اتائی قیادت اور جذبانی ووٹر

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

اتائی قیادت اور جذبانی ووٹر

از، معصوم رضوی

جب کبھی عظمت، وقار، ترقی و خوشحالی، تہذیب و وضع داری کا ذکر ہو تو ہم فوراً ماضی کا گھونگھٹ اوڑھ  لیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صیغۂ حال کے دامن میں ایسی کوئی شے موجود نہیں جس پر فخر کیا جا سکے۔ یقین جانیے بعض اوقات تو یوں لگتا ہے ہم سب اتائی ہیں، معزز سیاست دانوں اور قابل احترام اداروں سمیت اجتماعی ذھنی بانجھ پن اور خود فریبی کا شکار ہیں۔ نہ لیفٹسٹ، لیفٹسٹ رہا ہے، نہ رائٹسٹ، رائٹسٹ، نہ عالم، عالم ہے نہ دانش ور، دانش ور،  بس سب افکار و نظریات کے نام پر منافقت کے زرہ بکتر پہنے خود غرضی کی تلواروں سے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں کہیں پڑھ رہا تھا کوٹ مومن انٹر چینج کے قریبی گاؤں کوٹ عمرانہ کا تذکرہ تھا جہاں 150 افراد ایڈز کا شکار ہیں جبکہ 200 اسی مرض کے باعث مر چکے ہیں۔ یہ خوف ناک مرض ایک کل وقتی نائی اور جزو وقتی اتائی ڈاکٹر کے باعث پھیلا جو کہ خود ایڈز میں مبتلا تھا اور ڈیڑھ سال پہلے دنیا سے کوچ کر چکا ہے۔ آج اس کے انجکشن اور استرے کی زد میں آنے والے تمام افراد اس موذی مرض کا شکار ہیں۔

جانے کیوں مجھے لگا جیسے کوٹ عمرانہ اور پاکستان ایک جیسی مصیبت کا شکار ہیں۔ آج جانے کتنے پاکستانی ذھنی ایڈز کا شکار ہیں۔ فرقہ واریت، مذھبی تعصب، انتہا پسندی، مسلکی منافرت، امیرالمومنین جنرل ضیاالحق کی میراث ہیں۔ مذھبی جنونیت کے خلاف ضرب عضب جاری رہا اور رد الفساد بھی جاری ہے۔ مگر مرض ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ  دنیا کسی طور ہم پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ سو نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں جس کے ہاتھ میں کشکول ہے۔

کوٹ عمرانہ کے اتائی سے پھیلنے والا جسمانی ایڈز تو شاید چند سالوں اور چند جانوں کے بعد ختم ہو جائے گا مگر امیرالمومنین کا عطا کردہ ذھنی ایڈز آج لگ بھگ 40 سال بعد بھی اختتام کی منزل سے کوسوں دور ہے۔

افغان جہاد میں دامے درمے سخنے کودنے کی پالیسی جنرل ضیاالحق کی دین تھی تو پھر یوٹرن لے کر افغان مجاہدین کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنے اور اڈوں کو تباہ کرنے کی پالیسی جنرل پرویز مشرف کی پہچان بنی۔ دونوں پالیسیوں کے درمیان 6 ہزار سے زائد فوجی شہادتوں سمیت 75 ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے، ریاست کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے یہ سوال پوچھنا بھی سنگین ترین جرم تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ روشن خیالی، روا داری سے محروم ہو کر فرقہ وارانہ جہنم بن گیا۔ 1979 کے افغان جہاد کے بعد ہر جانب سے ڈالرز، ریال اور یوروز کی برسات، فاٹا میں دنیا بھر کے مجاہدین کا میلہ، ملک بھر میں مدارس اور برادران افغان مہاجرین کی بہار، یقین جانیے پاکستانی معاشرے کو کلاشنکوف اور ہیروئن کی بہتات سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا مسلکی اور فرقہ وارانہ منافرت کے باعث پہنچا ہے مگر اس بارے میں سوال اٹھانا بھی گناہ ہے۔  آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ یہ جنگ ہماری تھی یا نہیں، ایسے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مجاہدانہ اعتراف کہ دنیا بھر میں وہاب ازم پھیلانے کے لیے فنڈز مغرب کی درخواست پر دیے گئے۔

مسلم ممالک میں مساجد و مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں انہوں نے یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ ماضی کی سعودی حکومتیں راستہ بھٹک گئیں اور اب اصلاحات کے ذریعے واپسی کا سفر جاری ہے۔ حضور مزے دار بات یہ ہے کہ اب جبکہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اور مغرب نے اسلام کے نام پر مسلم ممالک میں دہشت گردوں کی پرورش کی، مسلکی منافرت کے بیج بوئے، ہمیں بری طرح استعمال کیا۔ مگر کیا خوب ہے کہ اب بھی ہم آنکھیں کھولنے پر تیار نہیں ہیں۔


مزید دیکھیے: مذہبی روحانی محاذ کی منڈی از ڈاکٹر شاہ محمد مری


کیا اب بھی یہ ماننے میں کوئی قباحت ہے کہ ہم دانستہ طور پر اس گھناؤنی عالمی سازش کا حصہ بنے۔ اس وقت شاید یہ جنگ ہماری نہ تھی مگر اب تو صرف اور صرف ہماری ہے کیونکہ امریکہ، یورپ اور سعودی عرب ہاتھ جھاڑ کر الگ ہو چکے ہیں۔ مگر حضور سوال یہ ہے کہ عرصۂ دراز سے مذھب کے نام پر جہاد کا درس دینے والوں اور اس سے مال بنانے والوں پر کوئی فرق پڑا؟ مجھ میں تو ہمت نہیں اگر آپ میں ہو تو مذھبی قیادت سے سوال کریں، فوجی آمریت اور سیاسی قیادت کو جھنجھوڑیں، کیا اب بھی عالمی سازش کے تحت افغان جہاد میں پاکستان کو جھونکنے والی اتائی قیادت سے کوئی سوال نہیں کیا جائے، 75 ہزار بے گناہ انسانوں کی جانیں، اربوں کا خسارہ اور معاشرتی خلفشار کا ذمہ دار کون ہے، کیا یہ پوچھنا اب بھی جرم ہے؟

معاملہ صرف ایوب، ضیاالحق اور مشرف کی آمریت تک محدود نہیں، جمہوریت کے نام پر بھی ہمیشہ ریاست اور عوام سے مفادات کا کھیل کھیلا گیا۔ سیاست دانوں کو جب جب موقع ملا تو انہیں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں، لوٹ مار اور الزامات سے اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ سنگین مسائل، ریاستی امور اور عوام کی بہتری کے لیے کچھ سوچ سکیں۔ اقتدار کے ہوس میں تمام سیاسی جماعتیں مقتدر قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کا رونا تو روتی رہیں مگر خود کچھ بھی ایسا کرنے میں ناکام رہیں جس کے باعث عوام کا دل جیتا جا سکے۔

سیاست کا اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ آج زرداری صاحب کرپشن کے خلاف اور نواز شریف نظریاتی سیاست کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں جماعتیں بار بار اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنی ناکامیوں اور نااہلی کو چھپانے کے لیے اختیارات کا رونا روتی نظر آتی ہیں مگر اقتدار کی خواہش آج کل سے بھی زیادہ ہے۔

ہر فوجی آمریت حقیقی جمہوریت کا درس دیتی رہی۔ جمہوری قائدین عوامی خوش حالی کے نام پر لوٹ مار کرتے رہے اور دینی جماعتیں مذھب کے نام پر دونوں کی تقلید کرتی رہیں۔ تو جناب المیہ ہے کہ کہ ہماری تمام تر قیادت اتائی نوٹنکیوں کے ہاتھ یرغمال رہی ہے اور عوام تماشائی بنے رہے۔ دنیا جانے کہاں نکل گئی عوام آج بھی ساٹھ کی دھائی میں زندگی گزار رہے ہیں، گرتی معشیت، مہنگائی کا طوفان، پانی کی سنگین کمی، بجلی کا بحران، طبی سہولیات، تعلیم اور سستے انصاف کی فراہمی، آمریت اور جمہوریت کی اس میوزیکل چیئر میں عوام کو کچھ بھی تو نہ مل سکا۔

1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا، آج بنگلہ دیش معیشت میں ہمیں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ سری لنکا نے بیس سال تامل باغیوں کی خانہ جنگی جھیلی اور آج ایک پر امن و مستحکم ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ فوجی آمریت ہو یا سیاسی جمہوریت، سب کا مقصد اقتدار تھا، عوامی فلاح و بہبود، ترقی، خوشحالی اور استحکام ایسے پُر فریب نعرے رہے جس کے ذریعے عوام کو مسلسل بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر جناب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا قصور صرف اتائی قیادت کا ہے؟

آپ کبھی کبھی سب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ، مگر سب لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف نہیں بنا سکتے، جناب یہ ارشاد ہے امریکی دانش ور صدر ابراہیم لنکن کا، تو اب جمہوریت کی اس تعریف کی روشنی میں ذرا پاکستان کا جائزہ لیں۔ اگر چند لوگ بلکہ یوں کہیں کہ اتائی قیادت ستر سالوں سے پاکستانی عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار تو ہم خود ہیں جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، کبھی غاصب آمروں کو مسیحا جان کر خوش آمدید کہتے ہیں تو کبھی خود غرض جمہوری قائدین پر جانیں نثار کرتے ہیں۔

پانچ سال بعد جب ووٹ کے ذریعے صحیح قیادت کے انتخاب کا معاملہ ہوتا ہے تو دماغ کے بجائے دل کے فیصلے پر انگوٹھا لگاتے ہیں، تو سرکار جو قومیں جذبانی فیصلے کرتی ہیں پھر انجام تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے تو رونا کس بات کا!