سود و زیاں کے درمیاں؛ زندگی کی جد و جہد میں شامل لوگوں کی کہانی 

سود و زیاں کے درمیاں ناول
Photo courtesy, the writer of the article

زندگی کی جد و جہد میں شامل لوگوں کی کہانی 

تبصرۂِ کتاب از، غلام حسین ساجد

پری سے زینہ تک خالد فتح محمد وطنِ عزیز کی سیاسی اور سماجی کَروَٹوں کو موضوع بنا رہے تھے۔ جس میں کہیں آپ بیتی کا تڑکا اس طور لگا تھا کہ میری عمر کے قارئین اس آئینے میں اپنے کچلے ہوئے خوابوں کی جھلک دیکھتے تھے۔ اس پر ان کا مُنھ زور چشمے کی طرح ابلتا اور باہر کی مٹی پر پھیلتا چلا جاتا بیانیہ کہ جو موجود کی تمام تر کیفیت اور تفصیل کو سمیٹ لے۔ حقیقت اور ما وَرائے حقیقت منظر نامے کو ایک مانوس علاقے کی شکل دے دیتا تھا کہ جس سے ہم آہنگ ہو کر ہم کھوئی ہوئی راحتوں کی باز یافت کے مرحلے سے  گزرنے لگتے اور ہر گزرتا ہوا لمحہ جگنو کی طرح دمک کر کسی خاص کیفیت کو زندہ کر دیتا تھا۔

شاید اسی لیے میں نے خالد فتح محمد کا لکھا ہر ناول پڑھا اور اپنی زندگی کے کھوئی ہوئی نعمتوں کی صرف باز یافت ہی نہیں کی انھیں بے محابا لطافت کے ساتھ دوبارہ جیا بھی۔

یہ سب ہے، مگر کیا ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے ہی جادو کا اسیر رہے۔ موضوع، اُسلُوب اور فکری منہاج سے اختلاف کرنا اس کا حق بھی ہے اور تخلیقی ہونے کی دلیل بھی۔

خالد فتح محمد نے شہرِِ مدفون اور اب سود و زیاں کے درمیاں میں اپنے تخلیقی اُسلُوب سے انحراف کیا ہے۔ سود و زیاں کے درمیاں ہمارے معاشرے کی کَتھا ضرور بیان کرتا ہے مگر یہ کسی خاص علاقے، زمانے یا مانوس تجربے سے اس طرح پیوست نہیں کہ قاری کی اس بیانیے سے ذاتی نسبت پیدا ہو، اور وہ اسے اپنے حوالے سے آگے بڑھتا دیکھنے کا متمنی ہو؛ خالد فتح محمد کو بھی اس بات میں کوئی دل چسپی نہیں کہ کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کسی منطقی انجام کو پہنچتی ہے، یا نہیں۔

وہ کہانی میں لطافت سے داخل ہوتے ہیں، کرداروں کو خود مختار بنا کر اسی ادا سے الگ ہو جاتے ہیں۔ سو یہ زندگی کی جد و جہد میں شامل لوگوں کی کہانی ضرور ہے، ان کے کام یاب یا نا کام ہونے کی نہیں؛ اور یہی حقیقت ہے کہ ہم اسی نوشتۂِ جبر کے ساتھ زندگی سے جڑتے ہیں اور اسی طرح کی کام یابی یا نا کامی کا شکار ہو کر اس سے الگ ہو جاتے ہیں۔


خالد فتح محمد سے باتیں  انٹرویو از، ضیغم رضا

خالد فتح محمد کے ناول، سود و زیاں کے درمیاں، پر ایک نوٹ  تبصرۂِ کتاب از، حفیظ تبسم

بنجر زمینوں کو سیراب کرتا خالد فتح محمد  از، خلیق الرحمٰن


ضروری نہیں کہ ہم موجود کے جبر کو توڑ سکیں، اور ضروری نہیں کہ موجود کا جبر ہماری کوشش کو بے چہرہ بنا دے۔ سود و زیاں کے درمیاں میں ہم ایسی ہی بساط بچھتے دیکھتے ہیں اور کہانی کسی منطقی انجام کے بَہ غیر ختم ہو جاتی ہے۔

ہمیشہ کی طرح خالد فتح محمد کرداروں پر کوئی حکم لگاتے ہیں نہ کَتھا کو ثمر ور بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ ایک خاص زمانے اور کیفیت کو پینٹ کرتے ہوئے ایک خاص کیفیت میں اپنے اشہبِ خیال کی باگ کھینچ لیتے ہیں اور باقی کا کام کرداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔

گو خان فضل الرحمان کی طرح وہ اپنے کرداروں کو بے راہ رو نہیں ہونے دیتے مگر انہیں ان کی غلامی اور مصنف کی فکر کے تابع رہنے سے بھی کوئی دل چسپی نہیں۔ اس طرح ان کے کردار ایک فطری ماحول میں رَم کرتے اور معدوم ہوتے ہیں۔

پری سے زینہ تک خالد فتح محمد کے ناولوں کی عورتیں نسبتاً فعال ہیں۔ یہ رنگ اس ناول میں بھی موجود ہے۔ مگر کسی ناول میں بھی قصے پر غالب نہیں۔ ہاں خالد فتح محمد کو نسائیت اور نسائی نفسیات سے دل چسپی ضرور ہے۔

اس طرح ان کے ناولوں میں مردانہ اور نسائی کرداروں کی باطنی زندگی ایک سی الجھن اور کش مکش کا شکار نظر آتی ہے اور وہ برابری کی سطح پر کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔ خالد فتح محمد ناصِح نہیں، اس لیے سود و زیاں کے درمیاں ہر طرح کے تبلیغی رنگ سے پاک ہے اور اس کا معاشرہ اور کردار کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کا یہ ناول بھی شعور کی رو کا ناول ہے جو کہیں بھی بیانیے سے الگ ہوتی ہے، نہ بیانیے کو یَک سطحی ہونے دیتی ہے۔ اس طرح فطری تعامل کا جادو بر قرار رہتا ہے، اور خالد فتح محمد کی انفرادیت کی دلیل بنتا ہے۔