اگر خدا نہ خاں-ستہ تحریک انصاف شفاف الیکشن نا جیتتی

Naseer Ahmed, the writer

اگر خدا نہ خاں-ستہ تحریک انصاف شفاف الیکشن نا جیتتی

از، نصیر احمد 

مداح تو پھر کوئی نہ کوئی تکنیک اپنا ہی لیتے ہیں جو ممدوح کو ہر حال میں بری کار کردگی کے جواز فراہم کر دیتی ہے۔ آج کل یہ ڈیوائس بہت چل رہی ہے کہ اگر عمران خان نہ ہوتے تو حالات پہلے سے بھی خراب ہوتے۔

اس ڈیوائس کے استعمال کی ایک شکل یہ بھی تو ہے۔

ابھی تو صرف ڈانٹ پڑی ہے، اگر عمران خان نہ ہوتے تو گالیاں بھی پڑتیں۔

ہماری خوش نصیبی، مگر بات پوری تو سنی نہیں، گالیان بھی تو پڑی ہیں۔

اچھا، اگر عمران خان نہ ہوتے تو مار بھی پڑتی۔

سر، مار بھی پڑی ہے،یہ ذرا پٹیاں تو دیکھیں۔

ارے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ عمران خان نہ ہوتے تو بہت زیادہ مار پڑتی۔

پاکستان تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا

بس سر بازو ٹوٹے ہیں، پسلیاں ریزہ ریزہ ہو گئی ہیں، سر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے۔

لیکن موت سے تو پھر بھی بہتر ہے ناں۔ عمران خان نہ ہوتے تو تم مر جاتے۔

سر مر بھی گیا ہوں، عالمِ بالا سے خصوصی اجازت نامے پر آیا ہوں تا کہ آپ کو تنبیہ کر سکوں کہ حکومت بہتر کریں۔ مہنگائی وغیرہ کم کریں، شہری حقوق، شہری آزادیوں اور شہری ذمے داریوں کی صورتِ حال بہتر بنائیں۔

 ٹھیک ٹھیک ہے لیکن اگر عمران خان نہ ہوتے تو تمھاری تجہیز و تکفین نہ ہوتی۔

وہ بھی نہیں ہوئی تھی۔

اب اتنا بھی ناٹک نہ کرو۔ لیکن اگر نہیں ہوئی تو عمران خان نہ ہوتے تو تم جہنم میں پڑے ہوتے، یوں اجازت نامے لے کر میرا دماغ نہ چاٹ رہے ہوتے۔

جہنم سے ہی آ رہا ہوں سر۔

اچھا، لگتا ہے جہنم کے پہلے درجے پر ہو۔ خود ہی دیکھ لو، اگر عمران خان نہ ہوتے تو تم جہنم کے آخری درجے پر ہوتے، وہیں پر تو ہوں، یہی تو بتا رہا ہوں۔ عمران خان کے ہونے سے چیزیں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہیں۔

یہ بات ہے تو عمران خان  نہ ہوتے تو چیزیں خراب ترین ہوتیں۔

وہ بھی ہو چکا ہے۔

لیکن اگر عمران خان نہ ہوتے تو چیزیں خراب ترین سے بھی بد ترین ہوتیں۔

اس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ کچھ آپشن نہیں رہ جاتا۔

عمران خان کے دعوے اور وعدے تو کچھ اور تھے۔ ترقی یافتہ دنیا سے بھی بہتر ہونا تھا۔ صرف لہجے میں رعونت لانے سے ترقی ہو سکتی تو عمران خان کی تقریریں ہی کافی تھیں۔ دو دو منٹ بعد ایک انڈسٹریل اِسٹیٹ لگ جاتی۔ تخلیق، تعمیر، تشکیل، ترتیب کا ایک اچھا کیس بنائے بَہ غیر رعُونت عجیب سی بے وقوفی لگنے لگتی ہے۔

تخلیق ہو نہیں سکتی کہ حکومت کا آزادیِ اظہار نہیں بھاتی۔ تعمیر ہو نہیں سکتی کہ کچھ بچے تو تعمیر کا سوچیں۔ تشکیل ہو نہیں سکتی کہ اصلاح کی صلاحیت نہیں۔ ترتیب ہو نہیں سکتی کہ مظلوم نے بھاگنا  دوڑنا لوٹنا پلٹنا ہی ہوتا ہے، ایسے میں کیسی ترتیب۔

عمران خان جو کچھ کہہ رہے تھے وہ نظریات اور حقائق کے بوجھ تلے دبی اناؤں کا مداوا تو کرتا تھا مگر عملی طور پر وہ نا ممکن تھا۔ ایک مذہبی ریاست جو منصفی کرے۔ موجودہ زمانے میں یہ نا ممکن ہے اور جو بھی ریاست مذہب کی طرف انصاف کے لیے رجوع کرے گی وہ نا انصافی میں اضافے کی مستقل وجہ بن جائے گی۔

یہ ریاست غریبوں اور پچھڑوں کی ایسی درد مند ہو جیسے کینز کی معاشیات کے تحت مرتب ہوئی فلاحی ریاستیں تھیں۔ پھر یہ نا ممکن مذہبی فلاحی ریاست کارپویشنز کے ماڈلز پر عمل پیرا ہو۔ اور یہ بات سپنے کو اور نا ممکن بنا دیتی ہے۔

اور اس ریاست کے افراد اپنا طرزِ عمل قبائلی رسوم و روایات پر ترتیب دے دیں۔ یہ کچھ عجیب سا ملغوبہ بن جاتا ہے جس پر عمل نا ممکن ہے۔ اور نا ممکن سے اناؤں کی تشفی ہوتی ہے۔ سو ہو رہی ہے، لیکن کام  رک گئے ہیں۔ اور حامی رکے کو رواں بتا کر تسلی دیتے رہتے ہیں۔