پندرھویں صدی کا پاکستان

پندرھویں صدی کا پاکستان
علامتی تصویر

پندرھویں صدی کا پاکستان

(ڈاکٹر طارق رحمان)

انگریزی سے اردو ترجمہ: محمد فیصل

یہ 1478 سے 1834 کے درمیانی عرصہ میں سپین کے شہر سے وِل (Seville) کا منظر ہے۔

با رعب مذہبی چوغے میں ملبوس محتسب اعلیٰ زیرِ زمین قید خانے میں داخل ہوتا ہے جہاں ایک شخص کو زندہ جلانے کی غرض سے باندھا گیا ہے۔

محتسب اعلیٰ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:

‘میں جانتا ہوں کہ تم یسوع مسیح ہو مگر اب تمہاری حقیقی تعلیمات کے بجائے چرچ کا حکم چلتا ہے، چرچ لاکھوں لوگوں کی امید ہے، لہٰذا کسی کو آزادانہ طور سے سوچنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حتیٰ کہ مسیح کو بھی چرچ کے معاملات میں دخل انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔’

مسیح نے محتسب اعلیٰ کی پیشانی کا بوسہ لیا، جس نے حکم دیا کہ رائج نظام میں خلل ڈالنے کے بجائے مسیح کو واپس جانا ہو گا۔

یہ منظر روسی ادیب دوستوفسکی کے مشہور ناول ‘برادرز کرامازوف’ (1880) سے ماخوذ ہے۔

12 ویں سے 19 ویں صدی تک ایسے مذہبی محتسب یورپی تاریخ کا اہم ترین حصہ تھے۔ اس عرصے میں ہزاروں لوگوں کو مذہبی احکامات کی خلاف ورزی کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ چرچ اور ریاست کو ایک دوسرے سے الگ کیے جانے پر ہی یہ ریت ختم ہوئی۔

اب ہم لوگ یہی کام کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس افواہوں، میڈیا کی الزام تراشی اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی صورت میں تین موثر آلات موجود ہیں۔

ہمارے ہاں افواہوں اور میڈیا پر الزام تراشی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، مگر یہاں میں چند برس پہلے کا ایک واقعہ بیان کروں گا۔

ایک لائبریری میں کام کرتے ہوئے مجھے تین طلبہ کی گفتگو سنائی دی۔ ان میں ایک نوجوان یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ نجم سیٹھی کو بھارت نے پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنوایا ہے۔ ایک لڑکی برہم لہجے میں کہنے لگی کہ بدعنوان شخص تو قابل قبول ہو سکتا ہے مگر غدار کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

اب ذرائع ابلاغ پر ایک نظر ڈالیے جہاں ہر شخص کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ لبرل خیالات کے حامل کسی بھی شخص پر ایسے الزامات دھر دیے جاتے ہیں جبکہ ٹی وی پروگرامز کے میزبان لوگوں کی کردار کشی کر کے مزا لیتے ہیں۔

چنانچہ کسی ڈکٹیٹر کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دوسروں کے خیالات اس سے مختلف ہیں، بلکہ اسے میڈیا میں صرف یہ بات پھیلانا ہو گی کہ فلاں شخص بھارتی، اسرائیلی یا امریکی ایجنٹ ہے۔

گزشتہ انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو سامنے رکھ کر امیدواروں کو جانچا اور انہی لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی جو صوم و صلواۃ کے پابند اور تخلیق پاکستان کے حوالے سے سرکاری موقف کے حامی تھے۔

صادق اور امین کی اصطلاح کا تعلق مذہبی رسوم کی پابندی کے بجائے عالمگیر اخلاقی خصوصیات سے ہے (اس اعتبار سے سکنڈے نیویا کے لوگ ہم سے کہیں بہتر ہیں) مگر جنرل ضیاءالحق نے ان سوالات کو احتساب کے ذرائع میں تبدیل کر دیا۔

اس حوالے سے ایاز امیر کا معاملہ خصوصیت سے اہمیت کا حامل ہے۔ میری رائے میں اس بنجر سرزمین پر اوسط ذہانت کے حامل اور متعصب لوگوں کے درمیان ان کا شمار معدودے چند افراد میں ہوتا ہے جو اعلیٰ حس مزاح کے مالک ہیں۔

گزشتہ الیکشن سے قبل ایاز امیر کو ‘نظریہ پاکستان’ پر یقین نہ رکھنے کی پاداش میں نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

نظریہ پاکستان کی متعدد تشریحات کی جاتی ہیں جن کا تعلق دینیات کے بجائے تاریخ سے ہے، لہٰذا پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی چیز کو کسی مذہبی ریاست میں بھی ایمان و عقیدے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

اس نظریے کی ایک تشریح یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی ہے جس کے مطابق ہندو اور مسلمان دو الگ اقوام ہیں اسی لیے ان کا ایک ملک میں اکٹھے رہنا ممکن نہیں۔

دوسری تشریح یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے اور یہ مسلمانوں کے ملک کے بجائے اسلامی ریاست ہے۔

اول الذکر تشریح ان دنوں معقول نہیں سمجھی جاتی کہ اس سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا یہ دعویٰ مضبوط ہوتا ہے کہ چونکہ پاکستان اس بنیاد پر بنا تھا کہ مسلمان ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

مزید براں اگر محمد علی جناح کو موقع ملتا تو وہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہ ہونے دیتے اور یوں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوتی۔

یہی نہیں بلکہ انہوں نے شاہی ریاستوں پر کبھی نظریہ پاکستان کا اطلاق نہیں کیا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قائد اعظم نے ریاست جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کو قبول کر لیا تھا حالانکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔

یقیناً دو قومی نظریہ وقت کی ضرورت تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو طاقتور بنانا اور ہندوستان میں ان کے لیے محفوظ مقام حاصل کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی جناح نے مذہب کو مسلمانوں میں اتحاد کی علامت کے طور پر استعمال کیا، جبکہ ان کے بہت سے بیانات میں آزاد خیال جمہوریت کی بات بھی دکھائی دیتی ہے۔

قائداعظم مسلمانوں کے لیے تحفظ چاہتے تھے، پہلے پہل وہ متحدہ ہندوستان میں رہ کر اس مقصد کے حصول کے خواہش مند تھے مگر جب ایسا نہ ہوا تو وہ مسلمانوں کے لیے الگ ملک کے وکیل بن گئے۔ وہ اسلامی ریاست کے بجائے مسلمانوں کا ملک چاہتے تھے۔ مگر ہم نے مکالمے کا در بند کر دیا اور تاریخ کو بھی عقیدے کا حصہ بنا ڈالا۔

ہمارے ہاں سیاست دانوں کا تمسخر اڑانے اور انہیں بے دست و پا کرنے کا عمل بھی زور و شور سے جاری ہے جس سے نوجوانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ سویلین افراد حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ تو پھر اہل کون ہے؟ فوج !

آخر میں پاکستان کا ایک منظر ملاحظہ کیجیے:

منحنی جسم کا ایک بوڑھا شخص ریٹرننگ افسر کے سامنے کھڑا ہے جو اس سے کہتا ہے ‘کیا تم نے 11 اگست 1947 کو یہ کہا تھا کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا؟ تمہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے’ نہیں ۔۔۔ یہ ایاز امیر نہیں بلکہ محمد علی جناح تھے۔

 


بشکریہ: نقطہِ نظر سجاگ