حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام : ڈاکٹر محسن نقوی کی رائے پر تبصرہ

Dr Irfan Shahzad

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام : ڈاکٹر محسن نقوی کی رائے پر تبصرہ

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

پاکستان کے علمی و تحقیقی ادارے، البصیرہ، کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ماہنامہ پیام کا شمارہ اکتوبر 2017، ماہ محرم کے لحاظ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اقدام پر اہل علم کے مضامین پر مشتمل تھا۔ اس شمارے میں ڈاکٹر محسن نقوی صاحب کا مضمون، واقعہ کربلا کے کلامی پہلو کے عنوان سے شائع ہوا۔

ڈاکٹر محسن نقوی صاحب اقدام حسین کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مقاصدِ شریعت، یعنی دین، نفس، مال، عقل اور ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی جان دی۔ یزید کے دور میں بنو امیہ ان اقدار کو پامال کر رہے تھے۔ یزید کا طریقہ تخت نشینی حضرت حسین کا موردِ تنقید نہیں رہا۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ خدا کے کسی نبی نے کسی حاکمِ وقت کے طریقۂِ تقرری پر تنقید نہیں کی، بَل کہ وہ ایمان و عمل کے بگاڑ پر بات کرتے تھے، یہی وارثِ انبیاء، حضرت حسین نے کیا۔ ان کے مطابق جو کچھ پیش آیا وہ حاکمِ وقت کے کسی عمل کا رد عمل نہیں تھا، بَل کہ حضرت حسین کے “عمل کا رد عمل تھا۔” ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

“امام حسین علیہ السلام نے مدینہ میں طلب بیعت سے قبل سے لے کر مقام شہادت پر فائز ہونے تک یزید کے سریر آرائے سلطنت ہونے پر گفتگو کرنے کی بجائے ان پانچوں مقاصد شریعہ کی زبوں حالی کو بار بار بیان کیا ہے، جس کی بناء پر معاشرے قائم رہتے یا پھر برباد ہو جاتے ہیں۔”

گویا ان کے اس بیانیے سے وہ روایتی مقدمہ مسترد ہو جاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے بعد مسلمانوں کے قائم کردہ سیاسی نظم کو ولی عہدی اور جان نشینی کی راہ سے ملوکیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کے خلاف حضرت حسین نے یزید کے خلاف اقدام کیا تھا، یا اس لیے کیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت حسن سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اپنا جان نشین مقرر نہیں کریں گے، اور اب انھوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یزید کو خلیفہ مقرر کر دیا تھا۔

گویا یہ معاملات ایسے نہیں تھے کہ ان کی اصلاح کے لیے تلوار اٹھا لی جاتی البتہ مقاصد شریعت کی پامالی ایسے بات تھی جس کی خاطر تلوار اٹھانا ان حالات میں نا گزیر تھا۔

سوال مگر یہ ہے کہ با لفرض ایسا تھا بھی تو کیا حضرت حسین نے یزید کو سمجھانے اور نصیحت کرنے کی ذمہ داری ادا کی تھی اور کیا اس کے انکار کے بعد مایوس ہو کر وہ اس انتہائی اقدام کے لیے تیار ہوئے تھے؟ انبیاء کا طریقہ تو یہی رہا ہے جیسے کہ حضرت موسیؑ نے نے فرعون جیسے سرکش اور آمادۂِ فساد بادشاہ کو دعوت ایمان و اصلاح دی تھی۔

برسوں کی تبلیغ کے بعد اتمامِ حجت ہو چکنے کے بعد جب انھیں مایوسی ہو گئی تو فرعون کی تباہی کی دعا کی تھی۔ حضرت حسین نے یزید کو سمجھانے میں کتنا وقت صرف کیا؟ معلوم تاریخ میں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے انھوں نے یزید کو ایک بار بھی مخاطب نہیں کیا۔


مزید دیکھیے: کمزور مظلوم مسلم اقوام کیا کریں؟

ڈاکٹر عرفان شہزاد کی ایک روزن پر دیگر تحریروں کا لنک


ہم یہاں حضرت حسین کے اس اقدام کا تجزیہ اسوۂِ انبیاء کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انبیاء کی دعوت اور اصلاحی تحریکوں کا مطمح نظر فرد کے ایمان و عمل کی اصلاح ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کبھی ایک صالح سماج بھی وجود میں آ جاتے ہیں۔

اس لحاظ سے اوپر بیان کردہ مقاصدِ شریعت گویا ان کے ہاں بھی پیش نظر ہوتے ہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھانے کی بجائے دعوتِ ایمان و اصلاح سے آغاز کرتے ہیں۔ دوران دعوت، حالتِ کمزوری میں وہ خود ہتھیار اٹھاتے ہیں نہ اپنے پیرو کاروں کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ البتہ جب اپنی دعوت کے نتیجے میں انھیں کسی خطہ زمین پر ریاست و اقتدار کی طاقت بھی حاصل ہو جاتی ہے تو ریاست کے دفاع کے حق کے علاوہ وہ ان لوگوں کے خلاف بھی قتال کرتے ہیں جو جبر کی راہ سے افراد کے عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ قرآن اسے فتنہ کہتا ہے اور اس کے خاتمے تک ان سے لڑنے کا حکم دیتا ہے:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورہ النسا، 4:75)

(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مدد گار پیدا کر دے۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (سورہ البقرہ، 2:193)

اور تم یہ جنگ اُن سے برابر کیے جاؤ ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اِس سر زمین میں) اللہ ہی کا ہو جائے۔ تاہم وہ باز آ جائیں تو (جان لو کہ) اقدام صرف ظالموں کے خلاف ہی جائز ہے۔

نیز، وہ خدا کے ان دشمنوں کے خلاف اقدام کرتے ہیں، جن پر رسول کے ذریعے سے برسوں کی دعوتِ ایمان اور اصلاح کے بعد اتمامِ حجت ہو جاتا ہے اور خدا کے علم کی روشنی میں بتا دیا جاتا ہے کہ ان کی اصلاح کی امید باقی نہیں رہی، ان کے مٹنے کا وقت آ گیا ہے:

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبہ، 9:5)

(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔

یزید کے خلاف حضرت حسین کے اقدام کا جواز کیا تھا؟

حضرت حسین کے اس اقدام کا جواز صرف اس صورت میں بن سکتا ہے کہ یہ متحقق ہو کہ یزید، حکومت کی طاقت سے عقیدہ و عمل کی دینی آزادیوں پر پابندی عائد کر رہا تھا۔ وہ قرآن کی اصطلاح میں فتنہ برپا کر رہا تھا، یعنی اسلام قبول کرنے یا مسلم سماج کے اسلام پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔ اس لحاظ سے اس کی بیعت، کفر پر بیعت کرنے کے مترادف ہوتی۔ اسی بناء پر حضرت حسین سے بیعت لینے کے لیے اس کے جبریہ ہتھکنڈے بھی فتنہ یعنی persecution کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضرت حسین نے اسے انداز کیا ہو۔ برسوں اسے سمجھایا ہو اور اس کے بعد اس کی طرف سے مکمل مایوسی ہوگئی ہو۔ تیسرے یہ کہ اس صورت حال میں حضرت حسین کو اہلِ عراق کی حمایت کی صورت میں ریاست و اقتدار اگر مل جاتا، جس کی انھیں توقع تھی، تو ان کے اقدام کا جواز بن سکتا ہے۔

یہاں لیکن سوال یہ پیدا ہے کہ کیا یزید کے دور میں ہونے والے حکومتی ظلم اور جبر کو کفر اور نفاذِ کفر کہا جا سکتا ہے؟ کیا اس کے دور میں عقیدہ و ایمان کی آزادی میسر نہ تھی، دین پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالی جاتی تھی؟ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسا ہی تھا تو حضرت حسین کے اقدام کا جواز تو ایک حد میں ثابت ہو جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد بشمول فرزندِ علی، محمد بن حنفیہ اور اہل شام سمیت امت کی ایک بڑی تعداد یزید کی بیعت کر کے اس کفر یا کفر کے نفاذ پر رضا مند ہو گئے تھے۔

معاملہ اگر دین کی حرمتوں کی پامالی تک پہنچ گیا تھا، جیسا کہ ڈاکٹر محسن باور کراتے ہیں، تو از روئے قرآن، اس وقت کے سب مسلمانوں کا فرض تھا کہ حکمران کی اطاعت سے نکل جاتے، پھر ان کے پاس دو راستے تھے: یزید کے زیر اثر علاقوں سے ہجرت کر جاتے یا ان کی غالب اکثریت کسی ایک خطے زمین میں کسی متفقہ رہنما کی قیادت میں حاکم کے خلاف بشرطِ امکانِ کامیابی جنگ کرتے۔ اور نہیں تو مکہ و مدینہ میں تو اس وقت بھی اس امت کا جوہر موجود تھا جس نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست تربیت پائی تھی، وہی یہ اقدام کرتے، مگر اس کے بر عکس ان کی ایک بڑی تعداد یزید کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تھی۔ جنگ کے لیے اہل مکہ و مدینہ اور اہل حجاز نہیں بَل کہ اہل عراق تیار ہوئے، وہی اہل عراق جن کی بد دینی اور نا قابل بھروسا ہونے کی گواہی حضرت علی اور حضرت حسن بار ہا دے چکے تھے! مزید یہ کہ حضرت حسین بھی دین کے ان اصولوں کی روشنی میں اہل حجاز کو اقدام کے لیے ابھارتے نظر نہیں آتے، اور نہ ہی اس مزعومہ کفر کی بیعت کر لینے پر کسی کے خلاف کفر کے ارتکاب کا فتوٰی دیتے ہیں!

حقیقت حال لیکن یہ تھی کہ یزید کے تمام تر ظلم و جور کے با وجود، اس وقت کا سماج اپنی روایات اور رسوم میں اسلامی ہی تھا اور آئین و قوانین بھی اسلامی ہی تھے۔ دینی شعار اور احکامات کی بجا آوری میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یزید کے بعد بھی آل امیہ تقریباً ایک صدی حکمران رہے۔ اس تمام عرصے میں اسلام کے شعائر محفوظ رہے اور اسلام اپنے تمام علوم میں ترقی کرتا رہا۔ معاملہ بس یہ تھا کہ حکومتی اشرافیہ طاقت کے زور پر قانون سے بالا تر ہو گئے تھے، اور اپنے خلاف بغاوتوں کو کچلنے میں وہ ہر حد پار کر جاتے تھے۔ با لکل ایسے ہی جیسے آج ہم اپنے ہاں کی اشرافیہ کو قانون سے بالا دیکھتے ہیں، ان کے خلاف احتجاج بھی اگر جارحانہ صورت اختیار کر جائے تو گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے، ان کے ہاتھوں عزتیں بھی محفوظ نہیں ہوتیں، لیکن اشرافیہ کی تمام تر بد اخلاقی اور لا قانونیت کے با وجود سماج کا بنیادی ڈھانچہ اسلامی ہی ہے، اور اسی بناء پر اس کے خلاف خروج کا جواز مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

صورتِ حالات لیکن، درحقیقت یہ تھی کہ یزید کے تمام تر ظلم و جور کے با وجود، اس وقت کا سماج اپنی روایات اور رسوم میں اسلامی ہی تھا اور آئین و قوانین بھی اسلامی تھے، دینی شعار اور احکامات کی بجا آوری میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یزید کے بعد بھی آل امیہ تقریباً ایک صدی حکمران رہے، اس تمام عرصے میں اسلام کے تمام شعائر محفوظ رہے، لوگوں کو دین پر عمل کی مکمل آزادی رہی اور دین اپنے تمام متعلقہ علوم میں ترقی بھی کرتا رہا۔ یعنی مذھبی جبر کا کوئی مسئلہ در پیش نہیں تھا۔ معاملہ بس یہ تھا کہ حکومتی اشرافیہ طاقت کے زور پر قانون سے بالا تر ہو گئے تھے، اور اپنے خلاف بغاوتوں کو کچلنے میں وہ ہر حد پار بھی کر جاتے تھے، نظام عدل کا وہ معیار باقی نہ رہا تھا جس کا نمونہ خلفائے راشدین نے قائم کیا تھا۔ یہ مسلم سماج کا بگاڑ تھا اور ایسے بگاڑ میں کسی مسلح بغاوت یا مسلح اصلاحی کوشش اسوۂ انبیا میں تلاش نہیں کی جا سکتی، اور نہ قرآن مجید اس کا کوئی حکم دیتا ہے۔

یہ صورت حال با لکل ایسے ہی تھی جیسے آج ہم اپنے ہاں کی اشرافیہ کو قانون سے بالا دیکھتے ہیں، ان کے خلاف احتجاج بھی اگر جارحانہ صورت اختیار کر جائے تو آج بھی وہ گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے، بعض جگہ ان کے ہاتھوں عزتیں بھی محفوظ نہیں ہوتیں، لیکن اشرافیہ کی اس تمام تر بد اخلاقی اور لاقانونیت کے با وجود سماج کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی اسلامی ہی ہے، اور اسی بناء پر اس کے خلاف مسلح خروج کا جواز مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ یزید پر مذھبی جبر اور کفر کا کوئی الزام ثابت نہیں۔ اس پر کفر کا الزام حضرت زینب نے اس وقت بھی نہیں لگایا، جب سانحہ کربلا کے بعد یزید کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی تھی اور یزید غصے میں آ کر بھی ایک خلافِ شریعت حرکت کرنے کا اعلان کرنے کے با وجود اس پر عمل کرنے کی جرات نہ کر سکا تھا:

“حضرت فاطمہ بنت علی سے مروی ہے کہ جب ہم یزید کے سامنے بٹھائے گئے تو اس نے ہم پر ترس ظاہر کیا۔ ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا۔ بڑی مہر بانی سے پیش آیا۔ اسی اثناء میں ایک سرخ رنگ کا شامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: امیر المومنین یہ لڑکی مجھے عنایت کر دیجیے اور میری طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں کمسن اور خوب صورت تھی، میں خوف سے کانپنے لگی اور اپنی بہن زینب کی چادر پکڑ لی۔ وہ مجھ سے بڑی تھیں، سمجھ دار تھیں، جانتی تھیں یہ بات نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے پکار کر کہا: تو کمینہ ہے، نہ تجھے اس کا اختیار ہے نہ اسے (یزید کو) اس کا حق ہے۔ اس جرات پر یزید کو غصہ آ گیا۔ کہنے لگا: تو جھوٹ بکتی ہے، واللہ مجھے حق حاصل ہے، اگر چاہوں تو ابھی کر سکتا ہوں۔ زینب نے کہا: ہرگز نہیں، خدا نے تمھیں یہ حق ہر گز نہیں دیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ تم ہماری ملت سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لو۔ یزید اور بھی خفا ہونے لگا: دین سے تیرا باپ اور تیرا بھائی نکل چکا ہے۔ زینب نے بلا تامل جواب دیا: اللہ کے دین سے میرے باپ کے دین سے میرے بھائی کے دین سے میرے نانا کے دین سے تو نے، تیرے باپ نے تیرے دادا نے ہدایت پائی ہے۔ یزید چلایا: اے دشمن خدا تو جھوٹی ہے! زینب بولیں: تو زبر دستی حاکم بن بیٹھا ہے۔ ظلم سے گالیاں دیتا ہے، اپنی قوت سے مخلوق تو دباتا ہے۔”

حضرت حسین کے لیے سیاست اور اس کی راہ سے سماج میں کے دائرے میں آنے والا وہ بگاڑ شاید قابل برداشت نہ تھا، انھیں شاید یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جہاں سے یہ بگاڑ آیا ہے اگر وہیں اس کی روک تھام نہ کی گئی تو سماج کی اصلاح کی راہ مزید دشوار ہو جائے گی۔ یزید کی بیعت پوری مملکت میں ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی اس کے خلاف اقدام کا جواز بھی شاید اسی لیے حضرت حسین کے نزدیک موجود تھا۔ یعنی حضرت حسین کے نزدیک سیاست اور سماج میں آنے والے بگاڑ کی اصلاح سیاسی نظام کی اصلاح میں تھی۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کے قائل بہت سے اہل علم رہے ہیں۔

سماجی اصلاح کے دو نظریات

مسلم سماج کے اندر سیاست و حکومت اور سماج کے بگاڑ کو درست کرنے کے ہمیشہ دو نظریے موجود رہے ہیں۔ ایک کے مطابق اس بگاڑ کو درست کرنے کے لیے حکومت کی قیادت کسی صالح شخص یا جماعت کو سونپ دینی چاہیے۔ باقی سب اس کے زیرِ اثر ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو وہ بھی گوارا کر لینا چاہیے۔ حضرت حسین کا نظریہ یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس نظریے کے لیے لیکن کسی نبی و رسول کا اسوہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بر عکس دوسرا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ سیاست کا بگاڑ یا سدھار، سماج کے بگاڑ اور سدھار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اصلاح مقصود ہے تو افراد کی جائے جس کا لازمی نتیجہ سماجی و سیاسی نظام کی اصلاح کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ انبیاء کا اسوہ یہی رہا ہے۔ عوام کی اصلاح نہ ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا حکمران بھی اہل عراق جیسے عوام کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے، لیکن اگر عوام میں شعور بیدار ہو اور وہ اپنی اقدار کے بارے میں حساس ہوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے حکمران سے بھی ایک کی بجائے دو چادریں اوڑھنے پر بھی حساب مانگا جاتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ فرزندِ علی، محمد بن حنفیہ سمیت دیگر صحابہ نے یزید کی بیعت اس لیے کر لی تھی کہ اس وقت کی سیاست میں در آنے والا وہ بگاڑ نا گزیر تھا جسے روکنا ممکن نہیں تھا۔ بنو امیہ کی طاقت ور عصبیت خاندانی ملوکیت قائم کرنا چاہتی تھی، اور ان کے آگے کسی کا بس چلنے والا نہیں تھا۔ یہ لیکن کفر و اسلام کا معاملہ نہیں تھا۔ سماج و سیاست کی اصلاح کا میدان البتہ مصلحین کے لیے کھلا ہوا تھا۔

کسی صالح کے بَر سرِ اقتدار آ جانے کی صورت میں اہل سیاست اور سماج کی اصلاح ہی کرنا ہوتی ہے اور یہ لوگ اپنی توانائیاں اسی درست سمت میں محدود رکھ رہے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ یزید کی تخت نشینی کے ساتھ در آنے والے اُس بگاڑ کو کسی فوری علاج سے درست کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے لیے جنگ کی راہ محض خون خرابے کی راہ تھی۔ حقیقتاً ہوا بھی یہی۔ کربلا کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس کی قیادت میں اہل حجاز کی بغاوت ہوئی اور اسے بھی بہت خون خرابے کے بعد کچل ڈالا گیا، مختار ثقفی کی بغاوت بھی محض فساد مچا کر ختم ہو گئی اور بنو امیہ کی طاقت ور عصبیت نے سیاست کے میدان میں اپنی طبعی عمر پوری کر کے چھوڑی۔ ان کی جگہ ان سے زیادہ طاقت ور عصبیت، بنو عباس ہی لے پائے۔ لیکن اس کے لیے انھیں طویل عرصہ انتطار کرنا پڑا۔ پھر بنو عباس کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کا انجام بھی گزشتہ بغاوتوں سے مختلف نہ ہوا، یوں سماج اپنی ڈگر پر چلتا رہا۔

بنو امیہ کی حکومت کے دوران میں اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز، اچانک اور اتفاقاً ایک صالح حاکم کی صورت میں تختِ سلطنت پر براجمان ہوئے۔ بگڑے معاشرے میں صالح حکمران کے آنے سے کیا تبدیلی آتی ہے اور وہ کتنی دیر پا ہوتی ہے، عمر بن عبد العزیز اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کا دور بہترین طرزِ حکمرانی کا دور تھا، جس کی صالحیت پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے اصلاحی اقدامات محض عارضی ثابت ہوئے۔ جیسے ہی ان کا اقتدار اختتام پذیر ہوا، معاشرہ واپس اپنی پرانی ڈگر پر آ گیا۔

وجہ یہی تھی کہ یہ اصلاح بنیاد سے اوپر نہیں اٹھی تھی، بَل کہ اوپر سے نافذ ہوئی تھی۔ یہ ایک شخص کے بل بُوتے پر ہونے والی اصلاح تھی، اس کے رخصت ہوتے ہی یہ بھی رخصت ہو گئی۔ دیرپا اصلاح وہی ہوتی ہے جس کی جڑیں عوام کی تربیت میں پیوست ہوں۔ وہ بگاڑ کو اندر داخل ہونے نہیں دیتیں۔ آج کی مہذب اقوام کی ترقی و خوش حالی اور اپنی مفید سماجی اقدار کی بقا کی شعوری و اخلاقی تربیت ہی وہ وجہ ہے کہ وہ سیاست و سماج میں کسی زیادتی اور بد دیانتی کو برداشت نہیں کرتے۔ ان کی اسی حساسیت کی وجہ سے ان کے حکمرانوں کو اپنے معیارِ سیاست کے ساتھ اپنا ذاتی کردار و اخلاق عام معیار سے زیادہ بلند رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے سماج کی صالحیت اور افادیت شخصیات پر منحصر نہیں رہی۔ شخصیات کے آنے جانے سے سماج اور سیاست کے اخلاق و کردار پر بحیثیتِ مجموعی کوئی بنیادی فرق نہیں پڑتا۔

چناں چہ اصلاح وہی کار آمد ہے جو عوام سے سیاست کے ایوانوں میں پہنچے۔ اصلاح نفاذ سے نہیں نفوذ سے آتی ہے، اس کے لیے البتہ طویل محنت، اور تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مصلحین کے کرنے کا یہی ہے نہ اقتدار کے ایوانوں میں رسہ کشی کے کھیل کا حصہ بننا۔

سیاست کے بگاڑ کو عسکریت سے درست کرنے کی کوشش میں ہونے والے ممکنہ خون خرابے کو گوارا کر لینا کس حد تک درست ہو سکتا ہے؟ اس پر ہم اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہیں گے:

“کوئی مصلح اگر یہ سمجھتا ہے کہ عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنے کے لیے خود اس کا حکومت حاصل کرنا ضروری ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ حق و انصاف اور دین کے تقاضوں کے معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائے گا، سوائے یہ کہ اس مصلح کو معصوم مان لیا جائے۔ با لفرض، وہ مصلح اگر خود اچھے طریقے سے حکومت چلا بھی لے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کی ذُرّیت یا پیرو کار اسی معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائیں گے۔ جب اس سب کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تو حصولِ حکومت کے لیے آمادہ پیکار ہو جانا، ایک مقصدِ موہوم کے لیے کمر بستہ ہو جانا ہے۔ اس کے لیے عوام کے دو گروہوں کو آپس میں لڑا دینا کس برتے پر درست اقدام ہو سکتا ہے؟” (مصلحین کا دائرہ کار اور حکومت کے خلاف قیام کا مسئلہ)

دین کی رُو سے سماج و سیاست میں آنے والا بگاڑ انفرادی ہو یا اجتماعی، اسے تعلیم و تربیت، وعظ و تلقین اور جابر حاکم کے سامنے کلمۂِ حق کہنے تک محدود رکھا گیا ہے۔ اصلاح کے لیے ہتھیار اٹھانا اپنے فرائض اور دائرہِ کار سے تجاوز کرنا ہے۔ پورے قرآن میں کہیں ایسا حکم اور اجازت موجود نہیں ہے۔ مسلم معاشرے کے سماجی و سیاسی بگاڑ کے سدھار کی خاطر قتل و قتال کے جواز کے لیے کسی نبی و رسول کی نظیر مہیا نہیں کی جا سکتی۔ یہ تفرد بعد کے دور کی پیدا وار ہے، دین جس کی تائید نہیں کرتا۔

بنی اسرائیل کی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں کفار کے خلاف جہاد کیا گیا وہاں بنی اسرائیل کے اندر کے سماج کے غیر صالح بادشاہوں کی اصلاح کے لیے مسلح بغاوت کا حکم کبھی نہیں دیا گیا، ان کے انبیاء وعظ و نصیحت اور کلمۂِ حق کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نہیں کرتے تھے، چاہے اس میں ان کی جان ہی چلی جاتی، حضرت ذکریا، یحییٰ، اور عیسٰی علیھم السلام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک مسلم سماج کے مصلحین کے لیے جہاد کی ایک ہی صورت کلمۂِ حق کی ادائیگی بتائی گئی ہے اور اسے افضل جہاد قرار دیا گیا ہے:

أفضل الجهاد كلمة عدل حق عند سلطان جائر

ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔

ایک دوسری مثال موسٰیؑ کی دیکھیے۔ موسیؑ اور ان کی قوم برسوں فرعون کے مظالم سہتے رہے، لیکن انھوں نے علَم بغاوت بلند کیا نہ ہتھیار اٹھائے۔ وہ تبلیغ و نصیحت سے آگے نہ بڑھے یہاں تک کہ خدا نے خود فرعون اور اس کی طاقت کو نا بود کر دیا۔ پھر بنی اسرائیل پر ایک وقت آیا کہ فلتیوں کا بادشاہ جالوت ان پر چڑھتا چلا آ رہا تھا، ان پر ظلم و ستم کر رہا تھا۔ بنی اسرائیل نے اس وقت کے نبی سیمیوئیل علیہ السلام سے خود درخواست کی کہ ان کے لیے کوئی بادشاہ مقرر کیا جائے جس کے زیر قیادت وہ جہاد کریں اور اپنے دشمنوں کے ظلم و ستم سے نجات پائیں۔ اس پر بھی ان کے نبی نے ان کا مطالبہ فورا مان لینے کی بجائے یہ کہا کہ بادشاہ مقرر ہو جانے کے بعد کہیں تم اپنی بات سے پھر نہ جاؤ۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگی مہم جوئی جیسے سنجیدہ کام کے لیے ایک نبی بھی اپنی قوم کے لیے کوئی جلد بازی اختیار نہیں کرتا، نہ صرف وہ انہیں دشمن کے خلاف ابھارتا نہیں، بَل کہ ان کی جنگ کی فرمایش کو ٹالتا ہے اور اصلاح کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ پھر جب بضد ہو گیے تو نبی نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ جنگ جُوئی کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس کے لیے بڑی احتیاطوں کو مد نظر رکھنے کا درس اس واقعہ میں ہمیں دیا گیا ہے۔

انبیاء کے اسوہ معلوم ہو جانے کے بعد اب حضرت حسین کے اقدام کا تجزیہ کیجیے۔ حضرت حسین کا اقدام، اوّل تو ایک فاسق ہی سہی مگر ایک مسلم حکومت کے خلاف تھا، اس کی تائید میں کسی نبی و رسول کا اسوہ موجود نہیں۔ اس قتال کے نتیجے میں دونوں اطراف سے مسلم افراد کا خون بہنا لازمی امر تھا، اصلاح کی یہ سعی سماجی و سیاسی بگاڑ کو سیاسی و عسکری طاقت سے درست کرنے کی کوشش تھی، جس کی تائید دین سے نہیں ہوتی، دوسرے یہ کہ جن لوگوں کے اصرار پر آپ یہ اقدام کرنے جا رہے تھے، ان کی وفاداری کا مشکوک ہونا مسلّم تھا، جس کی طرف آپ کے برادر اکبر، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے علاوہ حجاز کے اہل نظر نے بھی آپ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی تھی اور آخر آپ بھی مسلم بن عقیل کی شھادت کے حالات جان کر اور اہل عراق کی بے وفائی یا معذوری معلوم ہو جانے کے بعد واپسی کی راہ دیکھنے پر مائل ہو گئے تھے۔

اس سارے معاملے کو ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ وہ اصلاح جو بزور بازو، خون بہا کر لائی جائے، اوّل تو اس کے صالح ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، کیوں کہ اس کی ضمانت خدا کا کوئی فرستادہ ہی دے سکتا، جو خدا سے براہِ راست ہدایت حاصل کرتا اور اس کی نگرانی میں خطا سے بچا رہتا ہے اور اگر کوئی خطا ہو جائے اس پر اسے قائم نہیں رہنے دیا جاتا، اس کےعلاوہ یہ مقام اور اپنی حکمت عملی پر یہ اعتماد کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا، اِلّا یہ کہ کوئی کسی غیر نبی کو بھی اس مقام کا حامل سمجھے، اس کا ثبوت ایسا سمجھنے والے کے ذمے ہے۔

دوسرا یہ کہ ایسی اصلاح اگرصالح ہاتھوں میں ہو بھی تو اس کے صالح رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، یعنی اس مصلح کے ساتھی اور اس کے بعد آنے والے بھی اسی درجے کے صالح ہوں، اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ مسلح جد و جہد یا انقلاب سے اصلاح لانے والوں کی اصلاح کرنی پڑ جاتی ہے، اور یہ بسا اوقات اور بھی مشکل ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ انقلاب پر انقلاب لانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ اگر بعد میں ان مصلحین کے لیے بھی وعظ و نصیحت پر ہی لانا پڑتا ہے تو یہی طریقہ پہلے کیوں نہ اختیار کیا جائے اور بزور بازو اصلاح کا خیال مسترد کر دیا جائے۔

ظلم کے نظامِ حکومت میں کب رحمت کی بارش بن کر کوئی عمر بن عبد العزیز آ جائے یا کب صالحین کی حکومت یزید جیسوں کے ہاتھ آ لگے، اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ چناں چہ افراد و سماج کی اصلاح کا معقول راستہ محض دعوت، تذکیر و تلقین کی راہ ہی ہے۔ عوام کی اصلاح ہو جائے تو حساس صالح عوام کے سامنے کوئی بگاڑ ٹھیر نہیں سکتا۔ انبیاء کا اسوہ اسی طریقہ کا شاہد ہے۔ اصلاح کے لیے وعظ، نصیحت، تلقین اور کلمۂِ حق ہر قیمت پر ادا کیا جائے، اس کے سوا کوئی راستہ درست نہیں، اس میں کامیابی ملے تو فبھا، نہ ملے تو دین نے اس سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری مصلحین کو نہیں بتائی۔

مصلحین کے جنگی اقدامات کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ جب بھی اپنے دائرہ کار سے آگے بڑھے ہیں، فساد اور انارکی پھیلانے کے سوا ان سے کچھ نہیں بن پڑا۔ نظمِ حکومت کے استحکام کے ساتھ سماج و سیاست کے ذمہ داران کو وعظ و نصیحت اور اصلاحی تنقید کا راستہ ہی وہ مثبت اور نتیجہ خیز ذریعہ ہے جس سے سماج بتدریج بدل جاتے ہیں۔ اور یہی انبیاء کا اسوہ ہے۔