ارے اے ٹی ایم تیری تیرا دماغ، تیری بد تہذیبی
از، یاسر چٹھہ
کچھ دیر پہلے اے ٹی ایم مشین پر گیا۔ یہیں اپنے گھر کے پاس کے جی الیون مرکز کے کسی سونیری بینک کے سڑک پر جھانکتے اے ٹی ایم باکس میں…
کام شروع کرتا ہوں:
مشین میں اے ٹی ایم کارڈ ڈالتا ہوں،
پاس ورڈ دیتا ہوں،
مشین پاس ورڈ کو قبولیت بخشتی ہے۔
اے ٹی ایم مشین گُھوں گُھوں کی آواز نکالتی ہے۔
یہی آواز، اُس وقت بھی آتی تھی جب دادی کے چرخا کاتنے کے وقت پاس بیٹھتا تھا۔ (دادی کے لفظ کو جُوں ہی دادی لکھا ہے تو یاد میں کسی طور پر وقت اتنی تیزی سے گُھوما ہے کہ آہ اور واہ دونوں مخلوط ہوئے لگنے لگے: اس وقت کے دوران، خاص عمر میں موجود اپنے سارے چچا، اپنے ابو جی، اپنی امی جی، اپنی پھوپھیاں، اپنی گلیاں، اپنے گاؤں کا دارا، اپنے کھیت، اپنے درخت، اپنے گاؤں کی نہر کا وہ پانی جس کے ساتھ بھل آتی تھی، وہی بَھل جس بھل سے میرا رشتہ دریائے سندھ کی گزرگاہوں کی خاک اور زمینوں سے جُڑ جاتا تھا، اور ہے بھی۔)
اے ٹی ایم کی یہی آواز نصرت فتح علی خان کے، سُن چرخے دی مِیٹھی مِیٹھی گُھوں، گاتے تھے اِس کی بھی یاد دلا رہی تھی۔
صاحب، کیسے گَلے سے چرخے کی وہی آواز نکالتے تھے کہ یوں لگتا تھا گویا کسی چرخے نے پھر سے اپنے اوپر کاتنے کی کیفیت طاری کر لی ہو۔
انھی کیفیات، انھی احساسات میں سے گزر رہا تھا، جو کیفیات اور احساسات اے ٹی ایم نے چھیڑ دیے تھے۔
(شعور اور یاد داشت اپنے مزاج اور دُھن میں روشنی کی رفتار کو بھی مات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور کسی سرکاری ملازم کی رفتار سے بھی کام کرنے کا یارا رکھتے ہیں؛ ساتھ ہی پاکستان کے کسی پرائیویٹ ادارے کے تنخواہ دینے کی نیت کی رفتار سے بھی مقابلہ کرتا ہے۔)
اے ٹی ایم نے اتنی اچھی یادوں سے ملا دیا۔ پر یہ زندگی ہے اِک تحریکِ انصاف کا جد و جہد کے برسوں نام کی کارگزاریوں کا طوفانِ سِحَر انگیزی و سرابِ بے انجامی…
مشین کی سُریلی گُھوں گُھوں کے بعد پردۂِ سِیمیں، جسے یار لوگ سکرین کہتے ہیں، اس پر میسیج آ گیا:
“میاں یاسر، آپ کو اس وقت پیسے ادا نہیں کیے جا سکتے۔”
“وجہ یہ ہے…” کہ چھوٹے سے ڈبے میں لکھا آیا:
“… اس لیے نہیں دے سکتے کہ بس نہیں دے سکتے۔”
حیرانی نے ہونے کی تھوڑی کوشش کی، کچھ دبا دی کہ یہی تو ہوتا ہے؛ پر پھر بھی مُنّا سا سوال ابھرا: بھئی، یہ کیا منطق ہے کہ آپ کو پیسے اس لیے نہیں دے سکتے کہ وجہ اس کی یہ ہے کہ بس نہیں دے سکتے۔
(سکرین پر اے ٹی ایم نے انگڑائی لیتے ہوئے، انگریزی میں جو کچھ کہا اس کا دیانت دارانہ ترجمہ پیش کیا ہے۔)
اتنے اچھے خیالات سے مشین نے راقم کو خلیل الرّحمٰن قمر یا اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبۂِ قانون کے کسی قسم کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بَنا ڈالنے کی جو یہ سازش کی اس سے ہم بچ نکلے: سرمہ تھا اپنی آنکھ میں…
پلٹنا، جھپٹنا،… وغیرہ وغیرہ …
عقل اور مَت کو بارش کے قطرے کی گُھٹّی پلائی ہوئی تھی۔
پس، دو بارہ سے رقم بدل کر اے ٹی ایم مشین کو دعوتِ چرخا چلائی دی۔
اب بس کیا تھا:
تیرا کرم ٹیکنالوجی … یارِ بلا خیز مان گئی۔
اور پیسے مل گئے۔
کیا جو پیسے نا ملے ہوتے تو بندہ بَؤنتر کے خلیل الرحمٰن قمر یا خمر نا بنا ہوتا…