پاکستان کا فکری منظرنامہ : چند معروضات

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

پاکستان کا فکری منظرنامہ : چند معروضات

از، یاسر چٹھہ

پاکستان میں چھائے فکری منظر نامے پر کچھ عرصہ پہلے جناب محمد دین جوہر نے ایک مضمون بعنوان، پاکستان کا فکری منظرنامہ رقم کیا تھا۔ ہماری جانب سے اس پر ایک تبصرہ لکھا کب کا پڑا تھا۔ مناسب سمجھا کہ آج شائع کر دیا جائے۔ پہلے اصل مضمون ملاحظہ کیجیے، اس کے بعد ہمارے معروضات پیشِ خدمت ہیں۔

پاکستان کا فکری منظرنامہ

محمد دین جوہر

ان دنوں پاکستان کا علمی اور فکری منظرنامہ سرگرمی اور سرگرانی سے عبارت ہے، اور قومی زندگی کے ہر اہم پہلو پر دادِ سخن دی جا رہی ہے۔ ہر قوم کی سلامتی اور شناخت میں اجتماعی فکر کے حامل بیانیے کو اولین اہمیت حاصل ہے، اور جو ترقی اور طاقت میں بھی ہراول کا کام کرتا ہے۔

عصر حاضر میں قومی شناخت اور اجتماعی قوتِ عمل کو باقی رکھنے میں بیانیہ لازمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بیانیہ ہر قوم اپنے خاص تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں تشکیل دیتی ہے، اور جو اس کی متعین شناخت کو بیان کرتا ہے اور اس کے سیاسی عمل کی بنیاد بنتا ہے۔

قومی بیانیہ کوئی عام علمی، ادبی یا اخباری بیان نہیں ہوتا جس کو کسی مکتبی یا میڈیائی منطق پر ڈھالا گیا ہو۔ بیانیہ ارادی طور پر اختیار کردہ اور اپنی نوعیت میں سیاسی ہوتا ہے، جو کسی قوم کی تہذیبی شناخت، ارادی پسند ناپسند، دنیاوی مقام و مرتبے اور اجتماعی اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔

یعنی بیانیہ کسی معاشرے کا تعارف اور عزم بیک وقت ہوتا ہے۔ تخلیقِ پاکستان سے نئی صدی کے آغاز تک نظریۂ پاکستان ہمارے قومی بیانیے کے طور پر موجود رہا ہے، لیکن ۲۰۰۱ء کے بعد سیاسی طاقت کے علاقائی اور عالمی نظام میں وقوع پذیر تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارا قومی بیانیہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پاکستان اور اس کے قومی بیانیے پر ہر طرف رد و کد شروع ہوئی ہے جس کے کچھ پہلو مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) ۲۰۰۱ء کے فورا بعد پاکستان اور اس کے قومی بیانیے پر برطانیہ، فرانس، بھارت اور خاص طور پر امریکا میں بے شمار مضامین اور کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اس علمی سرگرمی کا بنیادی مقصد پاکستان کی شناخت اور اس کے وجود کا اظہار کرنے والے بیانیے کا ”علمی“ تجزیہ کرنا، اس کے ”تضادات“ کو سامنے لانا اور آخرکار اس کے جواز کو ختم کرنا ہے۔

دیکھا دیکھی ہمارے ”روشن خیال“ مذہبی اور غیرمذہبی دانشوروں نے بھی تان اٹھائی، اور بحث شروع کر دی۔ اس کا بحث کا بنیادی مقصد بھی وہی ہے جو عالمی طاقت کے زیرِسایہ ہونے والی علمی ”تحقیق“ میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستان پر سامنے آنے والی نئی ”علمی“ کارگزاری کا اصل نکتہ پاکستان میں سیاسی طاقت اور اسلام کے معانقے کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کا حصول اسلام کی بالکل ہی اقتصادی تعبیرات اور نظریۂ پاکستان کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بحثوں میں اسلام کی سیاسی معنویت اور نظریۂ پاکستان کے جواز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

(۲) برصغیر میں مسلم تاریخ کی بعض بدیہیات سے اغماض یا انکار کی وجہ سے مغربی اور مخالفانہ ”علمی“ کارگزاری پاکستان کے ”معمے“ اور ”اشکال“ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور اس کا نتیجہ سرگرانی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ سارے ”علمی“ مباحث امریکا کی استعماری طاقت اور ایجنڈے کی جواز کاری کے لیے گھڑے جا رہے ہیں، لیکن بات بن نہیں پا رہی اور امریکا کی برہمی روز افزوں ہے۔

(۳) ہمارے ہاں لبرل، سیکولر اور مارکسسٹ اہل علم بھی اپنی دانش ارزانی فرما رہے ہیں، لیکن ان کے ہاں ٹھوس علمیت کا اظہار کم ہے، طنز و تعریض اور تضحیک کا غلبہ زیادہ ہے۔ اس امر سے تو ہرگز انکار نہیں کہ پاکستان اس وقت ایک بڑے تہذیبی بحران سے گزر رہا ہے، اور اس موقعے پر ان کی طرف سے اگر سنجیدہ کلامی کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی تو قومی فکر کے لیے مفید ہو سکتی تھی۔

لیکن ان کی عمومی علمی نااہلیت اور تحقیری ذہنیت بہت مایوس کن رہی ہے۔ ان کے تحقیری رویوں کا منبع ان کی ہم عصر مغرب سے مکمل عینیت ہے اور اسی کو وہ اپنے ”علم“ کی دلیل بھی سمجھ رہے ہیں اور سامنے بھی لا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ طنزِ لطیف تہذیب کی علامت ہے، لیکن ان کے ہاں طنز اور پھکڑ بازی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔

قومی فکر کی جدلیات کے موجودہ لمحے میں صرف طنز پر انحصار محض نادانی تو ہے ہی، اہلِ وطن سے بے وفائی بھی ہے، کیونکہ آج کے کانٹے دار لمحے میں، اور متبادل اور متضاد فکر کی جدلیات میں، مشترکہ قومی مقاصد کی طرف پیش رفت ہو سکتی تھی۔ نظریۂ پاکستان کے ایک عام حامی کی حیثیت سے مجھے اپنی بےبضاعتی کا نہ صرف ادراک ہے، بلکہ اعتراف بھی ہے۔ لیکن ان اہلِ دانش کی طرف سے تو کوئی تیسرے درجے کی علمی تحریر بھی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔

(۴) اس منظرنامے میں متجددین کی صورت حال نہایت قابل رحم ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ابھی خود بھی یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ ہیں، سیکولرسٹوں کے حامی ہیں، پاکستان کے ساتھ ہیں یا امریکا کے ساتھ ہیں۔ لوگوں میں ان کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ علم اور استدلال کی بات کرتے ہیں، لیکن قرین حقیقت یہ ہے کہ وہ یا تو روہانسا وعظ کرتے ہیں، یا تضحیک و تذلیل کرتے ہیں۔ میرا گمان یہ ہے کہ وہ صرف اپنے ہی ساتھ ہیں۔ لیکن ان کے پیدا کردہ مذہبی اور سیاسی التباسات بہت خطرناک ہیں اور ان کو دور کرنا کم از کم اس وقت ایک قومی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔

(۵) پاکستانی عوام کی بڑی اکثریت روایتی مذہبی مزاج رکھتی ہے، اور اس کے مذہبی عمل اور رویوں پر فرقہ وارانہ تصورات کا غلبہ ہے، لیکن وہ اپنے اجتماعی سیاسی اور معاشی مسائل کا حل اسلامی تعلیمات ہی میں ڈھونڈنے کی خواہاں ہے۔ ہماری اجتماعی اقدار اور ہم عصر دنیا میں فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے، اور روایتی مذہبی آدمی اس کا احساس تو رکھتا ہے، لیکن ادراک کوئی نہیں رکھتا۔ ایسے علمی اور ثقافتی وسائل جو اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے ضروری ہیں، ابھی تک ہمارے دماغ اور دسترس دونوں سے باہر ہیں۔

اس لیے موجودہ بحث میں پاکستان کی بڑی اکثریت کا کوئی ایسا فکری مؤقف موجود نہیں جو دینی اور علمی دونوں اعتبار سے ثقہ ہو۔ اور یہ صورتِ حال بہت عرصے سے چلی آتی ہے۔ مثلاً جمہوریت یا نظریے پر فکری گفتگو ہو تو ہم ان کی فکری نوعیت یا ماہیت جانے بغیر اس کو اسلامی اور غیر اسلامی بتانے پر اصرار کرتے ہیں۔

اب تک تو اس سے کام چلتا رہا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب اس رویے یا منہج کی بنیاد پر آگے کام چلانا مشکل نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اور عالمی مسائل پر اسلام کا غیرفرقہ وارانہ تہذیبی موقف سامنے لایا جائے۔ صرف جمہوریت یا ریاستی قانون وغیرہ کے بارے میں ”اسلامی“ اور ”غیراسلامی“ کی بحث کیے جانا اب کوئی زیادہ سود مند نہیں رہا۔ پاکستان میں سیکولرازم کے مسئلے کو عالمی صورت حال کے تناظر میں زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اب خود ترسی اور وعظ سے باہر آنے اور اپنے آپ اور دنیا کو غیرجذباتی انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال کو ہم اپنے تہذیبی تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر ہمارا موقف کیا ہے؟ آلودگی کے سنگین مسئلے پر ہمارا موقف کیا ہے؟ دنیا میں کارپوریٹ سرمائے کی تاراج ظلم کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ امریکی قیادت میں عالمی سیاسی نظام مسلمان ملکوں پر جو تباہی مسلط کر رہا ہے اس پر ہمارا تہذیبی موقف کیا ہے؟ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے عالمی نظام کی چولیں اب ڈھیلی ہو گئی ہیں، اور اس پر امریکی گرفت کھسک رہی ہے، اور یہ ایک بڑی جنگ کی طرف لڑھک رہا ہے، اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟

اکیسویں صدی کو امریکی صدی بنانے کے ایجنڈے میں امریکا کے لیے نہایت شدید نوعیت کی دشواریاں پیدا ہو گئی ہیں، اور امریکا اس وقت دانت اور مسلمان پیس رہا ہے، اس صورتِ حال کو ہم اپنے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟ برصغیر میں مسلم قومیت کے کامیاب نظریے سے برصغیر کی تقسیم واقع ہوئی تھی، لیکن ہندو قومیت کے نظریے کا ظہور برصغیر کے لیے کیا امکانات رکھتا ہے؟


متعلقہ تحریر: مظلوم و مقہور کارڈ: ولایت فقیہ سے داعش تک مذہبی آمریتوں کے قیام کرنے کی آرزو


ہندو قومیت کے نئے نظریے کے اہداف کیا ہیں اور ہمارے لیے اس کی کیا معنویت ہے؟ ہندو قومیت کا نیا نظریہ اگر اپنے سیاسی اہداف میں کامیاب یا ناکام ہو جاتا ہے تو برصغیر کے لیے اس کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے؟ اہم تر یہ کہ ہندو قومیت کا نظریہ برصغیر میں کون سی تہذیبی اقدار کو سامنے لا رہا ہے؟

یہ چند ایک سوالات صرف مثال کے طور پر ہیں، اور ان سارے سوالوں کے جواب وعظ میں نہیں ہیں، اور نہ کسی ادھار کے تہذیبی تناظر میں ہیں۔ اگر ہمارا کوئی تہذیبی فکری تناظر فی الوقت موجود نہیں ہے، تو اس پر معذرت خواہی کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اب اس فکری تناظر کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی تشکیل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان، اسلام اور نظریۂ پاکستان کا دفاع مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔

(۶) اس وقت قومی منظرنامے پر سامنے آنے والے تمام سیاسی تصورات اور مواقف کا میدان جنگ براہ راست یا بالواسطہ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام ہے۔ جنگ میں اگر ہتھیار ایک جیسے نہ ہوں تو کامیابی کا امکان نہیں ہوتا۔ جنگ فکری ہو یا جسمی، ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے، اور جس کے لیے لڑی جاتی ہے وہ اقدار ہوتی ہیں۔ فکری جنگ کے وسائل ذہنی اور علمی ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سادہ بات سمجھنے میں صدیاں لگ رہی ہیں۔ اس میں مزید تاخیر پاکستان کے موجودہ فکری منظرنامے میں ہمارے اجتماعی موقف کو مخدوش بنا سکتی ہے۔


 یہ مضمون، وجود ڈاٹ کام سے ایک روزن پر بالواسطہ پیشِ خدمت ہے۔ ہم اس مضمون کے شروع میں ادارتی نوٹ دینے کی خواہش رکھتے تھے، لیکن اس خیال سے کہ ایسا کرنا اس مضمون کے مطالعہ و خواندگی کو ہماری عینک کی حقیقت نا بنا دے، ہم نے آخر پر مختصر نوٹ دینا مناسب سمجھا۔ ایک روزن پر محمد دین جوہر صاحب ایسے سنجیدہ فکر عالم کے مضمون کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کے پیچھے ایک خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنی دونوں آنکھوں کو دیکھنے کے لیے استعمال کرنا ہے، اور پھر اس بصارت سے نئی بصیرت اُجالنے کی جہدِ مسلسل میں رہنا چاہیے، کم از کم علمی اور سنجیدہ رویہ اور اصولِ زندگی تو یہی ہے۔

ہم نے اس مضمون میں سے دیکھا کہ:

1۔ راقمِ مضمون کی نظر بھی اپنے سے مختلف الفِکر احباب کے طبقے کی فکری اسلوب کی دُم پر گِری چہرے کو شناخت نا کر پائی یا نظر انداز کرنے ہی میں بھلا جانی، جیسا کہ ہمارے یہاں کی فرقہ وارانہ بحثوں، مناظروں اور مجادلوں کا یہی چلنِ عام ہے۔ اس بابت لبرل اور ترقی پسند فکر رکھنے والے، (جو کہ پاکستان کی علمی، معاشرتی، سماجی اور فکری بساط پر معدودے چند ہی ہیں) میں سے کچھ، اور مذہبی اور سرکاری استناد  و نظری ہم آہنگی والے محبانِ وطن (کی جو ایک اچھی خاصی تعداد ہمارے معاشرے موجود ہے) اس میں سے بھی کچھ لوگ اسی عادت اور رجحان میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔

2۔ دوسری بات یہ کہ نظریہِ پاکستان  کے ایک حقیقتِ مطلق کے طور پر موجود ہونے کے تصور کی پیش کاری کی بھی روایتی روش ہی نظر آتی ہے، اور نہ کہ اسے 60 کی دھائی میں تشکیل و ترویج پانے والے ایک سیاسی تصور کے طور پر پیش کرنے کی بابت ہلکا سا بھی اشارہ کیا گیا۔ یا شاید راقمِ محترم اس بنیادی مفروضہ کو اساس بنا کر پیش کرنا چاہ رہے ہونگے کہ یہ نظریہ بھی تصورِ امہ کے ساتھ ساتھ بہت ہی پرانا تھا، اس کو محض نام 60 کی دھائی میں ملا۔

3۔ تصورِ امہ اور کوئی “other” امریکا/ مغرب جو اس کے خلاف یکسوئی سے صف آراء ہے، کا بھی پرانا اور کثرت سے مستعمل خیال موجود رہا ہے۔ اس سلسلے میں مشرقِ وسطٰی اور دیگر عرب و فارس ممالک کی ریاستی کشمکشوں اور سرحدوں کو نظر انداز کرنے کی روش برقرار رہی ہے۔

4۔ کلمہ گو کے مضروب و مقہور ہونے کی نفسیات (victim psychology) بھی ہمارے قومی بحث مباحثوں اور مکالمہ جات میں شعوری ارتقاء کے سدِ راہ کے طور پر موجود رہی ہے۔

5۔ مزید یہ کہ اسلام، مسلمانوں اور وطنِ عزیز کو لاحق وجودی خطرات کی عدمِ تحفظ کی نفسیات آشکار نظر آتی ہے۔ البتہ بیرونی خطرہ زیادہ بڑا کر کے دکھانے سے دروں بینی کی عینک و فکر کو پھر سے دھندلا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی فضا تعمیر ہوتی یے جو دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور شک کی نگاہ کی ترویج کرتی محسوس ہوتی ہے۔

6۔ ایک مفروضہ یہ بھی موجود ہے کہ اگر ہم بطور ملک قوم، اور اسی کی توسیع میں امہ کے طور پر، بیرونی اثرات و فکر اور دانش کے خلاف اپنے آپ کو مامون و محفوظ رکھ پاتے ہیں، تو جبھی نجات اور خالص حیثیت بچ سکنے کی امید ہے۔ پس اپنے تہذیبی “آپ” کو مصفٰی رکھنے میں ہی بھلائی ہے۔ باہر والے “other” سے مکالمہ و لین دین نہیں کرنا، بلکہ شک رکھنا ہے۔ ہمارا تصورِ انسانیت، عالمِ ایمان اور عالمِ مخالف کی ثنویت میں واقع ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔