سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل کون ہو سکتا ہے؟

Asad Lashari
اسد لاشاری

سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل کون ہو سکتا ہے؟

از، اسد لاشاری

پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا یہ ملک۔ مگراتحادی سیاست کی لہر ہمیشہ انتخابات سے قبل اٹھتی ہے اور انتخابات ختم ہوتے ہی یہ لہر تھم جاتی ہے۔ ویسےتو وطنِ عزیز میں جمہوریت کی بحالی سے لے کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی اتحاد بنے، مگر وہ اتحاد مطلوبہ نتائج  حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان اتحادوں کی ناکامی کا مُنھ بولتا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان آج ایک نیم جمہوری نیم اسلامی ریاست بن چکا ہے۔

ایک نظر ان اتحادوں پرڈالتے ہیں جو با لخصوص انتخابات کے وقت بنے یا بنا ئے گئے۔

ملکی سطح  پر محترمہ فاطمہ جناح نے 1964 میں اس وقت  کے آمر کے خلاف انتخابا ت کے دوران متحدہ اپوزیشن کےنام سے اتحاد بنایا ۔ 1977 کے الیکشن میں خدا کی مخلوق نے مذہبی جماعتوں کا نو ستاروں والا پاکستان نیشنل الائنس بنایا اس کے بعد 1988 میں آئی جے آئی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔ جب کہ 1990 میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس بنا۔ اور 2002 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے مل کر ایم ایم اے بنایا۔

اور اگر سندھ کی بات کی جائے تو سندھ میں گذشتہ تین دھائیوں کے دوران مختلف  اتحادی جماعتوں نے مل کر حکمرانی کی۔ با لخصوص پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر صوبے پر مل کر راج کیا۔

بھٹو خاندان سے جذباتی وابستگی کی وجہ سے  سندھی ووٹرز گذشتہ چالیس سال سے بھٹو کی جماعت کو جتواتے آ رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ لوگ اب بھی روٹی کپڑے اور مکان کو ترس رہے ہیں۔ جب کہ مہاجر ووٹرز نے ہمیشہ ایم کیوایم کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا مگر اب بھی ان کی محرومیاں وہی ہیں جوایم کیو ایم کے وجود سے قبل تھیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیوں سندھ کے لوگوں نے خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمیشہ ان دونوں جماعتوں کو جتوایا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملک میں وفاقی جماعتوں کا نہ ہونا اور قومی سطح کے لیڈرز کی غیر سنجیدہ طرز سیاست نے لوگوں کو بار بار مذکورہ جماعتوں کو ووٹ دینے پر مجبور کیا۔

کیوں کہ  کپتان کو خیبرسے بھی زیادہ پنجاب کو فتح کرنے کی خواہش نے سندھ کو نظر اندازکرنے پرمجبور کیا۔

جب کہ شریف برادران نے پنجاب کے قلعے کو مضبوطی سے پکڑنے اوراس کے دفاع میں ہی بہتری جانی، اس لیے ان کی نظروں سے بھی سندھ، سندھ کے مسائل اور سندھ کے لوگ اوجھل ہی  رہے۔ لیکن انتخابات کا وقت قریب آتے ہی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اور انتخابی اتحاد جی ڈی اے اور ایم ایم اے متحرک ہو چکے ہیں۔

کیا سندھ کے عوام انتخابی سال کے دوران سندھ میں متحرک ہونے والی جماعتوں، مثلاً تحریک انصاف اور حالیہ دنوں میں بننے والے انتخابی اتحاد جی ڈی اے کو ووٹ دیں گے جس میں لیاقت جتوئی، گھوٹکی کے مہر برادران اور تھر کے ارباب غلام رحیم جیسے سیاست دان شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات مشرف دور میں اہم وزارتوں پرفائز ر ہے، اور انہی کے دور میں سندھ کے دارالخلافہ میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے طلباء پر اعلیٰ تعلیمی ادارو ں کے دروازے بند کیے گئے۔


مزید دیکھیے: پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ

پاکستانی سیاست میں اخلاقی ہتھیار


ان کے دور میں اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے افسران کراچی میں تبادلہ تک نہیں کروا سکتے تھے۔ تو کیا ایسے میں سندھ کے لوگ جی ڈی اے کو متبادل کے طور پر تسلیم کر لیں گے؟ جہاں تک میرا ذاتی  خیال ہے سندھ کے لوگوں کو جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے بجائے مڈل کلاس بیک گراونڈ سے تعلق رکھنے والے روشن خیال امید وار وں کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مثلاً، ایاز لطیف پلیجو، لیاقت میرانی، جبران ناصر، رادھا بھیل، جلال شاہ، سنیتا پروان ور اپریل میں بننے والی جماعت کے سربراہ علی قاضی جیسے امیدواروں کوآزمانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ تمام امیدوار پڑھے لکھے، سیاسی طور پر با شعور، جمہوری اورعوامی مسائل سے بھرپور آگاہ ہیں اور عوام کو وڈیروں، سرداروں، پیروں اور بد عنوانوں سے بہتر جاننے والے ہیں۔

ان سے شخصی اختلاف رکھا جا سکتا ہے مگر ان کی قابلیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، اوران پر کوئی بھی الزام لگانا قبل از وقت ہوگا۔ بے شک چند امیدوار حکومت نہیں بنا سکتے مگر حکومت کو کام کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ان کے کاموں پر نظر رکھ سکتے ہیں، ان سے سوال پوچھ سکتے ہیں، سندھ کے مسائل کو اجاگر کرنے اورسندھ کے مقدمے کو ہر فورم پر بھرپور انداز سے لڑ نے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسمبلی کے اندراور باہر عوامی مسائل  اوران کے حل پربات کر سکتے ہیں۔ سندھ بھر سے حصہ لینے والے ایسے امیدواروں کا اسمبلی میں موجود ہونا سندھ اور سندھ کے عوام کے مفاد میں ہے۔