بلوچ سرداری نظام: تاریخ کے صفحات میں

عبد القہار مومن
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان آج کل بحران سے دوچار ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی اپنی جگہ مگر ’’مسئلہ بلوچستان‘‘ یا علیحدگی پسندانہ رجحانات اور اس کے تحت شورش و بغاوت کی مسلح تحریکوں کے پس پردہ بھی کوئی نیک صفت‘ قانون پسند‘ متقی و صالح شخصیات نہیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ‘ ہم انھیں بلوچوں سے بھی مخلص نہیں سمجھتے۔ صوبہ بلوچستان اور بلوچوں کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ان کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔

۱۸؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو اکبر بگٹی نے پروفیسر عزیز محمد بگٹی کی تصنیف ’’بلوچستان، شخصیات کے آئینے میں‘‘ کے لیے پیش لفظ لکھا تھا۔ اس کے آغاز میں انھوں نے لکھا کہ ’’بلوچوں کی نسلی ابتدا پردہ اخفا میں ہے۔ ہمارے بعض ابھرتے ہوئے تاریخ نویس‘ بلوچوں کے ڈانڈے بابل اور اس کے قرب و جوار سے ملانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کے حسن قیاس اور جذباتیت کے سوا کچھ اور نہیں۔ انھیں ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی مصداق‘ عظیم اسلاف کی باقیات الصالحات ہونے کا غلط احساس تفاخر ہے‘ اسی لیے وہ ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہماری نسبت ایک ایسی قوم سے ہے جس نے تاریخِ انسانی پر عظمت و سطوت کے گہرے نشان چھوڑے ہیں۔ اس مقصد کے پیشِ نظر وہ یہ داستان طرازی کرتے ہیں کہ بلوچ‘ کلدانیوں کی اولاد ہیں‘ وہ انھیں اس بعل دیوتا کے خلاف بھی قرار دیتے ہیں جس کے متعلق روایت ہے کہ تمام آبائی بابل موت کے بعد اسی کے آغوش میں روپوش ہوئے۔ نمرود کی اولاد بھی بتاتے ہیں حالانکہ اس کی تو کوئی اولاد نہ تھی۔ بلوچوں کی روایتی دستاویزی تاریخ ان کے سردار میر جلال ہان (بارہویں صدی عیسوی) سے شروع ہوتی ہے یہ اور اس کے چوالیس بولک کہرمان‘ سیستان‘ بندر عباس اور بمپور کے درمیانی علاقے میں جا بسے‘‘۔

اکبر بگٹی‘ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر بھی رہے ہیں اور وفاقی حکومت میں وزیرِ مملکت برائے دفاع بھی۔ ان عہدوں پر رہتے ہوئے ان کی کیا ’’کارکردگی‘‘ رہی‘ اسی سے ان کی حکومتی صلاحیتوں کو جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ وہ بگٹی قبیلے کے سردار بھی رہے اور بگٹی قبیلے بشمول ذیلی قبائل کے لیے انھوں نے کیا کارنامے انجام دیے‘ اس کا جائزہ لینا بھی ناممکن کام نہیں ہے۔ سیاستدان کے طور پر بھی ان کی شخصیت ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ نیپ سے جمہوری وطن پارٹی تک ان کی سیاست بھی آشکار رہی۔ کیسے اتحادی اور دوست تھے‘ اس کا ایک گواہ غوث بخش بزنجو اس دنیا میں نہیں۔ عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری کی بچی کھچی دویاری سے اس ’’چویاری‘‘ کے بارے میں آج بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔

عزیز محمد بگٹی کی کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے اپنا نام ’’اکبر بگٹی‘‘ ہی لکھا ہے‘ خان وہ تھے یا نہیں ہمیں نہیں معلوم‘ بگٹی قبیلے کے سردار وہ ضرور تھے۔ البتہ نواب کا ٹائٹل جن بلوچ سرداروں یا اہم شخصیات کو حاصل ہوا‘ ان میں سردار امام بخش مزاری اور سردار جمال خان لغاری کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان دونوں کو یہ خطاب انگریز حکومت کی کامیاب مداخلت کاری میں سب سے زیادہ خدمات کے عوض دیا گیا تھا۔ ان دونوں کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہی تھا۔

بلوچ سرداروں کی تاریخ میں کچھ سرداروں کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ انھیں غیرمنقسم ہند پر مسلط برطانوی سرکار کی جانب سے تین سو سے چار سو روپے ماہوار وظیفہ دیا گیا۔ برطانوی استعمار نے جب افغانستان پر دوسری جنگ مسلط کی تھی تو ساراوان‘ ساہوانی‘ بنگل زئی‘ شکی‘ کرد اور لٹری قبائل کے سرداروں نے انگریز سرکار کی خوب مدد کی تھی۔ افغانستان میں معاہدہ گندمک کے تحت پشین‘ لورالائی‘ دکی اور تھل چوٹیالی کے افغان علاقے امیر یعقوب والی کابل سے انگریزوں نے حاصل کر لیے۔

اس سے قبل برطانوی سامراج نے پہلے مرحلے میں یکم جنوری ۱۸۷۶ء کو سارے نامی گرامی بلوچ قبائلی سرداروں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر کے بلوچستان کے حاکم ’’خان آف قلات‘‘ کے خلاف استعمال کیا تھا۔ اس حاکم کا نام تھا خان خداداد خان۔ قابض برطانوی سامراج کی پالیسی کی داد دینی پڑتی ہے کہ بلوچ علاقے کے حاکم کے ہاں اس کے اپنے بلوچ سردار اس کے خلاف انگریز حکومت کو ثالث کے طور پر تسلیم کر رہے تھے۔ اس کے عوض قبائلی سردار علیحدہ انتظامی اکائیاں بن گئے اور اسی سازش کی تیاری کی گئی کہ خان آف قلات سے ۵۵۰۰۰ روپے سالانہ کے عوض حکومت برطانیہ نے نیابت شال (کوئٹہ) اور درہ بولان کا علاقہ مستقل اجارے پر حاصل کر لیا اور بلوچستان ایجنسی قائم کی۔ دوسرے مرحلے میں افغانستان سے ہتھیائے گئے علاقے اور مذکورہ علاقوں کو ساتھ ملا کر ۱۸۸۷ء میں برٹش بلوچستان کے نام سے الگ بلوچستان قائم کیا‘ اس کا مرکز کوئٹہ تھا۔ جبکہ دوسرے بلوچستان کا مرکز قلات تھا لیکن دونوں کی اصل حاکمیت ’’سررابرٹ سنڈیمن‘‘ کے پاس تھی۔ سنڈیمن محض ایک حاکم ہی نہ تھا‘ اس نے بلوچستان کے سماجی اور انتظامی معاملات میں اس قسم کی تبدیلیاں کیں جن کے اثرات بلوچستان میں آج تک قائم ہیں۔

ڈیرہ غازی خان میں اپنی تعیناتی کے وقت سے اس نے بلوچ قبائل کے سرداروں کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کیے۔ ان کی پشت پناہی کی۔ ان کی حمایت و اعانت کی۔ ان کی مالی امداد کی۔ لیوی کے نام سے ایک فورس قائم کر کے اس میں سردار کے توسط سے اس کے آدمیوں کو بھرتی کرایا جو کہ بوقتِ ضرورت سردار کے لیے پولیس فورس کا کام دیتے تھے۔ اس پالیسی کے باعث سردار اپنے قبیلے کی روایتی نمائندگی کرنے والی شخصیت کی بجائے اپنے قبیلے کا حاکم بن بیٹھا اور وہ اس حاکمیت کے لیے بتدریج انگریز حکومت کا دست نگر بن کر رہ گیا۔ نیز بلوچستان کے سردار عملاً خان قلات کے دائرۂ اختیار سے نکل کر انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت آگئے۔ رائے بہادر ہتورام اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ میں صفحہ نمبر۶۳۶ پر اس تبدیلی کو یوں بیان کرتے ہیں۔

’’سردار سراوان وجھالاوان کی چونکہ مدت دراز تک خان صاحب والی قلات سے جنگ و جدل و دشمنی جاری رہی‘ اس لیے یہ لوگ خان قلات کے مخالف فریق بن چکے تھے۔ اس لیے ان کی خان صاحب کے دربار میں آنے جانے کی عادت بھی ترک ہو گئی تھی نہ خان ان کو دربار میں دیکھ کر خوش ہوتا نہ یہ لوگ خوش ہو کر خان کے دربار میں جاتے تھے۔ اس واسطے فریقین نے بروقت صلح نامہ مستونگ یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ان کا تعلق صرف برٹش افسر سے ہی رہے گا‘‘۔

اس طرح سر رابرٹ سنڈیمن نے ایک ایسے نظام کا اہتمام کیا جس کے تحت سردارانِ بلوچستان کے تمام تر روابط اور تعلقات انگریز افسران کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور انگریز افسران نے سرداروں کی ہرممکن سرپرستی کی۔ ہتورام کے مطابق ’’نوجوان کپتان (سنڈیمن) نے اول ہی اول اس جگہ قدرتی دانائی سے لیوی میں ملازمت کا سلسلہ قائم کیا‘ جو ان کے بعد ازاں بڑے نمایاں فائدوں کا باعث ہوا۔ قوم کے سرکردگان میں روپیہ تقسیم کیا گیا تاکہ وہ اپنے اپنے لوگوں پر زیادہ قادر ہو جائیں اور بے ضبط اور سرکش انسانوں کو اچھی طرح اپنے ضابطہ میں رکھ سکیں اور روپیہ بطور تنخواہ پا کر سرحد پر امن قائم رکھیں اور اس کو اپنا فرض سمجھیں۔

سنڈیمن کی مذکورہ بالا پالیسیوں کی بدولت واقعی سردار اپنے اپنے قبائل پر اس قدر حاوی اور قادر ہو گئے کہ وہ آج تک اپنے غلبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح سررابرٹ سنڈیمن اس لحاظ سے بلوچستان کی تاریخ کی ایک اہم ترین شخصیت ہے کہ اس نے بلوچستان سیاسی اور سماجی زندگی میں اتنی دور رس تبدیلیاں کیں جن کے اثرات نہ صرف آج تک قائم ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

پہلے اس نے بلوچستان میں قبائلی ڈھانچے کی جو شکل قائم کی وہ تقریباً اسی شکل میں آج تک جاری ہے۔ اس کے دیسی جانشینوں کی سرپرستی نے اس کی صورت مزید بگاڑ دی ہے۔ اس نے نہ صرف قبائل کو الگ انتظامی اکائیوں کی شکل بخشی بلکہ اس کے سردار کو جو روایتاً اپنے قبیلے ہی کا ایک حصہ تھا اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کی نمائندگی کرتا تھا‘ مراعات و مفادات کے ذریعہ اسے قومی دھارے سے کاٹ کر بڑی حد تک انگریزی حکومت کا ایک کل پرزہ بنا ڈالا اور وہ خارجی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کا ایک آلہ کار بن کر رہ گیا۔ انگریزی دورِ حکومت تک وہ پولیٹیکل ایجنٹ کی خوشنودی کے لیے کوشاں رہتا تھا اور اسے چند حدود کے اندر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اس نے بتدریج وہ حدود ختم کر ڈالیں اور سیاسی کوچے کے ذریعے حکومت کے ایوانوں میں داخل ہو کر قبیلے کی بجائے اب پورے بلوچستان کے وسائل کا مالک بن بیٹھا۔

کامریڈ پیکولین نے بلوچوں پر تحقیق کر کے ’’بلوچ‘‘ نامی مشہور کتاب تالیف کی تو اس کے مقدمے میں لکھا کہ ’’چونکہ انیسویں صدی میں انگریز قابضین کا موضوع بنیادی طور پر بلوچستان پر قبضہ تھا‘ لہٰذا انگریز مصنفین کی طرف سے بلوچستان کا مطالعہ اور اس پر تحقیق ایک خاص مقصد سے کی جاتی تھی۔ ان کی بنیادی دلچسپی علاقوں کی انتظامی ٹویو گرافی اور سیاسی جغرافیائی مواد پر تحقیق تھی۔ یہ تصانیف اصل مسائل کی علمی تحقیق کے لیے نہیں بلکہ یہ تحریریں واضح طور پر غرض سے بھری ہوئی تھیں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہندوستان میں انگریزوں کی استعماری سیاست کو بے قصور اور عالمی افکارِ عامہ کے نقطۂ نظر سے حق بجانب ثابت کریں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بلوچوں کی تاریخ‘ قبیلوں کی تشکیل اور زمین اور پانی کے رشتوں کے بارے میں مفصل طور پر لکھا۔

پیکولین نے اپنی کتاب کا مقدمہ بھی ۷۴ حوالہ جات کے ساتھ لکھا اور ان ۷۴ حوالوں میں کارل مارکس کی تصانیف سے لے کر المسعودی اور ابواسحاق الفارسی سے لے کر ابو القاسم ابن ھوکل تک کئی اہم شخصیات و موضوعات پر لکھی گئی تحریریں شامل ہیں۔ اس کے دوسرے باب میں بلوچستان پر حکمرانی کے مختلف ادوار کا تذکرہ ہے۔ ہمارا مقصد کم سے کم الفاظ میں بلوچ قبائل‘ سرداروں‘ حکمرانوں اور مختلف ادوار میں اس کی حدود سے متعلق حقائق بیان کرنا ہیں۔ تفصیل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ بنو امیہ کے دور سے پاکستان کے قیام تک بلوچستان کبھی بھی ایک متحد علاقہ نہیں رہا ہے۔ یہاں جاگیردار حکمرانی کے لیے لڑتے رہے اور عوام کی اکثریت خانہ بدوش رہی۔ بلوچوں کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ عرب ہیں‘ ایک رائے کے مطابق آریہ راجپوت ہیں اور ایک رائے کے مطابق یہ شامی النسل ہیں۔

بلوچستان کے علاقے لسبیلہ پر عالیانی جام خاندان حکمران رہا ہے۔ خاران میں نوشیروانی اور ڈھاڈر میں ’’ملک جوان‘‘ حکومت کیا کرتے تھے۔ مکران کے اقتدار پر بلیدی اور گچکی جھگڑتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گچکی ہندی راجپوت تھے۔ کچھی (کچ گندھاوا) ۱۷۳۹ء تک پہلے مغلوں نے پھر نادر شاہ اور آخر میں افغانستان کے حکمران احمد شاہ درانی کے قبضے میں رہا۔ یہ لوگ یہاں اپنے نائب مقرر کیا کرتے تھے۔ ژوب میں امیرِ قابل کے زیرِ اثر کاکڑ سردار کی حکومت تھی۔ قلات میں سترہویں صدی کے وسط تک طاقتور مغل نائب حکومت کیا کرتے تھے۔ ۱۶۶۶ء میں میرواڑی قبیلے کے جاگیرداروں نے ان حکمرانوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ یہی خان آف قلات کہلایا اور آج تک یہ خطاب چلا آرہا ہے۔ دھوکہ مت کھائیے گا! خان آف قلات اور احمد زئی قبیلہ پشتو نہیں بلکہ بلوچ ہے۔

بلوچستان کے گزٹ کے صفحہ ۱۵ پر درج حقائق سے آپ اور ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ کس طرح خان آف قلات نے سیوستان‘ ژوب اور لورالائی اور وادیٔ سندھ میں لوٹ مار کی۔ سندھ کے کلہوڑا حکمران خان آف قلات میر احمد کے بیٹے میر سمندر کو ۴۰۰۰۰ روپے سالانہ خراج دینے کے پابند تھے۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں خان آف قلات نے اپنی ریاست کی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ خان آف قلات نصیر خان نے کراچی کی بندرگاہ کو بھی کلہوڑا حکمرانوں سے چھین لیا تھا جو بعد میں سندھ کے سندھی بلوچ حکمران میر غلام علی ٹالپور کے دور میں دوبارہ سندھ حکومت کے قبضے میں واپس آگئی۔

خان آف قلات کو ’’بیگلر بیگی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ پیکولین کے مطابق یہ خطاب افغان حکمران احمد شاہ کی جانب سے ملا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ترک خلافتِ عثمانیہ کے خلیفہ کی جانب سے یہ خطاب ملا جس کے معنی خانوں کے خان یا بیگوں کے بیگ ہیں۔ خان آف قلات نصیر خان اول نے جاگیرداروں پر اقتدار برقرار رکھتے ہوئے اور قبیلوں کو اطاعت پر مجبور رکھنے کے لیے جو ۸۰۰ گھڑ سوار رکھے وہ پشتون یعنی پٹھان تھے۔

زہری اور مینگل قبائل جھالا وان قبیلے کی ذیلی شاخیں ہیں اور خان آف قلات کی حکمرانی میں جھالاوان اور ساروان کے سرداروں کی حیثیت مشیروں کی تھی۔ اس دور میں وزرا بااثر جاگیرداروں اور فوجی کمانڈر پشتونوں میں سے مقرر کیے جاتے جبکہ نچلے درجے کے افسر اکثر تاجک ہوتے تھے۔ بگٹی اور مری کبھی آزاد قبائل تھے اور ان کے سردار کسانوں پر راج چلاتے اور مالیہ وصول کرتے تھے۔ بلوچ قبائل کے باہمی اتفاق اور جھگڑوں نے ہی انگریزوں کے تسلط کی راہ ہموار کی تھی۔

تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو بلوچستان اور قبائلی سردار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام سے قبل اتنے آزاد و خودمختار کبھی نہیں رہے اور نہ ہی بلوچستان نامی کوئی ریاست تھی۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باعث پاکستان کے تمام صوبوں کے عوام نے مصائب و مشکلات سہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے عوام کو دوہرے عذاب سے اس لیے گزرنا پڑا کہ قبائلی سرداروں کے ذریعہ ہی حکومت ان سے رابطہ کرتی تھی یا خود ان کے معاملات انھیں سرداروں کے ذریعے حکومت تک پہنچتے تھے۔ پاکستانی وفاقی پارلیمانی نظام رکھتا ہے جس کے چار صوبے اس کی اکائیاں ہیں‘ چاروں صوبوں کی اپنی اپنی صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ سینٹ یا ایوانِ بالا میں چاروں صوبوں کے لیے برابر نمائندگی رکھی گئی ہے یعنی ۲۲ اراکین۔ قومی اسمبلی میں صوبوں کے لیے جو نشستیں رکھی گئی ہیں‘ وہ آبادی کے لحاظ سے ہیں۔ کیا دنیا بھر میں اس کے علاوہ کوئی سیاسی نظام کام کر رہا ہے؟ کیا امریکا میں ایوانِ نمائندگان اور سینٹ میں یہی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا؟ کیا ہندوستان میں ایسا نہیں ہے؟ کیا یورپی ممالک میں سے اکثر ایسا نظام نہیں رکھتے؟

(یہ مضمون پہلے ’’منتظرِ سحر‘‘ (2006)کراچی میں بھی شائع ہو چکا ہے)