تخت اسلام آباد کی جنگ

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

تخت اسلام آباد کی جنگ

از، حسین جاوید افروز

مقام شکر ہے کہ وطن عزیز 25 جولائی کو عام انتخابات کی جانب تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور اب انتخابی عمل کی راہ میں پھیلے ابہام اور بے یقینی کے بادل چھٹ چکے ہیں ۔بلاشبہ25 جولائی کو ہی یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ تخت اسلام آباد کی مسند پر کونسی جماعت عوامی مینڈیٹ لیتے ہوئے براجمان ہوسکے گی۔

بدقسمتی سے ہماری قومی تاریخ پچھلے ستر برسوں میں کئی المیوں سے دوچار رہی ہے جن میں ایک المیہ یہ رہا کہ ہمارے ملک میں پہلے عام انتخابات آزادی حاصل کرنے کے23 برس بعد 1970 میں منعقد ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں انتخابی عمل کا دھارا کسی رکاوٹ کے بہتا رہا اور جمہوریت کی مضبوطی کا سبب بھی بنا۔

ہماری قومی سیاست کا ایک دل چسپ امر یہ بھی رہا ہے کہ یہاں کسی بھی برسر اقتدار جماعت نے مسلسل دوسری بار اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہیں کی۔ ہاں البتہ مارچ 1977 میں یہ روایت بھی دم توڑتی محسوس ہو رہی تھی جب پی پی پی بھٹو کی زیر قیادت انتخابات تو جیت گئی مگر بعدازاں دھاندلی کے الزامات کی زد میں ایک ملک گیر تحریک کے نتیجے میں آمریت کے اندھیروں کھو گئی۔

تاہم پاکستانی انتخابات کی حرکیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اقتدار کی ریس میں اول آنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پنجاب میں کامیابی حاصل کی جائے کیونکہ یہاں سے حاصل کی گئی کامیابی ہی اسلام آباد جانے کا راستہ فراہم کردیا کرتی ہے۔ لہٰذا اس بار بھی انتخابات 2018 کا اصل میدانِ کارزار  پنجاب میں ہی سجے گا۔

ہم اگر پنجاب کی بات کریں تو اس میں جنوبی پنجاب میں جس کو سرائیکی وسیب بھی کہا جاتا ہے میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف خاصی مستحکم پوزیشن پر براجمان دکھائی دیتی ہے جو کہ اس خطے کی تقریباً 48 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 30 پر بہتر پوزیشن پر نظر آتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہے یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے اہم ترین انتخابی گھوڑے عمران خان کی جماعت میں ضم ہوچکے ہیں۔ جبکہ پی پی پی، اس کے مقابلے میں محض رحیم یار خان یا ملتان میں گیلانی خاندان کی روایتی سیٹوں تک محدود ہوچکی ہے۔

ن لیگ کی پوزیشن ذرا مختلف ہے جو اس بار جنوبی پنجاب میں شخصیات کی بجائے اپنے ووٹ بینک پر تکیہ کرنے پر مجبور ہے۔ ماسوائے ملتان میں جاوید ہاشمی، ڈیرہ غازی خان کی لغاری فیملی اور بہاول پور سے ریاض پیرزادہ، بلیغ الرحمٰن اور لودھراں کے کانجو خاندان کے علاوہ اس ریجن کی اہم سیاسی شخصیات تحریک انصاف کے آشیانے میں منتقل ہوچکی ہیں۔ تحریک انصاف سرائیکی ریجن میں جنوبی پنجاب صوبے کے پرکشش نعرے کو بھی اپنے منشور میں جگہ دے کر اپنے لیے سازگاریت کا سامان پیدا کرچکی ہے۔

اب بات ہو جائے سینٹرل پنجاب کی جو کہ شائد الیکشن 2018 میں پانی پت کی لڑائی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ریجن ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور تحریک انصاف ابھی تک اس ریجن کی گراس روٹ سطح پر ن لیگ کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر کمزور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یاد رہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں صیحح معنوں ن لیگ کا ووٹ بینک گہری سیاسی عصبیت رکھتا ہے۔ یہاں نواز شریف کی شخصیت کا کرشمہ شدت سے تحریک انصاف کے لیے ایک ہمالیائی چیلنج رکھتا ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق ن لیگ کو اوکاڑہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ناروال، گجرات، ساہیوال، چنیوٹ، حافظ آباد، قصور اور شیخو پورہ میں واضح برتری حاصل ہے۔


مزید دیکھیے: پاکستانی سیاست میں نظریہ بے معنی ہوتا جا رہا ہے


نواز شریف کا مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ ہو یا شہباز شریف کے دس سالہ دور میں ترقیاتی کاموں کا انبار ہو، ن لیگ کا ووٹر آج بھی نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف کے جلسوں میں جوق در جوق آ رہا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب تک عمران سینٹرل پنجاب کے رورل حلقوں پر توجہ نہیں دیں گے، اور سادہ الفاظ میں گلیوں میں جاکر اپنا پروگرام پیش نہیں کریں گے وہ ن لیگ کی سیاسی عصبیت کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہیں گے۔ محض بنی گالہ میں جماعتی چادر پارٹی میں آنے والوں کے کندھوں پر ڈال کر پنجاب کا قلعہ فتح کرنا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ جھنگ، جہلم، سرگودھا، اٹک، پنڈی، خانیوال، چکوال اور منڈی بہاؤالدین میں انتخابی گھوڑوں کی شمولیت سے تحریک انصاف ن لیگ کو واضح طور پر چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ مجموعی طور پر پنجاب بھر سے ایک سو سے زائد امیدواروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اب بات ہو جائے پاکستان کے دل شہر لاہور کی جہاں ن لیگ اور تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے چودہ حلقوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اور لاہور میں ہونے والی انتخابی جنگ کے نتائج سونامی کی شدت یا ن لیگ کی سیاسی عصبیت کی حقیقت کا فیصلہ بھی کر دیں گے۔ ان چودہ حلقوں میں سب سے دل چسپ مقابلہ میں این اے 131 مین عمران اور خواجہ سعد رفیق کے درمیان دیکھنے کو ملے گا۔ جبکہ اس کے ساتھ این اے129 میں علیم خان بمقابلہ ایاز صادق، این اے 125 میں مریم نواز بمقابلہ ڈاکٹر یاسمین راشد، این اے 130 میں شفقت محمود بمقابلہ خواجہ حسان کے معرکے بھی انتخابی حدت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑنے کے اعلان جن میں اسلام آباد، لاہور، بنوں، میانوالی اور کراچی شامل ہیں نے بھی انتخابی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ اگر خیرپختونخواہ کی بات کی جائے تو انتخابی پنڈتوں کے مطابق ابھی تک ایسا ہی لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف ہی یہاں حکومت بنا ئے گی۔ لیکن جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں یہاں علی محمد خان، شہریار آفریدی اور شوکت یوسف زئی جیسے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا ہے یہ ہرگز کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ کیونکہ یہی رہنماء ہرفورم پر تحریک انصاف کے ہر اول دستے کا کردار بخوبی نبھاتے رہے ہیں۔ بہرحال اس وقت تحریک انصاف کے سامنے اپوزیشن مکمل طور پر منتشر ہے اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے بھی 2002 جیسی پرفارمنس دیتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

جہاں تک بلوچستان کا سوال ہے تو وہاں ہمیشہ کی طرح ایک منقسم مینڈیٹ ہی سامنے آئے گا۔ البتہ سندھ میں کراچی میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں اختلافات تادم تحریر موجود ہیں اور ان کا دائرہ کار سمٹنے کے بجائے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ جبکہ یہی وہ عامل ہے جس کا فائدہ پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف، شہر قائد میں اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس وقت کراچی میں این اے 247 سنسی خیز حد تک بیدار ہوچکا ہے جہاں فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، عارف علوی اور پرویز مشرف ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔

دوسری طرف اگر اندرون سندھ سیاسی حرکیات کا جائزہ لیا جائے تو بدین میں ذولفقار مرزا کے ابھرنے کے اور جی ڈی اے کے متحرک کردار کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ہی وادئِ مہران میں معرکہ مارتی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ یہ الیکشن بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کا ڈیبیو الیکشن ہونے کی بدولت بھی دل چسپی کا سامان رکھتا ہے۔

اگر ہم آخر میں مجموعی انتخابی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو میڈیا میں بنائے گئے مختلف الیکشن سیل کی عمیق تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اب تک کے متوقع منظر نامے کی روشنی میں تحریک انصاف تقریباً ایک سو قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری لیتی دکھائی دیتی ہے جبکہ ن لیگ تقریباً 75 سے 80 سیٹوں پر اپنا رنگ جما سکتی ہے۔ اگر اسی تناظر میں پی پی پی پر روشنی ڈالی جائے تو یہ سندھ کی بدولت 35 سے 40 نشستوں پر ہاتھ صاف کرنے کی پوزیشن پر دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ سیاسی اور انتخابی زاویوں پر گہری نگاہ رکھنے والے اور جمہوریت کے معیارات کو ہمہ وقت جانچنے والے ادارے ن لیگ کو الیکشن 2018 میں فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔

تاہم تحریک انصاف اس وقت ریحام خان کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت سے نبردآزما ہے جو اگر چھپ گئی تو اس کے مہیب اثرات تحریک انصاف پر ضرور پڑیں گے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ذرائع ابلاغ عمران خان پر اس لیے بھی تنقید کرتے ہیں کہ تبدیلی کی علمبردار یہ جماعت 2013 میں جو مڈل کلاس اور برگر کلاس کو پہلی بات پولنگ سٹیشن تک لے کر آئی تھی وہ اب انتخابی گھوڑوں پر ہی کیوں تکیہ کر رہی ہے؟ اس کا جواب تحریک انصاف کے رہنما یہ دیتے ہیں کہ ن لیگ کو پنجاب میں گرانے اور پنجاب حاصل کرنے کے لیے تجربہ کار، حلقہ سیاست سے آشنا اور سب سے بڑھ کر دیہی ووٹر کی سائیکی کو سمجھنے والے امیدوار ہی اس بار گیم چینجر ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لگ ایسا ہی رہا ہے کہ تحریک انصاف کی پولنگ ڈے مینجمنٹ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں خاصی متاثر کن دکھائی دے رہی ہے۔

بحیثیت مجموعی یہ امر باعث طمانیت ہے کہ ہم بطور قوم گزرے دس برسوں میں مسلسل تیسرے انتخابی عمل کی جانب جس روانی سے بڑھ رہے ہیں یہ عامل ملک میں جمہوری پودے کی آبیاری کے لیے اکسیر ثابت ہوگا۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔