کنڈیرا کا مذاق
از، یاسرچٹھہ
سنجیدہ فکشن لکھنے والے اپنے دوستوں سے درخواست ہے کہ میلان کنڈیرا کا پہلا ناول، The Joke ضرور دیکھیے۔ خاص طور Ludvik اور Jrasolav کرداروں کے لیے مختص الگ الگ ابواب میں کس طرح جملے کی ساخت، طوالت، پیچیدگی اور اندرونی موسیقیت بدلتی ہے۔
لُڈوِک ایک disillusioned سیاسی فلسفیانہ مزاج کا حامل کردار ہے، جب کہ Jrasolav ایک folklorist ہے۔ لڈوک کے لیے طویل اور پیچیدہ جملے لکھنے اور رموزِ اوقاف، یعنی punctuation marks تک پر کنڈیرا اپنے ناول کے بَہ صورتِ دیگر بڑے پڑھے لکھے اور سنجیدہ ترجمہ کاروں سے نا راض ہوئے۔
جراوسلیف folklorist ہونے کے ناتے اپنے لیے مخصوص اول باب سے ہی جملے چھ چھ سات لفظوں کے بولتے ہیں، اور ان میں بھی وہ لطف ہے کہ کتنے ایک شاعر ان کے ادا کردہ جملوں کے آگے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ شاید اسی پہلو کا حوالہ دیتے سمے کنڈیرا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مادام بواری کے بعد نثر کی صنف نے شاعری سے کہا تھا کہ اب ہمیں ہلکا نا لیجیو۔ مزید تجزیاتی تفصیل یہاں بیان نہیں کروں گا۔ کبھی کسی نشست و مجلس میں ہو گی۔
ایک بات اور مغرب میں بھی موجودہ زیادہ تر فکشن میں یہ عارضہ، یا پھر ناشروں کی تجارتی اسلوبی commercially guided stylistic editing سینسر شپ کا شاخسانہ ہے کہ مقتبس و مکالمہ جاتی متن بھی اکثر و بیش تر ارد گرد کے متن کے syntax میں ہی ہوتا ہے۔ شاید یہ زیادہ لوگوں کو کتاب بیچنے اور ان قارئین کی نازک مزاجی کو کار و باری انداز سے با سہولت بنانے اور مزید تنگ نا کرنے کا کوئی جتن ہو، مجھے تفصیل کی لگن ضرور ہو گی، فی وقت یہ وجہ مطالعے یا insight میں نہیں آ سکی۔ کسی دوست کی پاس توجیہ ہو تو واہ بھلے۔
بَہ ہر کیف، کبھی میں خود اپنے آپ کو فکشن لکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر سکا تو مقتبس مکالمے کے اندر، لسانیات میں جنھیں weak forms کہتے ہیں، ان کا استعمال کرنا چاہوں گا۔ ذاتی طور پر اس بابت میں ذہنی لحاظ سے صاف اور واضح ہوں کہ عصری realism کی جو بھی صورت ہے، اس میں کم از کم لسانی استعمال و بَرت کی realism ضرور بَہ رُوئے کار لانی، اور اگر کہیں میرے مشاہدے اور فکر سے باہر موجود ہے تو، اسے برقرار رہنا چاہیے۔
ایسا اس صورتِ حال میں عرض کیا ہے کہ narrative کی linear بیانی و گفتاری تو عصری اسلوبی ذوق کو کچھ خاص خوش نہیں آتی، ما سوائے قبولیت پسند لکھاریوں، یعنی populist writers کے، اور ان کے قارئین کے۔ (راقم کا یہ بیان بیش تر اردو قارئین، اور لکھاریوں کے لیے shock and awe effect کا حامل ہو سکتا ہے، معذرت۔ مقصد دل دُکھانا نہیں، لیکن اگر خواہ مخواہ دکھ جائے تے تسی مرضی آلے او۔)
البتہ، ایک بات ہی بار بار عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں اور وہ کرتا ہی رہتا ہوں، کسی قسم کی fake کسرِ نفسی مجھے کہنے سے نہیں روکتی کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے قاری کو پاپ کارن پر نہیں لگائے رکھنا چاہیے؛ خواہ مخواہ نہ اپنا، اور نہ ہی کسی کا وقت اور ذوق بَلّی چڑھانا چاہیے۔ ورنہ سٹار پلس اور ہم ٹی وی کے ڈرامے اور ان جیسےافسانے ناول تو ہمارے گھر میں، لاؤنج میں کوئی نا کوئی رکھ ہی دیتا ہے۔