پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ

لکھاری کی تصویر
اسد لاشاری، صاحبِ مضمون

پاکستان میں اتحادی سیاست کی تاریخ

از، اسد لاشاری

سیاسی اتحاد کیا ہوتا ہے؟ لفظی معنیٰ کے مطابق تو یہ مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہی ہونا چاہیے، تاہم پاکستان میں بننے والے سیاسی اتحاد مختلف سیاسی جماعتوں کے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بنائے گئے،کوئی بھی ایک ایسا سیاسی اتحاد، ہ گروہ یا پھر سیاسی جماعتیں ،جو کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت محدود مدت کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں سیاسی اتحاد کہا جاتا ہے یا پھر نظریاتی طور ہم آہنگی ہونے کی بنیا دپر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کے لیے یہ اتحاد بنائے جاتے ہیں۔

یہ اتحاد کبھی انتخابات سے پہلے تو کبھی بعد میں بنتے ہیں اتحادوں کے ذریعے کبھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی وقت کے حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادی سیاست کا سہارا لینا پڑتا ہے، کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے اتحاد بنے تو کبھی وطنِ عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی اتحاد بنے،اگر یہ کہا جائے کہ اتحادی سیاست کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ابھی بھی پاکستان کے سیاسی حالات کشیدگی کا شکار ہیں، پانا ما لیکس ،ٹی او آرز کمیٹی کی تشکیل پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف پاہا جاتا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں کسی ایک نکتہ پرمتفق نہیں ہو سکے ابھی تک۔ حکومت احتجاجی سیاست سے کیسے نمٹے گی ،یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

یہاں پر قارئین کو صرف ان اتحادوں کے بارے میں بتایا جائے گا جو تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں اتحادی سیاست کا آغاز1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا مگر یہ اتحاد اتنا کامیاب نہیں ہوا اس لیے تاریخ میں اس کا ذکر اتنا نہیں کیا جاتا جتنا 1953میں بنے، دی یونائیٹڈ فرنٹ کا کیا جاتا ہے ۔یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مبنی تھا جس میں عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام،جنتا دل اورکرشک پراجاپارٹی شامل تھیں ۔ یہ اتحادبھی مسلم لیگ کے خلاف بنا ،اس کی وجہ پارٹی میں اندرونی انتشار ، لیڈر شپ کا بحران، ا نتظامی نا اہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی، حسین شہید سہروردی جیسے منجھے ہوے لیڈر پارٹی چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے ۔ یہ اتحاد بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل بنایا گیا تھا جس کا مقصد بنگال کے عوام کو مسلم لیگ کامتبادل فراہم کرنا تھا ،1953 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں دی یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں جیت کر مسلم لیگ کو بری طرح شکست سے دو چار کیا تھا، مسلم لیگ صرف 9 سیٹوں پر انتخاب جیت سکی تھی۔

اس اتحاد کے بعد اتحادی سیاست کی فضا جو قائم ہوئی اس کے اثرات جنرل ایوب خان کے خلاف دیکھے جا سکتے ہیں ، مادرِ ملت فاطمہ جناح جو قائدِ اعظم کے انتقال کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھی ایک بار پھر سے وہ سیاست کے میدان میں سرگرم ہوگئی تھیں، انہوں نے 1964 کے صدارتی انتخابات کے دوران ایوب خان کے خلاف(متحدہ اپوزیشن)کے نام سے ایک اتحاد بنا یا لیکن اس اتحاد کے خلاف منفی پرو پیگنڈا یہ کیا گیا کہ اسلام خواتین کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،شاید اس لیے فاطمہ جناح ، اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس اتحاد کے بعد 30 اپریل 1967 نوابزادہ نصراللہ خان کاپانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحا د بنا، اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا ،بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا ،یہ اتحاد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ اتحادی سیاست کا سلسلہ ، گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے سیاسی کلچر میں عام ہو گیا تھا، اس تجرباتی عرصے میں کبھی جمہوری اتحاد بنے تو کبھی اسلامی اتحاد بنے ،ان میں سے کچھ اتحاد، جن کے نقش اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ ان کو بھولے سے بھی کوئی نہیں بھلا سکتا ۔

1971 میں ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں اتحادی سیاست نے بھی خوب اپنے رنگ دکھائے، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحاد(پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے)کے نام سے ایک اتحاد بنایا،پی این اے کا نصب العین ، تھا کہ وہ ملک میں نظامِ مصطفی نافذ کریں گے۔ اس تحریک نے عوامی حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل کی اور مذہب کو بھی سیاسی طور پرخوب استعمال کیا ، لیکن اس کے با وجود انتخابات میں وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکے جن کی وہ توقعات کر رہے تھے،پی این اے کو صرف 36 نشستوں پرکامیابی ملی ،انتخابات کے بعد پی این اے نے ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکا لنا شروع کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک سول نافرمانی میں بدل گئی ، نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حکومت کو کراچی،لاہور، حیدرآباد سمیت کچھ دیگر شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا، کچھ عرصہ سیاسی کشیدگی چلتی ر ہی لیکن پھر حکمران جماعت او رپی این اے کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت اورپی این اے کئی باتوں پر متفق ہو چکے تھے کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا، اس طرح یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔

ابھی ملک ایک منتخب کردہ وزیرِ اعظم کوپھانسی دینے کے بعد سنبھلا ہی نہیں تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے6 فروری 1981میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی تھا ،اس تحریک کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی،ایم آر ڈی کی تحریک میں10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں،اس تحریک میں متعد د سیاسی رہنما ؤں نے جیل کی ہوا بھی کھائی اور سیاسی کارکنوں کو اس تحریک کے دوران خوب کوڑے کھانے پڑے تھے ،یہ تحریک شروع میں پنجاب اور سندھ میں خاصی مقبول رہی لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ تحریک صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ پاکستان کی تاریخ ایسے سیاست دانوں سے بھری پڑی ہے جن کی سیاست صرف اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہے، اس سے زیادہ اُن کی نظر میں سیاست کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ،آج تک ملک کو اتحادی سیاست کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ اب تھوڑا مزید اتحادوں کی بات ہو جائے ،ملک میں سیاسی اتحاد جو تاریخ کا حصہ بننے جا رہا تھا وہ بھی اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اس اتحاد کا نام اسلامی جمہوری اتحاد تھا۔

اس اتحاد کی بنیاد پی پی پی کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے رکھی اور اس کی قیادت سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈرغلام  مصطفیٰ جتوئی کے سپرد کی گئی، اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے ہی نواز شریف قومی سطح پر ایک سیاسی لیڈر کے طورپر متعارف ہوئے تھے ، یہ اتحا د بھی پی این اے کی طرح 9 سیاسی و مذہبی پارٹیوں پرمشتمل تھا ، یہ اتحاد 1988 کے الیکشن سے پہلے وجود میں آیا، اِس اتحاد کو غیر جمہوری اور پی پی پی مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔

اسلامی جمہوری اتحاد کو اس الیکشن میں قومی سطح پر کامیابی نہ مل سکی تاہم یہ اتحاد صوبہ پنجاب میں کامیاب ہوکرحکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا، قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 94 نشستوں پر انتخاب جیت کر مرکز ی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اِس انتخابی معرکے کے بعد وطنِ عزیز میں قبل از وقت انتخابات1990 میں ہوئے،انتخابی میلہ سجا تو اٰس انتخابی دنگل میں دوبڑے اتحاد بنے جن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا۔آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف ،جب کہ پی ڈی اے کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ اس انتخابی معرکے میں غیر جمہوری قوتوں نے بھرپورمداخلت کی اورالیکشن کے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں میں پیسہ بھی خوب تقسیم کیاگیا،اسلامی جمہوری اتحاد ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 106 نشستوں پر الیکشن جیت کر مر کز میں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آگیا،جب کہ اس کے مدِ مقابل پی ڈے اے کو صرف 45 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسی عرصے کے دوران آرٹیکل 58- 2 B کا بھی خوب استعمال ہوتا رہا، منتخب جمہوری حکومتوں کو مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرنے کا رجحان بھی کچھ زیادہ رہا اور ساتھ ہی اتحادی سیاست کا میلہ بھی سجتا رہا، اس دوران چھوٹے چھوٹے اتحاد بنتے رہے لیکن یہاں پر بڑے اتحادوں کی بات کی جا رہی ہے، اس لیے چھوٹے اتحادوں کا ذکر کرنا اتنا ضروری نہیں۔

اس کے بعد 1997 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے ،یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن 12۱کتوبر 1999 کو بعد مشرف نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے ساتھ ،جی ڈی اے کا کام تمام کر دیا۔ جنرل مشرف کی جانب سے اقتدار کا دائرہ بھی دوسرے جرنیلوں کی طرح ،ان کے اپنے ذاتی مقاصد تک محدود تھا، متعدد تلخ تجرباتی کے بعد ملک کی سیاسی قیادت نے ملک میں جمہوریت کے استحکام اور آمریت کے خاتمے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے اور باہمی اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کیا، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر ملک کی 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں اور ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی، اس اتحاد کا نام “تحریک بحالی جمہوریت”یا اے آر ڈی رکھا گیا تھا۔

اس اتحاد کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پہلی مرتبہ کسی ایک اتحاد میں شامل ہوئی تھیں، اس سے پہلے ہمیشہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور کرنے میں اپنی قوت صرف کیا کرتی تھیں، خیر جمہوریت کو تو بحال ہونے میں وقت لگ گیا تھا لیکن اس دوران ایک اور انتخابی میلہ 2002 کو سجا ،اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا ،جس کا نام متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) رکھا گیا اِس اتحاد میں ملک کی چھ مذہبی جماعتیں شامل تھیں جن میں جمعیت العلما ء اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی جیسی نامور مذ ہبی جماعتیں شامل تھیں۔

ہر چھوٹے بڑے اتحاد کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے جس میں کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، ایم ایم اے کو ان انتخابات میں صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) میں صوبائی حکومت جبکہ صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی،ایم ایم اے ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 57 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن گئی،اسی الیکشن کے دوران ایک اور بھی اتحاد بنا تھاجس کا نام نیشنل الائنس تھا تاہم یہ اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور اس اتحاد کو صرف 16 نشستوں پر کامیابی مل سکی۔

معاشرہ چاہے تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ سیاستداں جذبات کے ذریعے لوگوں کے ذہن پر قابو پا لیتے ہیں، 2008 کے انتخابی معرکہ میں جذباتی سیاست کھیلی گئی جس کی بدولت پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی2008 کے انتخابات میں کوئی نیا اتحاد نہیں بنا البتہ متحدہ مجلس عمل جو پہلے بنا ہوا تھا وہ بھی ا پنی مقبولیت بر قرار نہیں رکھ سکا۔ انتخابات کے بعدپیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت بنائی جس میں ایم کیو ایم عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آء( ف) شامل تھیں ،یہ اتحادی حکومت اپنی غیر معیاری کار کردگی کی وجہ سے عوام میں کافی غیر مقبول رہی اس لیے اپنی حکومت بحال نہ رکھ سکی اور شکست سے دو چار ہو کر حکومت سے حزبِ اختلاف میں آ گئی ۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں کوئی اتحاد نہیں بنا، البتہ کہیں کہیں مختلف جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوی تھیں ،2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، 2013 کے انتخابات کا سب سے مثبت پہلو پاکستان تحریک انصاف کا ابھر کر سامنے آنا تھا، پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر کامیاب ہوئی تھی ، تحریک انصاف کی سیاست کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اسمبلی سے زیادہ احتجاجی سیاست کو اپنا مرکز سمجھتی ہے۔

ابھی دیکھنا ہے کہ عیدِ قرباں سے پہلے ملکی سیاست میں کون سا بھونچال آنے والاہے، یہ تو آنے والے دن بتائیں گے لیکن سیاسی پنڈتوں کے نزدیک حکومت کے خلاف ایک بڑا محاذ بننے کے امکانات ہیں، جس میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ق لیگ ،جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک اور کچھ دیگر جماعتیں شامل ہوسکتی ہیں ۔ ۔ چند سوال جو ذ ہن میں گردش کرتے رہتے ہیں کہ کیا سیاستداں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں گے یا پھر ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کے خلاف مشکلات پیدا کر کے مظلومیت کے نوحے پڑھتے رہیں گے؟ کیا یہ اتحاد صرف حکومتی عہدیداروں کے احتساب ا ور کرپشن کے خلاف بنایا جائے گا یا پھر ہمیشہ کی طرح ذاتی مفادات کی آڑ میں اپنے مخالفین کی کردار کشی کی جائے گی؟کیا مسلم لیگ نون کی حکومت اپنا آئینی مدہ پوارا کر پائے گی یا نہیں؟کیا پیپلز پارٹی مفاہمت کر کے نواز حکومت کو سہارا دے گی کہ نہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ذہن میں گردش کر رہتے ہیں،تاہم ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت ہی دے گا ۔