سٹالن سرمایہ داروں کا گماشتہ تھا، ایک بیان

سٹالن سرمایہ داروں کا گماشتہ تھا

سٹالن سرمایہ داروں کا گماشتہ تھا، ایک بیان

از، نصیر احمد

یہ تو ایسے ہی جیسے کوئی سکھ وہابی ہو جائے۔لیکن جدلیاتی جنون کچھ ایسے ہی ہوتا ہے۔کیس کے خلاف جتنی گواہی توانا ہوتی جاتی ہے کیس کے لیے جنون بڑھتا جاتا ہے۔ مزاروں پر بھی آجکل ایسے مجذوب ملتے ہیں۔ ایسا ایسا مجرا کرتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ اور پھر مجرا کرتے کرتے بدحواس ہو کر گر پڑتے ہیں، شاید نیم غشی کی یہی کیفیت محمل تک رسائی کہلاتی ہے لیکن دیکھنے والے کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ جو بہت زیادہ ہمدرد ہوں، انھیں اس پاگل پن پر افسوس ہوتا ہے۔ لیکن رد عمل کی جو بھی شکل سامنے آئے، وہ کامریڈ سٹالن کی اشتراکیت کی تردید نہیں کر پاتی۔

سوویت یونین میں یہ لطیفہ رائج تھا کہ ہم لوگوں نے تو کمیونزم نہیں دیکھا، ہمارے بچے دیکھیں گے، بے چارے بچے اشتراکیت وہ دوزخ ہے جس کی انسان کشی کی ہوس ختم نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس دوزخ کے ساتھ ایک فردوس منسلک ہے، بزرگ حشیش کی جنت جیسی فردوس ، حالت تقوی میں جس نے اس کا نظارہ کر لیا، اس نے پھر اپنی ذہنی کیفیت کا جائزہ نہیں لینا بلکہ کسی دوسرے کا ہی نقصان کرنا ہے۔

میرے اچھے لینن کے بارے میں پتا نہیں کیا کہتے ہیں؟

کیا وہ بھی سرمایہ داروں کا گماشتہ تھا؟

ہو سکتا ہے جس طرح کے مظالم اس نے کیے، وہ تو کوئی اشتراکی کر ہی نہیں سکتا، جیسے بچوں کے سکولوں پر حملے کوئی مسلمان تو کر ہی نہیں سکتا۔

شاہ روس کے بچوں کا قتل بھی کوئی اشتراکی نہیں کر سکتا؟

وہ تو کولچک بھیس بدل کر آیا تھا، شاہی خاندان کو قتل کر کے چلتا بنا، اور کولچک کو اس قتل کے پیسے بل گیٹس کے دادا نے دیے تھے۔

انتخاب جیتنے والوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کی سازش تو لائیڈ جارج نے رچی تھی، ورنہ ایک اشتراکی تو آمریت کا شدید دشمن ہوتا ہے۔

پرولتاریوں کی آمریت تو ایک لسانی غلط فہمی تھی جس کے فروغ کے لیے ووڈرو ولسن نے فلسفیوں کی جیب گرم کی تھی۔

اور روس میں خانہ جنگی کے جتنے بھی جنگی جرائم تھے،وہ سب سرمایہ داروں کی سازش تھی ورنہ جناب لینن تو ہنگام جنگ مشکیزہ لیے پھرتے تھے اور زخمیوں کو پانی پلاتے رہتے تھے۔

اور قحط،؟

قدرت کا تو آپ کو پتا ہی ہے، اسے اشتراکیوں کی ترقی ذرا نہ بھائی، اس نے ہر طرف بھوک پھیلا دی ورنہ کوئی اشتراکی کسی کو کیسے بھوکا مار سکتا ہے؟

اور پینڈووں سے غلہ ہتھیانے کا کام تو چرچل کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ یہ بے دردی صرف سرمایہ دار ہی کر سکتے ہیں۔

اشتراکی کا تو مطلب ہی معصوم ہے۔ بے چارہ دن کو مشقت کرتا ہے اور رات کو نظمیں لکھتا ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ اس نے انسانوں کو چیونٹیوں کی طرح مسل دیا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ تاریخ کے فیصلوں کے اشتراکی کیسے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟

تم تاریخ  کوالٹا لٹکا کر تفتیش کر سکتے ہو، مزدوروں کے ہمدرد، کسانوں کے محسن سے اس کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کر سکتے

اور وہ بندی خانے جن کے بارے میں سرمایہ دار جھوٹی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں، وہاں پر کونسی زیادتی ہوتی تھی؟

ان قیدیوں کو تو کھلا کھلا کر دیوانہ کردیا تھا، صرف جدلیاتی معیشت پر کبھی کبھی لیکچر سننے پڑتے تھے، اگر یہ درندگی ہے، تو پھر انسانیت کیا ہے؟

لیکن روسی حکومت نے کچھ راز فاش کر دیے ہیں، فائلیں موجود ہیں، احکامات کی تفصیلات موجود ہیں، یاداشتی تنظیمیں ہیں، تحقیقاتی ادارے ہیں، آپ بیتیاں ہیں، جگ بیتیاں ہیں، افسانے ہیں، نظمیں ہیں، کتابیں ہیں، فلمیں ہیں۔

وہ پھر بھی کہیں گے سب سرمایہ داروں کی سازش ہے، اشتراکی تو کسی کو اف بھی نہیں کہتے تھے۔

کارل مارکس اور لینن کے ارشادات میں جا بجا نفرت اور تشدد موجود ہیں اور لینن کے اعمال میں یہ تشدد موجود ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

سب سرمایہ داروں کی سازش ہے، کارل مارکس تو محبت کا محور ہے اور لینن مودت کا مرکز۔ اور پھر ایک سچا اشتراکی نفرت کر ہی نہیں سکتا۔

اسی طرح مذہبی فاشسٹوں کو بھی قائل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے شہری تھے، مذہب الگ ہوا تو کیا ، ہماری تمھاری طرح انسان تو تھے ہی انھیں کیوں قتل کیا؟  تو جواب ملتا ہے

تمھیں ان میں انسانیت نظر آتی ہے، جو ہماری قوم سے نفرت کرتے ہیں۔

یار یہ بنگالی تو مسلمان بھی تھے۔

وہ کہاں کے مسلمان؟ مسلمان وہی جسے مولانا مسلمان کہیں، ورنہ کیسا مسلمان؟ کہاں کا مسلمان؟

انسانیت دشمنی اور حقائق دشمنی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ نسل پرستی ہو، مذہبی جنون ہو، جدلیاتی دیوانگی ہو، جب بھی اصل چہرہ سامنے آتا ہے تو دیوانوں کا رد عمل کچھ اس طرح ہوتا ہے۔

‘ میری ماں ایسی نہیں ہے ، یہ تو کوئی ڈائن ہے’

لیکن پروین کی ماں ہی ڈائن ہوتی ہے لیکن پروین یہ بات مان لے تو محبت کس سے کرے؟