دیوان غالِب کی پہلی مبینہ غزل کا غیر روایتی مطالعہ

ghalib
ghalib

دیوان غالِب کی پہلی مبینہ غزل کا غیر روایتی مطالعہ

از، فرحت ابن اسرائیل 

مقصدِ مطالعہ

اس مطالعے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ کیا مَتن میں کردار، مِزاج، لَہجے اور مَعنیاتی اِتِّصال (semantic cohesion) اور پلاٹ کے باہمی اِدغام سے موضوع کی یک سانیَّت ہاتھ آ سکتی ہے یا نہیں؟ پہلے غزل مُلاحَظَہ کیجیے گا۔

نَقْش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا

کاغذی ہے پیراہَن ہر پیکرِ تصویر کا

کاؤ کاؤِ سخت جانی ہائے تنہائی، نہ پوچھ!

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا

جذبَۂ بے اِختِیارِ شَوق دیکھا چاہیے

سینۂ شَمشِیر سے باہَر ہے دَم شَمشِیر کا

آگہی دامِ شُنِیدن جس قَدر چاہے بِچھائے

مدَّعا عَنقا ہے اپنے عالَمِ تقریر کا

بَسکہ ہُوں غالِب اَسیری میں بھی آتَش زیرِ پا

مَوئے آتَش دِیدۂ ہے حَلقہ مِری زَنجیر کا

(مِیرا اَسَدُ اللّٰہ خاں غالِب)

(الف) ہمارے نزدیک، اُسلُوبیاتی طریقِ کار مَعنوی اِتِّصال (semantic cohesion)، کرداروں کا اِشتراک اور اَمزَجہ (moods) و لَہجوں (tones) پر توجہ کی جائے اور اِن عناصر کی بنا پر پلاٹ کے ما تَحت اَشعار کی ترتیب بدلی جائے تو اِس مُبَیَّنَہ غزل کی شُروح میں آتے بدلاؤ، پہلی شُروح کی خامیاں اور نئی تعبیر بہ آسانی مُلاحَظَہ کی جا سکتی ہیں۔ اب ہم غزلِ مذکورہ کے اَشعار کی مختلف شُروح کی طرف آتے ہیں۔

1۔ نَقْش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا

کاغذی ہے پیراہَن ہر پَیکرِ تصویر کا

شمس الرَّحمٰن فاروقی صاحب اپنی شَرح ”تفہیمِ غالِب“ میں اِس شعر کی شرح کے ذیل میں لکھتے ہیں: 

”کاغذ کا لباس دَلالَت کرتا ہے فریادی اور داد خواہی پر اور فریاد و داد خواہی غالِباً اِس بات کی ہے کہ مُصَوِّر نے اَز راہِ شوخی تصویر کو نا پائیدار بنایا ہے۔ ایک نُکتہ یہ بھی پَیدا کیا گیا ہے کہ تصویر خالق سے جدا ہو کر صفحۂ قِرطاس میں مَحبوس ہونے کی شِکایت کر رہی ہے۔ نَقْش دَر اَصْل انسان ہے، جو صورتِ تصویر بے زبان ہے اور زبانِ بے زبانی سے فریاد کر رہا ہے کہ ہمیں کِس نے مُبتَلائے آزار کیا؟ اِس نُکتے پر بھی غَور کیجیے کہ نَقْش بے زبان ہوتا ہے اور یہ بے زبانی ہی اِس کے فریادی ہونے کی دلیل ہے۔ دیوان کا پہلا شعر، جس کا مضمون حَمد پر مبنی ہونا چاہیے تھا، تنظیمِ دو جہاں کو مَعرضِ سوال میں لاتا ہے۔“(۱)

غُلام مصطفیٰ دائم اَعوان اپنے مضمون میں سَہا مُجَدّدی کے حوالے سے اِس شعر کی شَرح کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ جسمِ فناء پیوَستہ، یہ ہَیُولائے ضَعِیفُ البُنیان، یہ قالِبِ خاکی، یہ کالبدِ عُنصَری (تصویر بہ پَیرَہنِ کاغذی) کس کے دَستِ رنگین کی صَنعت طَرازی و شوخئِ تحریر کا مخلوق و مصنوع ہے؟ یعنی یہ جہانِ موجود کس کے کرشمۂِ تخلیق پر داد خواہ ہے، کس کے اِعجازِ خَلّاقی کی دلیل ہے؟ مطلع حَمدیہ ہے۔“ (۲)

ہمارا نقطۂِ نظر:

مُؤخِّرُ الذِّکر شرح میں تَناقُض ہے کیوں کہ ایک تو یہاں لفظ ”فریادی“ کے وُجود کا جواز ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ دوسرا داد خواہی اور اِعجازِ خَلّاقی کی دلیل میں کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ اِس کو یوں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شَے کسی کے اعجازِ خَلّاقی کی دلیل ہے، تو اُسے شکر گُزار ہونا چاہیے، داد خواہی تو صَریحاً نا شکری ہو گی۔

یہاں پرتو روہیلہ کی بات پر بھی غَور کرنا چاہیے:

”یہاں ثنا کی جگہ شکایت اور ایمان سے زیادہ تَشکیک نظر آتی ہے۔ یہاں مِصرعۂ اُولیٰ کا اِنتِہائی با معنی فِقرہ ”کِس کی“ ہے۔ با وُجود اِس کہ بہت سے شارِحِین اِس کو اِستِعجابِیہ بتاتے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ یہ اِستِفہامیہ ہے اور غالِب کی عقلیت پسندی پر دَلالَت کرتا ہے۔“(۳)

جب کہ ہمارا خیال ہے کہ عین یہی فقرہ مرزا غالِب کا ”تَجاہُلِ عارِفانہ“ ہے، جو اُن کے ”حَیوانِ ظریف“ ہونے پر دَلالَت کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وُجود کی ماہیئت پر غَور و تَفَکُّر کرنے والے غالِب کے ہاں اِستِفہام، اِستِعجاب اور تشکیک و عقلیت پسندی (کی متوازی رَو) برابر دِکھائی دیتی رہتی ہے۔ لیکن کسی وُجودی شخصیت کی طرح وہ اِن سب کے نیچے دَبے رہنے کے بہ جائے اِن سب کے اُوپر غالِب نظر رہتے ہیں۔ یوں سوال در سوال، تَجرید کی فَروانی اور مُتناقضہ بہ طورِ اُسلُوب اپنانے پر بھی اُن کے ہاں وُجودی مایوسی کا روایتی رنگ بےحد مدہم اور شوخی اور چھیڑ خانی کا رنگ نُمایاں نظر آتا ہے۔ 

اِس سے حوالے سے ہماری رائے مضمون کے آخِر میں آئے گی۔ مختصراً اب ہمارے ہاتھ جو تفہیم آتی ہے، وہ ایک ظریف مگر مَوجودی انسان کے تَجاہُلِ عارِفانہ پر مبنی ”تنظیمِ دو جہاں کو مَعرضِ سوال بناتا“ رَویّہ ہے۔ 

شعر کی مجموعی صورتِ حال:

کردار: شاعر، راوی، مَوجودی انسان (existential being)

مِزاج: ظریفانہ (funny)

لَہجہ: تَجاہُلِ عارِفانہ

نوعیت کلام: خود کلامی، مُخاطَبَہ

2۔ کاؤ کاؤِ سخت جانی ہائے تنہائی، نہ پوچھ!

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا

اِس شعر کی شرح کے ذیل میں پرویز اَحمد اعظمی لکھتے ہیں:

”اِس شعر کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ اِنتِظار مَحبوب میں رات گزارنا، جُوئے شِیر لانے کے مُترادف یعنی اِنتِہائی دُشوار گزار اَمْر ہے۔ ائے سخت جان مَحبوب! میری تنہائی کے بارے میں مَت پوچھ! کیوں کہ جو کاوِشیں، جو تدبیریں اور جو کوششیں مَیں اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کرتا ہوں، وہ جُوئے شِیر لانے سے کسی صورت بھی کم نہیں… اگر شبِ تنہائی سے دنیاوی زندگی مراد لی جائے تو اِس کی صبح کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ کوہ کنی کرنا۔“ (۴)

ہمارا نقطۂ نظر:

سوال یہ ہے کہ اس شعر کے شارِحین و مُعبِرین کو شعرِ مذکورہ کے کس لفظ یا ترکیب سے یہ معلوم ہوا کہ مَحبوب کے اِنتِظار میں صبح سے شام کرنا جُوئے شِیر لانا ہے؟

(بہ قولِ اقبال ”… عورت ہے سوار“) غالِب و مِیر کی شُروح کا مُطالَعہ کرتے ہُوئے قدم قدم پر ایسے سوال اُٹھتے ہیں۔ 

لِہٰذا ہمارے نزدیک یہاں قطعاً مَحبوب کو مُخاطِب نہیں کیا گیا، بل کہ یہ شعر خالِص وُجودی اَحوال میں سے ایک ”بوریت (boredom) و یک سانیت (conformity)“ سے مُنسلِک ہے۔ یعنی تنہائی کی سخت جانی کے سبب، وقت کاٹنا گویا جُوئے شِیر لانا ہے؛ یعنی مشکل ہے یا لا یعنی ہے۔

شعر کی مجموعی صورتِ حال:

کردار: شاعر، راوی، مَوجودی انسان

مِزاج: بوریت 

لَہجہ: بے بس

نوعیتِ کلام: مُخاطَبَہ، خود کلامی (بھی ممکن ہے)

3۔ جذبَۂ بے اِختِیارِ شَوق دیکھا چاہیے

سینۂ شَمشِیر سے باہَر ہے دَم شَمشِیر کا

مُتفرِق شُروح کا خُلاصہ مُلاحَظَہ کیجیے:

”اِس شعر کی بنیاد ’حُسنِ تَعلیل‘ پر ہے…تعلیل کے معنی ہیں وجہ بیان کرنا، وجہ مُتَعَیَّن کرنا۔ یہ اس عمل کی خوبی و نُدرَت کی مثال ہے، کہ جب کسی عمل یا واقعے کے لیے کوئی ایسی وجہ بیان کی جائے، جو چاہے واقعی نہ ہو مگر اس میں کوئی شاعرانہ جِدّت و نَزاکَت ہو اور بات فطرت اور واقعے سے مناسَبَت بھی رکھتی ہو، تو اُسے حسنِ تعلیل کہتے ہیں۔“

چوں کہ ’دَمِ شمشیر‘ کی ترکیب اس شعر میں کَلیدی حیثیت کی حامل ہے، اس لیے یہاں لفظ ’دَم‘ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ’دَم‘ کے معنی ہیں سانس، روح، جان، تلوار کی دَھار، باڑ وغیرہ… تلوار کے ’دَم‘ کو یا تلوار کی دَھار کے باہر ہونے کو اس کے قتل کرنے کی آرزو، عاشق کے جذبۂ بے اِختیارِ شوق پر مَحمول کرنا، شاعرانہ جِدّت اور فکر کی بالیدگی کا کمال ہے۔

  عاشق کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی آرزو میں تلوار اس قدر بے اِختیار، بے قابو ہوئی جا رہی ہے کہ دمِ شمشیر، سینۂ شمشیر سے باہر نکل آیا ہے۔ محاورہ ”آپے سے باہر ہونا“ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اِس قدر بے اِختِیار ہوئی جا رہی ہے کہ اُس کا دم اُس کے سینے سے باہر نکل آیا ہے۔

عاشق کے شوقِ شہادت کو دیکھ کر شمشیر کے بے اختِیار ہونے میں ایک پَہلو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمشیر، شمشیرِ حقیقی نہ ہو کر مَحبوب کے ناز و ادا کی شمشیر ہو، جس سے قتل ہونے کے لیے عاشق بے قرار ہے کہ کاش! میرا محبوب مجھے اپنے عشوہ و غمزے سے قتل کر دیتا تو میرے دل کی مراد پوری ہو جاتی۔(۵)

ہمارا نقطۂ نظر:

شَوق کے لفظ کے معنی وُہی بہتر ہیں، جس کی طرف غُلام مُصطفٰی دائم اَعوان نے اِشارہ کیا ہے۔ یعنی اُستاد ابراهیم ذَوق کے ایک شعر میں، شَوق کا لفظ بہ معنی ”تلاش و جُستُجو “ اِستعمال ہوا ہے۔(۶)

پِھرا گر آسماں تو شَوق میں تیرے ہے سَرگِرداں

اگر خورشید نکلا، تیرا گَرمِ جُستُجو نکلا

غالِب کے اِس شعر کا معاملہ بالکل سیدھا سادہ ہے۔ یعنی پہلے مصرعے میں اپنے شَوق بہ معنی تلاش و جُستُجو اِستعمال ہوا ہے، اور دوسرے مصرعے میں اپنے شَوق کی کَیفیت کا جوش اور سرگرمی دِکھانے کے لیے ایک دلیلِ شاعرانہ تراشی گئی ہے۔ یعنی شاعر/ راوی/مَوجودی انسان پُر اُمِّید ہو کر بتاتا ہے کہ آپ کو میرا شَوق (تَجَسُّس و دَریافت) دیکھنا چاہیے، جو مجھ سے (میرے جوہر کی حیثیت) یوں آگے آگے رہتا ہے، جس طرح کسی تلوار کی دَھار بہ معنی دَم، گردن زَنی کی خواہش میں، اُس سے آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

 ہمارے نزدیک بَھلے ہی غالِب ہستی بارے ”مُوجِبِ رَنْج و مَلال“ کی رائے رکھتے ہُوں، مگر عملی زندگی میں وہ بَھر پُور طَور سے حِصّہ لیتے رہے۔ اِس طَور ہی کی بُنیاد پر اُنھیں ”حَیوانِ ظریف“ کا لقب ملا۔ یہ طرزِ فِکْر و حیات بالکل فرانسوی ادیب البیئر (البیغ) کامیو کی طرح ہے۔ البیئر کامیو کے الفاظ نقل کرتے ہوئے عثمان خالِد لکھتے ہیں:

”مَیں اِنسانی فِطرت سے تَعَلُّق رکھنے والی ہر شَے کے بارے میں یاسِیت پسند ہوں، لیکن جہاں تک اِنسانی عمل اور کوشش کا تَعَلُّق ہے، میری خوش آئند اُمِّیدوں کی کوئی اِنتِہا نہیں!“(۷)

شعر کی مجموعی صورتِ حال:

کردار: شاعر، راوی، مَوجودی انسان

مِزاج: پُر اُمِّید (Hopeful)

لَہجہ: پُر جوش

نوعیتِ کلام: مُخاطَبَہ، خود کلامی (بھی ممکن ہے)

4۔ آگہی دامِ شُنِیدن جس قَدر چاہے بِچھائے

مدَّعا عَنقا ہے اپنے عالَمِ تقریر کا

اہم لُغات:

عَنقا : ایک خیالی پرند۔ اول مفتوح، عربی میں مع ہمزہ ہے، لیکن فارسی اردو میں بے ہمزہ رائج ہے۔ عَنقا اور ہُما میں فرق یہ ہے کہ ہُما کو مَحض چِڑیا فرض کرتے ہیں، لیکن عَنقا کے ایک معنیٰ ہَیُولائے رُوحِ انسانی اور عقلِ فَعَّال بھی ہیں۔

مختلف شُروح کا خُلاصہ مُلاحَظَہ کیجیے:

اگر آگہی نے صِیاد بن کر شُنِیدَن (سَماعت) کا جال بِچھایا بھی تو کیا، میری تقریر کا مطلبِ طائرِ عَنقا ہے، جو کبھی اَسِیرِ دام نہیں ہونے کا۔ غرض یہ ہے کہ میرے اَشعار سَراسَر اَسرار ہیں… ایک لطیف نُکتہ مُلاحَظَہ فرمائیں کہ جال عُموماً چُھپ کر بِچھایا جاتا ہے تا کہ صَید (شِکار) دھوکے سے پَھنس جائے، کیوں کہا گر دیکھتا ہو، تو اُس کے لیے رُست گاری (نَجات، رِہائی) سامنے کی چیز ہو گی۔ یعنی وہ جال میں آئے گا ہی نہیں۔ لیکن غالِب نے کہا کہ اگر دھوکے اور چوری چُھپے بھی میرے عالَمِ تقریر کا مُدّعا کُریدا جائے، تب بھی وہ عَنقا کی مانِند صِیاد کی نگاہوں سے رُوپوش ہی رہے گا۔(۸)

ہمارا نقطۂ نظر:

 آگہی مجاز مُرسَل ہے، جو آگاہ؛ اور یوں مُتَکَلِّم یا کسی اور صاحِبِ بصیرت، کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب کہ لفظ ’اپنے‘ کے معنی مُتَکَلِّم کے بہ جائے مُخاطَب (مثلاً اپنے لہجے پر قابو رکھیے) کی طرف مُشار ہیں۔ اور ہمارے نزدیک یہ لفظ اِیہام کے ذیل میں آیا ہے۔ اِس طرح تقریر کے ایک معنی وَعظ (ناصِح سے منسوب) کے ہیں، اور ہمارے نزدیک یہی معنی مُستَحسَن ہیں۔ 

 تو معنی کچھ یوں ہوئے کہ ہم (یا کوئی اَور) چاہے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں، آپ (ناصِح) کی تقریر (وَعظ) سمجھ نہیں سکتے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہ مُخاطَبہ ’اَسیری‘ جھیلنے والے اور اَسیری میں ڈالنے والے یا اَسیری پر قَناعت کا دَرس دینے والے ناصِح کے درمیان ہے۔ 

شعر کی مجموعی صورتِ حال:

کردار: شاعر، راوی، مَوجودی انسان

مِزاج: ظریفانہ (Funny) 

لَہجہ: مِزاحیہ

نوعیتِ کلام: خودکلامی، مُخاطَبَہ

5۔ بَس کہ ہُوں غالِب اَسیری میں بھی آتَش زیرِ پا

مُوئے آتَش دِیدہ ہے حَلقہ مِری زَنجیر کا

مُختلف شُروح کا خُلاصہ کچھ یوں ہے:

اے غالِب! مَیں قَیدِ عِشق میں اِس قَدر بے قرار ہوں کہ اگر (میرے پاؤں میں) لوہے کی زنجیر پڑی ہو، تو سوزشِ عشق کی وجہ سے زنجیر کا حلقََہ میرے آگے مُوئے آتَش دِیدہ سے زیادہ حَیثِیت نہیں رکھتا۔(مَیں قَید میں آتَش زیرِ پا ہوں اور جس زنجیر میں مجھے جَکڑا گَیا ہے، اُس کے حَلقے مُوئے آتَش دِیدہ بَن گَئے ہیں۔ حَلقَۂ زنجیر کو آتَشِ زیرِ پا ہونے کی وجہ سے مُوئے آتَش دِیدہ کہا گَیا ہے۔)

ہمارا نقطۂ نظر:

سوال یہ پَیدا ہوتا ہے کہ چوں کہ پہلے مصرعے میں اَسیری کا لفظ لایا گیا ہے، اور دوسرے مصرعے میں ”زنجیر کے حَلقے کو آتَش دِیدہ” کَہہ کر قَید کے جواز کو ختم کر دیا گیا ہے، تو شارحِین کے نزدیک کیا سمجھا جائے گا کہ غالِب کی اَسیری ختم ہو گئی یا وہ تا حال اَسیر ہی ہیں؟

ہمارے نزدیک اَسیری سے یہ رِہائی صرف ذہنی سطح پر ممکن ہوئی ہے۔ یعنی صِرف اُن کا ذہنی اُبال ہی ذہنی رِہائی کی یہ صورت ممکن بنا پا رہا ہے۔ منظر نامہ کچھ یوں نظر آتا ہے کہ دنیاوی زنجیروں (معروف بَہ رُسوم و رواج) کے حَلقہ ہائے زنجیر کو شاعر/راوی /مَوجودی انسان کے مَوجودی کرب، معنی یابی کی تڑپ اور وُجود میں بے قراری کی تَپِش آتَش دِیدہ کر کے بے کار بنا چکے ہیں۔

شعر کی مجموعی صورتِ حال:

کردار: شاعر، راوی، مَوجودی انسان

مِزاج: فن کارانہ (artistic) 

لَہجہ: پُر جوش

نوعیتِ کلام: خودکلامی (مُخاطَبہ بھی ممکن ہے)

(ب) اُسلُوبیاتی طریقِ کار ”معنوی اِتِّصال“ (semantic cohesion) کا عملی اطلاق:

پروفیسر مِرزا خلیل اَحمد بیگ ”لُغوی اِتِّصال“ بارے لکھتے ہیں: 

”جب کئی موضوعی الفاظ معنیاتی اِعتِبار سے باہم مَربُوط و مُتّصل ہو یعنی اُن کے درمیان مَعنیاتی اِرتِباط و اِشتِراک پایا جاتا ہو تو اُسے مَعنیاتی اِتِّصال (semantic cohesion) کہیں گے۔“ (۹)

 اِس حوالے سے سب سے پہلے، اِس ”غزل“ کے لُغوی اِتِّصال کے حامِل الفاظ مُلاحَظَہ کیجیے:

فریادی، تَحریر (پروانۂ آزادی) تنہائی، بے اختیارِ شَوق (بہ معنی تَجَسُّس و دَریافت)، دَمِ شَمشِیر، دام (پَھندا، جال)، اَسیری، زنجیر

اِن الفاظ کے معنوی اِتِّصال پر مبنی مطالعہ ہمیں ”اَسیری کے ماحول و نفسیات“ سے دوچار کرتا ہے۔ یوں بِلا واسطہ نہ سہی، بالواسطہ طَور پر فرانز کافکا کا ناول ”دی ٹرائل“ یاد آ جاتا ہے، جس میں مسٹر ”جوزف کے“ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اُس پر الِزام عائد کیا جاتا ہے کہ اُس نے ایک جرم کیا ہے، لیکن اُسے جرم کی نَوعیّت نہیں بتائی جاتی۔ وہ اپنے اوپر چلنے والے مُقَدَّمے کے دَوران مُبہَم عدالتی کارروائی کے غیر مُنصفانہ نِظام کا شکار ہو جاتا ہے۔ آخِر کار اُسے سزا سُنا دی جاتی ہے، جس کو وہ سمجھ نہیں پاتا۔ لِہٰذا وہ مایوس ہو کر اپنی سَزا (موت یا عُمْر قَید) کو قُبول کر لیتا ہے۔

 اِن اَشعار کا مَعنوی اِتِّصال ایک سے کردار، مِزاج اور لَہجے کے غالب یک ساں رُجحان کے سبب ایک ہی موضوع؛ ”ایک مَوجودی فرد کا روز مرّہ“، کی طرف راجِع ہے۔ 

مزید:

شُروح کے خُلاصوں اور ہمارے نُقطۂ نظر کے بعد اَشعار کی ترتیب بدلنے سے اَشَعار اور واقعات کی ”معقول واقِعات کی ترتیب“ کچھ یوں بنتی دِکھائی دیتی ہے:

 کاؤ کاؤِ سخت جانی ہائے تنہائی، نہ پوچھ!

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شِیر کا

1۔ پہلے شعر میں کسی نے شاعر/راوی/مَوجودی انسان سے گزرانِ وقت یا زندگی بارے اِستِفسار کیا۔ جس بارے بوریت و کراہیت بَھرا جواب دے دیا گیا۔

آگہی دامِ شُنِیدن جس قَدر چاہے بِچھائے

مدَّعا عَنقا ہے اپنے عالَمِ تقریر کا

2۔ دوسری طرف سے، مکمل روایتی طور کے صَبْر و قَناعت اور ”غایتِ وُجود کی حِکمتِ آسمانی“ پر مبنی وَعظ کیا گیا۔ جس کا شاعر/ راوی/ مَوجودی انسان مَضَحکہ اُڑاتا ہے۔

نَقْش فریادی ہے کس کی شوخئِ تَحریر کا

کاغذی ہے پیراہَن ہر پَیکرِ تصویر کا

3۔ مزید شاعر/ راوی/مَوجودی تَجاہُلِ عارِفانہ انداز سے انسانی غایتِ حیات و تنظیمِ دو جہاں پر سوال اُٹھاتا ہے۔ جس کا مقصد یہی ہے کہ واعِظ کو اپنے رَٹّے رَٹائے مَواعِظ پر نظرِ ثانی کی طرف مُتوَجّہ کیا جا سکے۔

جذبَۂ بے اِختِیارِ شَوق دیکھا چاہیے

سینۂ شَمشِیر سے باہَر ہے دَم شَمشِیر کا

4۔ پھر شاعر/راوی/ مَوجودی انسان اچانک پینترا بدلتے ہوئے، اپنے مَوجودی پَس منظر کے خالی پن کے با وُجود، اپنے شَوق یعنی تَجَسُّس و دریافت کی صلاحیت بارے مُبالَغے سے کام لیتا ہے۔ تا کہ دِکھایا جائے کہ بَھلا زندگی کی کچھ معنویت ہو یا نہ ہو، ہم کچھ نہ دریافت ہی کر لیں گے۔

بَس کہ ہُوں غالِب اَسیری میں بھی آتَش زیرِ پا

مُوئے آتَش دِیدہ ہے حَلقہ مِری زَنجیر کا

5۔ آخر میں شاعر/راوی/مَوجودی انسان اپنے شَوق (تَجَسُّس و دَریافت) کے سبب اپنی آتش زیر پائی کے ہاتھوں زندگی کے قَید و بند کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک ذہنی یا فکری آزادی کا اِظہار کرتا ہے۔ یہ جسمانی آزادی نہیں، بل کہ یہ فکر و نظر کی؛ تجریدی، آزادی ہے۔

(ج) مزید:

اِس غزل کی روایتی تشریح کے با وُجود، پرویز اَحمد اَعظمی صاحب بھی اِس غزل کی شَرح کے آخِر میں (ترتیبِ شعر سے قَطْع نظر) کچھ یوں فرماتے ہیں:

 ”اب ہم ایک بار پھر جب غزل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزل کی اِبتِدا فطرت کے جَبْر سے ہو ئی تھی، جس کا انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ فطرت کے سامنے انسان مجبور و بے بس ہے لیکن مقطعے تک آتے آتے بات اِختِیار کی منزل تک آ گئی، جہاں انسان کی آتش زیر پائی نے فطرت کی زنجیروں کو پِگھلا کر رکھ دیا ہے۔ اُس کی مجبوریوں کو مُوئے آتَش دِیدہ بنا دیا ہے اوراِس طرح فطرت کے جَبْر کی گِرِفْت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے، اتِنا ہی اُس کا اختیار ہے اور بس۔“ (۱۰)

اور اِسی غزل بارے ہی یُوسُف سلیم چِشتی فرماتے ہیں:

”بہ ظاہر اِس غزل کا ہر شعر مُنفرِد اور غَیر مَربُوط نظر آتا ہے، لیکن اگر پوری غَور سے غزل کا مطالعہ کیا جائے تو تمام اَشعار مَربُوط نظر آئیں گے۔ 

۱۔ لفظ نَقْش سے اگر چِہ تمام کائنات مُراد ہو سکتی ہے، لیکن دَر اَصْل انسان مُراد ہے، کیوں کہ تمام مخلوقات میں شُعورِ ذاتی کی صِفات صِرْف اِسی میں پائی جاتی ہے۔ اور کوئی حَیوان اِس حقیقت کا اِحساس یا اِدراک نہیں کر سکتا کہ ”ہَستی مُوجِبِ آزار ہے۔“

۲۔ چوں کہ ہَستی مُوجِبِ آزار ہے، لہٰذا ہر شخص آزار (دُکھ) سے بچنے کے لیے دن رات کاوِش کرتا رہتا ہے۔ اور کاوِش ہر شخص کو اِنفِرادی طَور سے کرنی پڑتی ہے۔ بَہ ظاہر ایک گھر میں پانچ بھائی رہتے ہیں، مگر کوئی بھائی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ اِس لیے ساتھ رہتے ہُوئے بھی ہر شخص تنہا ہے۔ نِیز اِس عالَم میں ہر شخص کو دُکھ سے بچنے کے لیے اَیسی ہی جَدّوجِہدِ کرنی پڑتی ہے، جیسے فرہاد کو جُوئے شِیر لانے کے سلسلے میں کرنی پڑی۔ اور وہ لوگ جو جَدّوجِہدِ (کاؤِ کاؤ) نہیں کرتے، اُن کی زندگی سَراپا رَنج و مَلال و آزار بن جاتی ہے۔

۳۔ دَمِ شَمشیر کی طرح حُصولِ راحت اور دَفْعِ آزار کے سلسلے میں ہر شخص کا دَم سینے سے باہر ہی نظر آتا ہے۔ یعنی ہر شخص راحت ہی کا مُتَمَنّی ہے اور اَذِیَّت سے گُریزاں۔ بہ الفاظِ دِیگر، ہر شخص کو مُختلِف قِسم کی تمنّائیں ہر لَحْظہ سَرگَرمِ اِضطِراب رکھتی ہے۔ 

۴۔ ہر شَخص اپنے ہی عالَم میں زندگی بسر کرتا ہے۔ بَہ ظاہر تمام انسان ایک ہی عالَم میں رہتے ہیں، جسے دنیا کہتے ہیں۔ مگر بَباطِن ہر شخص اپنی دنیا میں رہتا ہے۔ اور ایک انسان خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے، دوسرے کی دنیا، دوسرے کے قَلبی اِحساسات، مُعتقِدات، خیالات اور قَلبی اِرادوں سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔ 

۵۔ جس بات کو مَطلَع میں بیان کیا تھا، اُسی کو بہ اَندازِ دیگر مَقطَع میں پیش کیا گیا ہے۔ یعنی اگر چہ ہر سوسائٹی (مُعاشرے) نے ایسے قَوانین وَضْع کر دیے ہیں، جن کی وجہ سے انسان پر پابندیاں عائد ہو گئی ہیں۔ (یہی اَسیری ہے) مگر اُن پابندیوں کے باوُجود ہر شخص حُصُولِ راحت اور دَفْعِ آزار کے لیے آتَش زیرِ پا ہے (بےتاب ہے) اور اُس کے ذاتی مفاد کے سامنے وہ زنجیریں بہت کم زور (مُوئے آتَش دِیدہ) ثابِت ہوتی ہیں۔“ (۱۱)

خُلاصہ:

اِس طرح ہم دیکھیں تو کِردار، مِزاج اور لَہجوں کا تَنَوُّع اور مَعنوی اِتِّصال کے ضِمَن میں یہ ”ایک مَوجودی فرد کے روز مرّہ“ کا بیان ہے۔ 

 یہ ”اَسیری“ کیسی ہے؟ یہ وُجود و حیات کی اَسیری ہے۔ جس میں کوئی ”فریادی“، اپنی ”تنہائی کے سبب صبح سے شام تک بوریت“ کا سامنا کرتا ہے، لیکن اس کا ”شَوق“ (بہ معنی تَجَسُّس و دَریافت) اُسے ”آتشِ زیرِ پا“ رکھتے ہوئے ”حَلقہ ہائے زنجیر“ کو ”مُوئے آتَش دِیدہ بنا کر بے کار بنا رہا ہے اور یوں وہ اِس اَسیری سے وُجودی حوالے سے نہ سہی، ذہنی حوالے سے خود کو آزاد پاتا ہے۔

حوالے

۱۔ شمس الرَّحمٰن فاروقی، تفہیمِ غالِب، جہلم (پاکستان)، بُک کارنر، 2021، ص 33-32

۲۔ https://shorturl.at/giuN4

۳۔ پَرتَو روہیلہ، مُشکِلاتِ غالِب، لاہور، نُقُوش، ۔۔۔، ص 23

 ۴۔ https://shorturl.at/hnqDJ

۵۔ https://shorturl.at/hnqDJ

۶۔ https://shorturl.at/giuN4

۷۔ عثمان خالد، ”کامیو کَون؟“ مشمولہ ”البیئر کامیو: فکر و ادب کے آئینے میں” (مُرَتَّبہ عثمان خالد)، کراچی، سٹی بک پوائنٹ، (2016)

۸۔ https://shorturl.at/hnqDJ

۹۔ مرزا خلیل اَحمد بیگ، ڈاکٹر ، اُسلُوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، لاہور، بھری سنز پبلشرز، ص 385

۱۰۔ https://shorturl.at/hnqDJ

۱۱۔ یُوسُف سلیم چِشتی، پروفیسر، شَرحِ دیوانِ غالِب، دہلی، اِعتِقاد پبلِشنگ ہاؤس، 1992، ص 237-236