صارفی مارکیٹ ، انسان اور اس کی قیمت

صارفی مارکیٹ ، انسان اور اس کی قیمت

از، نعیم بیگ

حیرت اس بات پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیوں کر رہے ہیں؟
کیپیٹل ازم کی معروف اور عمومی تعریف یہ ہے کہ ’’ ایک ایسا سماجی و معاشی نظام جو پیداوار کا ارتقاٗ چاہتا ہے اور اس پیداوار کو ذاتی ملکیت میں بڑھوتری کی شرح برقرار رکھتے ہوئے اپنے منافع کی مقدار کو ذاتی معاشی افزودگی میں استعمال کرتا ہے، تاہم کولیٹرل بینیفٹ کے طور پر کچھ حصہ خودبخود معاشرے کے دیگر عناصر تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ نظام انفرادی اور کارپوریٹ سماجی اکائیوں کو اپنے مرتکز سرمایہ کی ملکیت کی آزادی دیتا ہے۔‘‘
کوئی بھی ایسا شخص جو عمرانیات ، معاشیات ، ادب اور فلسفہ کا طالب علم ہو، اس مختصر تعریف کی مزید تفہیم خود ہی کر سکتا ہے ۔۔۔ سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک مڈل ایجیز کے فرسودہ نظام ہائے حیات اور جاگیردارانہ نظام کو اگر کسی نظریہ نے کسی حد تک شکست دی اور انڈسٹریلائزیشن کی بنیاد رکھی تو وہ یہی فلسفہِ حیات تھا۔ اس فلسفہ حیات کی’ خوبصورتی‘ یہ ہے کہ نظریاتی طور پر خودبخود، بلاِ کسی تردد لبرل ازم، فاشزم اور لبرل جمہوری نظام ہائے حیات کے ساتھ مناسبت و مطابقت رکھتے ہوئے انسانی وسائل کا ارتکاز اور اسکی صوابدیدی تقسیم کا اعادہ کرتا رہتا ہے۔’صوابدیدی تقسیم‘ یا اختیارات کس معاشرتی و تہذیبی طرزِ زندگی اور ثقافتی رویوں کو جنم دیتے ہیں ، وہ ہرطالبِ علم جانتا ہے۔
بین ہی ہم مارکسزم کے نظام ہائے حیات کے عمومی اصول یا نظریہ پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں ، تاکہ آگے چل کر جو بات اس مضمون میں زیر بحث رہے گی، اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔ ’’ ماکسزم کا پہلا اصول قیمت کا تعین کرتے ہوئے انسانی پیداوار کا آپس میں تقسیم کیا جانا ہے، جسے بورژوائی طبقہ ( مالکانِ سرمایہ) اور پرولتاری طبقہ ( مزدور جو پیداوار کا حقیقی خالق ہے اورجو اس پیداواری قیمت کے اثاثے میں اپنے پیداواری قیمت کی شرح سے حقدار ہے ) دونوں ایک ایسی مساویانہ تقسیم کے اہل ہیں جس کے اثرات پورے معاشرے میں ہر انسان تک پہنچیں ۔جسے سرمایہ دار ( بورژوائی طبقہ کسی صورت نہیں مانتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سرمایہ ہی وہ بنیادی جوہر ہے جو پیداوار کے عمل کو جنم دیتا ہے)۔۔۔ لہذا کارل مارکس کے سادہ نظریہ (ہم یہاں علمی مباحث سے احتراز کرتے ہوئے گزرتے ہیں) کے تحت مالکان ، مزدور کی محنت کا استحصال کرتے ہیں اور اس مساویانہ تقسیم کے عمل کو مکمل نہیں ہونے دیتے ،جس سے سماجی اور معاشی انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اسکی بڑی وجہ وہ معاشی نفسیاتی دباؤ کا برقرار رکھنا ہے جس سے عوامی ذہن کے کسی خلیہ کو پیداوار سے ہٹ کر سوچنے کی اجازت ہی نہ دینا درحقیقت انکا مطمعِ نظر ہوتا ہے جسے معاشی ایکسپلائٹیشن کہا جاتا ہے۔
ہمیں یہ مختصر تمہیدی نظریاتی پس منظر یوں پیش کرنا پڑا کہ گزشتہ کئی ایک روز سے رواں سال ۱۶۔۲۰۱۵ کے بجٹ میں جہاں بے تحاشا ’خوشنما ‘، ’ انسان دوست‘ ، مساویانہ ، حقیقی اسلامی اور’ حقیقی عالمی انصاف ‘ سے بھرپور سماجی اور معاشی اقدامات کئے گئے ہیں ان میں بنیادی انسانی حقوق کا کس قدر انصرام و احترام ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔گو خود ایک سرمایہ دار کی ذہنیت کا اندازہ اسکی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے لگایا جا سکتا ہے تاہم انکے نعروں کے تناظر میں راقم یہ بات کر رہا ہے ۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے بعد ،عوام کی بھلائی، وسائل کی منصفانہ تقسیم ، مزدور اور کسان کی زندگی بدل دینے کے وعدے انکے الیکشن کی بنیاد تھے۔ جس میں بنیادی تین ضروریات ’’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ (گو یہ نعرہ سابقہ پیپلز پارٹی کاتھا لیکن یہاں اُس تناظر میں استعمال نہیں ہوا) کے احترام میں’ روٹی اور کپڑے ‘ کا تو اہل اقتدارو اختیار بخوبی انتظام کر چکے ہیں، اب صرف’ مکان‘ کا معاملہ رہ گیا تھا جو حکومتِ وقت کے لئے بہت اشد اور اہم مسلّہ تھا اور انہوں نے عین اُس وقت جب اہل اقتدار و اختیار کو ’’ آف شور‘‘ دباؤ کا سامنا تھا ، عوامی معاشی اصلاحات کے تحت حکومتی کثیر الجہات غیر پیداواری اخراجات (سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں) اور سرمایہ دار نمائندے آئی۔ ایم۔ ایف کے عالمی اصولوں کی بھینٹ، ٹیکس اکھٹا کرنے کے نام پر ایک نیا شوشہ ’’ رہائشی اور دیگر انفرادی جائیداد پر نئے ٹیکسسز کے حوالے سے انکی قیمت کا تعین نو کرنا اور ٹیکس نیٹ میں کئی ایک مزید ٹیکسسز کا اجراٗ اور وصولی چھوڑ رکھا ہے۔ راقم کے مضمون لکھتے لکھتے آج علی الصباح ایک صدارتی آرڈینینس جاری ہو چکا ہے ( انکم ٹیکس کا دوسرا ترمیمی آرڈینینس ۲۰۱۶) جس کی رو سے کئی ایک نئے فیصلے کئے گئے ہیں۔
اس فیصلے کی رو سے اب واجب الادا ٹیکس کے لئے متعلقہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو یا قیمت ( جو نوشنل اور ورچوئل ہوگی) کا فیصلہ ایف۔ بی۔ آر خود کرے گا۔ یہ وہ قیمت ہوگی جس پر حکومت اپنے ٹیکس لاگو کرے گی۔لمحہ بھر کو صرف کامن سنس کی بنیاد پر ہی سوچ لیجیئے کہ جس ادارے نے ’غنڈا ‘ معاف کیجیئے پراپرٹی ٹیکس وصول کرنا ہے وہی ادارہ یہ طے کرے گا کہ اس نے کتنی قیمت پر ٹیکس وصول کرنا ہے۔ اس عجیب و غریب فیصلے کی رو سے اس ادارے کے اہلکاران کی طاقت کا آپ اندازہ لگا لیں کہ تماتر اخلاقی وجوہات کے آج تک عوام ٹیکس کے پیچیدہ نظام کو نہیں سمجھ سکے ہیں اور ٹیکس دینے کے اخلاقی جواز کے باوجود ٹیکس دینے ارادہ نہیں رکھتے ہیں، اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ اس ادارے کے قوانین پیچیدہ در پیچیدہ ہیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص بھی خود اپنے ٹیکس کی ایویلوشن نہیں کر سکتا۔ جس سے ٹیکس سے زیادہ کرپشن کے نظام کو تقویت ملتی ہے جو دو طرفہ قبولیت رکھتی ہے۔
اس مرکزی ٹیکس کے اجراء کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اور کتنے ٹیکس ہیں جو جائیداد کی خرید و فروخت میں خریدار یا بیچنے والے کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔ بیچنے والے کو نئے نظام کے تحت اگر وہ ٹیکس دہندہ ہے تو کل قیمت کا ایک فیصد کیپیٹل گین ٹیکس اور نان فائلر کو دو فیص (۲)د دینا ہوگا اس صورت میں اگر وہ حقیقی الاٹی ہے ورنہ اسے یہی نسبت دو(۲) اور چار (۴) فیصد دینا ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں دو کمروں کے ایک نارمل مکان پر اسے اندازہً دو لاکھ کے قریب ٹیکس دینا ہوگا ۔ تاہم اسکی انکم ٹیکس کی شرح اسکی دیگر آمدن کے ساتھ طے ہوگی۔
خریدار کو اب کیا کیا دینا ہوگا اسکا اندازہ لگائیے۔ پہلے تو مکان کی قیمت کا تعین ایف بی آر کرے گا جو ٹیکس وصول کرنے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لگائی جائے گی (دوسری صورت میں انڈر ٹیبل کثیر رقم کے عوض بظاہر قابل قبول قیمت کا تعین ہوگا)، اس پر سیل ڈیڈ کے اخراجات جس میں مرکزی ٹیکس ، اسٹام پیپر ٹیکس، لوکل ٹیکس، رجسٹریشن فیس آف سیل ڈیڈ، بقیہ جات ہاؤس پراپرٹی ٹیکس و دیگر اخراجات ملا کر بارہ سے تیرہ فیصد تک پہنچ جاتے ہیں اگر یہ جائیداد کنٹونمنٹ میں واقع ہے تو مزید چار سے پانچ فیصد ٹیکس شامل کر لیجیئے۔
تصور کیجیئے کہ جس مکان کی قیمت کا تعین پہلے پچیس سے تیس لاکھ ہوتا تھا تو اس پر کتنے ٹیکسسز تھے اب اگر مارکیٹ ویلیوٗ جو ایک ورچوئل یا نوشنل قیمت ہے پر سترہ سے اٹھارہ فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا تو کیا ایک عام شخص اسے برداشت کر پائے گا۔ دوسرے لفظوں میں آپ نے مکان کی ملکیت کے سہانے خواب دیکھنے بھی ممنوع کر دئیے ہیں۔ خواب دیکھنے سے ممنوعیت اپنی جگہ ۔۔۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نوشنل یا ورچوئیل قیمت جس کا وجود ہی نہیں ہے ،کا تعین کرکے اخلاقی یا قانونی طور پر ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ راقم ایک چھوٹی سی مثال سے یہ نکتہ واضح کرنے کی کوش کرتا ہے ۔ بالفرض محال یہ فرض کر لیا جائے کہ ایک گھر کی ورچوئیل یا نوشنل مارکیٹ ویلیو یا قیمت پچاس لاکھ طے کر لی جاتی ہے اور اس پر موجودہ حکومت ٹیکس وصول کر لیتی ہے جو اندازہ دیگر اخراجات کے ساتھ سات سے آٹھ لاکھ ہونگے۔ اسی گھر کی قیمت جب دو تین برسوں بعد حقیقی فروخت کے وقت چالیس لاکھ بنتی ہے ( اس میں پلاٹ کی اپریسیشن اور سپر سٹیکریچر کی ڈپریسیشن شامل ہے ) تو پچاس لاکھ پر ٹیکس وصول کرنا کتنا قانونی ، اخلاقی یا انصاف پر مبنی ہوگا۔ اس بنیادی سوال کوقانون کے کس ادارے کو دیکھنا ہے؟ راقم یہ باب کھُلا چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔
اِس ملک کی تقریباً سات کروڑ کی اُس غریب آبادی کو ابھی ایک طرف رہنے دیجیئے، کیونکہ وہ اس مضمون کا سبجگٹ نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ اِس قوم ، ملک و سماج و معاشرے کا ہی سبجگٹ نہیں ہیں۔ جو آبادی پہلے سے ہی (عالمی پیمانوں کے تحت) غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے بھلا ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ سو انہیں ایک طرف کرب و ابتلا کی دنیا میں’ آزادی‘ سے جینے یا مرنے کا حق دیتے ہوئے ہم اس وقت ملک میں بقیہ آبادی کے ایک بڑے اور کس قدر متوسط طبقے کے افراد کی بات کرتے ہیں جو گزشتہ تین دھائیوں سے تنزلی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی اپنی سانس پھُلا بیٹھے ہیں۔ یہ طبقہ سرکاری و غیر سرکاری تنخواہ دار ملازمین ، کارپوریٹ سیکٹر میں پرائیویٹ ملازمت پیشہ ، فیکٹریوں میں کام کرنے والے وہ تمام سفید اور بلیو کالر ملازمین پر مشتمل ہے جن کی اکثریت کرایہ کے مکانات میں رہتی ہے ( بھلے وہ مکانات سرکاری یا پرائیویٹ کالونیز میں کیوں نہ ہوں )۔ انکی ساری عمر ملک و قوم ( اگر کوئی سمجھے) یا اداروں کی ترقی و ترویج میں گزر جاتی ہے لیکن وہ ریٹائر ہونے تک اپنے لئے ایک معمولی سی چھت کا انتظام نہیں کر پاتے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ ملکی ہاؤسنگ کے بڑے ادارے جن میں ڈیفنس، بحریہ وغیرہ ہیں، کیا ایک معمولی ملازم وہاں مکان خریدنے یا بنانے کا سوچ سکتا ہے۔ لیکن یہ طے تھا کہ یہ سفید اور نیلے کالر والے ’ سرمایہ دار‘ ساری زندگی دو کمروں کا ایک فلیٹ یا گھر کے لئے اپنی تگ و دو جاری رکھتے ، وہ اِس سہانے خواب کی مہک کو اپنے بچوں تک پہنچا دیتے اور پھر ساری عمر اسی انتظار میں گزارتے ہوئے اپنی جان خالقِ حقیقی کو سونپ کر آگے نکل جاتے ، لیکن انکے گھر کے خواب صرف خواب کی حد تک رہ جاتے تھے۔ اب اِس حکومتی اقدام سے اس طبقے سے خواب دیکھنے کاحق بھی چھین لیا گیا ہے۔
یہی وہ بیانیہ ہے جس پرراقم نے تمہید عرض کی تھی کہ غیر منصفانہ اور صارفی نظام کی یہی وہ’ خوبی‘ ہے کہ آپ تمام عمر صارف رہیں، پیداوار میں اپنا خون پسینا دان کریں اور صرف دو وقت کی روٹی کے ساتھ اپنے خوابوں کی سہانی دنیا میں رہیں ۔ ملکیت کی حقیقی افادیت سے دور رہیں اور صارفیت کے سرمایہ دارانہ نظام کے کل پرزے بن کر زندگی گزار دیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔