طافو کی مہدی حسن کے گلے نا مناسب پر جُگتیں

Syed Kashif Raza
سید کاشف رضا

طافو کی مہدی حسن کے گلے نا مناسب پر جُگتیں

از، سید کاشف رضا 

موسیقار اور طبلہ نواز طافُو کو مہدی حسن پسند نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان نہیں، بَل کہ بھگوان کا کوئی چپڑاسی بولتا ہو گا۔ دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ مہدی حسن اونچے سروں میں نہیں گا سکتے تھے۔ 

مجھے فوری طور پر مہدی حسن کا گانا “کشمیر کی وادی کے وہ پُر کیف نظارے” یاد آ رہا ہے جس میں انھوں نے اونچے سُر میں یہ بول گائے ہیں:

وہ جب نہ ملی چھا گئے آنکھوں میں اندھیرے

اور پھر اس سے بھی اونچا:

تقدیر کسی کو بھی بڑے دن نہ دکھائے 

ایسے گانے اور بھی ہوں گے۔ لیکن یہ درست ہے کہ ان کی آواز کا اصل حُسن دھیمے سروں کی گائیکی میں ہی تھا جسے ہمارے ایک کرم فرما رضی بھائی “گُن گُناہٹ” کہتے ہیں۔ 

mehdi hassan ghazal singer
مہدی حسن

مہدی حسن کی آواز میری سماعت میں پڑنے والی خوب صورت ترین آوازوں میں سے ایک ہے۔ اس آواز کو کسی بھی چپڑاسی کی آواز کہنا ایک جُگت تو ہو سکتی ہے مگر امرِ واقعہ ہر گز نہیں۔ 

اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ طافو خود ایک طبلہ نواز کی حیثیت سے معروف ہیں، سِتار نواز، پیانو نواز اور وائلن نواز کی حیثیت سے مشہور نہیں: یعنی وہ خود بھی موسیقی کے تمام آلات کے ماہر نہیں تو مہدی حسن سے کیوں یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ہر طرح کا گانا گا سکیں۔ ایسے تو علی عظمت بھی کہہ سکتے ہیں کہ مہدی حسن نے کبھی پاپ گانا نہیں گایا۔ 

طافو تعلیم یافتہ نہیں تھے اور ان کے خاندان کے باقی افراد، جیسے ماسٹر عبداللہ، کی بھی کئی جُگتیں مشہور ہیں۔ ان لوگوں کی جگتوں نے احمد رُشدی کو پریشان بھی کیا اور مہدی حسن اور ناہید اختر بھی ان جگتوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ایک میڈم نور جہاں تھیں جو ان لوگوں کو انھی کی زبان میں جواب دے سکتی تھیں۔ ان جگتوں سے فن کار کا دل ٹوٹا ہو گا۔ فن کو جگتوں میں اڑانا مناسب نہیں تھا۔  

tafoo khan tabla player
طافُو

تاہم میں بات کا قائل ہوں کہ طافو کو اپنا مؤقّف بیان کرنے کا حق ہے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا کہ استاد نصرت فتح علی خاں کا عاشقِ صادق ہونے کے باوجود میں ان کی آواز کو عمدہ آوازوں میں شمار نہیں کروں گا۔ یہ ان کا کمال ہے کہ اس آواز کے باوجود وہ اتنے زیادہ اچھے گانے بنا پائے۔ اسی طرح عابدہ پروین جب غزل گاتی ہیں تو، میری نظر میں، غزل کو تباہ کر ڈالتی ہیں۔ تغزّل جیسی نازک چیز ان کے دھمال والے رنگ تلے دب جاتی ہے۔ اس پر زیادہ تر دوستوں نے اتفاق اور چند نے شدید اختلاف کیا تھا۔ 

مظفر علی سید نے کہا تھا کہ “تنقید کی آزادی” دنیا کی سب سے اہم آزادی ہے۔ طافو کو اپنی رائے کا بھی حق ہے اور ہمیں ان پر تنقید کا بھی حق ہے۔ موسیقی دان تو میں ہر گز نہیں، مگر ایک شائق کی حیثیت سے مہدی حسن کی آواز مجھے بے حد پسند ہے اور وہ اب بھی رہے گی۔

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔