فلسطین اور پاکستانی لبرل کا سطحی پن 

naseer ahmed
naseer ahmed

فلسطین اور پاکستانی لبرل کا سطحی پن 

از، نصیر احمد 

موجودہ زمانے کے لبرلز کی ایک کثیر تعداد بھی کٹر نظریاتی ہے اور معاملات میں کٹر پن بارہا سامنے آیا ہے۔ جب بھی ریاست اور حکومت کی عوام کی فلاح کے لیے اقدامات کی بات ہوتی ہے اور اس فلاح سے متعلق ٹھیکے اگر کاروباریوں کو مل نہیں رہے ہیں تو لبرل حقائق، دلائل، خِرد اور براہین فراموش کر کے گھٹیا سی جذباتی نوٹنکی کرنے لگتے ہیں۔

فلسطینیوں کے حقوق بھی ایسا معاملہ ہے جس میں لبرلز کی جذباتی نوٹنکی عروج پر ہوتی ہے فاش و ظاہر و برملا حقائق سے ادراک سے انکار کی انتہائیں ہو جاتی ہیں۔ طرح طرح کے ڈھونگ کر کے حقائق سے انکار کرتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے مجھے یہ دلیل نہ دو کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس وقت تو اسرائیلیوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے، اسی پر ہی بات کی جا سکتی ہے۔ کیوں؟

 یہ سوال پوچھنے کی تو گنجائش نہیں ہوتی اور کوئی پوچھ بیٹھے تو اسے یہود دشمنی کے الزامات کی زَد میں لے آتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے کہ پہلے اسرائیلیوں نے مذاکرات کی فیّاضی کی، اور پھر دُوری کی سخاوت کی اور اس کے بعد محدود تشدد کی مہربانی کی، لیکن فلسطینی اس جود و سخا کے لائق ہی نہیں تھے۔ آپ سوچنے لگتے ہیں کہ فلسفی تو غزہ کو کنسَنٹریشن کیمپ بنانے کے بعد اس برباد کیمپ کی مزید بربادی کو بھی رحم و کرم سمجھتے ہیں۔ اسرائیلیوں کی ہم دردی کی شدت کی آڑ میں فلسطینیوں کے بارے میں حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

بنیادی توقع یہ بنائی ہوئی ہے کہ اسرائیلی حکومت اور اس کے حامی فلسطینیوں پر ظلم کرتے رہیں اور فلسطینی چپ چاپ یہ ظلم سہتے رہیں۔ اس میں تو آزادی، ہم دردی جیسی لبرل اقدار دیکھنے کے لیے جھوٹ کی انتہائیں کرنی پڑتی ہیں۔

اسرائیلیوں کے وجود سے انکار کی حماس کی پالیسی انسانیت کُش ہے اور فلسطینیوں کے وجود سے انکار کی اسرائیلی حکومت کی پالیسی بھی انسانیت کُش ہے؛ یہ لبرلز، حماس کی پالیسیوں میں انسانیت دشمنی تو دیکھ لیتے ہیں لیکن اسرائیل کی انسانیت کش پالیسیوں سے والہانہ عقیدت میں مبتلا ہیں؛ یہ اسرائیل کے لیے بڑھاوا بن جاتا ہے اور لبرلز شدید جذبات کا ڈھونگ کرتے ہوئے یہ بڑھاوے دیتے رہتے ہیں۔

غزہ برباد ہو تو ہوتا رہے، فلسطینی بے گھر، بے در ہوتے ہیں ہوتے رہیں اور ان کی عذاب جیسی زندگی کے مصائب بڑھتے ہیں تو بڑھتے رہیں۔ یہ پوزیشن لینے کے بعد جمہوریت کی تبلیغ تو کھوکھلی اور سطحی سی لگتی ہے۔ اسی منافقانہ جذباتیت کے نتیجے میں ہی تو عصرِ حاضر میں جمہوریت زوال پذیر ہوئی ہے لیکن کٹھ پتلی نے بس آقا کے اشارے کی تعمیل کرنی ہے اور یہ تعمیل کرتے ہوئے خود کو آزاد بھی سمجھنا ہے۔

پھر لبرلز پر فلسفیانہ اثرات بھی ایسے ہیں جو حقائق نہ تسلیم کرنے کو زندگی کی بنیادی تفہیم گردانتے ہیں۔ نیٹشے بَہ حال ہے اور نیٹشے کی گفتگو کے نتیجے میں گھمنڈی سا بے رحم لفاظ ہی سامنے آتا ہے اور یہ لبرلز گھمنڈی سے بے رحم لفاظ ہی تو ہیں۔

سارتر اور ہائیڈیگر کی گفتگو کے نتیجے میں انسانی آزادی کی تکمیل کی حقیقت یہی بنتی ہے کہ اپنی لالسا بجھانے کے لیے کچھ بھی کر جاؤ اور یہ عمل کر کے خود کو معتبر اور عظیم بھی سمجھو۔

اور فوکُو اور دیگر زبان و بیان کے تجزیہ کار حقائق کے انکار کو زندگی کی بنیادی تفہیم ماننے کو ذہن و تجزیہ کی مہانتا مانتے ہیں۔ ان کے اثرات شدید جذباتیت کی مدد سے سامنے کا سچ ماننے سے انکار سہل کر دیتے ہیں۔

لبرلز کی انھی پوزیشنز اور ان پر مبنی پالیسیوں کے زیرِ اثر دنیا میں فاشزم بہ حال ہوا ہے۔ فلسفی کہتا ہے کہ اسرائیل میں بایاں بازو فلسطینیوں نے ختم کیا ہے۔ فلسفی جھوٹا سا سوانگیا ہے کہ دنیا بھر میں کھبّی سیاست فلسفی جیسے لوگوں کی رئیس پرستی کی وجہ سے ختم ہوئی ہے اور فلسفی جیسے جعلی دانش ور فاشزم میں بھی اپنے رئیس مالکان کے ساتھ ہیں۔

جو کہنا چاہیے وہ نہ کہنا حل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ اور جو کہنا چاہیے وہ نہ کہنا فلسفہ، ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو غیر ضروری بھی کر دیتا ہے۔