہی میں نے ایک ایسی کتاب کے آخری صفحے کی قرأت مکمل کی ہے جس کے افسانہ نگار خود کہتے ہیں کہ وہ ایسی سیدھی سادی کہانی لکھتے ہیں کہ جس کا ابلاغ ممکن ہو۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کے پچاس سال کہانیوں کو ڈھونڈتے گزر گئے ہیں۔ وہ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے کہانیوں ہی کے خواب دیکھتے ہیں۔
ذرا رکیے! میں کتاب کو دوبارہ پلٹتا ہوں، اس بے نمبر صفحے کی طرف جو دوسرے ورق کے دوسری س٘مت ہے جہاں ایک پابند ادیب نے آزاد نظم کی صورت گری کی ہے۔ ایک سطر میں کہتے ہیں کہ کہانیوں کے درمیاں کہانیوں کی جستجو۔ تب میری نگاہ افسانہ ایک کہانی کا بوجھ پر جا ٹھہرتی ہے جہاں وہ کہانی کے اندر ایک اور کہانی سنا رہے ہیں۔ اور اس عمل کے دوران وہ کہانی کی بُنت کے ہزار طریقے بھی سمجھاتے جا رہے ہیں۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیا اخذ کرتے ہیں۔ محض بُنت کاری یا تہہ در تہہ افسانہ سازی کے مُروّجہ اور غیر مُروّجہ لوازمات سے پردہ اُٹھانے کی کوشش۔
پھر اخلاق احمد اپنی نظم کی ایک اور سطر میں کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی ملے، نظر کسی پہ جا پڑے۔ ارے کہانی کار اوّل تا آخر یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔ ان کے افسانے پڑھتے جائیے آپ کو بار بار یہ احساس ہو گا کہ کسی بہت گہرے سچ اور حقیقی واقعے سے کرداروں کی فکری، سماجی اور سیاسی کش مکش کو اپنے اپنے ادبی سبھاؤ کے ساتھ ایک لڑی میں پِروتے چلے جاتے ہیں۔ اور جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب اس لڑی کو اس سے آگے نہیں جانا چاہیے تو وہ وہاں گِرہ لگا دیتے ہیں۔
ان کے افسانے کے ایک کردار عُرفی چچا کی طرح میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اخلاق احمد کو جملہ لکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے، اور یہی ان کے افسانوں کی طاقت ہے جو کہ قاری کو گہرائی تک دیکھنے کی وسعت عطاء کر دیتی ہے۔
ہم یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اخلاق احمد دنیا کے بہت سے خِطّوں، ان کی ثقافت، زبان اور رسم و رواج کو قریب سے دیکھ چکے ہیں، مگر آپ ان تمام افسانوں کو پڑھتے جائیے، آپ کو لگے گا کہ جسے یہ سب سے زیادہ جانتے ہیں وہ کراچی ہے۔ ان کا ہر افسانہ ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ کراچی کی رَگوں میں دوڑتے لہو کی رفتار، اس کے رنگ اور اس میں پوشیدہ حرارت کو خوب سمجھتے ہیں اور ملمّع کاری کے سارے چھلکے اُتار کر زخمی روح کو ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں مگر نَشتر نہیں چلاتے، بَل کہ پھاہا رکھتے ہیں۔
اخلاق احمد کا اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگا کہ یہ خاموش اور گہرا صحافی، افسانہ نگار بھی ہے، تو پھر برسوں کی ریاضت اور مشقت کہانیوں کا روپ کیسے نا دھارتی۔ یہ تو ہونا تھا۔ کسی کی زندگی میں اتنا کچھ ہو اور کہانی لکھنے کا فن بھی آتا ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ قاری کو غیر حقیقی دنیا میں لے جا کر تنہا چھوڑ دےکہ چاہے اب تصویر کو اُلٹا لٹکاؤ یا سیدھا، بس مطلب خود ہی نکالو۔ ان کے طویل افسانے ایک دو تین چار میں بَہ ظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ ہمیں فینٹَیسی کی دنیا میں لے گئے ہیں جو غیر حقیقی ہے مگر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کبھی کبھی ہندسے ہمیں حیرت انگیز دنیا میں لے جاتے ہیں۔ یوں بھی ہمیں سائنس یہ بتاتی ہے کہ پوری کائنات کا دار و مدار اعداد پر ہی ہے۔
اخلاق احمد اپنی نظم میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ نا جانے کس کو ڈھونڈتے ہیں، کُو بہ کُو، یہ چار سُو۔ اور پھر یہ کہتے ہوئے وہ پہاڑوں کی سر زمین میں ایک ایسے تنہا اور بلند قامت سردار کو ڈھونڈنے اور کھوجنے نکل پڑتے ہیں جس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا، کوئی اسے جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتا، مگر کبھی کبھی اس کا دل چاہتا ہے کہ کسی سے اپنے دل کی بات کہی جائے، کوئی سوال کا نیزہ چبھوئے اور حلق سے سچ خون کی طرح بہہ نکلے۔
میرا جی چاہا کہ ابھی اخلاق صاحب کو فون کروں اور پوچھوں کہ بھائی یہ سب کیسے لکھ لیتے ہو۔ ہر سطر کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے سے قطار در قطار چہرے گزر رہے تھے، کچھ حیات بَہ سر اور بہت سے خاک بَہ سر کردار جو بھرے میلے میں تنہا ہوتے چلے گئے۔
یہاں ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اخلاق احمد کے ہر افسانے میں بیانیے کی سطح پر اور اس سے بھی زیادہ گہرائی میں ایک لہر رواں دواں دکھائی دیتی ہےجسے تنہائی کہتے ہیں۔ وہ اپنے ہر افسانے میں تنہائی کو مختلف مہین پیراہن سے آراستہ کرکے دکھ کی تند و تیز ہواؤں میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوں جوں دکھ کی سرسراہٹ پُر شور ہوتی جاتی ہے، تنہائی کے لیے مشکل ہوتا جاتا ہے کہ وہ خود کو مہین پردوں میں چھپا سکے اور پھر ایک کے بعد ایک تنہا، اُداس اور بے یارو مددگار کردار ہمارے سامنے آتا چلا جاتا ہے۔
یہاں اخلاق احمد مَنٹو کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ درزی نہیں کہ اپنے کرداروں کو کپڑے پہنائیں، البتہ اخلاق احمد کہانی کا دریچہ بند کرتے ہوئے قاری سے کہتے ہیں کہ بس اپنی آنکھیں بند کر لو اور کہانی کے بطون میں اُتر جاؤ۔
اب سب سے آخر میں ایک اہم بات۔ اگر کسی قاری کو یہ لگتا ہے کہ یہ محض افسانے ہیں تو وہ اس کتاب کے عنوان پر غور کرلیں۔
جانے پہچانے…
جی ہاں،
جانے پہچانے،
اخلاق احمد
کے افسانے۔