کرہ ارض پر جنگ کے بڑھتے سایے

کرہ ارض پر جنگ کے بڑھتے سایے
علامتی تصویر

کرہ ارض پر جنگ کے بڑھتے سایے

مختلف سمتوں سے آنے والی خبریں کرہ ارض پر جنگ کے بڑھتے ہوئے سایوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ امن و آشتی کا برچار کرنے والے دانشور، محبتوں کے گیت لکھنے والے شاعر، خوشحالی اور ترقی کے خواب دیکھنے والے ادیب، مثالی معاشروں کے تصورات پیش کرنے والے مفکرین اور بنی نوع آدم کی بقاء کی فکر کرنے والے تمام حلقے پوری سنجیدگی سے ایسی فکری تحریک شروع کریں جو کرہ ارض کو مہلک انجام کی طرف لے جانے والے عوامل کے راستے میں آہنی دیوار بن جائے۔

شمالی کوریا کی طرف سے بحیرہ جاپان میں بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان مذکورہ بالا تشویش ناک خبروں میں سے ایک ہے کیونکہ دعوے کے مطابق یہ میزائل امریکی سرزمین سمیت دنیا میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ منظر نامہ شمالی اور جنوبی کوریا کی کشیدگی کو خطرناک صورت حال تک لے جانے اور امریکہ کے سنگین ردعمل کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی لئے روس اور چین نے فریقین پر کشیدگی کم کرنے کے لئے زور دیا ہے اور جہاں شمالی کوریا سے میزائل اور جوہری پروگرام کو منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے وہاں امریکہ اور جنوبی کوریا کی بڑے پیمانے پر جاری فوجی مشقوں کو معطل کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔

قطر اور ہمسایہ ملکوں کے اختلافات، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد اچانک کئی ملکوں کے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی صورت میں منظرعام پر آئے، تاحال ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جن میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔

سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے قطر کو 13شرائط پیش کی گئی تھیں جن کی ڈیڈ لائن منگل کی رات تک تھی۔ قطر کے وزیر خارجہ ان مطالبات کو ناقابل عمل قرار دے چکے ہیں۔

توقع رکھنی چاہئے کہ بدھ کے روز مصر میں 4 ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مختلف ممالک، خاص طور پر ماہ رواں میں سلامتی کونسل کے صدر کے فرائض انجام دینے والے ملک چین کے سفیر کے اس مشورے کو پیش نظر رکھا جائے گا کہ فریقین کا ایک دوسرے سے مکالمہ اور مشاورت کرنا ہی تنازع کے بہترین حل کی طرف لے جانے والا واحد راستہ ہے۔

عرب اور خلیجی ممالک کو باہمی اختلافات کا شکار ہوکر مسلم امہ کے خلاف کی جانے والی ان سازشوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جن کے مظہر فلسطین اور کشمیر کے مسائل ہیں۔ منگل 4 جولائی کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے تین روزہ دورے پر پہنچے تو نئی دہلی اور تل ابیب نے ایک دوسرے کے دشمنوں کو مشترک دشمن قرار دینے اور حماس اور لشکر طیبہ میں کوئی فرق نہ کرنے کی سوچ کا اظہار کیا۔

صہیونی حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کرنے کا جو اعلان کیا گیا، اس سے نہ صرف نئی دہلی اور تل ابیب کا اسلام دشمن گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا بلکہ عملی اظہار بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں سامنے آیا۔

کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کئے گئے 4 مکانوں کے ملبے سے 3 کشمیری نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوگئیں جبکہ وادی بھر میں کیے گئے مظاہروں کے دوران ایک اور نوجوان گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوگیا۔

دوسری جانب بھارت اور اسرائیل کو فطری اتحادی قرار دینے والے ملک امریکہ کے سینیٹروں کے وفد نے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا دباؤ بڑھانے کے لئے کابل میں یہاں تک کہہ دیا کہ اسلام آباد نے اپنا رویہ نہ بدلا تو بطور قوم ہمیں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ دیرینہ اتحادی ممالک کے درمیان مطالبات منوانے کے لیے جب اس نوع کے لہجے اختیار کیے جانے لگیں تو احتیاط اور درست حکمت عملی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس وقت جس مشکل صورت حال کا سامنا ہے اس میں مسلم حکمرانوں کا مل بیٹھ کر مکالمہ کرنا، حقائق کا درست ادراک کرکے مشترکہ حکمت عملی بنانا اور تنظیم اسلامی کانفرنس کے پلیٹ فارم کو فعال بنانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔


بشکریہ: اداریہ روزنامہ جنگ مورخہ 6 جولائی 2017