مذہبی روحانی محاذ کی منڈی

مذہبی روحانی محاذ کی منڈی
علامتی تصویر

مذہبی روحانی محاذ کی منڈی

(ڈاکٹر شاہ محمد مری)

ہم آج بھی اُس اولین بشر کی طرح ہیں، جس نے پہلے پہل چیزوں کو متحرک و متبدل دیکھا تو خوف کی حد تک حیرا ن ہوا تھا۔ اسے ان متحرک چیزوں کی قوتِ متحرکہ داخلی کے بجائے خارجی لگی، مافوق الفطرت۔ بادل کی گرج، زلزلوں کے جھٹکے اور بارش کا برسنا عام انسانی تفہیم اور قوت سے تو باہر تھے ناں! لہٰذا اِن مظاہر کی مادی تشریح کو ناممکن دیکھ کر اُن کی پرستش شروع کر دی۔ یہیں پہ تو دیوی دیوتاؤں کی ایجاد ہوئی۔ یہ بارش کا دیوتا ہے، یہ آگ کی دیوی ہے، یہ زمین کا یہ سورج کا، یہ اولاد کا، یہ شکار کا۔ ایسا دیوتا جو ڈائنو سار سے بھی قوی تر ہو اور رعد و گرج سے بھی طاقت ور۔

یہاں کچھ لوگ زندگی کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے سے کترانے، ڈرنے لگے ۔ اُس سے گتھم ہونے کے مقابلے میں زندگی کو پشت دکھانا زیادہ آسان تھا۔ محنت و جرات کی کمی شکست خوردگی کی طرف لے گئی۔ مقابلہ خارج، تو پھر دنیا کی مسرتوں، دولتوں ہی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ دنیا اور زندگی دونوں کو جھوٹا قرار دیاگیا۔ بس،’’دیوتا سچا ہے، دیوتا ہی محبت وعبا دت کے لائق ہے، اس لیے جو لوگ دنیا کے سکھ سیمٹنے میں لگ جاتے ہیں اور ہروقت دھن اور دولت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں اُن کو دیوتا کی دولت کبھی نہیں ملتی اورنہ اُن کی مکتی اور نجات ہوسکتی ہے۔‘‘

اور جب دیوتا اور دیوی وجود میں آگئے تو پھر ان میں انسانی عادتیں گھڑلی گئیں۔ کس چیز سے دیوتا خوش ہوتا ہے اور کیا بات اسے ناراض کرتی ہے۔ دیوتا کو راضی رکھنے کی خاص رسومات بنتی گئیں۔ اِن رسومات میں بہت زیادہ منہمک انسان کو اعلیٰ اور اشرف جانا گیا اور یوں اِن دیویوں، دیوتاؤں کو رام کرنے والے خصوصی افراد وجود میں آئے، اِن دیوتاؤں کے محبوب و چہیتے لوگ جو کسی بھی حاجتمند کی حاجت سفارش کرکے پوری کرواسکتے تھے۔ یعنی دیویوں دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ اُن کے اِن برگزیدہ و پسندیدہ لوگوں کی بھی پرستش و عبادت ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔ یوں مجاور، مخدوم، سجادہ نشین، خلیفہ، گدی نشین، بھگت، سوامی وغیرہ کے القابات ایجاد ہوئے۔ انہی کو خوش کرنے میں دیوتا کی خوشی گھڑ لی گئی۔۔۔۔۔ اورانہی برگزیدگان نے آگے جاکر حکمرانوں کا روپ دھارنا تھا۔ پھر یہی آگے آئے دولت و طاقت کے ساتھ، اور دیوی دیوتا محض اُن کی کمپنی ا ور کارپو ریٹ رہ گئے۔

مگر بہ یک وقت کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ان مظاہر کی منطقی تشریح کرنا چاہا۔ اُن سے خوفزدہ ہو نے کے بجائے اُن میں دلچسپی لی، انہیں کھوجا کھودا، اور ان کی اصل کو تلاش کرکے دنیا کو بتا دیا۔ ادھر ہی سے فلسفہ کی سائنس پنپنا شروع ہوئی۔

دونوں اطراف ترقیاں ہوتی رہیں۔ اُدھر مزید اساطیرعبادات و مندر میں بدلتے گئے، حیات بعد از مرگ کا نظریہ بنا اور اِدھر مزید ایجادات سامنے آنے لگیں، اندھی تقلید کی مخالفت ہوئی۔ کسی نے کائنات میں زمین کی مرکزی حیثیت کو للکارا، کسی نے سورج کو خدا قرار دینے کے بجائے اُسے گیسوں کا مجموعہ قرار دیا۔ اس ’’جرم‘‘پہ کسی کو زندہ جلا یا گیا اورکسی کو زہر پینے کی سزا دی گئی۔

یہ کشمکش ہر جگہ چلتی رہی ۔مگر سب سے منظم و ریکارڈ شدہ طور پر یونان میں۔ روم میں تو طویل و تباہ کن آمریت نے ہر بحث اور ہر کشمکش کو بند کردیا اور یہ جھگڑا یورپ سے باہر چلا گیا۔ بوعلی سینا نے پہلا حملہ ہی بائبل پر کیا یہ کہہ کر کہ اسے تو جاہلوں کے لئے قصے کہانیوں سے بھردیا گیا ہے۔ چرچ اور پادری کی حکمرانی پر پہلا حملہ میکاولی نے کیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر رینیساں ہوا جس میں دلیل و سائنس نے ڈوگما، راسخیت اور جنونیت پر جوابی حملہ کیا اور بنی نوع انسان کے لیے سوچ کی آزادی حاصل کی ۔

چرچ سے ہٹ کر آزادانہ طور پر سچ کی تلاش کرنے کی جنگ کے کمانڈر وں میں سے کچھ کے نام یہ تھے: دانتے ، پٹرارچ ، ڈاونچی ، اراسمس، لوتھر، ویچو، کوپرنیکس،گلیلیو، نیوٹن، بیکن اور جیرارڈ برونو۔ (آخرالذکر کو اس کے خیالات پہ پادریوں نے زندہ جلا دیا)۔ ایسی کشمکش سے عبارت ہے انسانی تاریخ۔ اور سوچ و فکر کے یہی دونوں دھارے چلتے آئے۔ آج انسانوں کی وسیع ترین اکثریت انہی دو مکتب ہائے فکر میں سے ایک سے وابستہ ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ساری ترقی کو اِن دونوں نے خوب خوب استعمال کیا، بالادست نے زیادہ اور کمزور نے ذرا کم ۔

ایک تیسر افریق ایسا وجود میں آگیا جسے ’’ یو ٹوپیائی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ گروہ تھا تو عقیدہ پرست، مگر وہ انسان اور انسانی زندگی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ بنی آدم کی خوشحالی وخوشی کی تمنا کرتا ہوا۔ یہ گروہ بادشاہت کو پسند نہیں کرتاتھا، جاگیر داریت کو اچھا نہ سمجھتا تھا۔ دنیا میں بالعموم اور مشرق میں بالخصوص ایک تماشا یہ کیا گیا ہے کہ یہاں بڑے بڑے مصلحوں، انقلابیوں اور خیر و آشتی کے پیامبر انسانوں کو پیرو مرشد، سینٹ اور مہاتما بنا کر ان کی پوجا شروع کرائی جاتی ہے۔ اور دیکھتے دیکھتے موجود و مروج کا باغی، اُسی موجود و مروج کے پیشواؤں میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ یوں اُس کے کارناموں، تعلیمات اور بشر دوستی کے رواں دواں جوہر کوعقیدہ و پرستش کے چوغے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اُس کے نام کے ترانے، نعرے، ورد، جھنڈے، جلوس اور رسومات گھڑ لیے جاتے ہیں۔

آئیڈ یلزم چیزوں کو تصورکرتا ہے، روحوں کے وجود کو فرض کرتاہے ،ہر چیز کو تصورمیں کامل تصور کرتاہے ۔مگر جس بھی چیز کو فرض کرتاہے ثبوت پیش نہیں کرتا ۔ سائنسی وضاحت نہیں دیتا ۔ لوگوں نے اُن تقدیر پرست بزرگوں کی پوجا شروع کر دی۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی گذشتہ چار صدیوں سے ہمارے پورے منطقے کا ایسا ہی مقبول ترین ولی رہا ہے۔ میں اُسے فلاسفر، دانشور اور شاعر تو بعد میں کہوں گا جب میں اپنی بات کررہا ہوں گا۔ اب تو دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں شاہ کا مقام کیا ہے۔ لوگوں کی نظر میں وہ معجزات بھرا ولی ہے۔ اور ہمارے لوگ خود کیا ہیں؟ ہمارے عوام الناس شعور کی کس سطح پر ہیں؟ لوگ تو تقدیر پرستی کے پروردہ ہیں۔ لوگ عجوبہ اور وقوعہ پرست ہیں۔ لوگ گلی بازار میں بُت شکنیاں کرتے پھرنے کی شوبازیاں کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے دلوں میں تعصبات و چھوٹے پن کی بت سازی کرکے اس کی پرستش کرتے رہتے ہیں۔ ہر سماج میں کچھ لوگوں نے مختلف ناموں جھنڈوں بینروں سے انسان کو قتل کرنے کے جتھے بنا رکھے ہیں۔ وہ اِن جتھوں کی سربراہی کے لئے گزرے ہوئے اچھے اور محترم ناموں کواستعمال کردیتے ہیں۔ اس طرح اُن کے لوٹ مار حتیٰ کہ قتل و غارت کو جواز کا ایک موٹا پردہ مل جاتا ہے۔

پھر وقت آیا کہ ہمارے شاہ سائیں کو پنڈتوں، سجادہ نشینوں نے ایک ایسے درویش کے روپ میں پیش کیا، جوایک طنبورہ گود میں لیے تصورِ جاناں کیے بیٹھا رہتا ہے ۔ ہر لمحہ یادِ یار میں مشغول ہے ۔ دنیا ومافیا سے بے خبر ہے ، گر دوپیش سے اُسے کچھ خا ص سروکار نہیں۔ ضیاءالحق والے زمانے میں بس یہ فرق آیا کہ اس مشہورِ زمانہ پورٹریٹ میں اُس کے ہاتھ سے طنبورہ چھین کر، وہاں تسبیح دے دی گئی۔ یادِ یار کو یا دِ الہٰی میں بدل دیاگیا۔ باقی بیانیہ وہی رہا۔

بلاشبہ، تقدیر پرستی (آئیڈیلزم) دیگر دانش وروں کی طرح شاہ کا بھی اوڑھنا بچھونا رہی۔ شاہ کے آئیڈیلزم کی وجوہات مادی، معاشی، سماجی تھیں کہ ایک پسماندہ اور خود کفیل دیہی معاشرے میں ایکٹو عملی مزاحمت کی صورتحال موجود نہ تھی اورشاعری و موسیقی کا ملاپ معروض کی ضرورت تھی۔ مگر شاہ نے عوامی معاملات کو جس بھرپور اور موثر انداز میں چھیڑا اُس کا ثانی پہلے موجود نہ تھا۔ اپنے کلاسیک کی زمین پر مضبوطی سے پاؤں جمائے شاہ نے اپنے عوام سے مکمل وابستگی رکھی۔ کبھی فلسفیانہ اور کبھی سیدھا سیدھا انداز اپناتے ہوئے۔

شاہ نے اہم ترین عصری موضوعات کا سامنا کیا۔ وہ بادشاہ ، فیوڈل، ملا اور پیر سے فاصلہ رکھ کر اپنی فکرکی آبیاری کرتا رہا۔ اور گو کہ بعد کے ہر دربار و سرکار نے اُس کے افکار کو اپنا کانٹے دار لگام پہنانے کی کوشش کی مگر شاہ کو عام اور غریب عوام کے دلوں سے نکالا نہ جاسکا ۔

ذرا سا غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اِن بڑے بڑے انسانوں کی تعلیمات تو ساری کی ساری انسان دوستی کی تھیں۔ وہ عقیدہ بن ہی نہیں سکتی تھیں۔ مگر اس کے باوجود پیروں اور جاگیرداروں نے مزے مزے سے sufi shrines cult کھڑا کردیا ۔ اور ہمارے ان بہت بڑے انسانوں کو نرینہ اولاد عطا کرنے، پرائی عورت کورام کرنے، ڈاکہ میں برکت ڈالنے، فلم کو کامیاب بنانے، اور مخالف کو زیر کرنے کے کام پر لگا دیا۔ کہیں یہ راسخ مذہب بنا، کہیں ذرا مبہم سا عقیدہ اور کہیں محض ایک فوک مکتبہ فکر ہی رہا۔

پاکستان میں بالخصوص پچھلے بیس پچیس برسوں میں ابھرآنے والی مڈل، اور اپر مڈل کلاس واضح اکثریت میں سرکار کے ہاتھ میں ہے اور مطلق رائٹسٹ ہے۔ یہ مطلق رائٹسٹ اب جج، سیکرٹری، ڈی جی اور جنرل کے عہدوں تک پہنچ چکا ہے۔ وہ اپنے دکھوں دردوں کو اپنے مخصوص طبقاتی پس منظر میں ایک رومانوی اور شارٹ کٹ انداز میں فریم کرتی ہے اوران کے رومانوی انداز کے حل چاہتی ہے۔

اُدھر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستان میں ہر حکومت کو یہ مسئلہ پیش ہوا کہ پاکستان کی قیادت میں ابھرنے، منظم ہونے اور پھر بہت طاقتور ہونے والے دہشت گرد گروہوں کو کس طرح قابو کیا جائے۔ تب بالائی طبقات کے کچھ دانشوروں کو سوجھا کہ گویا بنیاد پرستی کے خلاف لڑنے کے لئے ایک نیا محاذ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، ایک مذہبی روحانی محاذ۔۔۔۔۔۔ جسے وہ ’’مِسٹسزم ‘‘ یا’’ صوفی گیری‘‘ کہتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ہمارے خطے کے بشر دوست فلاسفر وں، مصلحوں اور بزرگوں کی تعلیمات کو cult اور عقیدہ بنایا جائے، اُس عقیدے کو صوفی گیری کا نام دیا جائے اور اُس عقیدے کو دوسرے عقیدے یعنی وہابی عقید ے سے لڑوا دیا جائے۔ اس تصور کو این جی اوز نے فوراً اچک لیا اور پھر ڈونروں والے مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نے اس کی منظوری دے دی۔


Courtesy:haalhawal.com