حاکم کے خلاف مزاحمت کا ایک کردار’’ دُلا بھٹی‘‘

(قاسم یعقوب)

پنجابی زبان میں بھی رزم ناموں کی روایت موجود ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ پنجابی زبان میں غالب رجحان جنگ ناموں کی عکاسی رہا تو بے جا نہ ہوگا۔ پنجابی زبان میں جنگ کو ’’وار‘‘ کہا جاتا ہے جو انگریزی لفظ وار (WAR) کا ہو بہو عکس ہے۔ یہ لسانی بحث ہو گی کہ پنجابی میں یہ لفظ انگریزی سے آیا یا انگریزی نے پنجابی کا لفظ اپنے اندر سمو لیا۔ سورماؤں کی تعریف اور واقعات نگاری سے شجاعانہ جذبات کو مہمیز لگانے کے لیے پنجاب کے بیشتر دیہاتوں میں مختلف واروں کو گا کر پیش کیا جاتاہے۔ پنجاب کے دیہاتوں میں عموماً مل بیٹھنے کا کلچر موجود ہے۔ سرِشام ہی دیہاتوں میں چوپالوں میں جمع ہو جاتے ہیں جہاں دن بھر کے واقعات مختلف مباحث میں ڈھل کر زیر گفتگو رہتے ہیں۔ ملکی صورتِ حال اور قدیم روایات پر دلچسپ باتیں ہوتی ہیں۔ چوپالوں میں داستان گو بھی موجود ہوتے ہیں جو ’’اکٹھ‘‘ کو مختلف واقعات سناتے ہوئے حیرتی خانے کی سیر کراتے ہیں۔ پنجاب کے دیہاتوں میں عزت و غیرت کے نام پر بہت سی رسومات موجود ہیں۔ چوھدری اور کمّی مزارعے کا فرق پورے دیہات کو دو سطحوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ پرانے زمانوں میں سورماؤں کی بہادری کا ذکر کرنے کے لیے داستان گو ’’واریں‘‘ گاتے جو چوھدریوں کی انا کو تسکین پہنچاتیں، جس میں وہ خود کو کوئی سورما(Hero) تصور کرتے۔
دُلّا بھٹی پنجاب لوک کلچر کا ایک ایسا کردار ہے جس نے حاکمِ وقت کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے کلچر، اپنی دھرتی پر حملہ آور کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔
دُلّا بھٹی کی ’’وار‘‘ پنجابی زبان کی ناقابلِ فراموش داستانِ شجاعت ہے جس میں ’’دُلّا‘‘ ایسا کردار ہے جو سورما کی شکل میں پنجاب کی دھرتی کا محافظ بنتا ہے۔ ’’دُلّا‘‘ راجپوتوں کی اولاد میں سے ہے۔ اس کی ماں ’’لدھی‘‘ نے اسے بہت ناز سے پالا ہے۔ ایک دن وہ اپنے دوستوں میں بیٹھا شراب پی رہا ہوتا ہے، اوپر سے اس کی ماں آکر اسے خوب سناتی ہے۔ دُلّا دوستوں کی محفل میں ماں کے یوں چلے آنے سے خفا ہوتا ہے۔ ماں اسے بتاتی ہے کہ تمہارے خاندان کے چار بزرگوں کو مغلوں نے قتل کروا کر ان کے جسموں کی کھال اتروا کر بھُس بھر دیا اور میخوں سے لٹکا کر تیروں سے نشانہ بازی کرتے رہے۔ میں نے رات خواب میں دیکھا کہ تمہارے چوبارے کا چھجا، جہاں تم محفلیں جمایا کرتے تھے، گر گیاہے اور تمہارے سفید دُم والے بچھڑے کو مغل ذبح کر کے اس کی بوٹیاں کھا رہے ہیں۔ ’’دُلّا‘‘ اس خواب کی تعبیر کو قیاس کر کے سیخ پا ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے، ماں! جب میں پیدا ہوا تھا مجھے گھٹی کس چیز کی دی گئی تھی؟ماں بتاتی ہے کہ افیم گھول کر اور پھر سان چڑھی تلوار دھوکے اس کا پانی تمہارے منہ کو لگایا تھا۔ یہ خالصتاًپنجاب کا ثقافتی اظہار ہے۔ آج بھی دیہاتوں میں گھٹی دینے اور پانی پلانے کی رسمیں موجود ہیں۔ دُلّا سیخ پا ہو کے کہتا ہے کہ بزدل ہی سمجھنا تھا تو باتھو، بگھاٹ، سونچل اور تاند لا ساگ یا چولہے کی مٹی کھا کے اپنے پیٹ میں میری پرورش کرتی۔ ماں کے جانے کے بعد کوئی مخبر دُلّے کو اطلاع دیتا ہے کہ بارہ ہزار کی ڈالی گاؤں میں اتری ہے۔ دُلّا فوراً جوانوں کو ساتھ لے جا کے ڈالی لوٹ لیتا ہے اور امیر بگا ملکیرا کا سر اُتار کے رومال میں رکھ کر کھتری کے ہاتھ لاہور بادشاہ کو روانہ کردیتا۔
مغل دربار میں جب سر پیش ہوا تو وزیروں، امیروں، بہادروں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ کھتری نے بتایا کہ بگا ملکیرا آپ کے لیے کشمیر سے بارہ ہزار کی ڈالی لا رہا تھا کہ ’’پنڈی‘‘ کے قریب ’’دُلّا بھٹی‘‘ نے لوٹ کر ملکیرے کو قتل کر دیا۔ بادشاہ یہ سن کر ’’دُلّے‘‘ کی سرکوبی کے لیے فوراً فوج بھیجنے کا ارادہ کرتا ہے۔ مرزا نظام دین اس مہم کے لیے بارہ ہزار جوانوں اور بھاری اسلحے کے ساتھ ’’پنڈی‘‘ کی طرف روانہ ہوتا ہے۔
چڑھ پیا مرزا نظام دین، ہست پنج پے گئی دُور
تتے تا مہاوتاں ہاتھیاں نوں لایا سندور
ٹھیکری والیوں لانگھا پے گیا چڑھے مغلاں دے کٹک ضرور
مغل پچھدے لے ہالیاں پالیاں، دُلّا نیڑے کہ دور
اوہدے دشمن آہندے اوں کھڑا بھئی سجن آہندے دور
مغلاں نے مچھاں مڑوڑیاں، چلنا پنڈی ضرور
ڈھا دینیاں دُلّے دیاں ماڑیاں، کر دینیاں چکنا چور
دُلّے کواس فوج کی کوئی خبر نہیں۔ دُلّا ایک برہمن سے پوچھتا ہے کہ تمہاری پتری کیا بتاتی ہے۔ برہمن بتاتا ہے کہ آٹھ دن تک آپ کو شکست ہو گی اور نویں دن آپ جنگ جیت جائیں گے۔ چنانچہ دُلّا اپنے ساتھیوں کے ساتھ چنیوٹ میں اپنے ماموں رحمت خان کے ہاں چلا جاتا ہے۔ پیچھے سے مغل فوج مرزا نظام دین کی سربراہی میں پنڈی پہنچ جاتی ہے۔ لدھی (دُلّے کی ماں) جب مغلوں کو اپنے گھروں کے قریب دیکھتی ہے تو سخت پریشان ہو کر دُلّے کو ڈھونڈتی ہے مگر دُلّا تو ماموں کی طرف جا چکا ہوتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے بیٹے ’’نور خان‘‘ کو غیرت دلاتی ہے۔ نور خان، جو اٹھارہ سال کا نوجوان ہے، جس کی شادی کو صرف دو دن ہوئے ہیں، مغلوں سے لڑنے سے انکار کرتا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر مہرو پوستی کام آتا ہے جو بہو، بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے تیروں کے منہ پر زہر لگا کر وار کرنے لگتا ہے۔ مہروپوستی (جو نشے میں چور رہتا ہے) مغلوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ اس پر مرزا نظام دین ہاتھیوں کے سونڈوں میں نشے کی بوتلیں انڈیل کر بستی کی طرف حملہ کر دیتا ہے۔ مکان گرادئیے جاتے ہیں، عورتوں پر کوڑے برسائے اور گرفتار کر کے لاہور لے جانے لگے۔ ان میں دُلّے کی ماں ’’لدھی‘‘ بھی ہوتی ہے جو بہت واویلا کرتی ہے مگر کوئی مدد کو نہیں آتا ہے۔
لدھی نے کوکاں ماریاں، مار کے لمبی ڈھاہ
پتر گیا سئیں نانکے شہرنو، اتے گھوڑی دے کاٹھی پا
وے تیری لے چلے پنڈی لُٹ کے، وچ ہاتھیاں دے ہوریاں پا
مرزا لے چلیا ای باندھاں بنھ کے، داغ دا تارا جیوتی نوں لا
جے تو بند راجپوت دی، مینوں باندھاں چھڑا کے وکھا
یہ وہ فریاد تھی جو دُلّے کا دوست ’’روڑ جٹ‘‘ چنیوٹ جا کر دُلّے کو سناتا ہے اور فوری مدد کی درخواست کرتا ہے۔ دُلّا اس وقت پانچ سو جوانوں میں بیٹھا شراب پی رہا ہوتا ہے۔ اپنے خاندان کو بچانے کے لیے مغل فوج کے خلاف نکل پڑتا ہے۔ مغلوں کو گمان تک نہ تھا کہ کوئی ان پر حملہ آور ہوگا۔ وہ شراب پی رہے تھے، کھیلوں میں مصروف تھے، بھانڈ بازی اور نقّالی سے جی بہلا رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دُلّے نے ایسا وار کرتا ہے کہ اُڑتے پتوں کی طرح سر اڑنے لگتے ہیں۔ دُلّا ایک سورما بن کر سامنے آتا ہے اور لدھی کو آزاد کر وا لیتا ہے۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔