پاکستانی سیاست میں نظریہ بے معنی ہوتا جا رہا ہے

Iftikhar Ahmed aik Rozan writer
افتخار احمد، صاحبِ مضمون

پاکستانی سیاست میں نظریہ بے معنی ہوتا جا رہا ہے: کہیں تو کوئی سچ چھپا ہوا ہے

از، افتخار احمد

آخرِ کار قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو بیس میں ضمنی انتخابات بھی ہو گئے۔ نواز شریف کے نا اہل قرار پانے کے بعد مسلم لیگ ن نے ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو اس سیٹ پر نامزد کیا۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے حق یا مخالفت میں ہونے والے ریفرنڈم سے تشبیہ دے ڈالی۔ میرے نزدیک ایسا کرنا دونوں جماعتوں کی ایک بڑی غلطی تھی۔ سیاست میں عدالتوں کے فیصلوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا غلط روایت ہے۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاستدانوں کو یہ کسی صورت زیب نہیں دیتا کہ وہ عدالت عالیہ کے فیصلوں کے حق یا مخالفت میں اپنی انتخابی مہم چلائیں۔

اس قسم کے اقدامات سے کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ ن یہ سیٹ جیت تو ضرور گئی ہے لیکن ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں کافی کم ہوا ہے۔ یہ با ت بھی مسلم لیگ ن کے لیے قابل توجہ ہوگی کہ 2013 کے انتخابات میں یاسمین راشد نے 17 پولنگ اسٹیشنز پر برتری حاصل کی تھی۔ جبکہ اس انتخاب میں یہ 48 پولنگ اسٹیشن سے کامیاب ہوئیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر نے پانامہ فیصلے کی روشنی میں اس بار مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دیا؟

بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے باعث ان کی کیمپین ان کی بیٹی مریم نواز نے چلائی۔ مریم نواز اس سے قبل بھی دو ہزار تیرہ میں والد کی انتخابی مہم چلا چکی تھیں اس لیے کسی سینئر رہنما کی غیرموجودگی میں انہوں نے کافی احسن طریقے سے سیاسی مہم کی۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہوگی کہ ضمنی انتخاب میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کافی کم رہا حالانکہ حلقے میں دو خواتین کی جانب سے بھرپور کیمپین چلائی گئی تھی۔ یاسمین راشد نے دو ہزار تیرہ کی طرح اس مرتبہ بھی جس محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا وہ متاثر کن ہے۔ اگر لاہور میں کسی علاقے کو مسلم لیگ ن کا گڑھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہی علاقہ ہے۔ ایسے میں پھر سے 47,099 ووٹ لے جانا یاسمین راشد کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ان کے سُسر کسی زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے پر مشتمل علاقوں سے منتخب ہو چکے ہیں۔

افسوس کہ اس الیکشن نے ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چاہنے والوں کے دل توڑ دیے۔ ایک ایسی پارٹی جس کی بنیاد ہی لاہور شہر میں رکھی گئی تھی، وہ اس بار چودہ سو چودہ ووٹ حاصل کر پائی، دو ہزار آٹھ میں میرے دوست جہانگیر بدر مرحوم نے اسی حلقے سے اٹھائیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ لیکن اب شاید پیپلز پارٹی کا پرانا ووٹر بھی پارٹی سے بددل ہو کر یا تو پی ٹی آئی کا ہو گیا ہے یا پھر گھر بیٹھ گیا ہے۔ اس حوا لے سے میری ذاتی را ئے:

Sad demise of my first love ………..PPP……….born in Lahore, died in Lahore…………..(1967-2017)

اس کے ساتھ ہی قوم کو اسلامی فکری غذا فراہم کر نے والی جماعت اسلامی بھی صاف ہو کر رہ گئی ہے جس کو 57 پو لنگ اسٹیشنز سے کو ئی ووٹ نہیں ملا۔ اس الیکشن میں دو اور ایسی قوتیں ہیں جنہوں نے اس ضمنی انتخاب سے  اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ہے۔ تاحال انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر نہیں کیا گیا۔ ان میں سے ایک مِلی مسلم لیگ ہے اور دوسری جماعت تحریک لبیک پارٹی ہے۔

مِلی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار نے اس الیکشن میں 5,822 ووٹ حاصل کیے، جب کہ لبیک پارٹی نے 7,130 ووٹ حاصل کیے۔ دونوں جماعتوں نے اگرچہ مختلف پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا لیکن دونوں نے ہی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی مخالفت کو اپنی مہم کا اہم جز وبنایا۔ جہاں ملی مسلم لیگ نے بھارت کے ساتھ بہتری کے خواہاں سابق وزیر اعظم کو مودی کا یار قرار دیتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگے۔ وہیں لبیک پارٹی نے بھی سلمان تاثیر قتل کیس میں سپریم کورٹ سے سزائے موت کا حکم برقرار رکھے جانے کے بعد پھانسی پر چڑھائے جانے والے ممتاز قادری کے نام پر ووٹ مانگے۔

بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق ان دونوں امیدواروں کو ملنے والے ووٹ دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کو ملے تھے۔ اگرچہ اس بات کو ثابت کرنے کا کوئی سائنٹفک طریقہ موجود نہیں ہے، لیکن اگر ہم دو ہزار تیرہ اور اس الیکشن میں ووٹوں کے تناسب کو مدنظر رکھیں تو شاید یہ نکتہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔ اس بار دونوں امیدواروں نے دس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ کے دو ہزار تیرہ اور اب کے نتائج میں فرق بھی تقریبا دس فیصد کا ہی ہے۔

اگر آنے والے انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں نے پنجاب کے مختلف حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر دِیے تو یقیناََ مسلم لیگ ن  کے لیے کافی مشکلات جنم لیں گی۔ اس سلسلے میں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ چونکہ دو ہزار تیرہ میں پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والا ووٹ اب مزید بڑھتا نظر نہیں آتا اسی لیے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹوں کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے ان جماعتوں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔

اس تھیوری کے مطابق یہ دونوں جماعتیں ہر حلقے میں مسلم لیگ کے ووٹ بینک سے تقریباََ پندرہ سے بیس ہزار ووٹ کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی جس کے بعد بہت سی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے لیے آسانی پیدا ہو جائے گی۔ اب یہ تھیوری کس حد تک درست ہے یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے، لیکن کہیں تو کو ئی سچ اس میں چھپا ہو ا ہے۔

اس انتخاب میں یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ ہم اپنے اجتماعی مسائل حل کرنے کے لیے تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر ذاتی فائدہ لینے کے بعد اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں یہ امر افسوسناک ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ سیاست میں”نظریہ” بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ چپراسی، کلرک، ما لی، چھوٹے تھانے دار کی تعیناتی کروانا، سٹرکوں گلیوں پر نا جائز تجاوزات بنانا، چھوٹے بڑے ٹھیکے لینا، ٹیکس ادا نہ کرنا، زمین پر نا جائز قبضہ کرنا، مٹی ریت کی چوری ہی ”نظریہ” کی جگہ لے چکی ہے۔ مقامی غنڈے قمار بازی  کے اڈوں کے نگران اور تمام غیر آئینی، غیر قانونی کام کرنے والے برسرِاقتدار پارٹی کے ساتھ beneficiary بن چکے ہیں اور بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو ساتھ لے کر سیاست کی جائے۔

روزنامہ جنگ کا شکریہ

About افتخار احمد 9 Articles
افتخار احمد ملک کے معروف اور سینئر صحافی ہیں۔ ان دنوں جنگ اور جیو گروپ سے وابستہ ہیں۔ صحافت کے ساتھ مظاہر فطرت، پہاڑوں، درختوں، پودوں اور ان پر کھلنے والے پھولوں سے محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ماحولیات کو نا صرف مستقبل بلکہ حال کا بھی انتہائی اہم معاملہ سمجھتے ہیں۔ زندگی کو زندگی کی طرح جیتے ہیں۔

1 Trackback / Pingback

  1. تخت اسلام آباد کی جنگ — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.