ادب کی محفل کا چراغ، ناصر علی سید
(خیال خاطر احباب پر ایک تعارفی نوٹ)
از، فضل کبیر
خیبر پختون خوا کے معاصر ادبی منظر نامے میں جس فرد کی موجودگی ایک فکری حوالہ بن چکی ہے، وہ ناصر علی سید ہیں۔ ان کی علمی اور تخلیقی شناخت متنوع ہے۔ شاعری، افسانہ، ڈراما، تنقید، کالم اور ادبی مجالس، ہر میدان میں ان کی شرکت ایک خاص وقار کی نمائندگی کرتی ہے۔
ان کی گفتگو میں محض خیالات کی ترتیب نہیں، ایک تہذیبی لب و لہجہ، ایک باطنی روشنی اور دل کی سچائی محسوس ہوتی ہے۔ وہ جہاں بیٹھتے ہیں، وہاں لفظوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔
ان کی تحریری جِہتیں بھی اتنی ہی متوازن اور گہرائی سے بھر پُور ہیں۔ انھوں نے مختلف ادبی شخصیات کی کتابوں پر جو مضامین تحریر کیے ہیں، وہ رسمی تعارف کی صورت نہیں رکھتے۔ ہر تحریر ایک تخلیق کار سے سنجیدہ مکالمہ بن گئی ہے۔ ان کے جملوں میں تجزیے کی روشنی بھی ہے اور جذبے کی حرارت بھی۔
یوسف عزیز زاہد کے افسانوی مجموعے “روشن دان میں اندھیرا” پر لکھتے ہوئے وہ قاری کو ایک خاص طرح کے ادبی تجربے سے ہم کنار کرتے ہیں:
“تمھیں کچھ کچھ اندازہ تو ہو گا کہ تمھاری طرح مجھے بھی غیر روایتی راستوں سے کہانی کی اور سفر کرنا بہت ہانٹ کرتا ہے، مگر تم بسا اوقات کہانی کی اسی ممنوعہ کھونٹ کا رخ بھی کر لیتے ہو، پر چلتے ہوئے دو قدم دور ہی سے پتھر ہو جانے کے امکانات شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر حرام ہے جو تمھیں ذرا بھی ڈر لگتا ہو، شاید اس کی وجہ کہانی سے دوستی کا وہ اسمِ اعظم ہے جو تمھاری ریاضتِ نیم شبی نے تمھیں ودیعت کیا ہوا ہے۔”
یہ جملے کسی تنقیدی مؤقف سے زیادہ ایک جمالیاتی احساس سے جنم لیتے ہیں۔ اسی ذوق کی مثال خالد رؤف کے شعری مجموعے “کانچ کے گل دان” پر لکھی گئی یہ سطر بھی ہے:
“تمھاری شاعری، کہانی ہے ماضی کے رکے ہوئے لمحے کی، خواب سے اپنی جڑوں کی تلاش کا، مستقبل کی کھڑکی سے ماضی کے موسموں سے مکالموں کا، اپنے کانوں میں سرگوشی کا لمس ہے۔”
ادبی تشریح یہاں محسوسات کے ایک لطیف دائرے میں ڈھلتی ہے۔ یہ اسلوب کسی منطقی دلیل کی پابندی میں نہیں جکڑا، بَل کہ وہ جذبے سے چھَن کر نکلی ہوئی بات ہے جس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔
اسی طرح اسلم فیضی کی شاعری پر ان کی رائے ایک اور زاویہ کھولتی ہے:
“سدا کا شائستہ اور مہذب اسلم فیضی اپنی تہذیبی روایات کا امین، کہیں بھی لاؤڈ نہیں ہوتا۔ وہ تو نرم گداز لہجے میں یاد دلاتا ہے کہ کبھی یہاں، انھی گلیوں میں دوسروں پر اپنی خوشیاں نچھاور کرنے کا چلن عام تھا۔ تب بیگانگی اور لاتعلقی کا عِفرِیت یہاں ان محبت کرنے والوں کے قریب آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔”
خیالِ خاطرِ احباب میں ایسی بہت سی تحریریں شامل ہیں جو صرف کسی کتاب کا تجزیہ نہیں کرتیں، بَل کہ ایک تخلیق کار کے تخلیقی مزاج، جذبوں کے تانے بانے اور فکری زمین کو نمایاں کرتی ہیں۔
ہر مضمون ایک نئے ذاتی مکالمے کا آغاز محسوس ہوتا ہے، جہاں ادب کے ساتھ دوستی اور سچائی کی خوش بو نمایاں رہتی ہے۔
ناصر علی سید کی نثر میں زبان کی لطافت اور وقار کے ساتھ ایک ایسی روانی پائی جاتی ہے جو قاری کو بلا رکاوٹ ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ وہ زبان کو بوجھ نہیں بننے دیتے، اسے اپنی فکری ذمے داری کا سہارا بناتے ہیں۔ ان کا ہر جملہ سوچ سے جُڑا ہوتا ہے، اور ہر خیال اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا۔
خیالِ خاطرِ احباب کی تحریریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ناصر علی سید ادب کو زندگی کی تفہیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
وہ ادب کو سماجی شعور، تہذیبی حساسیت اور باطنی صداقت کے ایک نازک امتزاج کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی تنقید جذباتی ردِ عمل سے آزاد اور فکری طور پر متوازن ہے۔ وہ تخلیق کو احترام کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اسے اس کی پوری معنوی وسعت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کتاب نہ صرف تنقیدی بصیرت کی ایک صورت ہے بَل کہ اس میں ایک تہذیبی لہجہ، ایک جمالیاتی نظام اور ایک فکری اخلاقیات بھی کارِ فرما ہیں۔ ناصر علی سید کی تحریر اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ تخلیق اور قاری کے درمیان فاصلہ کم کرتی ہے، ایک ایسا رشتہ قائم کرتی ہے جو زبان سےآگے، دل اور شعور کے درمیان ہوتا ہے۔
