عالمی جبر کے انسانی ذہن پر اثرات، ایک نفسیاتی جائزہ 

Naeem Baig
نعیم بیگ

عالمی جبر کے انسانی ذہن پر اثرات، ایک نفسیاتی جائزہ 

از، نعیم بیگ

گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک مختصر نوٹ لکھا:

’’بندہ جس انسان سے محبت کرتا ہے وہی ذات اس کی موت کے اسباب پیدا کرتی ہے۔ میرا نصف صدی زندگی کا شعوری تجربہ یہی کہتا ہے۔‘‘ 

یہ جملہ ایک رد عمل کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس جملے کی ظاہری وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن باطن میں زہریلی ہواؤں نے جو موسم باندھ رکھے ہوتے ہیں وہ کبھی کبھار اپنا رنگ دکھاتے ہیں اور اظہار کا موقع ملتے ہی رقم ہو جاتے ہیں۔ اِسے ہم علامتی انفرادی اظہار کہہ سکتے ہیں جس کی زیریں سطح میں کئی ایک معانی پوشیدہ ہیں۔ ہم اسے یک جنبش اَبرُو یک سطحی بیان نہیں کہہ سکتے۔ 

 ارسطو نے کہا تھا چُوں کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اس لیے وہ انفرادی طور پر کوئی اخلاقی حیثیت نہیں رکھتا۔ اسے ہمیشہ بڑی جماعت کا ایک فرد سمجھنا چاہیے۔ اسی پر دانتے کہتے ہیں: 

’’کوئی انسان از خود خوشی یا آسائش حاصل نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے کہ اس کی ضروریات اتنی مختلفُ النّوع ہیں کہ کوئی ایک انسان انھیں فراہم نہیں کر سکتا۔ پس فرد کی آسائش و بہبود اسی وقت ممکن ہے جب کہ پوری جماعت کو آسائش و بہبود حاصل ہو۔‘‘ 

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تب انسانی تہذیب و تمدن کا مقصود اور مَطمعِ نظر کیا ہے؟ کیا انسان انفرادی وجہ کو کسی صورت نظر انداز کر سکتا ہے؟ اِس کا جواب بہت آسان ہے کہ تہذیب و تمدّن کا مقصود یہی ہو سکتا ہے کہ ایسے اسباب فراہم کیے جائیں جس سے ساری انسانیت اپنی بہبود حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری دماغی قوتیں صرف کر دے۔ دوسرے لفظوں میں تمدن کا دوسرا کوئی مطلب ہی نہیں ما سوائے کہ بنی نوعِ انسان کی دماغی قوّتوں کو ابھار کر ایک ایسے راستے پر لایا جائے جہاں امن، صلح اور آشتی حُکم راں ہوں اور وہ سماجی اخلاقیات کا تعین کرے۔

عمومی طور پر انسان ذاتی خدمات کے عوِض دوسرے سے وہی توقع کرتا ہے جو وہ خود سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ پہلے شخص کی اخلاقیات سماجی طور پر مستحکم ہے یا جبلت کے دوسرے منفی عوامل کے تحت اپنے سروکار کو بدلتی رہتی ہے۔ ہمارے سامنے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جنھیں ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں۔  

دنیا میں ایک وقت ایسا تھا کہ طاقت و جبر کی قوت اور حکم رانی کو استعمال کر کے کسی حد تک یہ جزوی مقاصد حاصل کیے گئے، لیکن وقت کے ارتقاء نے یہ ثابت کر دیا کہ عالم گیر امن و اخلاقیات کے لیے عالمی نظریاتی یک سُوئی اور اشتراک بے حد لازم ہے۔ 

سترہویں صدی میں کسی حد والٹئیر نے روشن خیالی کی فضا سازگار کی۔ اس کے ساتھ ہی انسانی فہم و فکر میں نمایاں تبدیلی روسیو کے خیالات سے سامنے آئی۔ پھر وقت انسان کو انیسویں صدی میں لے آتا ہے جہاں کارل مارکس ہِیگلئن فہم و فکر کو کسی حد تک نئی شکل دیتا ہے اور نظریاتی طور پر انسانی زندگی کے معاملات میں ایک مدلّل اور کام یاب فلسفہ پیش کرتا ہے۔ منطق کی سائنس اور مَعقولات کو خیال کی حرکیات کے نتیجے میں منطقی استخراج کو ممکن بناتا ہے۔ مارکس کے سیاسی اور معاشی فکر و خیالات انسان کو ایک اجتماعی نظریاتی تصور مہیا کرتے ہیں۔ 

ہم ذرا لمحے بھر کو موضوع سے ہٹ رہے ہیں لیکن اس وضاحت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو گا کہ قاری انسانی رویّوں کی بنیادی ترقی پسندانہ اقدار کا ظہور دیکھے۔

انسان کا انفرادی و اجتماعی حقِّ خود ارادیّت اور طبقات کا خاتمہ ایک ایسے آفاقی نظام کو لیے سامنے آتا ہے جس سے ہر مارکسی مفکّر اپنے عہد میں نبرد آزماء رہا۔

دنیا بھر میں عالم گیریت کے تناظر میں سرمایہ سارانہ نظام اور اس کی اوّلین شکل امپیرئیل ازم کی صورت اپنے مضبوط اور واضح سرمایے کے کردار و سامراجی قوتوں سے قومی ریاستوں کو گرفت میں لے چکی تھی۔ یہی قوتیں رفتہ رفتہ انسان کو ایک کموڈیٹی کی صورت پیش کرنے لگیں۔ انسانی جذبات کا استحصال ہونے لگا۔ 

یہ صورت بعد ازاں ترقی پذیر ممالک میں قوم پرستی کی شکل اختیار کر کے سامراجی قوتوں کو تازہ انسانی خون بخشنے لگی۔ گو قوم پرستی وسطی یورپ میں پندرہویں صدی تک خوب قوت بخش رہی کہ حاکم اور محکوم کا تصور تو بہت پہلے سے قائم تھا جسے مذہب اور سرمایے نے ایک ساتھ اتحاد کر کے جِلا بخشی۔ 

حاکم اپنے سرمایے اور قوت کی بنیاد پر وراثتی سطح پر مضبوط ہوتا گیا اور محکوم طبقہ جسے ایک کموڈیٹی ڈیکلئر کر دیا گیا تھا، جبر و استبداد تلے اپنے حق سے رفتہ رفتہ محروم ہوتے ہوئے مذہب کے سہارے اس افیون کی گولی نگلنے لگا جو وقتی سکون کا ایک واضح عالمی سِگنی فائڈ بنا۔ 

اسی اثناء میں وقت کا پہیہ تیزی سے سائنسی ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے زرعی دور سے صنعتی میکینکل دور میں داخل ہوا اور پھر مزید سرعت سے الیکٹریکل سے ہوتے ہوئے ڈیجیٹل دور میں داخل ہو گیا۔ یہاں ترقی کے راستے کھلتے ہوئے انسان کو وقت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے تصرّف کی چند ایجادات کے تحت کر دیا گیا۔

انسان کے سوچنے سمجھنے کی ارتقائی صورت ان gadgets نے محدود کر دی۔ سہولیات کی دنیا جو ایلیٹ کلاس نے اپنے لیے بنائی اس انسانی کموڈیٹی کے تصرف میں لانے کے لیے اسی کی اجرت کے متبادل پر استعمال کیا۔ یہاں ایک بات اور اہم کہ ابلاغ کی آزادی کے نام پر انسان کو انھی گیجٹس کے توسط سے مزید پابند کر دیا گیا۔ 

میں ذاتی طور پر ترقی پسند اور سوشلسٹ ہونے کے ناتے ان سائنسی ترقی اور گیجٹس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کرتا لیکن بہ یَک وقت سرمایہ دارانہ ذہن کی اس معاشی استحصالی نظام کی بھر پُور negation ضرور کرتا ہوں، جہاں انسان کو طبقات میں بدل کر اپنے واضح مقاصد (ارتکازِ سرمایہ) جو اب نیو لبرل ازم اور نیو کالونیل ازم کے تحت پورے ایشیاء اور افریقہ کو گرفت میں لے چکا ہے، میں کُلی طور پر کام یاب ہے۔ 

یہی وہ بنیادی مقدمہ ہے جو اِس مختصر جائزے کا نکتۂِ اجمال ہے۔ افکار اور عقلیت پسندی کا تقاضا ہے کہ انسان کے حقیقی فطری وجود کی اہمیت کو سرمایہ دارانہ جیسے جبر و استبدار کے نظام سے محفوظ رکھا جائے۔ یہی اہل علم و دانش کا اولین فرض ہے۔ یہاں مارکس ازم کی سیاست و معاشی نظام میں مظلوم عوام و اقوام کی تقسیم، ظالم و جابر طاقت ور قوموں کی قوم پرستی، نفرتوں کی بنیاد پر پیدا شدہ خلیج اور ان کی آزادی و خود مختاری کے سوال کو ایڈریس کرنا لازم ہے۔ 

 ترقی پسند نظریات ہی وہ مؤثر ہتھیار ہے جو فردِ واحد کی انفرادیت کو سماجی کُل کے جُزو کا حصہ بننے میں کُلِیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 

اِس مختصر وضاحت سے یہ شواہد سامنے آتے ہیں کہ وقت کے گزرنے سے جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے توسُّط سے دنیا میں ایک طبقے کی مادی ترقی سامنے آنے لگی تو عام انسانی رویوں میں ایک ایسی مایوسی پھیلی جو خود کار نظام کے تحت اسے انفرادی مفادیت اور جبلتی و منفی وحشیانہ پن کے دیگر عناصر کی طرف لے جانے لگی جسے ہم اگلے حصہ میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ 

جو خواتین و حضرات میری تحریروں اور فکشن سے آشنا ہیں، خوب جانتے ہیں کہ راقم مقامی سماجی و معاشی مسائل کو صرف درونِ خانہ یا مقامیّت کے تناظر میں نہیں دیکھتا بل کہ ہمیشہ نصف صدی سے زائد شروع ہوتی گلوبلائزیشن اور مارکیٹ اکانومی، سرمایہ دارانہ عالمی علمی و فلسفیانہ عوامل کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میرا قاری نیو لبرل ازم کی نمو پاتی نئی عالمی پالیسیوں کو ضرور مدِّ نظر رکھے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔ ہماری لوکیل کے مسائل کا حل در حقیقت انھی مباحث میں پوشیدہ ہے۔ 

اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے اب ہم ان نفسیاتی عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی اساس پر میرا یہ جملہ ایستادہ ہے۔ کرداری اخلاقیات سماجی رویوں کی مرہونِ منّت ہوتی ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام نے کچھ اس صورت جکڑ رکھا ہے کہ انسان کی بنیادی اور فطری آزادی ایک بے ربط برگشتہ خواب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

معاملہ یہیں تک ہی محدود نہیں، بل کہ اس سے بڑھ کر کہ جہاں اس کا جبلتی وحشی پن قانون کے تحت پابند کر دیا گیا ہے وہیں اس کی فطری آزادی و ضروریات کا حصول مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ مان لیا کہ سماجی زندگی کے لیے انسان کی وحشیانہ جبلت کو کسی ضابطے کا پابند کرنا لازم ہے، لیکن اس کی فطری آزادی کا ڈی این اے اس کی جسم سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ 

جی ہاں جنیٹک انجینئرنگ سے آپ ایسا کر سکتے ہیں، لیکن کیا آٹھ ارب انسانوں کا ڈی این اے بہ یَک وقت بدلا جا سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ سو برس بعد ایسا ممکن ہو، لیکن ہم آج کی تیسری دنیا کے سماج اور فرد کی بات کر رہے ہیں۔ 

جیسا میں نے اوپر کہا کہ سرمایے کے تحت تجسیم کردہ کموڈیٹی کا اپنا رنگ روپ ضرور ہوتا ہے، لیکن عالمی مارکیٹ اکانومی کی منڈیوں میں (جیسے ہمارا ملک ہے) اس کی منشاء اور عمل اس کی پہنچ سے دور کر کے اسے ایک سطح پر منجمد کر دیا جاتا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے حقیقی جنگ جو فرد اور سماج کے درمیاں شروع ہوتی ہے۔ جزو کا رویہ کُل کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی کی روزمرہ ضروریات اگر عدم نظام کی بنیاد پر، اس کے باوجود کہ وہ پوری طرح اپنی استطاعت کے ساتھ کام سر انجام دے رہا ہو، پوری نہ ہوں تو اس کے باطن میں ایک مسلسل بغاوت برپا رہتی ہے جو وقتاً فوقتاً انفرادی عمل کے تحت جرم کی حد سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔

روز مرہ کے گھریلو واقعات دیکھ لیجیے۔ سگے رشتوں اور سوشل رشتوں میں تسلسل سے گراوٹ انھی وجوہات پر دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ذاتی مفاد فرد کا جُزوِ لا یَنفَک ہے لیکن دوسرے کے مفاد کی منفِیّت، دوسروں کے سپیس میں خود گھس جانا، مالی، سیاسی، سماجی معاملات میں اِنکروچمنٹ ایک ایسا عُنصر ہے جو بہ وجہ سرمایہ دارانہ نظام انسان سے کموڈیٹی کی ٹرانفارمیشن میں ظہور پذیر ہوا۔ 

خود کشیوں کے واقعات اسی نفسیاتی پہلو کا شاخسانہ ہیں۔ خصوصاً ایسے واقعات میں جو لوگ پہلے ایک کئی ایک انسانوں کا قتل کرتے ہیں اور بعد ازاں خود کشی کر کے خود کو معاشرے سے آزاد ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔ یہ خود کشی حقیقی طور پر آزادی کا self ignited فیصلہ ہوتا ہے۔ جو دوسرے فرد یا سماج کی مزاحمت میں منفیت کا روپ دھارتا ہے اور سماجی عمل کا رد عمل بن جاتا ہے۔ 

فرائیڈ نے اپنی کتاب “اِنٹرپرَٹِنگ ڈریمز” کے ایک چپٹر ایک حصے میں جرمن سائکالوجسٹ فلاسفر جی ٹی فِچنر کے حوالے سے انسانی سائیکالوجی کا ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے: “انسانی سوچ بنیادی طور پر اس کے دماغ کی شعوری سرگرمی ہے جسے شعور اپنے باطنی حصہ میں بیرونی عناصر (بیرونی دنیا کے) کے دباؤ کو ابسٹریکٹ (تجرید ) کی صورت میں پیش کرتا ہے۔‘‘  

آگے چل کر فرائیڈ اسی کو خوابوں کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ 

میرا کہنا یہ ہے کہ یہی خارجی خصوصیات یا عوامل (peculiarities) جب انسان کے باطن میں تجرید کی صورت جَزر و مَد پیدا کرتے ہیں تو اسے نتائج کی پروا نہیں رہتی بل کہ وہ نتائج اس کے شعور کی پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں اور انسان ایسا عمل کر اٹھتا ہے جسے سماجی اور قانونی سطح پر جرم یا منفی عمل سمجھا جاتا ہے۔

در حقیقت وہ سرگرمی اس شخص کی شعوری پہنچ سے دور لا شعوری سطح پر سمندر کے لا محدود جَزر و مَد کی مانند سر زَد ہوتی ہے۔ پہلا شخص اس کے نتائج سے بے پروا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عدم برداشت، مالی و معاشی و جسمانی عدمِ تحفظ اور نا انصافی کا احساس اِسی نفسیاتی ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ 

ایسی ہی ملتی جلتی کیفیات کچھ دیکھی، اَن دیکھی محبت میں پیدا ہوتی ہیں۔ محبت میں جب جنون شعور پر قابو پا لیتا ہے تو اس شخص کی شعوری سرگرمیاں اور اعمال تجرید (وہی لا محدود سمندری جزر و مد) کی صورت سامنے آتے ہیں۔ دوسری طرف محبت پا لینے والا شخص عقلیت کی بنیاد پر اس محبت کو قبول یا پرکھ رہا ہوتا ہے کیوں کہ وہ جنون کی حالت میں نہیں، جب کہ پہلا جنون کی صورت اسی عمل کو آخری عمل سمجھتا ہے جو اس کے دماغ میں جنم لینے والے جزر و مد (تجرید) کا نتیجہ ہوتے ہیں سو منفی یا مَثبت اثرات دوسرے کےعملی تسلسل سے فرد میں چڑچڑے پن کو پیدا کرتے ہیں اور وہ اپنے باطن میں مرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب وہ موت علامتی ہے حقیقی؟ 

اس موضوع پر نفسیاتی حوالوں سے مزید بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ آج کی نشست میں اتنا ہی کافی ہے۔ 

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔