فاشزم نے آب حیات پی رکھا ہے

Dr Shah Muhammed Marri
ڈاکٹر شاہ محمد مری ، صاحب مضمون

فاشزم نے آب حیات پی رکھا ہے

(ڈاکٹر شاہ محمد مری)

فاشزم سرمایہ داروں کا سب سے رجعتی، نا ترس اور ظالم حصہ ہے۔ یہ عوام کے خلاف ہر طرح کے ظلم کو جائز سمجھتا ہے۔ ترقی، تفکر اور آزادی کا سخت دشمن ہوتا ہے۔ یہ ننگی طاقت اور درندہ صفت مظالم کے ساتھ حقوق مانگنے والوں کو پر سکون کر ڈالنے پر یقین رکھتا ہے۔ نسل پرستی اور فرقہ پرستی اس کا ایمان ہے ۔۔۔ ہمارے پورے خطے پر فاشزم کی حکمرانی ہے۔

حیرت یہ نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی فاشزم کی حکمرانی بدستور برقرار ہے۔ حیرت اس بات پہ ہے کہ اسے برقرار کِس چیز نے رکھا ہوا ہے؟

ووٹ، جمہوریت، شہری آزادیاں، عدالتیں، میڈیا اور عالمی رائے عامہ بجائے اس کو کمزور کرنے کے، اُسے مزید تقویت دیتے جاتے ہیں۔ بلکہ فاشزم نے خود وہاں پہ بھی بچے انڈے دے رکھے ہیں۔ یوں اُس نے اپنے ہر مخالف ادارے کو اپنا آرڈننس ڈپو بنا ڈالا ہے۔

اس نے انسانوں کی قوت اِستدلال اس قدر ضعیف کر دی ہے کہ ذرا سی بات پہ مشتعل ہوتے ہیں۔غیر متصادم اور غیر بنیادی تضادات پر ہمارے پورے منطقے میں ایک خانہ جنگی جاری ہے۔کیا فاشزم یہ گھریلو جنگیں کروا رہی ہے یا جنگیں فاشزم مسلط کیے ہوئے ہیں؟ یا یہ دونوں سبب اور نتیجے کے شیطانی چکر میں مضبوط و توانا ہورہے ہیں؟

ایک زمانہ تھا کہ فاشزم براہِ راست حکومت کرتا تھا۔ مثلاً اٹلی، جرمنی، سپین اور دیگر کئی ممالک میں۔مگر اب اس نے، بالخصوص ایشیا میں، اپنے اوپر ’’الیکشنوں والی حکومت‘ کا موٹا چمڑا چڑھایا ہوتا ہے۔ اب تو نعرے ہوتے ہیں، بینر، جلسہ جلوس دھرنا الیکشن بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ مگر نئی حکومت کے اقتدار میں ایک آدھ ماہ کے اندر اندر اصلیت ظاہر ہوجاتی ہے کہ ارے یہ تو وہی فاشزم ہے ، ’ہم ہی دھوکا کھا گئے تھے‘۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: جنوبی ایشیا میں فاشزم کا عروج، از سید کاشف رضا

اِدھر مشرف بازو لہراتا ہے وہاں مُودی دندناتا ہے۔ مگر محض اُن کا مرکزہ ہی فاشسٹ نہیں ہے بلکہ اُس کا حزبِ اختلاف بھی فاشسٹ اِس کا حزبِ اختلاف بھی۔

ایک بلوچستان کے ہنگول کی مائتھالوجی کو مذہب بنانے میں لگا ہے دوسرا چیچنیا کو انسان بنانے کے درپے ہے۔ اُس نے بھی انتہا پسند وں کو ڈھال بنایا ہوا ہے، اِس نے بھی۔ٹرینوں میں زندہ مسافروں کو جلا ڈالنے سے لے کر مسخ کردہ لاشوں تک مخالفین کو دبانے کے لیے ہر کھردرا ترین طرز بروئے کار لایا ہے۔

یہاں نچلے طبقات کی کوئی تحریک پنپ نہیں رہی۔ساٹھ برس گزر جانے کے باوجود ہم مزدور تحریک کو عام ٹریڈ یونین کی سطح تک بھی نہ لاسکے۔ اسی لیے قریب المرگ لاغر تنظیمیں ذرا ذرا سی بات پہ گروہ بندیوں میں مست و غرق ہیں۔ کسی طرح کی کوئی صفتی تبدیلی کا،ہدف ہے ہی نہیں۔

سیاسی پارٹیاں، تنظیمیں، ایسوسی ایشنیں اور این جی اوز اُس فاشزم کی اجازت سے بے ضرر قسم کی سرگرمیاں کر کے سپاٹ زندگی میں بے کرامت رنگ روغن بھرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

نواز شریف اور الطاف حسین لڑ پڑتے ہیں۔یعنی فاشزم فاشزم سے ٹکراتا ہے، حاصل پھر فاشزم۔

زرداری افتخار چوہدری کو اپنا گریبان پکڑ واتا ہے، نتیجہ پھر موٹا شدہ فاشزم۔ کیسا جادو، کیسا تعویز ہے، آبِ حیات پی رکھا ہے اس نے۔

کوئی چارہ گر نہیں۔دانشور اُن کے تھنک ٹینک بنے ہوئے ہیں۔دانشوروں میں اگر کوئی عوامی گروپ ہے بھی تو راکھ کی ایجنسی لینے باہم دست و گریبان ہیں۔

’ کون اصلی ہے کون دو نمبر ہے‘ کے جھگڑوں قضیوں کے فیصلے تک کا فاشزم سے کرائے جاتے ہیں۔

امید کی نظریں سرکار پہ۔

اِس صوبائی حکومت کی خاص مشیری نہیں ملتی تو دوسرا صوبہ حاضر۔ یہاں گنجائش نہ ہوئی تو دو اور صوبوں کے فاشزم بانہیں پھیلائے بغلگیری کو تیار۔بس آپ کا دُم ہلاتے رہنا ضروری ہے۔ اکڑا، ٹیڑھا دُم یا تو سو سال کے لیے نلکے میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر کاٹ دیا جاتا ہے۔گردن جھکی رہنا ضروری ہوتا ہے کہ اکڑی گردن جلد نیلام گھر میں سجتی ہے یا اتار دی جاتی ہے۔

فاشزم کا روپ یہ ہوتا ہے کہ وہ آزاد سوچ کو چاہ بُرد کیے رکھتا ہے۔ نظر تو نہیں آتا مگر حقیقت میں یہ آبادی کے سروں کو چھوٹا کرتے رہنے کا کام کرتا رہتا ہے۔ایشیا کے شمالی کونے سے لے کر جنوبی پانیوں تک ہمارا سارا منطقہ’دولے شاہ کا چوہا‘ بن چکا ہے۔

کتاب، شاعری، فنونِ لطیفہ، سیاست، معیشت، دلیل، بحث سب کچھ ارب پتی طبقے کے ٹی وی چینلوں کے پاس رہن رکھ دیے گئے ہیں۔ ان چینلوں پر یا پھکڑ مزاح دیکھو، یا فاشسٹ کارٹون اور یا پھر اُس کے کرائے کے دانشوروں کی بحثیں۔ہم سب ٹانگے پہ جُتے پٹی بندھے گھوڑے بنا دیے گئے ہیں۔

فاشزم کا ایک روپ یہ ہوتا ہے کہ پوری آبادی’اوپر‘ سے اچھے تعلقات میں ہونے کی عادی بنا دی جاتی ہے۔ ’اوپر‘ خواہ سردار بیٹھا ہے، خواہ انجمن کا صدر، گورنر بیٹھا ہے یا صدر ، وزیراعظم بیٹھا ہے یا اُس کی آڑ میں اصل قوت۔مگر سماج اندر سے تباہ ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹروں کے ہاتھوں صحت برباد، وکیلوں کے ہاتھوں نظامِ عدل تباہ، یونیورسٹیوں کے ہاتھوں علم کا جنازہ، پریس کے ہاتھوں اطلاعات کے ملٹی پل فریکچرز ہوتے ہیں، پنڈت پادری مذہب کو فرقوں کی بھٹی میں ڈال دیتے ہیں، بنک معیشت کو آئی ایم ایف کے ہیروئن کا عادی بنا لیتے ہیں، چودھری وڈیرہ رسم و رواج میں دیمکیں انڈیلتا ہے۔

فاشزم والے سماج میں عدالتی گواہ کرائے پر مل جاتے ہیں، پارٹی ترجمان کرائے کا، پنڈت و پادری کرائے کے، وفادار وحمایتی کرائے کے ۔۔۔ حتیٰ کہ جلوس جلسہ دھرنا گھیراؤ اورجلاؤ بھی کرائے کے ہوتے ہیں۔

کون کسے اور کب استعمال کررہا ہے معنی نہیں رکھتا، کون سا فرقہ کس فرقے سے لڑ رہا ہے اہم نہیں۔الیکشن میں کون کس کا مقابلہ کررہا ہے یہ بھی خاص معاملہ نہیں۔خاص بات یہ ہے کہ کھیت، کھلیان، کارخانہ، فیکٹری، کالج، مدرسہ ، چوک چوراہا، بستی، گوٹھ ۔۔۔ سب فاشزم اگاتے رہیں۔

فاشزم بدترین خوف پیدا کرتا ہے، لہٰذا نصاب خوف، گناہ خوف، شعر و مصر ع خوف، اداریہ آرٹیکل خوف، لیکچر سیمینار خوف، حتیٰ کہ وار کا خوف اور وار لارڈ کا خوف ۔۔۔ ایک خوفزدہ معاشرہ ہے ایسا۔ اسی لیے اِدھر ’اگر، مگر اور گو مگو‘بہت ہے گفتگو میں۔’ہوسکتا ہے‘ ، ’ممکن ہے‘، کی تکرار ہے محفلوں میں۔

فاشزم بالائی طبقات کا ہوکر بھی ظلم و سفاکی تمام طبقات پر کرتا جاتا ہے۔جاگیردار بھی اُس کا نوکر، ٹریڈ یونینسٹ بھی اُسی کا سپاہی، سردار و کارخانہ دار، سب کی نظریں اُس کی سیٹی بجانے والے منہ کی طرف ہوتی ہیں۔

کلاسیکل فلسفہ میں موجود تینوں معاشی سماجی طبقات اُسی فاشزم کی محتاجی میں ہیں۔ یہاں بالائی طبقہ بھی اُسی کا، مڈل کلاس بھی اُسی کے آگے دُم ہلاتی ہے اور نچلا طبقہ پیشہ ور لیڈروں کے ہاتھوں وہی کچھ کرتا پھرتا ہے جو اس فاشزم کے تقویت والے ہوں۔

تو کیا کیا جائے؟ اُس فاشزم کا مقابلہ کیسے کیا جائے جو بونا پارٹ والی ہے۔