کن خرافات میں امت کھو گئی ہے؟

قرون وسطٰی میں علمی ترقی کا سبب: ایک نظریہ علم، کا حصہ دوئم

author picture
پروفیسر محمد حسین چوہان

کن خرافات میں امت کھو گئی ہے؟

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

سنت القائمہ کے علم کا تعلق تجربی اور سائنسی علوم سے ہے، اس میں فلسفہ سائنس،سیاسیات،معاشیات،اساطیر، دانش و حکمت شامل ہوتے ہیں جس کے حصول کے لئے آپ ﷺ نے بہ نفس نفیس اپنی حیات مبارکہ میں عمل کیا اور صحابہ کو اس کی ترغیب دی۔ آپ نے صرف دور جاہلیہ کے علوم کی تحصیل سے امت کو منع فرمایا جن کی بنیاد توہم پرستی اور جھوٹی روایات پر قائم تھی۔ جن کو جعلی سائنس بھی کہا جاتا ہے، اسلام میں معلومات اور قیاس کو بھی علمی اساس و تصدیقات میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی صحت مندی کا معیار مقرر کیا گیا ہے۔اسلام میں اجتہاد کا مطلب ہی رجعت قہقری اور تضادات کا خاتمہ ہے، اورمروجہ نظریات اور تھیوریوں کی موجودہ حالات کے ساتھ ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں نے کھلے بندوں اپنے عہد میں دوسری اقوام کے علوم سے استفادہ کیا اور انہیں مولانا حضرات کے فتووں کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔اس بنا پر اخلاقیات اور معاملات کے مو ضوعات میں اجتہاد سے کام لینے کا درس دیا گیا۔ عہد حاضر میں کلوننگ،بے بی ٹیسٹ ٹیوب، یا سائنتھٹک گوشت کی تیاری یا ضبط تولید کا مسئلہ ہو سکتا ہے، اجتہاد کا مفہوم علوم و فنون کو معاشرتی تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ کیوں کہ جمود ،تقلید اور ان معاملات میں تقدیس کو قائم رکھنے سے اسلام کی حرکیاتی فکر پر ضرب کاری لگتی ہے۔

ہم نے اسلاف پرستی کا غلط مفہوم اخذ کیا ہم نے ان کی جوں کی توں نقالی کرنے کو وفاداری سمجھا اصل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی طرح ہم بھی روایات شکن بنیں اور علوم وفنون کی نئی طرح ڈالیں۔ کیوں کہ قرون اولیٰ کی بنیادی اور سادہ دانش کے راگ الا پنے سے بہتر ہے کہ اسی فکری روش یعنی علم کی پیاس بجھانے کے لئے جدلیاتی فکر اور سائنسی حکمت کو اپنی معنوی کلچر کا حصہ بنایا جائے کیوں کہ قران و حدیث کی روح سے کسی بھی قسم کے علم کے حاصل کرنے پر پابندی نہیں۔چودہ سو سال پہلے کی اسلامی فکر اپنی دانش میں جدید سائنس اور فلسفے سے بہت قریب معلوم ہوتی ہے اس کا حرکیاتی پہلو جدلیات سے ہم آہنگ ہے، تصور فنا کے بر عکس لفظ رحلت اپنے اندر بڑی معنویت کا حامل ہے۔اس میں جمود پر حرکت وتبدیلی اور رحلت کو تقدم حاصل ہے۔ علمی سیادت اور قیادت کے لئے یہاں فرزانگی کو دیوانگی پرترجیح دی گئی ہے اور علمی اور معنی خیز دیوانگی کی گنجائش نکالی گئی ہے جو سماجی معاملات، اورمسائل کو اپنے فکری حصار میں جگہ دیتی ہے یعنی موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کی نما ئندگی کرتی ہے۔

خالصتاً وجودی اور خانقاہی فلسفہ اپنے اندر کتنے ہی مزے اور سکون کیوں نہ رکھتا ہو اسلامی فکر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے کیوں کہ یہ انسان اور انسان کے مسائل کو اپنے دائرہ فکر میں جگہ نہیں دیتا اور انسان کی توجہ ان مسائل سے ہٹاتا ہے۔انسان کو مرکزیت بخشنے کے بر عکس لا مرکز کرتا ہے۔ظلم نا انصافی اور طاقتور استحصالی قوتوں کو پنپنے اور پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بعض مقا مات پراندرون خانہ ان کے ساتھ اس نے دوستی کا غیر تحریری معائدہ بھی کر رکھا ہوتا ہے۔ جیسے آجکل بڑی بڑی گدیاں اور درگاہیں صنعتوں کا روپ اختیار کر چکی ہیں کیوں کہ مسلم فکر عہد حاضر میں افراط و تفریط کا شکار ہو گئی ہے ایک طرف کٹھ ملائیت اور معنی و دانش سے تہی سیاسی مذہبی جماعتوں کا قیام اور دوسر ی طرف وجودی فلسفے کے علمبرداروں نے اسلامی تصور علم کے آزادانہ حرکیاتی فلسفہ کی ترقی کے عمل کو سپو تاژ کر دیا ہے۔

کسی بھی نظام فکر کو قیادت و سیادت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسائنس اور اخلاقیات کی تمام شعبہ ہائے حیات پر اس کی کار فرمائی ہو اس معاملے میں موجودہ اور رائج الوقت اسلامی فکر وہ تقاضے پورے نہیں کر رہی ہے جس کی بڑی وجہ علوم وفنون کی ترقی اور فروغ سے بھی زیادہ ہمارے تصور علم میں ابہام ہے اور قطعیت کا فقدان ہے۔رونا تو اس بات کا ہے مسلمانوں کے نزدیک علم کا حصول عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور اس میں یہ اتنے ہی بودے ثابت ہوئے ہیں، بہر کیف ایک بات مسلم ہے مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک جو بھی ترقی کی ایک نظریہ علم کے تحت تھی کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے اس کو جہا ں کہیں سے بھی ملے حاصل کرلے اور بہتر علم وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے بالخصوص اور فوری فائدہ کا وہ علم یقینی طورپر تجربی سائنس ہی ہے جسے قوموں کی قیادت و سیادت اور فائدہ منسلک ہوتا ہے۔بارہویں صدی عیسوی تک پیغمبر اسلام کے نظریہ علم جو اپنے اند ر ایک وسیع وسعت کا حامل تھا ،جہاں علم کے دروازے چاروں اطراف سے کھلے تھے اور کسی بھی علم کے حصول کی تخصیص مقرر نہیں تھی، علم کی بنیادی تعریف جو دوسروں کو نفع پہنچائے کی ترغیب دی گئی تھی۔ جو سائنسی بھی تھا اور روحانی بھی،جو انسانی زندگی کے ہر دائرہ کار کا احاطہ کرتا تھا۔

اس بنا پر اسلام کے تصور علم یا نظریہ علم میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں تمام عقلی و تجربی علوم اور نظریات کو بلا جھجھک حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اس کے لئے کسی مخصوص علم کی تحصیل کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بل کہ روحانی اور سائنسی دونوں علوم کی تحصیل کے حصول پر زور دیا گیا ہے اور اگر کہیں کسی علم کے حاصل کرنے سے منع کیا گیا تو وہ دور جہالت کے علوم ہیں جن کا تعلق توہم پرستی،جادو ٹونہ علم نجوم وغیرہ ہیں ۔علوم کے حصول کے لئے اتنے فکری دروازے کھلے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اسلام میں روشن خیالی،وسعت نظری ارادے و عمل کی آزادی کا تصور جو قران نے دیا ہے۔اس کی بنیاد انسان کے ارادے اور عمل پر رکھی گئی ہے۔ارادے اور عمل کی آزادی کا تصور ہر طرح کی غلامی سے انسان کو نجات دلاتا ہے اور اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے نہ کہ تقدیر پرستی کا بہانہ بنا کر عمل سے بیگانہ کرتا ہے۔بارہویں صدی عیسوی تک دنیا پر مسلمانوں کی برتری قرانی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی علمی ترغیبات کا نتیجہ تھا۔


متعلقہ تحریر: ہمارے ہاں علم، تحقیق اور تخلیق کی موت کیسے واقع ہوئی؟ از، ڈاکٹر عرفان شہزاد


علم کے حصول اور ترغیبات کے بارے میں ایسی جاندار انقلابی روح پھونکی گئی تھی جس سے مسلمانوں نے اپنے ذاتی تجربات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے جہاں کہیں بھی علمی خزینہ موجود تھا اٹھا کر لے آئے۔قیادت و سیادت ان کو تجربی و علمی علوم کے ذریعے حاصل ہوئی جو بالخصوص یونانی علوم سے استفادے کی رہین منت تھی۔اور کردار سازی وحسن معاشرت کی تعلیمات اسوہ نبوی سے حاصل ہوئیں۔مگر ان سب کا منبع وماخذ آپ صلعم کی ذات مبارکہ تھی۔صفحہٗ کائنات اور تاریخ عالم میں اتنی جامع شخصیت آج تک پیدا نہیں ہوئی جس کی تعلیمات کے اتنے گہرے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوئے ہوں اور اس کے ماننے والے اس کے عشق کا دم بھرتے ہوں۔ علم کے فروغ میں روشن خیالی وسعت نظری،عقلیت پسندی اور رواداری کا کلچر آپ کے حسن اخلاق کا مرہون منت ہے،جس میں غیر مسلموں اور اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ اعلٰی اخلاقی اقدار کا امین تھا۔بارہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے صرف اکیلے ہو کر علمی ترقی نہیں کی بل کہ غیر مسلموں اور اہل کتاب بھی مسلم حکما اور فلاسفہ کے ساتھ باہم مل کر کام کرتے رہے۔ اس رواداری کا نتیجہ تھا کہ اسپین میں عیسائی علما نے مسلمانوں سے سائنسی و دیگر تمدنی علوم سیکھے اور یورپ کو جدید علوم سے روشناس کرایا اور یورپ پھر ترقی کر کے نشات ثانیہ میں داخل ہوا۔

ساتھ ساتھ عیسائی دور مدرسیت کا خاتمہ ہوا اور یہاں بھی تحقیق و تجربات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔عیسائی علما کو برملا کہنا پڑا کہ عقیدت جہالت کی ماں ہے۔،، مسلمانوں کے علمی قضایا کا طریقہ کا ر شہد کی مکھی کے مشابہ تھا جس کو جہاں کہیں سے بھی پھول کا رس ملتا ہے اٹھا کر لے آتی ہے۔مشاہدہ و تجربہ علمی اساس کی جان تھے،عقلیت اور روشن خیالی مینارہ نور کی حیثیت رکھتے تھے،قیاس و منطق تضادات کے خاتمہ کے ہتھیار تھے،استقرا ،استناج اور استخراج نتائج کی تہہ تک پہنچنے کے ذرائع تھے۔حرف پرستی کے بر عکس معنویت غالب تھی،فرقہ پرستی اور نفاق کو علم دشمنی کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، ملائیت اور مقلدیت شاہراہ علم کے روڑے متصور ہوتے تھے،موروثی خباثت اور جبلی معصیت کواحترام آدمیت کے خلاف جانا جاتا تھا، تقدیر پر ستی اور بے عملی کے بر عکس آزادیٗ عمل و عقل کا مسلک غالب تھا۔یہ حکما اور فلاسفہ کا مذہب تھا اور غرناطہ و بغداد کے علم دوست حکمران ان کی سر پرستی کرتے تھے۔

فقہا نے اسلامی تعلیمات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔لیکن علمی و دینی معاملات میں اختلافات کا سلسلہ خلفائے راشدین کے دور سے شروع ہو چکا تھا۔مگر بعد ازاں سائنسی و علمی علوم کو ترقی کرنے کے لئے ساز گار مواقع بھی مل گئے تھے۔بارہویں صدی عیسوی تک دوسری اقوام پر مسلمانوں کی برتری کے بنیادی اسباب میں ایک بڑا سبب علم نافع یعنی افادی علم تھا جس میں تجربی سائنس اور فلسفہ پیش پیش تھے۔ بارہویں صدی عیسوی کے بعد جہاں ایک طرف اہل یورپ مسلمانوں سے اکتساب کر کے نشات ثانیہ اور روشن خیالی جیسی تحریکات میں داخل ہوئے،دوسری طرف اسلامی اذہان کو فرقہ پرستی،نسلی عصبیت اور عقل دشمنی کی مذہبی اور صوفیانہ تحریکیں لے ڈوبیں۔

روشن خیالی کے بعد یورپ میں آہستہ آہستہ صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ نیوٹن کی میکانیات نے سائنسی مسلک کا درجہ اختیار کیا۔بیکن اور لاک کی تجربیت نے علوم کو ایک نئی جہت بخشی۔کوپر نکس نے نظریہء کائنات پیش کر کے عیسائیت کے صدیوں پرانے نظریہ کو چیلنج کیا۔کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد چکر لگاتی ہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے مادہ و توانائی اور زمان و مکان کی حقیقت واضح کر کے سائنسی انقلاب بپا کیا۔ فرائڈ نے جنس کو تمدنی ترقی کا جذبہ محرکہ قرار دیا۔ جین موروثیت اور ماحول کے انسانی شخصیت پر اثرات پر مشتمل تھیوریوں نے قوموں، اورخاندانوں کے باطل تصورات کو چیلنج کیا۔ حیاتیات میں ڈارون کے نظریہ ارتقا نے تمام جانداروں کو ماسوائے ظاہری ڈھانچے ایک جیسا قرار دیا۔مصنوعی ذہانت فطری ذہانت کے ساتھ بغلگیر ہوگئی۔ریاستی سرحدوں کے اندر فرد بین الاقوامیت کے خواب دیکھنے لگا۔

سوشل سائنسس میں مارکس و اینگلز نے سیاسی و سماجی انقلاب برپا کر کے نئے سیاسی و معاشی تمدن کی بنا رکھی۔تقدیس کی نفی اور تغیر میں اثبات اور خوشحالی کا مژدہ جانفزا سنایا۔ انقلابات اور اصلاحات کے ذریعے بادشاہوں،آمروں،جاگیردار اور اشرافیہ کا خاتمہ کرکے عوامی راج کو یقینی بنایا۔جدید اور ما بعد جدید نظر یات نے علوم کی کایا پلٹ دی۔مگر دوسری طرف عالم اسلام کے علمی قضایا میں شریعت و علم کلام،فرقہ پرستی و تعصبات،ملائیت وتنگ نظری۔تقلید و جمود،سلاطین و سرمایہ دار مافیا کی حکمرانی،لوٹ و مار کی فرا وانی،انسانی خون کی ارزانی،عدم تحفظ کا احساس۔ غربت کے بڑ ھے ہو ئے سائے، مختلف طبقات میں حائل وسیع خلیج کے کناروں کا نظر نہ آنا عالم اسلام کا ایک ایسا نقشہ پیش کرتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ آٹھ صدیوں سے مسلمانوں نے مغربی علوم و فنون اور ان کی طرزحکمرانی سے کچھ سیکھنا گوارہ نہیں کیا، طبعی و سائنسی علوم کی سرپرستی کرنے والی جمہوری حکومتیں اور علم دوست حکمرانوں کی کمی نے کئی صدیوں پر محیط ایک وسیع علمی خلا پیدا کردیا، جس کی سزا عالم اسلام بھگت رہا ہے کیوں کہ ایک اچھی طرز حکمرانی میں ہر طرح کے پھول خود بخوداگ آیا کرتے ہیں۔جس سے عالم اسلام ابھی تک نا آشنا چلا آرہا ہے۔

عالم اسلام کی فکری تنزلی اور زبوں حالی کی بنیادی وجہ وہاں جمہوری اور عوامی حکومتوں کے بر عکس سلاطین اور بدعنوان سرمایہ دار حکومتوں کا قیام ہے۔موروثی اور خاندانی حکومتوں میں جمہوریت،شخصی آزادی،معاشی خوشحالی اور سائنس و فلسفہ جیسے علوم ترقی نہیں کر سکتے۔عدل اجتماعی کا خواب ادھوزیہ علم اپنے اندر کتنی ہی صداقت،کلیت اور انقلاب کا ترجمان کیوں نہ ہو،وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تضادات ابھرنے شروع ہوجاتے ہیں۔جب اس کا ٹکراوٗ زمینی و معاشرتی حقائق اور انسانی نفسیات سے ہوتا ہے تو وہ اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے، اس کے اندر اصلاحات اور مطابقت پذیری قائم کرنی پڑتی ہے، جس سے وہ سماجی حقائق اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہو کر معاشرتی حرکت کا ساتھ دینا شروع کر دیتا ہے،سماجی نظریے اپنی اصل میں مکمل سائنسی نظریوں کے مماثل نہیں ہوتے۔اس لئے کٹڑ پسندی اور کلیت پسندی ان کے لئے خطر ناک ہوتی ہے۔توازن اور اعتدال کے ساتھ نظریات کو سائنسی صداقتوں اور سماجی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے ارتقا اور تسلسل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

مسلم دنیا میں علوم و فنون کی سر پرستی کرنے والی ایسی کوئی بھی حکومت اور حکمران بارہویں صدی عیسوی کے بعد نظر نہیں آتا جو مسلم فکر کو جدید علوم وفنون سے ہم آہنگ کر سکے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تعلیمی درسگاہوں کے لئے بہت کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے،اور درس وتدریس روایتی انداز سے دی جاتی ہے۔ تنقیدی و تجزیاتی طریقہ کار کے بر عکس رٹنے اور زبانی یاد کرنے کا طریقہ عام ہے،جسے سائنس وفلسفے کے فارغ التحصیل بھی گلے میں تعویز لٹکائے پھرتے ہیں۔ حکومتی کرپشن کی وجہ سے غریب تعلیم کے لئے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں قران اور دین و مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ متروک یونانی فلسفہ و منطق، مناظرہ بازی اور فرقہ پرستی کی تعلیم کے ذریعے ان کے اندر سماج دشمن رویے پیدا کیے جاتے ہیں۔

تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور جدید نصاب کی عدم دستیابی سے جب وہ زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔معاشرے میں ان کی ایڈ جسٹمنٹ نہیں ہو سکتی۔ روزگارکے لئے فن و ہنر کی کمی اور بالخصوص انگریزی زبان سے نا آشنائی آڑھے آتی ہے۔ وہ جدید سائنسی تہذیب کی برکات کو حاسدانہ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔انتقام اور عدم برداشت کے جذبات انگڑائیاں لینا شروع کر دیتے ہیں،فرقہ پرستی اور متشددانہ رویوں کو مذہبی سیاسی طالع آزما اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔جس سے معاشرے میں انتشار کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔

اس سارے بگاڑ کی اصل وجہ مقتدر حکمران طبقہ ہوتا ہے جو مدارس میں جدید علوم و فنون کے لئے ان کی سر پرستی نہیں کرتا۔ اگر مدارس کو حکومتیں دیگر اداروں کی طرح فنڈز اور اساتذہ کی فراہمی یقینی بنا دے توناخواندگی ،جہالت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ بنیادی تعلیم کی مفت فراہمی حکومت کی ذمہ داری اور اس کا حصول ہر شہری کا حق ہے۔مدارس میں دوسرے سرکاری سکولوں کی طرح اساتذہ کی تعیناتی سے مدارس کے غریب طلبا کو کار آمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔ فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ بعض مدارس میں فون ،کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں پڑھنے پر پابندی ہے۔

نچلی سطح پر پھیلے ہوئے دینی مدارس کی زبوں حالی تو اپنی جگہ، عالم اسلام کی چار بڑی دینی جامعات قاہرہ یونیورسٹی، ایران کی دینی درس گاہ قُم، سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی اور بر صغیر کا مدرسہ دیوبند کئی صدیوں سے اسلامی علم و فکر کی نمائندگی کر رہی ہیں، مگر ایک بھی سائنس و مذہب میں کوئی تخلیق پیش نہیں کر سکے۔ علم جامد نہیں ہوتا مسلسل ترقی کرتا ہے اور اس میں نئے نئے اضافے ہوتے ہیں، دیگر علوم کے ساتھ موازنہ اور مطابقت پیدا ہوتی ہے، اور جب تک تحقیق اور تخلیق کی فضا ہموار نہ کی جائے، تو صرف درس نظامی، فقہ و قانون کی تعلیم سے قومیں ترقی نہیں کر سکتیں اور سماج تبدیل نہیں ہوتے۔ سائنسی علوم کی تحصیل اور تنقیدی مزاج اور طریقہ کار پیدا کرنے سے علوم و فنون ترقی کرتے ہیں۔

جنوری ۲۰۱۳ کے اکانومسٹ کے میگزین میں عالم اسلام اور سائنس کے عنوان سے جو رپورٹ شائع ہوئی میں بیان کیا گیا۔ ایک عرب ساٹھ کروڑمسلمانوں کی آبادی میں اگر سترہ عرب ممالک کا ہارورڈ یونیورسٹی سے موازنہ کیا جائے تو ہارورڈ یونیورسٹی میں سائنس پر شائع پیپرز کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے مقابلے میں نوبل پرائز حاصل کرنے کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کل عرصہ میں دو مسلمان سائنسدانوں نے بالترتیب کیمسٹری اور فزکس میں نوبل پرائز حاصل کئے اور وہ بھی اپنے ملکوں کا ناسازگار ماحول دیکھ کر مغربی ممالک میں آباد ہو گئے۔ ۵۷ اسلامی ممالک نے نے تعلیم و تحقیق پر 0.8 بجٹ خرچ کیا، جب کہ امریکہ اس مد میں اکیلے2.9 اوراسرائیل 4.4 فیصد خرچ کرتا ہے۔کچھ اسلامی ممالک نے بھی تحقیقی کاموں پر اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے،قطر نیسائنسی تحقیقی شعبوں میں 2.8 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ترکی اس مد میں دس فیصد اضافہ کر رہا ہے جس سے اس کی سائنسی تحقیق پر مشتمل پیپرز کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ کر بائیس ہزار ہو گئی ہے۔ایران میں بھی انہی پیپرز کی تعداد تیرہ سو سے بڑھ کر پندرہ سو ہو گئی ہے۔سعودی عرب کی کنگ عبداللہ سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا بجٹ بیس بلین ڈالر زکا ہے جو امریکہ کے لئے بھی قابل رشک ہے، مگر وہاں حکومت سائنسی و تحقیقی کتب کے بر عکس معجزے اور کرامات کے متعلقہ کتابوں کی ترویج واشاعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی جس میں حالیہ منشیات فروشی کا دھندہ زوروں پر ہے، کے بارے میں بتایا گیا کہ وہاں تین مساجد ہیں اور چوتھی تکمیل کے مراحل میں ہے،مگر علم وسائنس پر مشتمل ایک بھی دکان موجود نہیں ہے۔ سائنسی و تحقیقی کاموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، اور جو تعلیم دینے کا انداز ہے وہ رٹے اور زبانی یاد کرنے کا ہے،تجزیاتی و تنقیدی نہیں ہے۔ علمی پسماندگی اور سائنسی ترقی کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ حکومتی کرپشن ہے ،حکمرانوں کی ترجیحات میں ذاتی فائدے کی اسکیمں، سیاسی مفادات حاصل کرنے کے ترقیاتی پروگرام اور بیورو کریسی پر اٹھنے والے اخراجات ہیں،جسکی وجہ سائنسی تحقیق کے لئے ناکافی بجٹ ملتا ہے اور علمی ترقی نہیں ہو سکتی۔

اقبال نے مسلمانوں کی فکری تنزلی کا کیا خوب نقشہ کھنچا ہے

تمدن، تصوف، شریعت، کلام —- بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں‌کھو گئی —- یہ امت خرافات میں کھو گئی