ہمارے ہاں علم ، تحقیق اور تخلیق کی موت کیسے واقع ہوئی ؟

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

ہمارے ہاں علم ، تحقیق اور تخلیق کی موت کیسے واقع ہوئی ؟

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

کیا وجہ سے مغربی ممالک میں پے در پے، ایک سے بڑھ کر ایک تخلیقیت سے بھری ذہانتیں پیدا ہو رہی ہیں، اور ہمارے ہاں دین و مذھب سے لے کر سائنسز اور سوشل سائنسز، ہر سطح پر اوسط درجے کا ذہن دکھائی دیتا ہے۔ عالمی سطح کی کوئی نئی سوچ، ایجاد، دریافت کچھ بھی ہمارے نام پر نہیں۔ جب کہ یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ  قدرت ہر خطے میں  ذہانتیں برابر تقسیم کرتی ہے، ہمارے ہاں خداداد ذہانتوں کے باوجود تحقیق و تخلیق کے سوتے خشک کیوں ہوئے؟ ہمارے ہاں غلطی کہاں ہو رہی ہے؟

اس صورتِ حال کی بنیادی وجہ تقلیدِ محض پر مبنی ہمارا نظامِ تعلیم اور سماجی اقدار ہیں۔ خالص تحقیقی مزاج کی آبیاری کسی بھی سطح پر کہیں بھی موجود نہیں۔ تحقیقی اور تخلیقی سوالات کی بیخ کنی کا سلسلہ بچپن میں گھر سےشروع ہوتا ہے، اور سکول، مدرسہ، یونیورسٹی اور دینی جامعہ ہر جگہ تقریبًا ایک جیسی شدت سے آزاد سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ تحقیق کی اعلی سطحی تعلیم کے  طلبہ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اپنی تحقیق میں کوئی نئی بات پیش نہ کریں، ورنہ دفاع کرنا دشوار ہو جائے گا اور ڈگری ملنے میں مشکلات پیدا کر دی جائیں گی۔ راقم نے اسی وجہ سے اپنا ڈاکٹریٹ (اسلامیات) کا مقالہ  انگریزی میں لکھا تھا کہ انگریزی جاننے والے معائنہ کار شاید اتنے تنگ نظر نہ ہوں۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ کئی برسوں سے پاکستانی طلبہ، او لیول کے امتحانات میں عالمی سطح پر ٹاپ کر رہے ہیں،  اس  میں کئی عالمی ریکارڈز اپنے نام کروا چکے ہیں۔ لیکن پھر علم کی دنیا میں وہ نجانے کہاں گم ہو جاتے ہیں، علم کے کسی میدان میں کسی نئی تھیوری، ایجاد، دریافت، کسی نئے خیال کی پیش کش میں ان کا نام کہیں نظر نہیں آتا، بلکہ گزشتہ 60، 70 سالوں میں کوئی ایک بھی عالمی معیار کی تحقیق و تخلیق خالص پاکستانی ذہن سے نہیں پھوٹی، جو ایک دو نام ہیں بھی، تو انہیں مذھبی شناخت کے  خوف  سے اپنانے  سے انکار کر دیا گیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی نظام تعلیم رٹے پر مبنی تو ہے ہی، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ او لیول جیسے کانسپٹ بیسڈ نظامِ تعلیم میں بھی پاکستانی تعلیمی اداروں نے ممکنہ حد تک رٹا متعارف کروادیا ہے، جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے پاکستانی طلبہ عالمی سطح پر کئی سالوں سے ٹاپ کر رہے ہیں، لیکن کسی اصلی تخلیق و تحقیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

ہمارے ہاں سوشل سائنسز تو رہے ایک طرف، خالص سائنسی مضامین میں بھی عملی کام بھی عمومًا تصوراتی انداز میں کرایا جاتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ پروجیکڑز پر دکھا دیا جاتا ہے۔ طلبہ سے خود عملی کام کرانے کا رحجان بہت ہی کم ہے، سارا زور تھیوریز اور ان کی وضاحت پر مبنی نوٹس تیار کرنے اور یاد کرانے پر دیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے طلبہ کے ٹاپ کرنے کی وجہ ان کی تخلیقی ذہانت نہیں، بلکہ پرچے اچھے انداز میں کرنے کی صلاحیت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں لکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔

او لیول کے ایسے  پاکستانی طلبہ جنھوں نےکچھ عرصہ بیرون ملک، امریکہ اور انگلینڈ وغیرہ میں پڑھا اور خاندانی وجوہات کی بنا پر باقی تعلیم پاکستان میں مکمل کرنے آ جاتے ہیں، ہمارے طریقہ تدریس پر حیرت اور کوفت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں اتنے طویل لیکچر کیوں دیئے جاتے ہیں،  لکھنے کا کام بہت زیادہ دیا جاتا ہے، جب کہ یورپ وغیرہ میں اس سطح پر لیکچر عموما پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا، اور ہر لیکچر کے ساتھ کچھ عملی، بصری کام بھی ضرور کرایا جاتا ہے۔

اس لنک پر مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں

یہی وجہ ہے کہ آپ کو اچھا سے اچھا، قابل پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤنٹنٹ، فلسفے کا حافظ فلسفی، تایخ کا حافظ مورخ، تعلیمی تھیوریز کا حافظ ماہر تعلیم اور ماہرِعمرانیات تو مل جائے گا، لیکن موجد نہیں ملے گا، آزاد مفکر نہیں ملے گا، کوئی ایک بھی ایسا نہیں مل پائے گا جس نے خالصتا کوئی نئی ایجاد کی ہو، کوئی بالکل نیا تجربہ کیا ہو، یا سائنس و بشریات میں کوئی نئی تھیوری یا نظریہ دیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ کسی ایجاد کو موڈیفائی کر دیا ہوگا، یا کسی نظریے پر حاشیہ لکھ دیا ہوگا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی کو ہمارے ہاں تحقیق کی معراج قرار دیا جاتا ہے، اور اسی پر مقامی قسم کے آسکر بھی مل جاتے ہیں۔

دینی علوم میں تو تقلید کا رحجان واجباتِ دین میں شامل ہے۔ راقم ایک دینی تحقیقی مجلے کی ادارت بھی کرتا رہا ہے، جس قسم کے مضامین چھپنے آتے ہیں، مت پوچھئے، یعنی اس سطح پر بھی ‘نماز کے فوائد’ جیسا مضمون ایک سینیئر محقق کی طرف سے موصول ہو سکتا ہے!

جس معاشرے کے دینی علمی مزاج کا یہ عالم ہو کہ اگر کوئی اپنی تحقیق کے نتیجے میں کسی منفرد رائے کو پہنچ جائے، تو اسے ‘تفرد’ جیسا حقارت آمیز اور نفرت انگیز نام دے کر اس سے استفادہ کرنے سے اجتناب کرایا جاتا ہو، وہاں کتنے حوصلہ مند ہوں گے کہ جو پہلے تحقیق کا جوکھم برداشت کریں، اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہوانے والے کسی ‘تفرد’ پر ساری زندگی طعنے بھی سہتے رہیں۔ دماغ کے اس آزادانہ استعمال پر اداروں میں ملازمت کے دروازے تک بند کر دیے جاتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ اگر کسی ادارے میں اپنے طلبہ کو آزادیِ فکر کی راہ دکھانے کی جرات کر ہی ڈالی جائے، جو اوّل تو انتظامیہ کی نگرانی کی وجہ سے عمومًا ممکن ہی نہیں ہوتی، تو بعد ازاں طلبہ کو یہ تلقین بھی کرنی پڑتی ہے کہ امتحانات میں کوئی اپنی آزادانہ رائے نہ لکھ دینا، وہی لکھنا جو نصاب کی کتاب میں لکھا ہوا ہے، ورنہ فیل تو کر ہی دیے جاؤ گے، غدار یا گمراہ بھی قرار پاؤ گے۔

سید سلیمان ندوی جیسے عالم، جنھوں نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں کچھ منفرد آراء اپنائی تھیں، عمر کے آخری دور میں جب تصوف کی راہ سے حضرت اشرف علی تھانوی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے، تو ایک اجمالی اعلان فرمایا کہ میں اپنے تمام تفردات سے برات کا اعلان کرتا ہوں۔ ہمیں کوئی افسوس نہ ہوتا اگر وہ اپنے تمام تفردات سے برات اپنی مزید تحقیق کی روشنی میں کرتے اور اپنے رجوع کے دلائل بھی بتاتے، لیکن یہ اجمالی بیان، کیا علم و تحقیق کی شکست کا اعلان نہیں، جو شائد آخرت کی نجات کے لیے ضروری سمجھ کر کیا گیا؟ علم کے مسند نشین بڑوں کا جب ایسا رویہ ہو گا تو علم، تحقیق اور تخلیق نے کیا پنپنا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ خالص تخلیقی و تحقیی ذہن سے ایک گونا خوف اور احتراز کا رویہ پایا جاتا ہے، ایسے شخص کو کوئی اس وجہ سے  ملازمت نہیں دیتا ہے یہ دوسروں  کو اپنے سے پیچھے چھوڑ جائے گا، یا اپنے پچھے لگا لے گا، پھر ہمیں کون پوچھے گا۔

ہمارے سینئر رفیق کار، برن ہال کالج کے سابق پرنسپل، سلیم صاحب، ایک پر حکمت ذہن کے مالک ہیں، کہا کرتے ہیں کہ ہمارے ادارے غلام پیدا کرتے ہیں، طلبہ کو ‘سن لو اور مان لو’ کے طرزِ تعلیم کے ذریعے، غلامی کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، نیز، محکمے کا سربراہ اپنے ملازمین سے تابع داری ہی نہیں، بلکہ غلامی کی توقع کرتا ہے۔ ہمارےایک فوجی پرنسپل تو میری مناسب سی داڑھی کا سائز تک اپنی پسند کے مطابق کرانا چاہتے تھے۔ اپنے طلبہ اور ماتحتوں میں غلامی کی خو پیدا کرنے کی یہ خواہش کیوں ہے، اس کی وجہ ہمارے سینئر رفیق، سلیم صاحب  یہ بتاتے تھے کہ غلام قومیں جب آزاد ہوتی ہیں تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہیں جو ان کے سابقہ آقا ان کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ غلامی کی یہ وراثت ہم چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا مقولہ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہے کہ ‘غلام، بد ترین آقا ہوتا ہے’۔

اس کا انکار نہیں کہ ذہانتیں یہاں بھی پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی بے دردی سے ان کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بڑی مشکل سے پیدا ہونے والا دیدہ ور، بڑی مشکل سے کہیں سلامت بچ پاتا ہے۔

خدا ہر بار ہر بچے کو آزاد ذہن دے کر دنیا میں بھیجتا ہے، لیکن یہ خدا کی تخلیق کے دشمن، ہر بچے کی تخلیقیت کو جِلا پانے سے پہلے ہی دفن کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا سے مقابلہ پر کھڑے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ دین و مذھب، سائنس و سوشل سائنس کے فرعون ہیں جو کسی تخیلق کار موسیٰ کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی گدّی، ان کی کرسی، ان کی روٹین اور ان کی تقلیدی تحقیق کی جامد سلطنت میں کوئی اضطراب پیدا نہ ہونے پائے۔ اس لیے حیرت نہیں ہونی چاہیے جب پاکستان مین آنے والے زلزلوں کو امریکی سائنسی تجربات کیا شاخسانہ قرار دینے والے افسانوں کو پذیرائی ملتی ہے۔

اور اگر ان کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کوئی آزاد فکر موسیٰ بچ نکلے تو یہ لوگ اس کے لیے حالات اتنے تنگ کر دیتے ہیں کہ اسے حضرت موسیٰؑ ہی کی طرح چھپ چھپا کے جلا وطن ہو جانا پڑتا ہے، ورنہ جان  کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ہر پیدا ہوجانے والا موسیٰ، اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ جلا وطنی سے واپس اپنے وطن کو  لوٹ سکے اور اپنے لوگوں کو جہالت کی ان تگنائیوں اور شکنجوں سے آزاد کرا سکے جن میں جہالت و تقلید کے فرعونوں نے انہں  جکڑ رکھا ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں مثبت تبدیلی حکومتی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ہے، لیکن حکومت کا اس صورتِ حال میں بہتری لانے کا کبھی کوئی ارادہ رہا ہی نہیں ہے۔ حکومت جمہوری ہو یا فوجی، تعلیم کے بارے میں ان سب کا رویہ ایک جیسا رہا ہے۔ تعلیم سے یہ گریز، دراصل اس شعور کی راہ روکنے کی کوشش ہے جو کسی قسم کے استبداد اور استحصال کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا، جو آسانی سے بے وقوف بنایا نہیں جا سکتا۔

جب تک یہ صورتِ حال برقرار ہے، ہمیں دوسروں کی اترن ہی پہننا ہوگی، تحقیق و تخلیق کی دولت اور اس کے ثمرات آزاد ذہن قوموں کو ملا کرتے ہیں، غلاموں کو نہیں۔

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شاہبازی