خود کشی جرم نہیں، ظلم ہے!

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

(اصغر بشیر)

خودکشی انسانی تشخص اور سماجی حیثیت سے بغاوت کی سب سے بڑی مثال ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس مظہر کا پایا جانا دراصل اس معاشرے کے نظام میں موجود عمیق دراڑوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ خودکشی اور اس جیسے دوسرے بہت سے مظاہر کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے پیرامیٹر کا کردار ادا کرتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی بھی معاشرے کی روش کی باقاعدہ پروجیکشن کی جا سکتی ہے۔ہماری زندگی کے ہر پہلو پر ہمارا مخصوص دیسی پن اور غیر فکری رویہ واضح طور پر اپنی فکری چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی ہمارے ہاں گلی محلے میں ایسا دلخراش واقعہ دیکھنے کو ملتا ہے تو ہم روایتی انداز میں تمام پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے مرحوم کو اپنے تمام تر اعمال کا واحد ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن کیا مفکرین بھی خودکشی کو اسی انداز میں سوچتے ہیں؟ اس سلسلہ میں ایملی درخیم کا ذکر ضروری ہے جو خودکشی کو معاشرے کی ساخت اور کلچر کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے معاشرے کی اجتماعی سوچ کے ساتھ جوڑتا ہے۔
معاشرے میں سرایت کرتی فکری و معاشی بے چینی اور خودکشی کے حوالے سے سرکاری اعدوشمار آپس میں میل نہیں کھاتے کیونکہ ہمارے ہاں اصل اعداد کا بہت کم حصہ سرکاری رپورٹ کا حصہ بنتا ہے۔ہمارے سماجی، سیاسی، معاشرتی ، اخلاقی اور مذہبی عوامل ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم واضح طور پر خودکشی سے تعلق کو خوداعتمادی کے ساتھ قبول کریں۔اسی لیے ہمارے ہاں کے اعدادوشمار کسی سماجی مظہر کی اصل صورت حال پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
اس حقیقت کےباوجود کہ ہمارے ہاں اعدادوشمار حقیقت سے مختلف ہیں پھر بھی موجودہ اعداد و شمار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں پچھلی چند دہائیوں میں خودکشی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہےاور اس کا نشانہ بننے والا سب سے اہم گروہ کی عمر اٹھارہ سے چوبیس سال ہے۔ ا ٓج خودکشی موت کا تیسرا بڑا سبب ہے۔ پہلے دو اسباب حادثات اور قتل ہیں۔ ہمارے ہاں خودکشی کی بنیادی وجوہات میں تنہائی، نا امیدی، محبت میں ناکامی، حالات سے بیزاری ، اور اسی طرح کی دوسری وجوہات جو انسان کی سماجی زندگی میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں اٹھنے والا اہم سوال یہ ہے کہ عمر کے لحاظ سے ایک خاص گروہ ہی مسلسل خودکشی کے عمل میں کیوں مبتلا ہے؟ اس صورت حال کو ہم ذاتی خصوصیات مثلاً جھنجلاہٹ یا دباؤ کے ذریعہ مکمل طور پر واضح نہیں کر سکتے ۔ اس سلسلہ میں ہمیں ایک فرد کے رویے کو سماجی قوتوں کے ساتھ تعلق کی بناء پر سمجھنا ہوگا۔ ہمارے لیے آج یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی خودکشیوں کو ذاتی ذہنی حالت کا شاخسانہ گراننے کی بجائے ان سماجی، تاریخی اور معاشرتی پہلوؤں کا تجزیہ کریں جو کہ اس کا بنیادی سبب بن سکتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ان واقعات کی تشریح کریں۔
ایملی درخیم اس سلسلہ میں بیان کرتا ہے کہ لوگوں کو باندھنے والے سماجی بندھن جب ایک حد سے زیادہ کمزور یا طاقت ور ہو جائیں تو لوگوں کے اندر ان حالات سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ خودکشی ہی ہوتا ہے۔ دراصل خودکشی ان عوامل کو دکھا رہی ہوتی ہے جو کہ ایک معاشرے میں پائےجانے والے بنیادی بندھنوں اور رشتوں کی ساخت اور شناخت کو بدل رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں ایک طرف جدید یت کا دور دورہ اورببانگِ دہل چرچا ہے تو دوسری طرف روایت پسندی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کشمکش میں ایک عام پاکستانی پسا چلا جا رہا ہے۔ ایک عام انسان ہر دو صورتوں میں اپنے آپ کو ناکام پاتا ہے۔ ایک طرف جب جدیدیت کے ساتھ رابطہ جوڑتا ہے تو مذہب اور روایتی اقدار سے خود کو بے گانہ محسوس کرتے ہوئے خود ستانی کے جذبات کا قیدی ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک انسان جب روایت سے مکمل جڑا رہتا ہے تو سماجی اور معاشرتی روایات اس کو پسماندہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور انسان خود کو معاشرے سے کٹا ہوا پاتا ہے۔ یوں تنہائی اور احساس محرومی اس کے لیے ذہنی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔درخیم خود کشی کو ایک سماجی عمل تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دوسماجی قوتیں یعنی سماجی میل جول اور اخلاقی ضابطہ کے درمیان تعلق کے بگاڑ کے ذریعہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ درخیم کہتا ہے کہ خودکشی کی بنیادی طور پر چار اقسام ہیں۔ خودپسندی، بے ضابطگی، بے غرضی، اور قسمت۔
درخیم خودپسندی کو خودکشی کی اہم وجہ سمجھتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ جن معاشروں میں روایتی اور جدیدی بندھنوں میں کشمکش پائی جاتی ہے ان معاشروں میں انسان اپنے جذباتی تعلق کی بجائے اپنے کام اور ضروریات کی وجہ سے دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ایک انسان کے لیے جذباتی ،تنہائی، اداسی، اور بے معنویت کے احساسات ایک عام چیز ہیں۔ جب کہ ان کے برعکس روایتی معاشروں میں ایک دوسرے سے میل جول محبت کی وجوہات کی بناء پر ہوتا ہے۔ اسی طرح مذہب سے بیزار لوگوں میں خودکشی کے زیادہ رجحانات پائے جاتےہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہب انسان کے لیے اطمینان کا وسیلہ میسر کرتا ہے۔
بے ضابطگی کی خودکشی سے مراد ہے کہ معاشرے کے اندر عوامل کی یک دم تبدیلی انسان کو جذباتی طور پر غیر متواز ن کر دیتی ہے یعنی اگر معاشی بدحالی اگر ایک طرف لوگوں کی خودکشیوں کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف معاشی خوش حالی بھی کسی کی جان لے سکتی ہے۔ ایک طرف ایک سٹاک بروکر کے لیے سٹاک مارکیٹ کا کریش ہونا خودکشی کا باعث ہو سکتا ہے تو دوسری طرف کسی کا لاٹری کا انعام نکلنا بھی اس کی جان لے سکتا ہے۔
قسمت کی خودکشی کو ایک طرح سے بے ضابطگی کی خودکشی کے برعکس کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک شخص قاعدے اور قانون کا اتنا زیادہ اسیر ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے زندگی کی ساری رونقیں ختم ہو جاتی ہیں ایسا شخص محسوس کرتا ہے کہ اس کے لیے خودکشی کی نجات کا ایک ذریعہ ہے۔
بے غرض خودکشی کے بارے میں درخیم بتاتا ہے کہ جب ایک خاص گروہ کے اندر سماجی و جذباتی روابط اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اس گروہ میں اشخاص کی ذاتی شخصیت مٹ جائے تو ایسی صورت میں افراد کے لیے اپنی ذاتی زندگی سے زیادہ اجتماعی زندگی اور وقار زیادہ اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک انسان کے لیے کسی بڑے مقصد کے لیے اپنی جان گنوا دینا کوئی معانی نہیں رکھتا۔ اس صورت حال کو بعض لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے جرمنوں میں ایک مضبوط گروہی شناخت پیدا کی جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد نے صرف اپنی گروہی شناخت کو بچانے کے لیے اپنی ذاتی زندگیا ں داؤ پر لگا دیں۔ بے غرض خودکشی کو آج انتہا پسند خودکش حملہ آوروں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے جو کہ اپنی زندگی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک خاص نظریہ کے تحت قربان کر دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یا اس کے معاشرے اور دنیا پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور با اثر لوگ اس کو کس طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اربابِ اقتدار کے ساتھ ساتھ ، ہم جیسے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ خود کو اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں سے کسی کو کسی خاص نظریے کا اس انتہا تک اسیر نہ ہونے دیں کہ وہ دوسروں کی جان کے درپے ہوجائے۔
جہاں پر ایک طرف خودکشی کے ذاتی اور نفسیاتی پہلو ہیں اس کے ساتھ ساتھ خودکشی ایک سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں کے محرک کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ پاکستان جس اہم موڑ پر اس وقت کھڑا ہے اس موقعہ پر اس کے اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو نفسیاتی اور اخلاقی شعور کے ساتھ ساتھ سماجی عوامل کا شعور بھی عطا کریں تا کہ خودکشی کے ان عناصر سے بچاؤ کا مناسب سدباب ہوسکے۔