طلوعِ سَحَر ہے شامِ قلندر

Base illustarion courtesy via IranWire

طلوعِ سَحَر ہے شامِ قلندر

اب جب کہ ایران میں خواتین کو مردوں کے فٹ بال میچ سٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کا اجازت نامہ مل چکا ہے اور ارتقاء کے حسبِ روایت حرام، حلال میں بدل چکا ہے تو اس کا کچھ پس منظر جان لیں۔

خواتین پر یہ پا بندی چالیس سال پہلے انقلابِ ایران کے بعد لگی۔ امسال اس پا بندی کی چالیسویں سال گرہ منائی جا رہی تھی کہ ایک جنونی لڑکی جسے سب دی بلیو گرل پکارتے تھے (کہ اس کی فیورٹ ٹیم استقلال کلب کا رنگ نیلا تھا) اچانک اپنی پسندیدہ ٹیم کا میچ دیکھنے مردانہ بھیس میں سٹیڈیم کی طرف چل نکلی۔ 23 سالہ سحر خدایاری سٹیڈیم کی چیک پوسٹ پر پکڑی گئیں۔ ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا، اور انہیں عدالتی نوٹس موصول ہو گیا۔ جرم کی سزا میں کچھ جرمانہ اور چھ ماہ کی قید تھی۔

بلیو گَرل نے اسی عدالت کے باہر جس میں اس کی پیشی تھی خود کو آگ لگا دی، اور قریب 20 دن بعد ہسپتال میں دم توڑ دیا۔

سَحَر خدایاری کی موت، بجھ تو جاؤں گی مگر سحر تو کر جاؤں گی ثابت ہوئی۔

حکومت پر شدید تنقید شروع ہوئی، خواتین احتجاج کرنے لگیں، پورے ملک سے آواز بلند ہوئی، بین الاقوامی دباؤ بڑھا اور فیفا، FIFA نے ایران کو ورلڈ کپ کی رکنیت سے اخراج کی دھمکی دے دی۔

بِالآخر چالیس سال بعد اجتہاد کا کھلا دروازہ کام آیا اور ایرانی حکومت نے 10 اکتوبر کو ہونے والے میچ میں خواتین کو ٹکٹیں جاری کر دیں۔ کل دس اکتوبر 2019 کو ہونے والے میچ کی ویڈیوز اور تصاویر میں ایرانی خواتین کی شادمانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وجودِ زن سے سٹیڈیم کے رنگ نکھرے پڑتے تھے۔

سعودیہ اور ایران اپنی رائج مذہبی بنیادوں کے سبب صنفی امتیاز میں معروف ہیں، اب جب کہ سعودیہ اس سلسلہ میں بند مٹھی کھول رہا ہے تو ایران کی مٹھی کی پہلی انگلی کا کھلنا بھی خوش آئند ہے۔

مذہبی و سماجی جبر بہت مدت تک قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ آپ کو سپیس دینا ہوتی ہے ورنہ روایات سماجی ہوں یا مذہبی پاؤں تلے روند دی جاتی ہیں۔

ایرانی حکومتی ترجمان کے مطابق یہ پا بندی انتظامی نوعیت کی تھی، البتہ ہم جیسے حیرت زدہ ضرور ہیں کہ اسلام میں رچے اور مومنیت میں بسے ہوئے ملک کو یہ انتظامی مسئلہ سلجھانے میں چالیس سال لگ گئے؟

بَہ ہر حال، بلیو گرل نے جب کل کے میچ میں خواتین کو دیکھا ہوگا تو ذیشان حیدر کی نظم گنگنائی ہو گی:

ہم اپنی لو سے عکس بناتے ہیں

ایسی دیواروں پر جو ہم سے پہلے

بے رنگی کا رونا رویا کرتی تھیں…..

از، سید میثم نقوی