مظلوم و مقہور کارڈ: ولایت فقیہ سے داعش تک مذہبی آمریتوں کے قیام کرنے کی آرزو

ولایت فقیہ سے داعش تک

مظلوم و مقہور کارڈ: ولایت فقیہ سے داعش تک مذہبی آمریتوں کے قیام کرنے کی آرزو

نصیر احمد

[su_quote]ابتدائی ہم اپنے ارد گرد زیادہ تر روایتی پڑھے لکھے افراد میں اپنے ہم مذہب، ہم مسلک، ہم فکر اور ہم وطن افراد کو ہی صرف مجبور، مضروب و مقہور جاننے کا رویہ اور ذہنی جھکاؤ دیکھتے  ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہوتی ہیں۔ کیا یہ مثبت شخصی خواص کی کمی کا ایک ضمنی حوالہ ہوتا ہے؟ کیا یہ مثبت عمل (affirmative action) سے عاری معاشروں کی تشخیص کا ایک پیمانہ ہوتا ہے؟ اس قسم کی (victim sensibility) ردعمل سے طویل المدتی ردعمل تک عمل و فکر کی کون کون سی شاخیں پھوٹتی ہیں؟[/su_quote]

 

یہ کچھ سوالات ہیں جو “ایک روزن” کے لائق فائق  مدیر نے پوچھے ہیں۔ ہمیں یہ کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے سوالات لگتے ہیں لیکن ان سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ سوال دیکھتے دیکھتے ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ پہلا سوال عالم گیر نوعیت کا نہیں ہے  کیونکہ اسے ترتیب دیتے ہوئے  ایک ممکن صورتحال کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہو سکتے ہیں جن کے ارد گرد کچھ مختلف سے لوگ موجود ہوں۔ لیجیے ہم تو سوالوں میں ہی غلطیاں نکالنے لگے۔ کیا کریں نکتہ چینی کی کچھ ایسی  عادت پڑی ہے کہ باز ہی نہیں رہ سکتے۔

اسی طرح کے سوالات شاعر عظیم شیکسپئیر کے کردار شائیلاک نے بھی اٹھائے تھے۔ مرچینٹ آف وینس میں عیسائیوں سے انصاف طلب شائیلاک یوں  گویا ہوتا ہے۔

اس نے میری تذلیل کی۔ پانچ لاکھ کا گھاٹا دیا ۔میرے خسارہ پر خندہ زن ہوا۔ میرے فائدے کی  ہنسی اڑائی۔ میری امت کی توہین کی۔ میرے سودے کھوٹے کیے۔ میرے دوستوں کی سرد مہری اور میرے دشمنوں کی گرم جوشی کی وجہ بنا۔ اور اس نفرت کی وجہ کیا ہے؟ کہ میں یہودی ہوں۔ کیا یہودی کی آنکھیں نہیں ہوتیں؟ کیا یہودی کے ہاتھ، اعضا، اطراف، حسیات، لگاوٹیں اور جذبے  نہیں ہوتے؟

کیا یہودی  سب کی مانند کھانا نہیں کھاتے؟ ہتھیاروں سے یہودیوں کو چوٹیں نہیں پہنچتی؟ بیمار نہیں ہوتے؟ صحت یاب نہیں ہوتے اور عیسائیوں کی طرح موسم کی گرمی سردی تجربہ نہیں کرتے؟

اگر کوئی نوکیلی چیز ہمیں چبھے تو کیا ہمارا خون نہیں بہتا؟ اگر گُدگُدائیں تو کیا ہم نہیں ہنستے؟ زہر دو تو کیا ہم یہودی نہیں مرتے؟

شاعر عظیم کہ پرانے وقتوں کے لوگ تھے، اتنے اچھے سوالات اٹھا کر ان کے منصفانہ جوابات نہ دے سکے اور ثقافت میں یہودیوں کے خلاف جو نفرت تھی، اسی نفرت کے سنگ کھڑے ہو گئے۔ اور یہودی کو اپنے کھیل میں راکھشس ہی دکھایا۔ یہی اس زمانے کا رواج تھا اور بہت کم لوگ ہیں جو رواجوں سے اوپر اٹھ سکتے ہیں۔ سرکار و دربار سے وابستہ شاعروں کے لیے اپنی فطانت کے باوجود بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے فطانت ضروری نہیں تعصبات کی شکست و ریخت کر سکے۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں پہلے سوال کا جواب جہالت ہی آتا ہے کہ انسانی مشاہدے اور تجربے میں یہی ہے کہ سارے انسان مجبور، مقہور اور مضروب ہو سکتے ہیں اور  مجبوری اور مظلومی کو صرف ایک گروہ تک مخصوص کر دینا مشاہدے اور تجربے کا انکار ہے۔ اور مشاہدے اور تجربے سے انکار ہی تو جہالت ہوتی ہے۔ بدھوں کو ہی دیکھ لیں، تبت میں بہت سارے بدھ مجبور، مقہور ، مضروب اور مظلوم  ہیں جبکہ میانمار میں  بہت سارے بدھ  روہنگیا مسلمانوں کے لیے جابر، قاہر اور ظالم ہیں ۔اور کونسی مذہبی کمیونٹی کے افراد میں ظالم ، مظلوم، جابر، مجبور، قاہر مقہور موجود نہیں ہیں۔

یہ انسانی حیات کے مختلف پہلو ہیں، کسی ایک فرد میں بھی ظالم اور مظلوم بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں ۔صرف اپنے اہلِ وطن، ہم مذہبوں، ہم مسلکوں اور ہم خیالوں کو مجبور دیکھنا تو بنیادی طور پر دیکھنے سے انکار ہے۔ اور یہ انکار بتانِ قبیلہ کا شاہکار ہوتا ہے لیکن اس انکار کا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور اس کی ساری بنیادیں جذباتی بنیادوں پر حقائق سے دور نظریات پر رکھی گئی ہیں اور نظریات کے نام پر دوروغ شعاری بھی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔

لیکن اس دروغ شعاری کے نتائج مظلومیت کے نام پر بے پناہ ظلم و ستم  کی صورت میں رونما ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس مظلومی کو دوسرے انسانوں کی انسانیت سے انکار کرنے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک انسانی مجبوری ہے کہ کسی پر بے پناہ ستم کرنا ہو تو اس کے جواز کے لیے اس کی انسانیت کا یا تو انکار ہی کر دیا جاتا ہے یا اس کو اتنا ٹیڑھا میڑھا کر دیا جاتا ہے کہ اپنے سے مشہابہت اور مماثلت ہی ختم ہو جائے۔ جیسے ناٹزی جرمنی میں یہودیوں کی شکلیں بگاڑی جاتی ہیں کہ ان کا ذکر ہو تو بھی گھن آئے۔ جیسے اشتراکی حکومتوں میں بورژوا کو افسانوں ڈراموں میں بدنما دکھایا جاتا تھا۔ جیسے سرمایہ دار ریاستوں میں اشتراکیوں کے چہروں پر درندگی پھیلا دی جاتی تھی یا جیسے ہمارے ہاں ڈراموں میں ہندو کرداروں کو مجسم کمینگی دکھایا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ تو مار کھانے کے شکوے کرتے ہوئے مارنے کے مترادف ہے۔ ہم تو نرم سی بات کر گئے آرتھر ملر ہوتے تو کہتے ہو’ تم کائنات کو گرا کر ایک فاحشہ کو بلند و بالا کر رہے ہو۔’

اب مشاہدہ و تجربہ، منطق و تجزیہ سے عاری اس جہالت کو وطن سے، مذہب سے، فکر سے، مسلک سے، قوم سے، ذات سے یا نظریے سے منسلک کریں گے تو نتائج اقلیتوں یا اپنے سے مختلف لوگوں کے خلاف تعصبات کی صورت میں ہی سامنے آئیں گے، تعصبات جو قتل وغارت، ظلم و تشدد، بے حسی، سنگدلی،  دنگا فساد، دہشت گردی اور قتل وغارت کی شکل میں نمودار ہو سکتے ہیں ہمارے برصغیر میں تو اکثر نمودار ہوتے ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے پڑھے لکھے لوگ جو ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی دیکھ لیتے ہیں مگر اسی قسم کی خلاف ورزی پاکستان میں ہو تو اس کے وجود سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اسی قسم کا رویہ ہندوستان میں بہت سے پڑھے لکھوں کا ہے کہ  پاکستان میں مظلوم ہندو نظر آجاتے ہیں لیکن ہندوستان میں مظلوم مسلمان دیکھنے کے لیے چشمہ دیدار کا نمبر ہی غلط ہو جاتا ہے۔

ہم اپنے ہم مذہبوں، ہم خیالوں، ہم وطنوں اور ہم مسلکوں سے  رشتہ گہرا ہونا اور ان کے لیے زیادہ ہمدردی ہونا ایک حقیقت ہے جو قربتوں کا ایک نتیجہ ہے اور اچھی بات بھی ہے لیکن اس کے معانی سچ سے انکار کرنے کے تو نہیں ہوتے۔ لیکن اس طرح کے پڑھے لکھوں کو سمجھانا کچھ آسان نہیں۔ ایسا راڑ کرتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا بات کیا کرنی ہے۔

دوسرے سوال کے بارے میں یہی کہیں گے کہ یہ تعصبات ہمارے ہاں ایک ثقافتی پراجیکٹ کا حصہ ہیں، ان کے ارد گرد تعلیم دی جاتی ہے، تربیت کی جاتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ حقائق تک رسائی نہ ہو سکے مگر جو روزمرہ کے منکر ہو جائیں تو شخصیت میں کچھ خرابی تو ہوتی ہی ہے لیکن ہمارے خیال میں افراد کی شخصی خرابیاں  معاشرتی تعلیم اور ذاتی فیصلوں کا مجموعہ ہوتی ہیں جن کو تعلیم اور بہتر فیصلوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر اپنے گروہ کے حوالے سے تعصبات بہت عام ہیں تو ان کا علاج فکری آزادی کو عام کرنے کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور جیسا ہم اکثر کہتے رہتے ہیں جمہوری پراجیکٹ کے ساتھ خلوص کے سوا اس جہالت کا کوئی حل نہیں۔

تیسرے سوال کا جواب بھی  ہم ہاں میں ہی دیتے ہیں کہ اس طرح کے پیمانے دنیا میں موجود ہیں، اقلیتوں کے حقوق کا سب سے زیادہ احترام کرنے والا معاشرہ، سب سے زیادہ روادار معاشرہ، سب سے زیادہ مہربان ملک وغیرہ وغیرہ۔ یا کسی ملک میں انسان دوستی دیکھنی ہو تو وہاں کے اقلیتوں کے حوالے سے قوانین دیکھ لو۔ وہاں کی حکومتوں کا حزبِ مخالف سے برتاؤ دیکھ لو۔

چوتھا سوال ہم کچھ صیحیح طریقے سے سمجھ نہیں سکے لیکن جہالت کا ابتدائی رد عمل ہو یا طویل المدتی ہو اس کے نتائج تو معاشرے کے لیے منفی ہی ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں بہت سے گروہ معاشرے کے بہت سے دوسرے گروہوں سے لا تعلق ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں انسانی رشتے کمزور ہو سکتے ہیں اور انسانی رشتوں کی کمزوری ایک دوسرے کی انسانیت سے انکار کا باعث بن جاتی ہے اور اس انسانیت کے انکار کے نتیجے میں معاشرے میں جہالت، غربت اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اب یہ بہت سے ہندوؤں کے جتھے کے جتھے بھارت میں مسلمانوں کے گھر جلانے آ دھمکتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے۔ یا ہمارے ہاں وہ لوگ جو عیسائیوں کو بھٹوں میں جلا دیتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان عیسائیوں کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں دکھ کی بات یہ ہے کہ اقلیتوں کو آئینی برابری بھی نہیں دی گئی ہے اور ہماری بڑی پارٹیاں اس آئینی برابری کی بات تک نہیں کرتیں لیکن دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کہیں بھی زیادتی ہو رہی ہو تو ہم صدائے احتجاج کرتے ہیں۔

یہ صدائے احتجاج درست ہے لیکن ظلم دنیا میں عیسائیوں، ہندووں،یہودیوں، لادینوں اور بدھوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، اس ظلم کو مذہبی بنیادوں پر نظر انداز کر دینا بذات خود  انسانیت اور علم کے ساتھ ظلم ہے۔ جیسے مائیکل جیکسن کا گانا تھا کہ انھیں ہماری کچھ پرواہ نہیں۔ کمیونیٹیز میں اس احساس کا  توانا ہونا کسی صورت میں اچھی بات نہیں۔

پاکستان میں مشرقی پاکستانیوں میں حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اور اس اندوہناک تجربے کے نتیجے میں ہمیں بہت سے سماجی اسباق سیکھنے تھے لیکن ہم نے ابھی تک کچھ خاص سیکھا نہیں۔ اگر دوسرے افراد اور کمیونیٹیز کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھیں گے تو معاشرے میں امن کا قیام نا ممکن ہو جاتا ہے اور تشدد کو امن کہنا تو بے حسی ہے اور اس بے حسی سے دور ہو کر ہی ہم اپنے اردگرد کچھ امن لا سکتے ہیں۔

ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے تعصب کی ترویج سے فکر و عمل پہلے سے بھی زیادہ گمراہ ہو جاتے ہیں اور دل دیوانہ دیوانہ تر ہو جاتا ہے اور دیوانگی کی فکر عمل کی شکل میں بھیانک سے بھیانک عفریتوں کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے لیے ولایتِ فقیہ سے لے کر داعش تک مذہبی آمریتوں کے قیام کرنے کی آرزو کے نتائج دیکھ لیں۔