اظہار مذمت کرنا تو سیکھ لیا، اظہار ندامت کب ہو گا

یاسر چٹھہ

اظہار مذمت کرنا تو سیکھ لیا، اظہار ندامت کب ہو گا

از، یاسر چٹھہ

آج ایسے ہی جیسے کہ ہم ہر روز بہت سارے لوگ کرتے ہیں، ٹی وی mute پر چل رہا تھا۔ ویسے اسے  mute پر ہی چلنا چاہیے۔ اس دوران دیکھتا ہوں کہ ایک خبری پٹی یعنی news ticker چل رہی ہے۔

حادثہ کون سا چھوٹا تھا۔ سو کے آس پاس انسانوں کی جانیں پلک جھپکنے میں ختم!

کیسے ایک جملے کی دُم پر ختم کا لفظ لگا کے، سب ختم، اور سو کے آس پاس انسانوں کی روحیں، جسم کے پرخچوں کے ساتھ ہی اُڑ گئیں۔

جانے کتنے سارے خواب، امنگیں، زندگی کے منصوبے اور پیار بھی ساتھ ہی مر جاتے ہیں۔

خیر اوپر بات تو ہو رہی تھی کہ سو کے قریب انسانوں کی زندگی ہار جانے کی۔ وہ تو ہارے ہی ہارے۔ لیکن رسمِ دنیا ہے کہ لوگ پُرسہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو انتہائی دکھ اور رنج کے پیغامات کی بار بار کے well rehearsed  کام کی مشینی انداز کی گردشی حرکتِ متواترہ سی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ شکر ہے کچھ لوگ کچھ عرصہ قبل تو اس سے بھی ہچکچاتے تھے!

اسی دوران ایک بہت بڑے صاحب کا نام پڑھے بغیر ان کا بیان پڑھنے میں سہو سی ہو گئی۔

لکھا تھا وہ بھی قیمتی جانوں کے ضیاع پر شدید  الفاظ میں اظہارِ مذمت کرتے ہیں۔

آپ کہیں گے اتنی سطریں اور جملے پڑھانے کے بعد یہی کچھ کہنا تھا؟ تو پھر کیا وقت برباد کیا؟ کیوں وقت اجاڑا؟

نہیں تو!

بات یہ نہیں تھی؛ کچھ زیادہ المیاتی و مجرمانہ سہو تھی، میں نے غلطی سے پڑھ لیا تھا:

قیمتی جانوں  کے ضیاع پر شدید الفاظ میں اظہار ندامت کرتا ہوں۔

میری توبہ جو ان سے ایسے لفظ واقعتاً منسوب کروں۔

افسوس، مجھ سے Big Brother سے فطری طور پر اور برجستہ انداز سے اظہار پیار نہیں ہو پایا، کبھی کبھی زبان اور آنکھیں مل کر لڑکھڑا جاتی ہیں۔

I’ll have to love Big Brother۔ He can never feel ashamed of his performance and deeds. He can never do wrong. He’s above and beyond such limitations.

گو کہ ابھی کہا کہ جو کہنا تھا۔ لیکن ایک کیفیتی فرق واضح کرنا تھا۔ پہلے بھی ہمارے یہاں پچھلے کچھ عرصے سے عوامی ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ابلاغی و زمینی کام بھی جاری ہے۔ پہلے یہ ہوتا آ رہا تھا کہ جب بھی کسی ریلی کا انعقاد ہونا ہوتا تھا تو ایک دن پہلے خبریں لِیک ہونا شروع ہو جاتی تھیں کہ پانچ یا تین خود کش حملہ آور داخل ہو گئے ہیں۔ اب ایسی خبر لِیک نہیں ہوئی بل کہ سیدھا سانحہ انجام  پا گیا۔ اور وہ بھی بے چارے پشتونوں اور بلوچوں کی زندگیوں کی قیمت پر۔


مزید دیکھیے:  عظیم قومی مکالمہ

عالمی عدالت انصاف میں ہم جیتتے کیوں نہیں؟


ولی عہد،  Prime Minister in Waiting تو جانے شیر وانی کی دکھائی گئی چمک میں ٹویٹر پر کیا سے کیا ٹویٹیں فرماتے رہتے ہیں، ان کے اپنے وعدے اور قسمیں۔ اور ان کے چاہنے والوں کی اپنی عینکیں۔ اس پنجابی کو معافی دیجیے گا، پُرسہ قبول کیجیے گا۔ بطور پنجابی میں اپنے پختون اور بلوچ بھائیوں سے معافی مانگتا ہوں کہ لاہور میں مافیا، ڈان، گاڈ فادر، مغل بادشاہ، صرف بادشاہ، تخت نشین وغیرہ وغیرہ یعنی، نواز شریف کی گرفتاری دینے کے لیے آمد پر کار کنوں کی جانب سے کیے جانے والے استقبال سے توجہ ہٹانے کے لیے ہمارے بھائیوں کی جانیں ایک بار پھر خواہ مخواہ خاک کا رزق ہوئیں۔

خدا اب سرحدوں پر بسنے والوں کو، ان کے کچے مکانوں کو، ان کے مال مویشیوں کو، ان کی فصلوں کو سلامت رکھے۔ سرحد پر کشیدگی ہو سکتی ہے۔ خدارا، سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعے کے بعد ناکوں چنے چبوانے کی قسط ٹَل جائے۔

“معاملات” کی بند و بستی کے ذمے داروں کی عقلی غُربت کو ربُّ الکریم کبھی تو ختم کرے گا ہی۔ ہر بار یہی کہتے ہیں رب کے ہاں دیر ہے، اندھیر انہیں۔ اور کہیں بھی کیا؟ اور کہہ ہی  کیا سکتے ہیں؟

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔