دھاندلی کے خلاف رجعت پسند اور ترقی پسند

نقیب زیب کاکڑ

دھاندلی کے خلاف رجعت پسند اور ترقی پسند

از، نقیب زیب کاکڑ

پوری ریاست میں الیکشن کے دن سے لے کر تا حال یہی مسئلہ زیر بحث ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے؛ عمران نہیں جیتا بل کہ ان کو جتایا گیا ہے۔ بہت کم غیر جانب دار تجزیہ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس دفعہ نیا المیہ یہ ہے کہ قوم پرست اور مذہبی پارٹیاں ایک ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

چُوں کہ تمام پارٹیان عمران سے اور اسٹیبلشمنٹ سے ایک ساتھ بری طرح متاثر ہوئیں اس لیے رجعت پسند اور ترقی پسند ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ قوم پوستوں میں خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی باقی قوم پرست پارٹیوں کے بر عکس زیادہ متاثر ہوئی۔ اسی طرح مذہبی پارٹیوں میں جہاں جہاں جمیعت علمائے اسلام اکیلے جیت لیتی تھی وہاں تمام مذہبی پارٹیوں نے مل کر بھی عمران  کا مقابلہ نہیں کیا۔

اس الیکشن میں قوم پرستوں میں خصوصاً پشتون قوم پرستوں کو بری طرح نشانے پر  رکھا تھا۔ قوم پرست جماعتیں سرمایہ دار ریاست کے اسمبلی فلور پر تو کوئی انقلابی تبدیلی لانے کا موجب تو نہیں بن سکتیں البتہ وہ رجعت پسندوں کے لیے کسی بڑی حریف جماعت سے کم نہیں ہوتیں۔ ان میں خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی جس کی زیادہ تعداد میں ووٹ خیبر پختونخواہ میں ہیں اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جس کے زیادہ ووٹ بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں ہیں  کے رہنماؤں کو نہ صرف ہرایا بل کہ بری طرح ووٹ سے ان کی اینٹی ریاست پروفائلنگ کو عوامی سطح پر مزید زیر بحث لانے کا موقع فراہم کر دیا۔


مزید دیکھیے: عصری رجعت پسندی اور ترقی پسند نقطہِ نظر   از، نعیم بیگ


محمود خان اچکزئی کو اس لیے بھی زیادہ نشانے پر رکھا گیا کہ انہوں نے پی ٹی ایم کی کھل کر حمایت کی۔ اگر اس تجزیے کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ بھی تو پی ٹی ایم میں سرگرم تھے پھر وہ کیوں اتنے زیادہ ووٹوں سے جیت سکے یہاں ہم معروضیت کا سہارا لیتے ہیں کہ علی وزیر اور محسن داوڑ اس خطے سے الیکشن لڑ رہے تھے جہاں سے پی ٹی ایم کے تقریبا تمام مطالبات تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ محمود خان اچکزئی کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کی قومی نشستوں سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ جہاں کے عام عوام نے ریاستی پروپیگنڈے کی بنیاد پر پی ٹی ایم اور ان سے منسلک تمام جماعتوں کو رد کیا۔

قلعہ عبداللہ اور پشین جہاں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے امید وار زیادہ تعداد میں اسمبلی جاتے ہیں میں پچھلے تیں سال سے انٹرنیٹ بند تھا اکتیس جولائی کو ان دونوں شہروں کا انٹرنیٹ کھول دیا گیا۔ چُوں کہ ترقی پسند جماعتیں زیادہ تر اپنا پروپیگنڈہ سوشل میڈیا کے تو سط سے کرتی ہیں اس لیے ان کے پروپیگنڈے کو با لکل بھی تقویت نہیں ملی۔ یہاں تک ان دو شہروں کے نوے فی صد عام لوگوں کو پی ٹی ایم کے مطالبات تک سے بے علم رکھا گیا۔ یہ پی ٹی ایم کے ساتھ دینے کو اور پی ٹی ایم کے وجود کو  سوشل میڈیا ہی پر ریشنل اور حقیقی ثابت کرا سکتی تھی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

ان دو شہروں کی معلومات کا ذریعہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر چلنے والے چینلز تھے۔ ان چینلز میں کبھی بھی چھوٹی قومیتوں  کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بل کہ جہاں تک ان کا بس چلا ایسی قومیتوں کا سوال انہوں نے عام زاویے کی خبروں سے بھی حذف کیا، اور پی ٹی ایم کی بات آتی ہے تب تو یہ چینلز اس تحریک کو بلا تحقیق کیے غدار قرار دیتی ہے۔ وجہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا بچہ بچہ جانتا ہے، اس طرح اس پارٹی کو منفی پہچان دلانے میں یہ کامیاب ہویے، بلوچستان میں بلوچ قوم پرست پارٹیوں میں پچھلے الیکشن میں نیشنل پارٹی زیادہ مینڈیٹ کے ساتھ صوبائی اسمبلی گئی تھی۔ قوم پرست ہونے کی وجہ سے یہ بھی ترقی پسند جماعت ہے اس جماعت کو بھی اس دفعہ سائیڈ لائن پر کر دیا اس دفعہ بی این پی مینگل کو آگے کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک ترقی پسند جماعت ہے۔ دیکھیے اس جماعت نے گم شدہ بلوچوں کو رہا کرانے کے وعدے اور مطالبے کا ذکر کیا تھا۔ اپنے منشور میں دیکھتے ہیں یہ ان کو رہا کرانے میں کس حد تک کا میاب ہوتے ہیں۔

اس طرح بلوچستان میں عمران نے محمود خان اچکزئی کو کوتٹہ کی سیٹ جو محمود خان اچکزئی کا اپنا حلقہ بھی نہیں ہے پر ہرانے کے علاوہ اور کوئی بڑی شخصیت کو ہرانے میں نا کام رہے۔ اس سیٹ کے علاوہ ایک دو صوبائی سیٹوں پر یہ نئے امید وار لا کر جیتے ہیں۔ باقی تقریباً سارے الیکٹبلز تھے، باپ پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے روایتی  طریقے سے جیتنے والے آزاد امید وار اور باقی پارٹیوں سے الیکٹبلز کا انتخاب کر کے آگے آ گئی جس کو اپنی مطلوبہ اکثریت مل بھی گئی۔

اب رہی بات خیبر پختونخواہ کی تو وہاں عوامی نیشنل پارٹی جن سے پشتون قوم پرستوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کو عمران کے ہاتھوں بری طرح ہرایا گیا۔ یہاں عمران خان ہر گز کوئی ایسی بڑی تبدیلی لا نہیں سکا ہے جس کی بنیاد پر ان کو دوبارہ ووٹ دیا جاتا۔ بل کہ یہاں بھی عمران کا اسٹیبلشمنٹ نے بھرپور ساتھ دیا۔ واضح رہے جب جب پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا نام پی ٹی ایم کے ساتھ جو ڑا جاتا تو ساتھ میں اے این پی کا نام ضرور رکھا جاتا۔ حالاں کہ اے این پی نے  آفیشلی پی ٹی ایم کے حق میں بیان دیتے وقت بہت احتیاط سے کام لیا، لیکن پھر بھی افراسیاب خٹک بشرٰی گوہر اور دوسرے رہنماؤں نے ذاتی طور پر بھر پور ساتھ دیا۔ جس سے پشتونوں کے باہر یہ تاثر عام ہوا کہ اے این پی پی کی پوری پارٹی ٹی ایم کا بھر پور ساتھ دیتی ہے۔ ان باتوں کو مد نظر رکھ کر سوشل میڈیا پاکستانی نیشنلزم کے حامیون نے عوامی نشنل پارٹی کو بری طرح اینٹی ریاست پیش کرنے کی کوشش کی۔

پی ٹی آئی عوامی سطح پر پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں یہ جتنی یونیورسٹیز کا پروپیگنڈا کرتی ہے اتنی یونیورسٹیز اے این پی اپنی دور حکومت میں بنا چکی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے جتنا بھی پروپیگنڈہ کیا اس میں زیادہ تر مبالغے سے کام لیا گیا۔ ریاستی مشینری کو یہ بھی احساس تھا کہ اے این پی کو اس دفعہ اگر پارلیمنٹ جانے دیا گیا تو یہ پی ٹی ایم کا ساتھ دے کر فوج کے لیے مسئلہ بنا سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پی ٹی ایم کے حق میں بولنے والے تمام مطلوبہ پارلیمنٹیرین خصوصاً پشتونوں کو ہرا دیا۔

اس دفعہ کسی بھی پشتون قوم پرست پارٹی کا کوئی بھی اچھا سپیکر اسمبلی نہیں جا سکا۔ واضح رہے شیخ رشید اس خوشی کا اظہار کر چکے ہیں کہ محمود خان اچکزئی جب اسمبلی میں نہیں ہوتے تو ان کے لیے معاملات بہت آسان بن جاتے ہیں۔ پی ٹی ئی نے سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کو پہنچایا جو ایک عوام پرست پارٹی نہ ہوتے ہوئی اس دفعہ یوں احساس دلانے لگی جیسے یہ لیفٹ کی ایک عام اور عوامی جماعت ہے وجہ در اصل یہ ہے کہ ہماری معاشرتی نفسیات یوں مرتب ہیں کہ جب کوئی ظالم بھی اپنے کیے ہوئے مظالم کے دس فی صد مظالم کا شکار  ہو جائے تو ہم اس کے مظالم بھول جاتے ہیں۔

نواز شریف اور اس کی جماعت ان سرمایہ داروں سے بھری ہے جو نواز کے اس نظام کا حصہ ہونے کا بھرپور فائدہ حاصل کر سکتے تھے اور اکثر  نے ایسے فوائد حاصل بھی کیے۔ خود اتفاق فاونڈری یا برادرز سٹیل ملز نواز کے اس دور سے اس طرح مستفید ہوئی کہ نواز شریف نے اپنے دور میں خام تانبے کی قیمت کنٹرول میں رکھی۔ نواز کی حکومت کے ختم ہوتے ہی خام تانبے کی قیمت اوپر اٹھنے لگی۔

اس طرح تمام سرمایہ دار اور جاگیر دار ایسی حکومتوں کے سہارے عوام کو غلام بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ نواز کو ہرانا اس دفعہ اس لیے لازمی تھا کہ نواز کے ارادے سویلین سرمایہ داروں کو مضبوط کرنے کے تھے جو فوجی کار و بار کے لیے دونوں سطح پر خطرے کا الارم تھا۔ نواز شریف کا ایک کام فوج کے لیے دو مقامات پر مسئلے کا سبب تھا۔ وہ کام ہندوستان کے ساتھ کار و باری تعلقات کی بحالی اس سے دو طرح کے تاثر کا خدشہ تھا۔ ایک تو نفرت کے کار و بار میں کمی آ جاتی جس ماضی قریب یا بعید میں فوجی بجٹ زیر بحث آ سکتا تھا، دوسرا یہ کہ سرمایہ داریت مزید چیلنچنگ ہو جاتی جو فوج کی کمپنیز کے مشکل کا سبب بن سکتی تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ دھاندلی کیسے ہوئی، بیلٹ بکس میں بھی دھاندلی کے قوی امکانات ہیں لیکن نواز کے ساتھ دھاندلی اس طرح  کی کہ اس کی اس کے خاندان سے منسلک دوسرے افراد کی اور اس کی پارٹی سے منسلک دوسرے افراد کی شخصیت کو بھرپور طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اس میں عدالت سوشل میڈیا کی فیک آئی ڈیز اور نیب پیمرا ٹی وی چینلز سب نے اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا اور یہ ادرے اس رائے عامہ کے بنانے میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئ۔

عوام کی آراء یہی ادراے بناتے ہیں۔ ان اداروں نے ایسے حقائق تخلیق کیے کہ نواز اور اس کے حامی بھر پور طریقے سے ہار گئے، اور نیا پاکستان تعمیر ہونے لگا۔ اگلی تحریر میں نئے پاکستان سےمنسلک خدشات پر بات کروں گا۔