سنہ 1875 اور 1885کے دوران پنجاب میں دیسی کپڑے کی صنعت پر برطانوی اثرات 

clothing history
clothing history

سنہ 1875 اور 1885کے دوران پنجاب میں دیسی کپڑے کی صنعت پر برطانوی اثرات 

از، سالار کوکب 

پنجاب میں کپڑے کی دیسی صنعت کے مراکز جالندھر، لدھیانہ، انبالہ، ہوشیار پور، امرتسر، سیال کوٹ، لاہور، گجرات اور راول پنڈی تھے۔ ان شہروں میں گزا، لنگی، سسی/سوسی، کھیس، سالو کھروا، چادر، چوتہی، دھوتی، دسوتی، چوسی، پینسی، اک سوتی، لحاف، توشک، دری، پگڑی، کھدر اور دوسری بہت سی اقسام کی بنائی ہوتی تھی۔ 

 سنہ 1874-75 کے بعد دس سالوں میں مالیت کے لحاظ سے مقامی پیداوار میں 40،66،402 روپوں کی کمی آئی۔ اس دوران برطانیہ میں تیار کردہ کپاس کی مصنوعا ت کی درآمد بڑھ رہی تھی۔ 1874-75 کے دوران درآمد کے مقابلے میں برآمد کردہ اشیاء کا وزن 21،19،305 من زیادہ تھا لیکن 1883-84 کے دوران درآمدات برآمدات کے مقابلے میں 3،82،881 من بڑھ چکی تھیں۔ 

مقامی اور غیر ملکی نفیس کپڑے میں مقابلہ بہت بڑھ گیا تھا اور مقامی کپڑے کی جگہ غیر ملکی کپڑا لے رہا تھا۔ سسی/سوسی کی انگریزی نقل، جسے پنجاب میں بخارا کہتے تھے، اپنے شوخ رنگوں کی وجہ سے قصبوں میں دیسی اصل کی جگہ لے رہی تھی۔ ململ کی طلب انگریزی ‘مُزلِن’ سے پوری ہو رہی تھی۔ انگریزی چھینٹ نے ٹھپے والی چھسی کی طلب ختم کر دی۔ 

اچھا کپڑے بنانے والوں کو جنھوں نے کپڑے میں مختلف نمونے بھی بنانا ہوتے تھے، انگریزی دھاگا یا سوت زیادہ پسند آنا شروع ہو گیا۔ 1880-83 کے دوران انگریزی دھاگے کی درآمدات 33،109 من سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھیں۔

برطانوی حکومت درآمد شدہ دھاگے کو تحفظ دینے کے لیے پالیسیاں بھی بنا رہی تھی۔ 1880 میں انگریزی دھاگے پر محصول سو روپیہ فی من تھا، جو تین سال کے بعد کم کر کے پینسٹھ روپے فی من کر دیا گیا۔ 

اس صورتِ حال کا یہ نتیجہ نکلا کہ مقامی پیداوار صرف کھدر تک محدود ہو گئی کیوں کہ غیر ملکی صنعت کار منڈی میں کھدر کی کم قیمت اور برطانیہ سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی وجہ سے سستا کھدر مہیا نہیں کر سکتے تھے۔

مقامی صنعت کار اور جولاہے کو اچھا کپڑا تیار کرنے کی صورت میں تیاری اور محنت کی زیادہ قیمت ملا کرتی تھی۔ کھدر تک محدود ہونے کی وجہ سے جولاہوں کے معاشی حالات بہت برے ہو گئے۔ کھدر کی تیاری میں تین دن میں بارہ آنے کا سوا سیر دھاگا استعمال ہوتا تھا۔ بارہ گز کھدر ایک سے دو روپوں کے درمیان فروخت ہوتا تھا جس میں کاریگر خاندان کی محنت پانچ آنے رکھی جاتی تھی۔ اس سے صنعت کار کو تقریباً چھ آنے منافع حاصل ہوتا تھا۔ کاریگروں/جولاہوں کا خاندان سخت محنت کے بعد بھی دو سے تین آنے روزانہ سے زیادہ نہیں کما سکتا تھا۔نتیجتاً، بہت سے کاریگروں نے اپنا آبائی کام چھوڑ دیا اور مزدوری شروع کردی۔ بعض نے جُزو وقتی طور پر کھڈی کا کام جاری رکھا۔ 

1875-76 میں اٹھائیس اضلاع میں کھڈیوں کی تعداد 2،30،222 تھی جو اوسطاً 8،222 فی ضلع تھی۔ 1882-83 میں اٹھائیس اضلاع میں کھڈیوں کی یہ تعداد کم ہو کر 1،33،573 ہو گئی جو فی ضلع تقریباً 5،807 تھی۔ اس طرح ایک مختصر عرصے میں ہر ضلع میں 2،415 کھڈیوں کی کمی نے ہزاروں مقامی جولاہوں کو اپنا پیشہ بدلنے اور کم آمدنی والے دوسرے پیشے اپنانے پر مجبور کر دیا۔

 

Gupta, S., 1973. THE BRITISH IMPACT ON THE INDIGENOUS COTTON TEXTILE INDUSTRY OF THE PUNJAB 1875 to 1885. In Proceedings of the Indian History Congress (Vol. 34, pp. 122-128). Indian History Congress.