مغالطے اور مبالغے : توضیح تاریخ، معاصر سیاست اور نظریۂ علم

مغالطے اور مبالغے

مغالطے اور مبالغے :  توضیح تاریخ، معاصر سیاست اور نظریۂ علم

از، ارشد وحید

ایک عرصے سے اردو ذرائع ابلاغ اور منظر عام پر آنے والی کتب محض یکسانیت اور کوتاہ بینی کا شکار نظر آرہی ہیں۔ ان مباحث کے پس پردہ مختلف قسم کی غیر حقیقت پسندانہ فاتح عالم بننے کی خواہش اور ماضی پرستی شامل ہے۔ یہ نقطۂ نظر اس حد تک تقویت پکڑ چکا ہے کہ اردو پریس اور اشاعتی ادارے اس کے برعکس کچھ اور سننے کو سرے سے تیار ہی نہیں ہیں۔
محض چند ایک لکھنے والے ایسے ہیں جنھوں نے اردو اخبارات میں اس دقیانوسیت کو اپنے عالمانہ کام اور مضبوط دلائل کے ساتھ للکارا ہے۔ انھوں نے اپنے دلائل کی بنیاد عقلیت اور معروضیت پر رکھی ہے۔ اگرچہ اس عدم رواداری کے طوفان پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ بہت کم آوازیں ہیں تاہم عدم برداشت اور تشدد کے اس کلچر میں حصول علم اور حتمی سائنسی سچائیاں تلاش کرنے میں یہ آوازیں بھی امید کی کرن ہیں۔ پروفیسر مبارک حیدر کی نئی کتاب’’مغالطے مبالغے‘‘ ان کی پہلی کتاب ’’تہذیبی نرگسیت‘‘ اردو میں ہماری اجتماعی نفسیات کا ایک متبادل مطالعہ پیش کرتی ہے جو ایک طویل عرصے سے ناقص نقطۂ نظر فرضی تاریخی حقائق خود توقیری اور بے بنیاد خوشامدانہ ان پر مشتمل ہے۔

مبارک حیدر نے اس میں وہ موضوعات چھیڑے ہیں جن کا تعلق نظامِ حکومت، توضیح تاریخ، معاصر سیاست اور نظریۂ علم سے ہے۔سانجھ پبلیکیشن لاہور کی شائع کردہ اس کتاب میں اسلامی سلطنت، تقدیسِ خلافت، اسلام سے غیر منطقی خوف، مغربی تہذیب، لا مذہبیت ، حصول علم، آزاد میڈیا اور عدلیہ وغیرہ جیسے تصورات کا جائزہ لیا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں سائنسی خیالات اور دانشورانہ مباحث کے مابین باہمی عمل ایک عجیب و غریب رخ اختیار کر چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے والے عوام تو اپنے نقطۂ نظر سے ایک انچ بھی ہٹنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔وہ ان خیالات کی یکسر نفی کرتے ہیں جن کی بنیادمحض نرگسیت، ابہام اور حقائق سے روگردانی پر ہے۔

الیکٹرانک میڈیا جیسے ادارے، جو جدید ترقی کی علامت ہیں، بھی جنگ جویانہ اور جارحانہ طاقتوں کا آلۂ کار بن چکے ہیں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ باخبر رکھنے کی بجائے میڈیا ایک ایسے کلچر کو فروغ دے رہاہے جو خود فریبی، تشدد، نفرت اور نئی فکر و سوچ کے خلاف ایک سخت مزاحمتی رویہ پر مبنی ہے۔ یہ جمہوری کلچر کو بڑی تیزی سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور عسکریت پسندانہ پُر تشدد و سیاسی رجحانات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ نہ ختم ہونے والی منافقت ہوتی ہے جو ذاتی مفادات کا تحفظ تو کرتا ہے لیکن معاشرے میں متحرک سماجی و سیاسی مباحث کی معمولی سی امید کو بھی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

ایک اور اہم جہت جسے یہ کتاب واضح کرتی ہے، وہ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے خود فریبی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو ہر دم درست سمجھنے کی عادت ہے۔اس کی سب سے اہم مثال یہ ہے کہ ہم خود کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے ہیں جبکہ ہم ثبوت کے طو رپر خود کو عظیم قوم کے طو رپر ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ ہم ان ملکوں کی معاشی امداد پر انحصار کرتے ہیں جن کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے۔ ہم پوری دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ان ہی سے ہتھیار لیتے ہیں جن کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا پر اپنے نظریات کے تحت حکومت کریں جبکہ ہم اپنے ملک کو ٹھیک سے چلانے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔

مستقبل کے بارے میں ناقص منصوبہ بندی اور عصر حاضر کے مسائل کے حل میں ناکامی اس خود پسندانہ، کوتاہ بین اور خود فریبانہ طرز فکر کا نتیجہ ہے۔ ہمارے نظام تعلیم نے ہمارے بچوں کو ایک طرف تو تاریخ کے اصل حقائق سے محروم رکھا ہے تو دوسری طرف انھیں جدید تنقیدی انداز میں سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہم نے بلاشبہ ایک چوں چوں کا مربہ اور خلاف فطرت نظام تعلیم اپنا رکھا ہے جو ہمیشہ ہمارے بچوں کو اپنی شناخت کی تلاش کے چکر میں ہی الجھائے رکھے گا۔

اس سلسلے میں ’’مغالطے اور مبالغے‘‘ جیسی کتابیں ایک مثبت سمت کی طرف رہنمائی میں اہم ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اس نرگسیت (خود پسندی) کے جال سے نکلنے اور خود کو تلاش کرنے کے لیے اور بہت کچھ بھی کرنا پڑے گا۔ ایک حقیقی آزاد ، متجسس، بردبار دانشورانہ ماحول بنانے کے لیے تاریخ کو علم کے اصل ذرائع تک رسائی کو آسان بنانا ہو گا بجائے اس کے کہ ان کو بے دلیل و ثبوت خود ساختہ تاریخ تک محدود کیا جائے۔ مزید برآں تاریخ و ادب سے وابستہ حکومتی ادارے تاریخ و ادب کے بنیادی مآخذ کو چھاپیں اور انھیں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مہیا کریں۔ لوگوں کو براہ راست استفادہ کرنے دیں اور خود ہی نتائج اخذ کرنے دیں بجائے اس کے کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ حقیقت سے دور تر ایک ایسی تاریخ پر التفا کریں جس کا کوئی سرپیر ہی نہ ہو۔ تعلیمی نظام کی بنیاد مدبرانہ استفسار، تحقیق اور تلاش پر ہونی چاہیے اور نامعلوم سچائیوں کو تسلیم کرنے پر ہونا چاہیے۔ ایک ایسے معاشرے کی اصلاح کے لیے، جو حقائق کی غلط تشریح کے نشے میں مدہوش ہو، ایسی محض چند ایک کتابیں بلاشبہ کافی نہیں ہیں۔