مہدی حسن ، دنیائے موسیقی کا اَن مٹ نقش

(تبصرہ نگار: یاسر اقبال)

مہدی حسن ، دنیائے موسیقی کا اَن مٹ نقش

از، یاسر اقبال

کلاسیکی موسیقی پر بات ہوتے ہی مہدی حسن کا نام ایک ناگزیر حوالے کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ آپ کا لمبا تخلیقی سفر برصغیر کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ کر کس قدر پر آشوب دور تھا۔ اس کا اندازہ مہدی صاحب کی زندگی کا ایک طائرنہ جائزہ لینے سے وضاحت ہو جاتی ہے۔ مہدی حسن بھی چپکے سے نکل گئے۔ اس سماج کی بے حسی کا اور کیا مظاہرہ ہو گا کہ فن اپنے موجدوں کے ساتھ دفن ہوتا جا رہا ہے۔ کلاسیکی شعراء میں غزل کے حوالے سے اگر میر تقی میر خدائے سخن کہلائے تو آپ شہنشائے غزل کہلائے۔میر نے اگرچہ غزل کو جو سوزو گداز بخشا مہدی حسن نے سروں کے ذریعے سوزوگداز کو نغمگی سے نوازا۔بطورِغزل گائیک مہدی حسن کا انداز سب سے اچھوتا اور نرالا رہا۔ آپ نے غزل کو اس بلندی پر پہنچا دیا جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کے مہدی حسن نے گائیکی کی اس صنف کو دوام بخشا۔

آپ راجستھان کے سرخ شہر جے پور کے ایک نواحی گاؤں میں۱۸ جولائی ۱۹۲۷ استاد عظیم خاں کے گھر پیدا ہوئے۔موسیقی ان کی نس نس میں بسی ہوئی تھی۔ انہوں نے غزل کی گائیکی کو وہ حسن دیا غزل آواز، الفاظ کی معنویت کے ساتھ ادائیگی اور راگوں کا رچاؤ سب کچھ اس میں نظر آنے لگا۔غزل اور مہدی حسن کا چولی دامن کا ساتھ رہا جب ہم آپ کی آواز میں میر تقی میر، غالب، فیض احمد فیض اور چند دیگر غزل گو شعراء کا کلام سنتے ہیں توالفاظ اپنی معنویت کے ساتھ بولتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان شعراء نے اپنا کلام لکھا ہی مہدی حسن کے گانے کے لیے تھا۔مہدی حسن کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک ایسی خوبی جو اسے دیگر غزل گانے والوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ میں شاعری اور راگوں کا انتخاب کرنے میں بلا کی صلاحیت موجود تھی۔دوسری اہم بات جس کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ مہدی حسن نے شاعری کے جذبات و احساسات کو سروں کے ذریعے زندگی بخشی۔ مہدی حسن کی غزل سننے کے بعد جو تصور بنتا ہے اس میں حد درجے کی معنویت اور اثر انگیزی ہوتی ہے۔مہدی حسن نے اُن تمام راگوں کو گا کر دوام بخشا جن راگوں کو بڑے بڑے گائیک کم گایا کرتے تھے۔ان میں جھنجوٹی ، ایمن کلیان، تلنگ، کروانی، جے جے ونتی،درباری وغیرہ وہ راگ ہیں جنھیں آپ نے عام و خاص میں مقبول کر دیا۔

مہدی حسن نے اپنی مسلسل ریاضت سے دنیائے موسیقی کو منفرد آواز سے روشناس کرایا جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ آپ کی گائیکی میں جہاں دلی کا سوزو گداز ملتا ہے وہاں مہدی کے گانوں میں لکھنوی تہذیب کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔آپ نہ صرف سروں کے اُتار چڑھاؤ سے واقف تھے بلکہ الفاظ صوتیت کو برقرار رکھتے ہوئے لفظ کی ادائیگی کا بھی بخوبی ہنر جانتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ پرانے گائیکوں میں الفاظ کو سروں کے ماتحت گانے کی جو روایت تھی اس روایت سے شاعری کی معنوی حیثیت پست ہو جاتی تھی اورسر تو زندہ رہتے تھے لیکن الفاظ بے جان سے ہو جاتے تھے۔مہدی حسن نے اس روایت سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی جس میں نہ صرف سروں کے اتار چڑھاؤ برقرار رکھا بلکہ الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کی صحت کو بگڑنے نہ دیا۔

مہدی حسن نے اپنے ابتدائی ایام جو انھوں نے جنوبی پنجاب میں گزارے اس دوران اُنھوں نے کافی ریاضت کی۔جیسا کہ سُر آپ کے رگ و پے میں رچا ہوا تھا وہ اُٹھتے بیٹھتے کام کرتے گنگناتے رہتے تھے۔آپ کو گانے کا جنون تو بچپن سے ہی تھا ۱۹۴۸ء میں جب مہدی حسن اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آئے تویہاں اس نوزائیدہ مملکت میں مہدی حسن کے لیے فوراًً موسیقی میں الگ مقام بنانا مشکل تھا۔معاشی حالات کی بے حالی نے مہدی حسن کو جنوبی پنجاب جہاں ان کے پہلے سے رشتہ دار موجود تھے،بھیج دیا۔لیکن فکرِ معاش کی وجہ سے مہدی کا سر سے رشتہ نہ ٹوٹا۔اس عہد میں بھی آپ اعلیٰ فنی اعتبار اور کامل دسترس سے گایا کرتے تھے۔

جس طرح ہر فن کار ابتداء میں اپنے اندر انفرادیت پیدا کرنے کے لیے مختلف اسالیب اپناتا ہے آپ بھی شروع میں مختلف انداز اور آہنگ سے گاتے رہے۔زیادہ تر طلعت محمود کے رنگ میں گاتے رہے لیکن بعد میں جب غزل گانے کی روش اپنائی تو آپ کی گائیکی میں ایک انفرادیت آگئی جو اس دور کے باقی لوگوں میں نہ تھی۔اور اسی انفرادیت کے ساتھ آپ نے موسیقی کی دنیا میں راج کیا۔مہدی حسن نے نہ صرف غزل کے ارتقاء میں ایک اہم کردار کیا بلکہ گائیکی کی اس صنف کومختلف ماتروں اورراگوں میں اس کی بندش کو یقینی بنایااور اس طرح کلاسیکل موسیقی کو نئے آہنگ سے متعارف کرایا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خیال اور ٹھمری گانے اور سننے والے نہ صرف کم تھے بلکہ اس گائیکی کو ایک مخصوص تربیت یافتہ طبقہ ہی سن اور سمجھ سکتا تھا لیکن آپ نے انھی ماتروں اور اور راگوں میں غزل کو ڈھالا اس کے بعد دیگر گائیکوں نے بھی اس روش کو اپنایا اور آگے فروغ دیا۔

مہدی حسن کی سب سے بڑی خوبی جو اسے بے مثال بناتی ہے وہ یہ تھی کہ انھیں اپنے گلے پر مکمل قدرت حاصل تھی،جو سرُجس طرح لگانا چاہیے بڑی مشتاقی سے گلے کے ووکل کورڈز کا استعمال کرتے تھے ۔اس کے علاوہ آپ نے کئی غزلوں کو نیم کلاسیکل انداز میں فلموں کے لیے گایااُن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی سدابہار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی گائیکی بڑی با معنی اور اثر انگیز ہے یوں معلوم ہوتا ہے کے سر خود مہدی کے انتظار میں ہوتے تھے کہ آپ کے گلے سے کب ان کی ادائیگی ہوگی۔سروں اور الفاظ کی ادائیگی پر آپ کو جو کمال حاصل تھا اس کا عکس سننے کے بعد واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔کون سا لفظ کس انداز سے اور کون سے سر سے ادا کرنا ہے اس فن سے مہدی حسن بخوبی آگاہ تھے۔

میر تقی میر کی غزل جس کا مطلع ’’دیکھ تو دل کے جاں سے اُٹھتا ہے؍یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ہے۔ اس غزل کو آپ نے راگ جھنجھوٹی میں جس عمدگی سے گایاراگ اور غزل دونوں میں ایک زبردست نفاست اور تازگی نظر آتی ہے اور لفظ دھواں جس خوبصورتی سے ادا کیا ہے اس سے نہ صرف اس کا لفظ کا صوتی آہنگ برقرار رہتا ہے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے چراغ میں سے دھوئیں کی لٹ جھومتی ہوئی اُٹھ رہی ہو۔

یہ آپ کا کمال فن تھا کہ اس غزل میں میر کے کلام کے ایک ایک لفظ کو قوت گویائی سے نوازا، اسی طرح فیض صاحب کی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے بادنو بہار چلے ؍ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘اس غزل کو گایا تو یہ غزل جلد ہی ہر جگہ زبان زدِخاص و عام ہو گئی اور غزل کی ہر دلعزیزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دفعہ فیض صاحب خود کسی مشاعرے میں تشریف لائے تو پنڈال سے آوازیں آنے لگیں کہ پہلے آپ والی غزل سنائیے۔یہ تھی آپ کی غزل گائیکی پر پوری دسترس جس نے فیض احمد فیض سے ان کی تخلیق بھی چھین لی تھی۔ایک بات اور کہتا چلوں کہ عموماً گانے والوں میں شعر کی سمجھ بوجھ کم ہوتی ہے پھر آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ آواز کی شائستگی کو بھی برقرار رکھنا پڑتا ہے لیکن آپ کی آواز اتنی شائستہ اور محسور کن تھی فن کے عروج پر پہنچی ہوئی بھارت کی مشہور گلوکارہ لتا مینگیشترکو بھی کہنا پڑا کہ’’ آپ کی آواز میں بھگوان بولتا ہے اور میری صبح کی ابتداء اور شام کی انتہاء مہدی حسن کے گانوں سے ہوتی ہے۔‘‘آپ کی غزلوں میں انفرادیت بھی ہے اور سحر انگیز جازبیت بھی، آپ کی غزلیں رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ____احمد فراز کی غزلیں’’ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔یا پھر محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘‘مدتوں دلوں کوگرماتی رہیں گی مہدی تو اس جہاں سے گزر گئے مگر آپ اپنے فن کے ساتھ آنے والے ادوار میں زندہ رہیں گے۔
ہائے! موسیقی لحد میں سو گئی، ماتم کرو