کمزور مظلوم مسلم اقوام کیا کریں؟

Dr Irfan Shahzad

کمزور مظلوم مسلم اقوام کیا کریں؟

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

قرآن مجید کمزور مظلوم مسلم اقوام کےلیے بڑی وضاحت سے ایک مکمل لائحۂِ عمل دیتا ہے۔  اس موضوع پر متعدد فورمز پر عرض کر چکا ہوں، مگر جب بھی کمزور مسلم اقوام کی مسلح اور جارحانہ جد و جہد پر قلم اٹھایا، عوام کے ایک طبقے کی طرف سے اسی جذباتیت سے واسطہ پڑا، جس کےعلاج کے لیے قران نے یہ لائحۂِ عمل دیا ہے۔ یہ عجب طرفہ تماشا ہے کہ اس مضمون کے مندرجات سے کوئی اختلاف بھی نہیں کرتا، مگر جب مظلوم مسلم اقوام کے لیے اس کے اطلاق کی بات کی جائے تو  اس لائحۂِ عمل کو تسلیم کرنے پر لوگ تیار نہیں ہوتے۔

  1. بنیادی اصول یہ ہے کہ مظلوم اپنی مظلومیت کا اخلاقی جواز رکھتا ہو۔ ہر مظلومیت اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ (مثلاً طالبان خود کو مظلوم سمجھتے ہیں مگر ہمارے نزدیک ان کے پاس اس مظلومیت کا اخلاقی جواز نہیں ہے، یہ وہ اپنی لاقانونیت کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
  2. دین کے نزدیک مظلومیت مذھبی جبر، جسے فتنہ کہا گیا ہے، کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی، ریاستی، قومی، لسانی، گروہی نوعیت کے جھگڑے انسانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں، مذھب کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر ظلم بہرحال فتنے کی ذیل میں آتا ہے، چُناں چِہ مظلوم سے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ اس کی داد رسی کی جائے۔ (سورہ انفال، 8:39)
  3. مظلوم قوم، ریاست اور سیاسی حکومت و قیادت سے محروم ہو، اسے اپنے ماحول میں مذھبی آزادی میسر نہ ہو، یا جان، مال آبرو کا تحفظ مہیا نہ ہو تو ان کے لیے ہجرت کرنے کا حکم ہے۔ (سورہ نساء4:97)
  4. ہجرت کرنے سے بھی قاصر ہوں تو صبر کے ساتھ بیرونی امداد کے لیے منتطر رہنے کا حکم ہے۔ اس حالت میں پلٹ کر حملہ کرنے کا حکم ہے نہ اجازت۔ (سورہ نساء 4:75)
  5. مسلمانوں کی ریاست پر حملہ ہو جائے تو دفاع کے لیے جو بن پڑے کیا جائے گا۔
  6. ریاست و حکومت کی موجودگی میں مظلوم قوم جوابی اقدام کرے گی، مگر اس  کے لیے ضروری ہے کہ کامیابی کے امکان بھر طاقت رکھتی ہو۔ (سورہ انفال، 65-8:6)
  1. کسی ظالم ریاست سے کسی مسلم ریاست کا معاہدہ ہو تو مسلم ریاست  دوسری ریاست میں موجود اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کو نہیں جا سکتی، سوائے یہ کہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر کے مظلوموں کی مدد کی جائے۔ (سورہ انفال 8:72)
  2. حالتِ مظلومیت کا جہاد ہر قیمت پر کلمۂِ حق کہنا ہے، نہ کہ ہتھیار اٹھانا، چاہے اس میں جان قربان کرنا پڑے۔ یہ افضل جہاد ہے۔
  3. مظلوم اقوام کی مدد کی ساری ذمہ داری مسلم ریاستوں کی ہے، اس فرض سے کوتاہی برتنے پر وہ دنیا اور آخرت میں خدا اور بندوں کے مجرم ہوں گے۔ (سورہ نساء 4:7)

ان نکات کی روشنی میں مظلوم مسلم اقوام کے لیے ان کی مظلومیت کا اخلاقی جواز کا تجزیہ کیا  جائے۔ مثلا:

  1. محض حقِ حکمرانی کی لڑائی مذھبی اعتبار سے غیر ضروری ہے۔ دین نے اس کا کوئی حکم نہیں دیا۔ کشمیر کا مسئلہ یہی ہے۔ وہ بھارت نواز کشمیری حکومت کی بجائے، پاکستان نواز کشمیریوں کی حکومت یا خود مختار کشمیر چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ جائز ہے، مگر یہ دین کا مطالبہ نہیں، اس کے لیے لڑنا مرنا اصولاً غلط ہے۔
  2. اپنی زمین کی واپسی کا مطالبہ جائز، لیکن دُنیوی مسئلہ ہے۔ اس پر  لڑائی انسان کا اپنا فیصلہ ہے، دین کا حکم نہیں۔ لیکن زمین اگر خود بیچ دی ہو، نیز جنگ میں ہاری ہو تو اس کی واپسی کا جواز کتنا رہ جاتا ہے؟ یہ فلسطین کی پوزیشن ہے۔ یہ  بھی معلوم ہے کہ جنگ بندی کی کم و بیش ہر دعوت کوفلسطین نے ٹھکرایا، تقسیم کے فارمولے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، پھر یہ نہیں کہ تسلیم نہیں کیا، انہوں نے اپنی کمزوری کا ادارک کیے بغیر اسرائیل سے جنگیں کیں اور مزید علاقے گنوا دیے۔

یہ توقابل مذمت  ہے کہ اسرائیل فسلطین کی شہری آبادی پر میزائل مار کر انسانی المیے کا باعث بنتا ہے، لیکن  ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ فلسطینی علاقوں سے بھی اسرائیلی غیر حربی آبادی پر راکٹ داغے جاتے ہیں، جس سے جواز پا کر اسرائیلی فوج فلسطینی علاقوں پر تاخت کرتی اور مزید علاقہ خالی کروا لیتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ انتفادہ کی تحریک یا رجحان کے نام پر کم سِن فلسطینی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسرائیل میں آتے جاتے  اچانک اسرائیلی غیر حربی لوگوں پر چاقو سے حملے کر دیتے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت ضروری کی جائے گی مگر کیا دوسرے فریق کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے؟ آپ کمزور ہو کر بھی ان کی غیر حربی آبادی کو بساط بھر نشانہ بنائیں، کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی نہ کریں، تو ایک طاقت ور دشمن سے اخلاقی ضابطوں کی پابندی کا گِلہ کیسے کریں گے؟

فلسطینی اپنی ان غلطیوں کی تلافی اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج اور ٹینکوں پر پتھر مار کر کر رہے ہیں جس کے جواب میں گولیاں اور گولے مارے جاتے ہیں، یہ طرزِ عمل کہاں تک  درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر ایسے خونی احتجاجوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا کس قسم کی زخمی نفسیات کا اظہار کا ہے اور پھر جب وہ بچے گولی کا نشانہ بن جائیں تو قیامت خیز ماتم کرنا، اس سب کو کیا نام دیا جائے؟

اس پر دنیا بھر کی مسلم  اقوام کا جذباتی ردِ عمل فلسطینیوں کو اپنی روش پر نظر ثانی کی بجائے مزید شہ دیتا ہے۔ حالانکہ یہ درحقیقت ان کے ساتھ ہمدردی کے نام پر صریح دشمنی ہے۔ ان پر ہونے والے ظلم کا علاج گھر بیٹھے ہمدری کے آنسو بہانا نہیں، بل کہ اپنی ریاستوں کو مجبور کرنا ہے کہ وہ ریاستی طاقت سے اس مسئلے کو حل کریں۔ جب تک یہ نہیں ہو جاتا، فلسطینیوں سے یہی کہا جائے گا کہ  اپنی مشکلات میں اضافہ نہ کریں۔ طاقت ور دشمن کو طیش دلانے والے کام نہ کریں۔ ہاتھ روک کر رکھیں۔ پتھر کے جواب میں گولیاں کھانے سے بہادری کی سند جاری نہیں کی جا سکتی۔ اپنے بچوں کو ان گولیوں کے اگے کھڑا کر دینا مجرمانہ حماقت ہے اسے کسی اخلاقی اور عَقَلی اصول پر درست نہیں کہا جا سکتا۔

2014 میں اسرائیل فلسطین تنازع میں 2314 فلسطینیوں کے مقابلے میں صرف 39 اسرائیلی مارے گئے تھے، اس پر بھی ہمارے جو لوگ ایسے خونی احتجاجوں اور ان میں بچے مروانے کی حمایت کرتے ہیں، سوچیے کہ ان کی اس حوصلہ افزائی کرنے کی  آخرکیا وجہ ہے؟ پہلے آپ اس صورتِ حال میں خود کو رکھ کر دیکھیے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ آپ کے پلاٹ یا گھر پر خدانخواستہ قبضہ ہو جائے، قابضین ایسے طاقت ور ہوں کہ قانون ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے، انسانی جان لینا ان کے نزدیک کوئی چیز نہ ہو، تو آپ کیا کریں گے؟ قانونی چارہ جوئی کے علاوہ آپ زیادہ سے زیادہ احتجاج ہی کرسکتے ہیں، لیکن کیا آپ اپنے بچوں کو ساتھ لے جاکر ان کو گالیاں دیں گے؟ ان پر پتھر پھینکیں گے؟ ایسا کریں تو  جواب میں وہ پھول تو نہیں برسائیں گے۔ کوئی نقصان آپ کو یا آپ کے بچوں کو پہنچ جائے تو ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟ مخالفوں کو؟ آپ کو کوئی ذمہ داری نہیں کہے گا؟

کون ہے جو ایسی حماقت میں اپ کو شاباش دے گا کہ بہت اچھا کام کیا، زمین تو ہاتھ سے گئی ہی تھی، اب اپنی اور اپنے بچوں کی جان بھی قربان کرا دی۔ اپنے بارے میں جو فہمِ عامہ درست کام کرتی ہے وہ دوسروں کے لیے کیوں نہیں کرتی؟ کیا محض اس لیے کہ وہ سب آپ پر نہیں بِیت رہا، آپ کے لیے یہ تماشا ہے جس میں دوسرے مبتلا ہیں، اور آپ گھر بیٹھے کسی فلم کی طرح اسے دیکھتے اور مخفی قسم کا لطف لیتے ہیں، اپنی بے کار ہمدردی کا احساس آپ کو  باور کراتا ہے کہ آپ امت مسلمہ کے بڑے ہمدرد ہیں۔ کیا آپ کے لیےیہ ریسلنگ کا میچ ہے؟ انسانی جانیں اپنی غلط حکمتِ عملی سے ضائع ہو رہی ہیں، کوئی معمولی بات ہے؟ اپنی ریاست کو لے جا کر روک لیجیے دشمن کو، نہیں تو خود جا کر آنسو کے ساتھ اپنا کون بھی بہائیے تا کہ معلوم ہو کہ رانجھا چُوری ہی کھانے کے لیے بنا ہے یا خون بھی دے سکتا ہے ۔ جب یہ سب نہیں کر سکتے تو مظلوم سے ہمدردی کس میں ہے، اسے صبر کی تلقین کرنے میں یا اسے شہ دے کرمزید تکلیف میں مبتلا رکھنے میں۔

ہمارے سماج میں   کیا ہوتا ہے؟ شاہ زیب اور زین قتل کیس میں کیا ہوا؟ مجرموں کا جب قانون کے ذریعے سے کچھ بگاڑا نہ جا سکا بل کِہ الٹا باقی خاندان کو دھمکیاں ملنے لگیں تو تو شاہ زیب کا خاندان ملک چھوڑ کر چلا گیا اور زین کی ماں اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کی خاطر خاموش ہو گئی۔ یا تو سماج ان کو تحفظ فراہم کرتا تو وہ کیس لڑتے، جب سماج نے بھی ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا تو ان کے لیے چارۂِ کار کیا تھا؟ یہ کہ باقی خاندان کو بھی مروا دیتے، بیٹیوں کی عزت بھی تار تار کروا دیتے؟ ان لوگوں نے وہی کیا جو ایک کمزور مظلوم ایسے حالات میں کرتا ہے۔ وہ خاموشی جو ایک بیٹے کو گنوا کر اختیار کی گئی، بیٹیوں کی عزت گنوانے کے بعد بھی کرنا پڑتی تو کیا مجبوراً بہتر نہیں تھا کہ ایک بیٹے کو گنوا کر خاموش ہو جائیں اور یہی انہوں نے کیا۔

کسی نے کہا کہ غلط کیا؟ بات سمجھ آ گئی کیوں کہ مسئلہ اپنے سماج کا تھا۔ معلوم تھا کہ ہم بھی ان کی مدد نہیں کر سکتے تو یہی چارۂِ کار ایک مظلوم کے پاس رہ جاتا ہے۔ مگر یہی مسئلہ جب فلسطین اور کشمیر میں ہوتا ہے تو ہماری لذتِ تماشا مظلوم کی مدد کی بجائے، اس کو مرتے دیکھنا کیوں چاہتی ہے؟ صرف اسے ہی نہیں اس کے بچوں کو بھی مرتے دیکھنا کیوں چاہتی ہے؟ تا کہ پھر ان کی تصویریں شیئر کر کے ہم حقِ اخوت داد کریں، گھر بیٹھے لہو گرمائیں، اور خود کو با غیرت بھی محسوس کر کے دل کو تسکین دیں، پھردو آنسو بہائیں، اگر آ جائیں اور پھر کسی بات پر قہقہہ لگائیں اور کوئی اگلی مصروفیت اختیار کر لیں۔


مزید دیکھیے: مسلم امہ خود سے برسرپیکار ، از ڈاکٹر پرویز ہود بھائی


آپ خدا سے زیادہ غیرت مند ہیں۔ وہ تو مظلوم کو صبر، ہجرت اور بیرونی مدد کےانتظار کا حکم دیتا ہے اور آپ کہتے ہیں نہیں، بل کہ  دھماکے کرو، راکٹ مارو، چاقو مارو، پتھر مارو، اور نہیں تو مُکّا ہی مار دو، گالیاں ہی دے دو، اور پھر تمھارا تماشا ہم دیکھیں۔ ان حالات میں عقل کی بات کریں، مظلوم کو وہی بات کہیں جو خدا نے کہی تو ہمارے گھر بیٹھیے ‘غیرت مندوں’ کو برا لگتا ہے کہ ان کی لذتِ تماشا میں خلل اندازی کیوں کی جار ہی ہے۔ فلم چل رہی ہے چلنے دو، ریسلنگ لگی ہوئی ہے دیکھنے دو۔

قصۂِ مختصر، فلسطینیوں کے لیے بہترین حل یہی ہے کہ موجودہ حالات میں جب کوئی بیرونی طاقت ان کی مدد کو نہیں آ رہی، وہ تقسیم کے فارمولے پرنا چاہتے ہوئے بھی راضی ہو جائیں، اپنے لوگوں  کی تعلیم و تربیت اورمعاشی ترقی کے لیے کام کریں۔ امید یہی ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ہوگا، لیکن ان کے پُر امن رہتے بھی اگر اسرائیل جارحیت کرتا ہے تو ان کے پاس پورا اخلاقی جواز ہوگا، جس کے بعد عالمی ضمیر کو ان کی مدد کے بغیر چارہ نہ ہوگا۔

خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی روشنی میں مظلوم و محکوم مسلمانوں کی داد رسی کا طریقہ بس یہی کہ اگر ان کا مقدمہ و معاملہ اخلاقی اصولوں پر درست ثابت ہوتا ہے تو مسلم ممالک اپنی طاقت اور وسائل کو بُروئے کار لاتے ہوئے، عالمی اداروں کی مدد یا اپنے بَل بُوتے پر ان مدد کو آئیں۔ یہ اصل حل ہے۔ اس اصل حل کی بجائے کمزور مسلمانوں کو معمولی سے ہتھیار تھما کر اور ہلا شیری دے کر اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمنوں کے مقابلے میں دھکیل دینا اور پھر ان کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر سیاست کرنا درحقیقت ان کے ساتھ مزید ظلم کرنا ہے۔ کمزور مسلمانوں کی کمزور سی مسلح جد و جہد مخالف برتر قوت کو طیش دلانے اور ان کے کیس اخلاقی بنیادوں پر کمزور کرنے کے سوا کوئی مفید کام سر انجام نہیں دیتی۔ اگر اس کی بجائے پر امن احتجاج اور مذاکرات کے طریقے پر اِکتفا کیا جائے تو ان محکوم مظلوموں کے مصائب میں کافی کمی آ سکتی ہے۔