اختر عثمان کا چراغ زار : تبصرہ کتاب از، علی اکبر ناطق

اختر عثمان کا چراغ زار

اختر عثمان کا چراغ زار : تبصرہ کتاب از، علی اکبر ناطق

بُت پرستوں کے لیے بانہیں کُھلی رہتی تھیں
اُن زمانوں میں یہ دَیر و حرم ایسے نہ تھے
(چراغ زار )

یہ ہے اُس عہد پرور شاعر اختر عثمان کی نئی کتاب چراغ زار کا  دیباچہ شعر جس کی قلم رَو میں لفظ دست بستہ  ہُنر آفرینی کی فریاد کرتے ہیں اور وہ اُنھیں جوہرِ تازہ  کی تراش دینے کا فن جانتا ہے۔ اختر عثمان ایک ایسی یاقوت کی بستی کا شاعر ہے جو کبھی خزف و خس کی دریوزہ گری پر آمادہ نہیں ہوتا چاہے اُس راہ میں اُسےبازارِ شہرت کی بخششیں ہی کیوں نہ کی جائیں۔  بے ہنر سے داد لینے کی طرف کبھی مائل نہیں ہوتا اور بے توفیقوں سے رسم وراہ نہیں کرتا کہ اُن کی گرانی اُس کی لطیف طبیعت پر گراں ہے ۔ اختر عثمان کے لفظ کی بندش  احساس کی روشنی میں گُندھ کرروح کا مرقع بنتی ہے ۔ مصرع چُست ایسا کہ سُرمنڈل کے تار بجنے لگیں ، لفظ گراں قدر ایسے کہ ہیرے کی سُبکی پر ترس آئے اور جنسِ تخیل ایسی کہ پرِجبرئیل پرواز سے تھکے مگر بلندئ تخیل پر نہ پہنچے ۔ اختر عثمان کی تمام کتابیں میری نظر سے گزری ہیں اور میں نے اُنھیں دل کی محبت اور روح کی گیرائی سے پڑھا اور ذمہ داری سے اِس نتیجے پر پہنچا کہ وہ عامیوں کے شاعر ہیں ہی نہیں۔

اُن کی لفظ پروری کو وہ سمجھے جو میر و غالب کے شعر کا احاطہ کر چکا ہو اور انیس کے منبرِ معانی کو چھو چکا ہو اور لفظ کی ماہیئت ِ جمال سے واقف ہو ، اختر عثمان نے اِس کتاب میں بھی وہ تمام ہُنر آزمائے جو وہ اپنی سابقہ کتب میں آزما چکے ہیں اور وہ تمام فن اِس کتاب میں سمویا ہے  جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ، بجا طور پر میں اُن  دعاوی کا احترام کرتا ہوں اور معترف ہوں  اور اُن کے لفظوں کی ہیئت ، رعایت ، جنس، قوت اور صنعت گری اور استعارہ سازی کا قائل ہوں ۔ یہ بجا ہے کہ زمانے نے ویسے اُن کی قدر نہیں کی جس کے وہ حق دار تھے مگر زمانے نے توہمیشہ اہلِ ہُنر کی ناقدری ہی کی ہے اور عامیوں ہی کو مسند کا داغ بنایا ہے پھر اِس میں اختر عثمان ہی کا رونا کیا  ۔ گلی گلی میں شعر گوئی کا ڈھنڈورا پینٹنے والے اور مشاعرے کا باجا بجانے والے کیا جانے لفظ کی توقیر کو ، آئیں اِس بزم میں بیٹھیں اور لفظ سے شناسائی پائیں  ۔ یہ کتاب بلاشبہ پڑھنے والی ہے اور میرا خیال یہ ہے کہ جس نے شعر کی حقیقت اور لفظ کی شریعت کو پانا ہے وہ اختر عثمان کی غزلوں کا ضرور مطالعہ کرے صرف اِس کتاب ہی کا نہیں اُس کے سارے کلام کا۔

کچھ شعر اِس کتاب سے:

پھٹے پہ دامنِ یوسف ابھی سلامت ہے
ہُنر کا پاس نہیں حضرتِ زلیخا کو

معاملہ مری آوارگی سے کون رکھے
یہ شہر کیسے رکھے گرد باد صحرا کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرن ہوئے کہ دوسری چاپ کی باس تک نہیں
راہ میں رکھ دیا گیا صورتِ نقشِ پا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینے کا کم از کم تھا یہ معیار کہ تا دفن
اونچا ہونے نہیں دیا نیزہ کبھی سر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہ بہ تہ ہم نے قرینوں سے کیے تیرے سخن
مستعاری نہ تھے ایک ایک جہت اپنی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست ہمیں
عجب نہیں کہ ترے کھیلنے میں کھو جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ایک عمر سے لب دوختہ ہیں ،خوش ہو لیں
کلام ہو چکا اپنا اب آئنے بولیں

بلا کا شور ہے باہر دِلا ! ابھی چپ رہ
ہوا کے ساتھ ہیں پتے ، کواڑ کیا کھولیں

چراغ زار کو راولپنڈی سے رومیل پبلشر نے چھاپا ہے
قیمت اِس کی 400 ہے جس کے آدھے 200 بنتے ہیں
اور لاہور میں یہ کتاب علم و عرفان سے مل سکتی ہے۔