خالد فتح محمد سے باتیں

خالد فتح محمد سے باتیں
aikRozan Creatives

خالد فتح محمد سے باتیں

انٹرویو از، ضیغم رضا

دو سال قبل، جب کہ میں شہر مدفون پہ مقالہ لکھ رہا تھا، خالد فتح محمد سے پہلی بار فون پہ بات ہوئی۔ اِدھر ان کی نہ مانوس سی ہیلو گونجی، اور اُدھر میں نے اپنا تعارف کرانا شروع کر دیا۔ اجنبیت نے میری زبان کی لکنت کو دو چند کر دیا، اور جب تک کہ لہجوں میں آشنائی کا ذائقہ گھلا، میں پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ وہ پسینہ بعد کی ہر فون کال پہ بہتا رہا۔ خالد صاحب سے جب بھی بات ہوئی وقت کا پتا چلا اور نہ ہی موضوع کا!

ایک ہی راستے سے اتنے راستے نکلتے چلے جاتے کہ بالآخر جب فون کال بند ہوتی تو معلوم ہوتا، منزل ابھی نہیں آئی اور اگلی فون کال پہ ویسی ہی اجنبیت اور ویسی ہی گونج دار ہیلو سنائی دیتی۔ اسی اجنبیت کو دور کرنے اور خالد صاحب کے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کو قدرے منظم کرنے کا میں نے ایک جتن کیا، یعنی ان سے مکالمے کا ڈول ڈالا۔ یقیناً سوال بنا کسی ترتیب یا رسمیت سے آزاد ہو کر پوچھے گئے، یوں ہی جس طرح ہم ہر دوسرے چوتھے روز فون پہ بات کرتے تھے، اور شاید یہ ہی ایک راستہ بھی تھا کہ بے ساختگی مجروح نہ ہو، سو اب یہ ہماری قدرے ذاتی گفتگو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

امید ہے سر آپ خیریت سے ہوں گے، ہمیشہ کی طرح۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا میں آپ سے مکالمہ کرنا چاہتا ہوں۔ یعنی دوسرے، چوتھے روز جو ہماری گپ شپ ہوتی ہے بالکل اسی کی طرح بے تکلف مگر قدرے منظم انداز میں۔ روایتی طور پر میں آپ سے، آپ کی سوانِح نہیں کریدوں گا بس جو سوال جس ترتیب سے ذہن میں آئے گا، پوچھ لوں گا۔

سوال: آپ کا پسندیدہ مصنف کون سا ہے؟

جواب: دیکھیں میں اس چیز کا قائل نہیں کہ کوئی ایک مصنف آپ کا پسندیدہ ہو سکتا ہے، مثلاً اگر میں یہ کہوں کرشن مجھے پسند ہے تو اس کا مطلب میں نے کرشن کے علاوہ پڑھا کسی کو نہیں، یا کرشن کے علاوہ کسی نے کچھ لکھا ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ ادب میں جمود کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایک زمانے تک میرا مطالعہ اردو ادب تک رہا، لہٰذا مجھے اردو کے لکھاری پسند تھے۔ پھر وار اینڈ پیس پڑھا جس کے بعد کراموفون برادرز اور دیگر روسی ادیب پسند آنے لگے۔ موپساں کو پڑھا تو فرانسیسی ادب کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اورحان کمال کو پڑھنے کے بعد ترکی کے دوسرے اچھے ادیب بھی پسند آئے۔ حتیٰ کہ اب بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ مزید کتنے ادیب میرے پسندیدہ ہو سکتے ہیں کیوں کہ میں ابھی مطالعہ سے کنارہ کش نہیں ہوا۔

سوال: کون سے ادیبوں سے آپ کے فکری اختلاف رہے، یا ہیں؟

جواب: میرے اختلافات کئی سطحوں پہ ہو سکتے ہیں، کسی کی تکنیک سے اختلاف ہو سکتا ہے، کسی کے موضوعات سے میں اختلاف رکھتا ہوں۔ اب جیسا افسانہ ڈاکٹر رشید امجد، یا میرے دیگر معاصرین نے لکھا، ویسا میں نہیں لکھتا، تو مجھے کوئی حق نہیں کہ ان کے لکھے کو رد کروں؛ اگر میں رد کرتا ہوں تو یہ میری اناء ہو سکتی ہے، فکری اختلاف نہیں۔ فکری اختلاف کی بات کریں تو منٹو ایک اچھا افسانہ نگار ہے، مگر اس نے زندگی کو ایک ہی روزن سے دیکھنے کی کوشش کی۔ قرۃ العین حیدر کے فکشن میں آپ کو عام آدمی کا گزر نہیں ملے گا، انتظار حسین نے ساری عمر لاہور میں گزار کے پنجابی کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا، جب کہ غلام عباس کے حد درجہ بناوٹی جملوں سے مجھے ہمیشہ اختلاف رہا۔

سوال: شعری اصناف میں کون سی صنف آپ کو پسند ہے؟

جواب: میں ہمیشہ نظم کے حق میں رہا ہوں، غزل بس میر و غالب کی حد تک ہی پڑھ لیتا ہوں۔

سوال: نظم میں سر کن شُعَراء نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟

جواب: نظم خواہ ن م راشد کی ہو، یا مجید امجد کی، میرا جی کی، یا پھر وزیر آغا کی، بَہ طورِ قاری میں ہر اچھی نظم کو سراہتا ہوں۔ فیض کی نظم مجھے متاثر نہیں کرتی کہ وہ بھی غزلیات کے زیرِ اثر لکھی گئیں۔ جس طرح اقبال کی غزل پہ نظم کے اثرات نے غزل کو بھر پُور انداز میں سامنے نہیں آنے دیا، اسی طرح فیض کی نظم پہ غزل کے اثرات نے دونوں کو ایک ہی شے بنا دی۔

سوال: نثری نظم کو بھی بَہ طورِ نظم سر آپ قبول کریں گے؟

جواب: دیکھیں میں کسی بھی نئے تجربے پہ قدغن لگانے کے حق میں نہیں ہوں۔ نثری نظم ہو، یا پھر مائیکرو فکشن ان دونوں اصناف کا چلن ہمارے ہاں نئے تجربے کے طور پر مقبول ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر نئے تجربے کو راہ دینی چاہیے، اگر اس میں دم خم ہو گا، تو وہ اپنا وجود خود منوا لے گی، بَہ صورتِ دیگر اپنی موت آپ مر جائے گی۔

لیکن سر آپ کا ایک نقطۂِ نظر تو ہونا چاہیے۔

دیکھیں آپ کرشن چندر کی نثر اٹھا لیں کئی پیراگرافز آپ کو شاعرانہ محسوس ہوں گے، مگر کیا وجہ ہے کہ وہ نثری نظم نہیں بن سکے۔ خود میں نے بھی کوشش کی کہ نثری نظم لکھوں، مگر مجھ سے نہیں لکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تخلیقی سطح پہ یہ صنف اپنا جواز رکھتی ہے، جو اس قدر محنت مانگتی ہے۔ اسی طرح مائیکرو فکشن کو لکھنا بھی دُہری مشقت ہے کہ آپ کو دس صفحوں کی بات دس لائنوں میں کہنی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ اختصار آپ کو قاری کی ذہنی بلوغت، اور جزوی جامعیت پہ انحصار زیادہ کرنے پہ مجبور کرتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے معاشیات کے قوانین میں انتباہ رکھی جاتی ہے، دیگر حالات بَہ دستور رہیں تو۔

سوال: تنقید کے تخلیق کے ساتھ رشتے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اردو تنقید سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟

جواب: پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کہ میرا مُدرسانہ تنقیدی مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے؛ میرا جتنا بھی مطالَعَہ ہے وہ ذاتی نوعیت کا ہے۔ جہاں تک ہمارے نقادوں کا معاملہ ہے تو حالی سے لے کر ناصر عباس نیّر تک جتنے بھی نقاد ہیں، سب نے ہمیشہ بیرونی نظریاتی پیمانوں پہ مقامی ادب کو پرکھا ہے۔ اردو ادیب لازمی طور پر اپنے سماجی تناظر میں پرکھے جانے کا اہل ہے، جسے ہمارے نقادوں نے کم ہی سمجھا ہے۔ مغربی اور مشرقی رہن سہن، عادات و اطوار اور رویوں میں کئی سطحوں کا فرق ہے، جس کی نمائندگی لازمی طور پر ان معاشروں کا ادب کرے گا۔ ہمارا نقاد جب مغربی پیمانے لے کر مشرقی زندگی کے عکس (ادب) کو ماپے گا تو لازمی سی بات ہے اسے مایوسی ہو گی۔

ایسے میں تخلیق کار پہ غصہ نکالا جائے گا، یہ الزام لگا کر کہ اردو ادب جامد ہو گیا ہے، اور کوئی نیا فن پارہ سامنے نہیں آیا۔ خود ذاتی طور پر بھی آپ مجھ سے پوچھیں تو سات ناول اور پانچ افسانوی مجموعے لکھتے ہوئے مجھے کبھی کسی نقاد سے رہنمائی نہیں ملی، بل کہ، ایک سطح پہ دیکھیں تو میری نسل سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو نقاد نے کنفیوز ہی کیا ہے۔

آپ یہ دیکھیں کہ ترقی پسند تحریک میں جتنا بھی افسانہ نگار تھے، وہ اپنے نظریات کے ساتھ کمِٹّڈ تھے، دوسرے لفظوں میں نقاد اور افسانہ نگاروں کی خاصی ہم آہنگی تھی۔ ساٹھ کی دھائی کے بعد جُوں ہی نئے افسانے کا شور اٹھا، تو اس کے بعد سے لے کر اب تک افسانہ نگار مسلسل کنفیوز چلا آ رہا ہے۔ اب بھی کچھ نو جوانوں سے میری راہ و رسم ہے، تو وہ یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا ان کا افسانہ جدید ہے؟ یا مابعد جدیدیت کے پیمانوں پہ اس کا افسانہ پورا اترے گا؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نقادوں نے ہمیشہ چند ناموں کے اوپر ہی زور مارا ہے۔ شاعری میں چند نام ہیں جن سے شروع کر کے وہیں پہ ختم کر دیتے ہیں۔

اسی طرح فکشن میں بھی جس طرح قرۃ العین حیدر، یا انتظار حسین کو اہمیت دی جاتی ہے، اس سے آدھی بھی وہ اسد محمد خاں، حسن منظر، یا محمود احمد قاضی جیسے ادیبوں کو نہیں دیتے۔ یا تو ہمارے نقادوں نے انہیں پڑھا نہیں، یا پھر وہ خوف زدہ ہیں کہ ان بڑوں کے علاوہ کسی پہ بات کی تو لوگ ان کی بات نہیں سنیں گے۔ ٍ

سوال: انتظار حسین نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جہاں میرے کسی کردار کا کوئی عُضو کم پڑتا ہے تو میں اپنے جسم سے کاٹ کر جوڑ دیتا ہوں؛ تو میرا سوال یہ ہے کہ ایک ادیب کی شخصیت اس کی تخلیق میں کس قدر شامل ہوتی ہے؟

جواب: میں یقیناً انتظار صاحب کو ٹوکوں گا کہ ایک عُضو ہی نہیں پورا جسم تخلیق کار کا اپنا ہوتا ہے۔ مجھے تخلیق کار کی مظلومیت سے ہمیشہ ہم دردی رہی ہے کہ وہ بے چارہ اچھےاور برے دونوں کردارں کو خود سہتا ہے۔ در حقیقت، ایک تخلیق کار کے اندر کئی کردار، اور ان کرداروں کے مختلف بہروپ سانس لے رہے ہوتے ہیں، یعنی بَہ یَک وقت وہ کئی زندگیاں جی رہا ہوتا ہے؛ ہر خصلت کے کردار کی کام یاب پیش کش ہی کسی تخلیق کار کی بڑائی ثابت کرتی ہے۔ آپ نے کرشن چندر کا واقعہ سن رکھا ہوگا۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ سلمیٰ صدیقی کھانے کے لیے کرشن چندر کو آوازیں دیتی رہیں۔ کافی انتظار کے بعد جب وہ کمرے میں گئیں تو کرشن چندر کو انتہائی کرب کے عالم میں ساکت کھڑے دیکھا۔ سلمیٰ ڈری سہمی دوسرے کمرے میں خاموشی سے آ کر لیٹ گئیں۔ کچھ دیر بعد کرشن کھانے کا پوچھتے ہوئے کمرے میں آئے تو سلمیٰ صدیقی نے کچھ دیر پہلے کی صورتِ حال کے متعلق پوچھا۔ کرشن نے ہنس کر کہا، در اصل میں نے ایک کردار کو چُھرا گھونپے جانے کے بعد اس کی اذیت دکھانی تھی، اور اس وقت میں وہ ہی اذیت خود پہ طاری کیے ہوئے تھا، تا کِہ کردار کی حقیقی کیفیت پیش کر سکوں۔ مطلب یہ کہ ہر کردار تخیلق کار کے اندر سے ہی پھوٹتا ہے، بس اس کو صحیح سالم پیش کرنے کے لیے مہارت چاہیے ہوتی ہے۔

سوال: کوئی ایسی شخصیت یا خاص واقعہ، جس نے آپ کو لکھنے کی تحریک دی ہے؟

جواب: اگر چِہ میں کافی عرصے سے پڑھ رہا تھا لیکن میں نے جب ہیمنگوے کا A Farewell to Arms پڑھا تو میرے اندر خواہش جاگی کہ میں لکھوں، اور وہ بھی اس طرح کا ناول۔ آج بھی جب میں اس سرشاری کے متعلق جو اس ناول کو پڑھ کے حاصل ہوئی، اس کو سوچتا ہوں تو مجھے بے پناہ مسرت ہوتی ہے۔

سوال: اردو میں لکھے گئے چند اہم ناول جو آپ کی نظر میں اردو ناول کا وقار ہوں؟

جواب: اگر پچھلی صدی کی بات کی جائے تو آگ کا دریا وہ پہلا ناول تھا جس نے کافی عرصے تک قاری کو اپنی طرف مُتوجُّہ رکھا۔ کرشن چندر کا شکست بھی ایک اہم ناول تھا۔ پھر اداس نسلیں کی باری آتی ہے، مگر مجھے عبداللہ حسین کا بعد میں چھپنے والا ناول باگھ زیادہ پسند ہے۔ میں یہ بات کئی جگہوں پہ کہہ چکا ہوں کہ عبداللہ صاحب کو زندہ رکھنے والا ناول باگھ ہے۔ اسی طرح عزیز احمد (جنہیں میں احتراماً، عزیز احمد صاحب کہتا ہوں) کے سب ناول خاصے کی چیز ہیں۔ اگر چِہ انہیں ہمارے نقادوں نے مسلسل نظر انداز کی،ا مگر ان کے ناول اردو ناول کی روایت میں کسی طور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کے ناول گردش رنگ چمن، اور آخر شب کے ہم سفر بھی بہت اہم ناول ہیں۔ یہ تو ہو گیا بیسویں صدی کا قصہ، اکیسویں صدی میں دو ناولوں نے بالخصوص مجھے متاثر کیا۔ ایک مستنصر حسین تارڑ کا، خس و خاشاک زمانے، اور دوسرا نجم الدین احمد کا، کھوج۔

تارڑ صاحب کے ناول میں ایک نو جوان پہ کتے چھوڑے جانے کے بعد بھاگتے ہوئے بوڑھا ہو جانا، اور سانپوں کی فصل جیسے واقعات اس ناول کو بہت دل چسپ اور توانا بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح کھوج میں سسی کے عشق میں اس کی قبر کا کھوج لگاتے شخص کی کہانی اور اس ناول کی بنت نے مجھے بہت متاثر کیا۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تراجم نہیں ہوتے، اور اگر ہوتے ہیں تو معیاری تراجم کم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں؟

جواب: آپ یہ دیکھیں کہ جس دور میں ہمارے ہاں امراؤ جان ادا لکھا جا رہا تھا، بالکل اسی وقت روس میں War and Peace لکھا جا رہا تھا۔ اب خود اندازہ کریں دونوں کے فرق کا؛ امراؤ جان ادا بھلے ہی اردو میں بلند پائے کا ناول ہو، مگر War and Peace سے تو اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اب جب کہ یہ بات واضح ہے کہ ہمارا ادب غیر ملکی ادب سے بہت پیچھے ہے تو تراجم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں تراجم کی رفتار بہت سست ہے۔ ہمارے مترجم یا تو انگریزی مترجمین کی طرح محنت نہیں کرتے، یا پھر انہیں دوسری زبان پہ عبور نہیں۔ ہم چُوں کہ بیش تر تراجم انگریزی سے کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے انگریزی زبان پہ عبور ضرور حاصل کریں۔ اگر چِہ شاہد حمید، سلیم الرحمٰن، محمد عمر میمن اور ظ۔ انصاری جیسے مترجمین نے ترجمے کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا، مگر مجموعی طور صورت حال اطمنیان بخش نہیں۔ اجمل کمال جیسے کچھ اور مدیر بھی اگر آج جیسے مُجلّے تواتر سے شائع کریں، تو یقیناً ترجمے کے معاملے میں ہماری تہی دامنی کی تلافی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی کہنے دیں کہ نہ صرف غیر ملکی ادب، بل کہ، ہماری علاقائی زبانوں کا ادب بھی اردو میں منتقل ہونا چاہیے۔ میں اگر اردو لکھتا ہوں تو مجھے کم سے کم ترجمے کے توسط سے ہی سہی، پتا تو چلے کہ ہماری باقی زبانوں میں کس نوع کا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔

سوال: ادیب کی حکومتی و عوامی سطح پہ پذیرائی اس کی تخلیق پہ کس طرح کے اثرات ڈالتی ہے؟

جواب: میں نے جب بھی کوئی کتاب شائع کرائی تو اس کے بعد میں نئی کتاب کی طرف متوجُّہ ہو گیا۔ میں اس چیز کا قائل ہوں کہ ادیب کو ادب تخلیق کرنا چاہیے، لوگ اس کے لکھے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ جاننے کے لیے ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کے لکھے میں دم ہو گا، تو لوگ پڑھنے کے بعد خود چاہیں گے کہ اس پہ بات کریں۔ پروپیگنڈے اور شور شرابے سے حاصل کی جانے والی شہرت کے پاؤں نہیں ہوتے، بس ہوا ہی ہوا ہوتی ہے، جو کہ زمین پہ کم ہی ٹِکنے دیتی ہے۔

سوال: آپ نے ایک ہی ناول نگار (اورحان کمال) کے چار ناول ترجمہ کیے؛ اس کی خاص وجہ؟ اور پھر ترجمے سے ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟

جواب: میں نے ان ناولوں کے علاوہ بھی کچھ تراجم کیے ہیں، 18 متفرق کہانیاں تھیں جو تا حال نہیں چَھپ سکیں، سارتر اور مارکس کے مضامیں کے علاوہ کچھ اور مضامیں بھی ترجمہ کیے۔ اسی طرح اپنے رسالے کے لیے میں نے کچھ نظمیں بھی ترجمہ کیں تھیں۔ جہاں تک اورحان کمال کا معاملہ ہے تو ان کے ناول میں نے فرخ سہیل گوئندی کی تحریک پہ ترجمہ کیے تھے۔ ہوا یوں کہ جب میں نے خلیج انہیں چھپنے کے لیے دیا تو انہوں نے اورحان کا ناول دے کر مجھے ترجمہ کرنے کا کہا۔ جب میں نے وہ مکمل کر لیا، تو انہوں نے ایک اور ناول دے دیا اس طرح یکے بعد دیگرے میں نے چار ناول ترجمہ کر دیے۔

میں نے جب اندازہ لگایا، تو ڈیڑھ دو سالوں (یہ تراجم اتنے عرصہ تک جاری رہے) کے متعلق سوچا تو خیال آیا اتنے عرصے میں، میں نے اپنے تخلیقی کام کو ہارج کیا۔ بس اسی وجہ سے میں دو بارہ اس طرف متوجہ نہیں ہوا۔

سوال: جب آپ نے ادراک شروع کیا، تو اس وقت کس طرح کے عزائم تھے؟ اور پھر بند کرنے کی کیا وجہ بنی؟

جواب: عزائم تو یقیناً شروع میں تقریباً سب مدیروں کی طرح کے تھے کہ ادب کی خدمت کرنی ہے، نئے لکھنے والوں کو موقع دینا ہے، وغیرہ۔ یہ بھی نہیں کہ رسالہ مطلوبہ اہداف پورا نہ کر سکا، معاشی مسائل بھی کوئی بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ میں کم سے کم ایک سال نامہ تو شائع کر ہی سکتا ہوں۔ در اصل، ہوا یوں کہ سمیع آہوجا (جو میرے قریبی دوست اور لائقِ احترام ہیں) نے مجھے ڈانٹا، “تو ایویں لوکاں نوں مشہور کردا پھردا ایں، اپنا لکھ تے اونوں مشہور کر،” بس پھر میں نے بند کر دیا۔ البتہ، اب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اسے دو بارہ جاری کر کے سال میں ایک آدھ شمارہ تو نکال ہی لیا کروں۔

سوال: آپ نے ناول، افسانہ، تراجم، مضامین لکھے مگر کون سی صنف ایسی تھی جس میں لکھتے ہوئے آپ سرشار ہوئے؟

جواب: دیکھیں میں اس کو صنف کے امتیاز سے بالا تر ہو دیکھتا ہوں۔ در حقیقت، کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ کہانی کار اسی میں گوڈے گوڈے گُھسا ہوتا ہے، ایسے میں جب وہ کہانی مکمل کرتا ہے تو اسے ایک طرح کی اطمنیان بخش تسلی ہوتی ہے۔ میں جب لکھتا ہوں تو ایک ناول یا کہانی ختم کرنے کا بعد دوسری کی طرف اور بعض اوقات بہ یک وقت دو دو تین تین کہانیاں لکھ رہا ہوتا ہوں۔ جب میں نے اے عشق بلا خیز، سانپ سے زیادہ سیراب، اور کوہِ گراں مکمل کیا، تو میں اگلے ایک دو دن مطمئن رہا۔ اسی طرح کچھ افسانے لکھ کے بھی پر سکون ہوا جیسے…

سوال: ادبی رسائل کا ادب کے حوالے سے کیا کردار ہے، اور آپ نے کن رسائل سے استفادہ کیا؟

جواب: ساٹھ کی دھائی میں (جس کو میں نے سانپ سے زیادہ سیراب میں موضوع بنایا) میں نے پڑھنے کا با قاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ ویسے تو ہمارے گاؤں میں کبھی کبھار کوئی ایک آدھ رسالہ آ جاتا تھا، لیکن میں اسی دھائی میں ہی ادبی رسائل سے متعارف ہوا۔ اس وقت ادبی دنیا بڑا مشہور رسالہ تھا، اس کے ساتھ ساتھ نقوش، تھا کہ جس کی ادبی خدمات کو اردو ادب کی تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا۔ پھر کراچی سے ساقی تھا، وہیں سے ہی سیپ نکلا، اب بھی وہاں سے کولاژ نکلتا ہے۔ نیاز فتح پوری کا نگار بھی بڑا اہم رسالہ تھا، پھر بعد میں فنون اور اوراق نے بھی ادبی تحرک کا سامان کیا۔

ممتاز احمد شیخ کا لوح بھی ادب کی بے لوث خدمات کی عمدہ مثال ہے، ہم سویرا کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے۔ تو یہ رسالے اپنی اپنی جگہ پہ ادب کو فروغ دیتے رہے ہیں، اور دے رہے ہیں؛ میں کتنے ہی رسالوں کے نام گِنواؤں … ان سب نے نئے لکھنے والوں اور ادب میں اضافے کو ہر دور میں ممکن بنایا۔ ابھی مختلف ویب سائٹ پہ تحریریں لگنا شروع ہو گئی ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ تا حال رسالے کی جگہ نہیں لے سکتیں۔ ٹھیک ہے ایک کلک سے آپ کی تحریر لا تعداد لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے، مگر آنکھیں لگا کر ایک لمبی چوڑی تحریر کو پڑھنے کا جبر بہت کم لوگ ہی سہہ سکتے ہیں۔

سوال: آپ اپنے ناولوں میں ماڑی بوچیاں اور گوجراں والہ کے درمیان ہی کیوں اٹکے رہ گئے؟ اگر ناستلیجا ہے تو ایک ادیب کے لیے ناستیلجا کتنا اہم ہوتا؟

جواب: ظاہر ہے میں شیر خوارگی کے دور میں ہی ماڑی بوچیاں سے ہجرت کر آیا لیکن میرے گھر میں اس علاقے کی باتیں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ وہ سب باتیں میرے لا شعور میں کہیں اٹکی رہ گئیں، اور جب میں نے شہر مدفون لکھا تو یہ ساری چیزیں باہر آ گئیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ناستلیجا کو ادب سے خارج کر دینا چاہیے۔ اس کی وجہ انتظار حسین والا ناستیلجا ہے کہ جس میں ایکشن کی کمی ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کے بعد مجھے کہیں بھی ایکشن نظر نہیں آیا، میں اس کو یوں کہوں گا کہ ناستیلجا میں اگر ایکشن ہے تو وہ کہانی بنتا ہے بَہ صورتِ دیگر وہ آپ بیتی کے سوا کچھ نہیں۔

سوال: ایک طرف آپ ترقی پسند تحریک کے پیرو کار ہیں، دوسری طرف ڈاکٹر وزیر آغا سے بھی آپ کی صحبت رہی، یہ تضاد کیسا؟

جواب: نہیں اس میں تو کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جن میں دو اشخاص اپنے نظریاتی اختلاف کے با وُجُود ذاتی تعلقات میں خوش گوار رہے۔ ابو الکلام آزاد اور مولانا شیرانی، جوش ملیح آبادی، اور مولانا مودودی، ممتاز مفتی اور احمد بشیر کے تعلقات اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

آغا صاحب سے مضبوط تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری نظریاتی بحث کبھی نہیں ہوئی۔ میں انہیں بزرگ سمجھتے ہوئے کچھ سوال لے کے، کچھ سیکھنے کی غرض سے جاتا تھا۔ ان کا شاعری اور ادب کی دیگر اصناف کا مطالَعَہ بڑا وسیع تھا، مگر وہ مجھ سے فکشن کی پڑھت کے متعلق پوچھتے۔ میں نے جو بھی ناول پڑھا ہوتا، اس کی کہانی بتاتا وہ ایک ماہر ایڈیٹر کی طرح اس پہ گفتگو کرتے۔ آپ کو مزے کی بات بتاؤں کہ ایک دفعہ انہوں نے مجھے کہا کہ ہر رائٹر کو ایک horror یا mysteryسٹوری لکھنی چاہیے۔ میں نے اس سے تحریک پا کر ٹبا لکھا جسے انہوں نے بے حد پسند کیا۔

پھر ایک اور بات کہ ترقی پسند ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ غیر ترقی پسندوں سے قطعِ تعلق کر لیا جائے۔ اگر منیر نیازی، مجید امجد، یا میرا جی، ترقی پسند تحریک تحریک سے وابستہ نہیں تھے تو کیا ہم ان کی شاعری کو یک سَر رد کر دیں؟ آغا صاحب کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ بہت پڑھے لکھے، اور کثیر الجہت شخص تھے۔ انہوں نے اگر فیض صاحب کی شاعری کو جمود کی علامت قرار دیا، تو میں کیوں برا مانوں؟

سوال: قرات کے عمل سے گزرتے ہوئے جس طرح تخلیق سے ایک قاری حَظ اٹھاتا ہے، کیا لکھتے ہوئے تخلیق کار پہ ویسے مسرت کے لمحے آتے ہیں؟

جواب: یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ پہ ایک سفر کی دُھن سوار ہو جائے، اور آپ سفر پہ نکل پڑیں۔ سفر کے دوران تو آپ کو بس ایک ہی لگن ہوتی ہے کہ منزل پہ پہنچنا ہے وہاں پہنچ کر مایوسی ہوتی ہے، یا خوشی اصل فیصلہ تو وہیں ہوتا ہے۔

سوال: ادب اپنے عہد سے کس قدر اثر لیتا ہے؟

جواب: اب تک سب سے بڑا ناول جسے مانا جاتا ہے وہ War and Peace ہے… ۔ اسی طرح برِّ صغیر کی تقسیم ایک سانحہ تھا؛ تقسیم کے وقت بھی اس پہ لکھا گیا جب کہ تقسیم کے بعد اب تک لکھا جا رہا ہے۔ اس وقت جنہوں نے بھی لکھا سوائے بیدی کے افسانے لاجونتی کے، ہر کسی نے جانب داری برتی،کسی نے مسلمان کو برا بھلا کہا کسی نے سکھوں کو ملامت کی؛ کسی نے ہندوؤں کو ملامت کی۔ تو جو اس سانحے کا غیر جذباتی اور غیر جانب دارانہ تجزیہ ہے، وہ وہی ادیب کر سکتا ہے، جو ایک خاص فاصلے پہ کھڑا ہو۔ مراد یہ کہ ادب کسی خاص عہد کی ثقافتی، سیاسی، سماجی تاریخ ہی بیان کرتا ہے، مگر رسمی تاریخ سے جو چیز اسے مختلف کرتی ہے وہ غیرجانب دارانہ تجزیہ ہی ہے۔

سوال: ہمارے ہاں جو جاسوسی اور ڈائجسٹ کہانیاں لکھی جاتی ہیں ان کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ ہمارے ہاں کی جاسوسی کہانیاں مغربی جاسوسی کہانیاں سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہانیاں کسی نہ کسی نہ کسی سچے جاسوسی مشن کو موضوع بناتی ہیں۔ وہاں کے رائٹرز وہی لوگ تھے جو کئی سالوں تک اپنے ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں میں کام کر چکے تھے۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں خواہ ابنِ صفی ہو، یا مظہر کلیم یا باقی لوگ بھی ان کا ایجنسیوں کے ساتھ دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ایسے میں بھلے وہ جو کچھ بھی لکھیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ سنجیدہ ادب کا کہیں نہ کہیں حقیقت سے تال میل مل جاتا ہے۔ رہا معاملہ ڈائجسٹ کہانیوں کا تو ان کو لکھنے والی بیش تر وہ خواتین ہیں جن کی ساری عمر گھر میں گزری۔ رضیہ بٹ ہو یا اب عمیرہ احمد، نمرہ احمد یہ خواتین چار دیواری تک محدود ہیں۔ اس کے بر عکس آپ مغرب کے ڈائجسٹ ادب کو بھی پڑھیں تو اس کے کردار بند دیواروں تک مقید نہیں ہیں۔ ایسے میں ظاہر ہے ایک سے تجربات اور ایک سی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

سوال: تو شہاب گروپ (ممتاز مفتی،اشفاق احمد، بانو قدسیہ) کو آپ کس خانے میں رکھیں گے؟

جواب: دیکھیں پاکستان میں ایک تو ترقی پسند تھے جو ادب بَہ راہِ زندگی کے قائل تھے؛ اس کے بر عکس حلقۂِ اربابِ ذوق نے ادب بَہ راہِ ادب کا پرچار کیا۔ جب کہ یہ گروپ ساری عمر ادب بَہ راہِ ترقی کے لیے سر گرم رہا؛ وہ جو ادیب کی ایک کمٹمٹ ہوتی ہے ان کے لیے یہ کمٹمٹ بس اپنی ترقی کا ذریعہ تھا۔

اشفاق صاحب گڈریا لکھنے کے بعد قدرت اللہ شہاب سے جڑ کے رہ گئے۔ شہاب نے ان سے ایوب خان کے قصیدے کہلوائے؛ بھٹو کے دور میں انہوں نے ماؤزے کیپ پہنی؛ ضیا الحق کی بیعت سے بھی نہ چوکے۔ غرض انہوں نے ساری زندگی ادب کو جاہ طلبی کا ذریعہ ہی بنایا۔