لنگڑاتا لنگر: نا قابلِ اشاعت کالم

Waris Raza

لنگڑاتا لنگر: نا قابلِ اشاعت کالم

سمجھ سے بالا ہے یہ بات کہ اس ملک کی سیاسی تہذیب اور روایتوں کو کیوں روندا جا رہا ہے؟ کیوں اس ملک کو ایک مضحکہ خیز دیس کی صورت بنا کر دنیا بھر میں پیش کیا جا رہا ہے؟ ان غیر سنجیدہ اقدامات کو جاری رکھنے کی پالیسی کو کس واسطے تقویت دی جا رہی ہے؟ اس پریشان کن کیفیتی تبدیلی کے بارے میں ملک کے سنجیدہ طبقے نہ صرف ذہنی تناؤ، بَل کہ مسلسل کش مکش کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

کبھی اس ملک میں تبدیلی کے دعوے دار بچت کے نام پر گائے، بھینس بیچنے پر لگا دیے جاتے ہیں، کبھی چارلی چپلن بننے کی کوشش میں مرغی اور انڈے قوم میں تقسیم کروا کر سرمایہ کاری کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، کبھی اس ملک کو عوام کی محفوظ پناہ گاہ کے مقابل مسافر خانوں میں تبدیل کرنے کی باز گشت سنائی دیتی ہے، اور جب ان مذکورہ غیر سنجیدہ اعلانات کو عوام خاطر میں نہیں لاتی تو ملک کے عوام کی عزت نفس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملک کے عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے لنگر تبدیلی کی انسان سوز بات کر کے اس میں ریاست مدینہ کا تڑکا ڈال کر عوام کے عقیدوں پر ضرب لگائی جاتی ہے۔

پوری قوم تبدیلی کے خواہش مند وزیر اعظم عمران خان کی  لنگر انداز تقریر اور عوام کی محرومی اور مہنگائی کو ختم کرنے والی دلیل پر مُنھ میں انگلی دبائے اپنی قسمتوں کو کوستی نظر آتی ہے، پاکستانی عوام کی اکثریت اس بات کو ہضم نہیں کر پائی ہے کہ لنگر تبدیلی کس طرح آئی ایم ایف میں گِروی شدہ ملک کی معیشت سنبھالے گی، یا معاشی استحکام لا سکے گی، مگر ہمارے تبدیلی بھونپو ہیں کہ ملک کو لنگر خانہ بنانے کی اس غیر معقول دلیل کو ایک بہتر عمل کے طور پر پیش کرنے سے باز ہی نہیں آ رہے۔

سوال یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کرپشن کا شور ڈالنے والے بیانیہ بردار اور تبدیلی شدہ نیب خیراتی اداروں سے ان کے اربوں روپے کے فنڈز کا احتساب کر سکتی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ہمارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے بحریائی، سیلانی و درویشانی خیراتی اداروں کے چندے جمع کرنے اور مخیر حضرات کی تختی سینے پر سجانے کی آڑ میں چلنے والے کار و بار کی چھان پھٹک آخر کیوں نہیں کی جاتی؟

ان کے اربوں روپے کے پروجیکٹس میں نا جائز ذرائع کیوں تلاش نہیں کیے جاتے؟ کیوں اس ملک کے عوام کی غیرت، حمیت اور عزت و آبرو کو تبدیلی کے لنگر خانے میں مقید کر کے عوام کو شاہ دولا کا چوہا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

ملک میں تعلیمی ترقی طلبہ سیاست اور اقتصادی ترقی کے وہ ذرائع دریافت کرنے یا ان کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی  کرنے سے آخر کار کون منع کر رہا ہے؟ کیوں قوم کے آزردہ افراد کے ذہنوں کو بھیک کی روٹی کھانے یا اس پر اکتفا کرنے کا درس دیا جا رہا ہے؟ کیوں روز گار دینے کے ذرائع پیدا کرنے اور ملک میں صنعتی انقلاب لانے کی کوششیں نہیں کی جا رہیں؟

وہ کون سی بندوق بردار طاقت ور مافیا ہے جو جمہوری طور سے منتخب ایوانوں کے نمائندوں کے ہاتھ پیر باندھے ہوئے ہے؟ ملک کی بیمار صنعتوں کو اَز سرِ نو بَہ حال کرنے سے بھلا  تبدیلی سرکار کو کون روک رہا ہے؟ کیوں ملک میں جمہوری آزادیوں کو سَلَب کر کے صحافتی قدروں کو نوٹیفیکیشن، یا ٹیلیفونک کال کے ذریعے صحافتی کام سے روکا جا رہا ہے؟

عوام تک ملک کی خبروں کی رسائی کو کس کے مفاد میں سنسر کرنے کے آمرانہ ہتھ کنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں؟ اور کیوں … جب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم منتخب تبدیلی کے سوداگروں کے ساتھ عوام ہے تو پھر عوام کو ہاتھ پھیلانے اور خیراتی لنگر سے دو وقت کی روٹی دینے کا کیوں کہا جا رہا ہے۔

 سنتے ہیں کہ مرزا غالب کے آم کھانے کاشوق برِّ صغیر کا عام فرد جانتا ہے، کہتے ہیں مرزا صاحب کو آم کی بہت شناخت تھی، مجھے نہیں معلوم کہ مرزا غالب کے زمانے میں لنگڑے آم کی قلم لگائی گئی تھی یا نہیں؟ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ لنگڑے آم کی قلم لگانے سے قبل اسے لنگڑے کا خطاب کیوں دیا گیا، مگر یہ سب جانتے ہیں کہ مرزا غالب کا مشہور جملہ یہ ضرور ہے کہ گدھے کیا جانیں آم کھانا۔ اس مرحلے پر ہمارا منصب یہ نہیں کہ ہم خچروں سے گدھوں کی تبدیلی پر گفتگو کریں، مگر عام طور پر جب بھی کسی قدرتی یا اصل نسل میں آمیزش کی جاتی ہے تو عموماً اصل کی شکل میں تبدیلی کے بھیانک نتائج سماج یا افراد کو بھگتنا پڑتے ہی۔

ہم بالکل نہیں جانتے کہ گدھے اور گھوڑے کی نسلی آمیزش سے خچر کو کیوں پیدا کیا گیا مگر ہم لنگڑے آم کی پیدائش کی طرح لبیک کرتے ہوئے لُولے لنگڑے دھرنے کی وجوہات سے ضرور آگاہ کر دیے گئے ہی۔ ہم ابھی تک اپنے سیاسی پیروں سے محروم لبیک دھرنا کی خفیہ فیض گتھی اور لولے لنگڑے احتجاج ہی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب ہمارے تبدیلی وزیرِ اعظم نے ملک میں لنگر خانے کھولنے کا اعلان بڑے کرو فر سے کر دیا۔

گو ہم سمیت پورے ملک کے عوام اس لنگر خانہ بیان پر بھونچکا سے ہو گئے مگر ہمارے تبدیلی پسند وزیر اعظم کی علامہ گیری کو یوتھیے انتہائی بے شرمی سے برداشت کر کے قوم کے افراد کو غیرت، حمیت اور عزت و وقار داؤ پر لگانے کی آہستہ آواز میں ترغیب دیتے نظر آ رہے ہیں۔

گو اس سے قبل پوری قوم اس لُولے لنگڑے لبیک دھرنے کی بلند بانگ خر مستیاں دیکھ چکی ہے جس کی حمایت میں ہمارے تبدیلی پسند عمران خان میدان میں آ چکے تھے اور  بڑے دھڑلے سے لبیکی لُولے لنگڑے دھرنے کو ختمِ نبوتﷺ کے احترام اور عزت افزائی کا نشان قرار دے رہے تھے، بَل کہ اس لُولے لنگڑے دھرنے کو قوم کی نجات کا ذریعہ بتا رہے تھے۔

ہمارے ذہن میں اس لبیک دھرنے کے لیے لُولی لنگڑی اصطلاح در اصل اس دھرنے کی جملہ نا مکمل خصوصیات تھی جو کہ دھرنے کے شرکاء کی تعداد اور اس طاقت کی معذوری کو عیاں کرنے کے لیے کافی تھیں، وہ تو بھلا ہو ہمارے صحافتی چینل کا کہ انہوں نے لبیک دھرنے کے شرکاء کو پیسے بانٹنے والی ویڈیو جاری کر دی جب کہ دوسری طرف لبیک معاہدے پر عقیدے سے سرشار فیض حمید کے دست خط نے ہماری سوچ میں اس دھرنے کی لُولی لنگڑی شکل کو بر قرار رکھا، وہ تو بھلا ہو جسٹس قاضی فائز کا کہ انہوں نے بھی قانونی طور سے اس لبیک دھرنے کو لولی لنگڑی بیساکھیوں کا ذمے دار قرار دیا اور اس لُولے لنگڑے دھرنے کے ذمے داروں کو قانون کا پا بند بنانے کی کوشش کی، جس کی پاداش میں جسٹس قاضی فائز اپنے خلاف تبدیلی سرکار کی جانب سے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے تبدیلی وزیر اعظم کی فیاضی دیکھیے کہ انہوں نے لبیک دھرنے کے اصل ذمے دار کو ملک کا اہم عہدہ دے ڈالا۔

ہم قلم اور صحافت کی آبرو کے دھنی بس اتنا ضرور جانتے ہیں کہ تبدیلی سرکار کے غیر سنجیدہ لنگر عمل کو کسی بھی طور قوم کے وقار اور عزت کی ضمانت نہیں قرار دیا جا سکتا، عوام درست ہی کہہ رہی ہے کہ اگر لنگر کی تقسیم دنیا سے بھوک و پیاس اور عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کا مؤثر ذریعہ ہوتی تو سینکڑوں سال سے مختلف مقامات پر جاری لنگر عوام کی معاشی حالت بہتر کر دیتے، لنگر کی حرمت کو نا جائز آمدنی چھپانے اور اس کی آڑ میں ر اتوں رات ارب  پتی بننے اور نیک سادھو کہلانے کی کسی سوچ کو حکومتی سطح پر پذیرائی نہیں ملنی چاہیے وگرنہ اس قوم کے معمار لبیک دھرنے کے شرکاء کی طرح لولے لنگڑے لنگر انداز اور سیاسی طور پر شاہ دولا کے یوتھیے بنا دیے جائیں گے، جس کی ہر سطح پر مزاحمت ضروری ہے۔

از، وارث رضا

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔