کربلا کا زخم خوردہ استعارہ

کربلا کا زخم خوردہ استعارہ

کربلا کا زخم خوردہ استعارہ

از، سید نجم سبطین حسنی

کربلائی حوالہ کی شاعری کا موضوع سامنے آئے تو میر ببر علی انیس کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔ اردو اکادمی آف آسٹریلیا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے مطالعاتی سطح پر زبان، شخصیات اور تہذیب کی علمی و تحقیقی خدمت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ایک مکمل شام مرثیہ اور خدائے سخن حضرت میر انیس جیسی شخصیت کے نام کر تے ہوے ان جیسے محسنِ فکرو ادب کے تذکرہ کی ترویج کو اہلِ ادب کی ذمہ داریوں میں شمار کر کے ایک صحتمند رویہ کی بنیادرکھ دی گئی۔

شاعری اور کربلا
ہر زبان کے ادب نے کربلا کے موضوع سے فکری روشنی حاصل کی ہے۔ کربلا محض ایک حدیثِ غم ہی نہیں بلکہ اسرارِ حیات و کائنات کی معرفت سے بھر پور ایک بے مثال اخلاقی و تربیتی مخزن بھی ہے۔ یوں تو اردو ادب کی تمام تخلیقی اصناف کربلا کے ادراک سے لبریز نظر آتی ہیں لیکن اردو شاعری کی تاریخ اس موضوع کے بغیر اپنی شناخت ہی مکمل نہیں کر پاتی۔ اردو شعر و ادب کربلا سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ مضمونِ کربلا نے اردو شاعری کو کئی گرانقدر اصناف سے آراستہ بھی کیا ہے۔ تاریخِ ادب کے جائزہ سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ سلام، مرثیہ ، نوحہ اور منقبت جیسی اصناف کی تجسیم و تخلیق کربلا کے بغیر نا ممکن تھی۔

تاریخی پس منظر
اردو کئی زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والی ایک لشکری زبان ہے لیکن اس کے علمی ماخذات پر نگاہ کی جائے تو عربی اور فارسی ادب کے رحجانات اس کی پرورش میں زیادہ غالب اور فعّال نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے اردو ادب میں بھی مضامینِ کربلا کی فکری میراث فارس و عرب ہی کے واسطوں سے داخل ہوئی۔ لیکن یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اردو شاعری نے اس موضوع کو اپنے رگ و پے میں کچھ اس نفاست اور انفرادیت سے جگہ دی کہ بسا اوقات کربلا کا عنوان اردو شاعری کا بالکل ذاتی اور فطری موضوع محسوس ہونے لگتا ہے۔کم از کم ۱۵۰۰ عیسوی ہی سے اگر اردو کی تاریخ کا دکن میں قطب شاہی و عادل شاہی ادوارِ سلطنت سے مطالعہ کیا جائے تو اردو کی نثری تالیفات اور شعری تخلیقات کی مقبولیت اور حوصلہ افزائی کا ایک مؤثر ترین افق مجلسِ حسین کو سمجھا جاتا رہا۔ دکن میں علم اور ادب کے ذخائر نے اردو زبان کو بہت محبت سے گلے لگایا۔ اسی لیے قدیم روز مرّہ میں اردو کو دکّنی کے نام سے بھی پہچانا جاتا رہا۔

دکن ، لکھنؤ اور دلّی کے دبستان
دکن میں ملک الشعراء نصرتی، کمال خان رستمی،فرمانروائے گولکنڈہ حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ، ملّاوجہی، غوّاصی اورولی دکنی سے لے کر دبستانِ دلّی و لکھنؤ میں اردو کی پرورش اور ارتقاء حسنین میرزا رفیع سودا،میر تقی میر، ناسخ، ہمدانی مصحفی ، مومن خان مومن ،امیر مینائی ،خواجہ حیدر علی آتش، میر حسن، میر انیس، میرزا دبیر، جھنّو لال دلگیر،اسد اللہ خان غالب، استاد ذوق ،بہادر شاہ ظفر، یاس یگانہ چنگیزی اور حسرت موہانی تک اردو شاعری کی تاریخ بنانے والے ان اربابِ ادب کے نام تسبیحِ سخن کے وہ دانے ہیں کہ جن کے بغیر سلکِ اردو کا ورود و وجود ہی مکمل نہیں ہو پاتا۔اِن میں سے ہر ایک عظیم شاعر کے فکر ی رحجانات میں کربلا کے رثائی اور معنوی اثرات توانائی کے ساتھ گونجتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اقبال اور عہدِ نو کے شعراء

کلاسیکی عہد کے بعد شاعرِ مَشرق علامہ اقبال کی فکری و شعری دنیا میں بھی کربلا کے شعوری سفر کو جنابِ ابراہیم تا جنابِ حسین جس لا محدود تناظر کے ساتھ سمجھایا گیا اس سے اردو ادب میں کربلا شناسی کا فلسفہ ایک منفرد نظریاتی تحریک کی صورت میں متعارف ہوا۔ اقبال کے بعد آج تک کے شعرائے اردو میں بھی کوئی ایسا نام نہیں جس کا قلم کربلا کے اثرات سے محروم رہا ہو۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، عبدالحمید عدم، احسان دانش ، ناصر کاظمی، استاد قمر جلالوی، سرکارِعلامہ رشید ترابی،عابد علی عابد ، سید ضمیر جعفری، جون ایلیا، رئیس امروہوی،شکیب جلالی،احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، احمد فراز، منیر نیازی ، شیر افضل جعفری، کیفی اعظمی، مصطفیٰ زیدی ، کیپٹن جعفر طاہر، مشیر کاظمی،علامہ سید شاد گیلانی، بیدل پانی پتی، علامہ طالب جوہری، سیف زلفی،وحید الحسن ہاشمی، ڈاکٹر مسعود رضا خاکی ،قیصر بارہوی،افسر عباس افسر ،سجاد باقر رضوی، عدیم ہاشمی ،مہندر سنگھ بیدی ،بیدل حیدری ، سید محسن نقوی ، محسن احسان، پروین شاکر،فارغ بخاری، ڈاکٹر عاشور کاظمی، مشکور حسین یاد،افتخار عارف ، ریحان اعظمی، حسن رضوی، امجد اسلام امجد،عباس تابش ، زاہد فخری،سید صفدر ہمدانی ، ڈاکٹر خورشید رضوی ،سبط جعفرزیدی ، شاہد نقوی، ریحان سرور، اختر چنیوٹی، زکی سرور کوٹی،صاحبزادہ رفعت سلطان،پیرنصیر الدین نصیر،ظفر سعید ظفر، سید ندیم عباس شاد، قائم نقوی،سید عقیل محسن نقوی، شوکت رضا شوکت، سیدعرفی ہاشمی، ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی،رمیض حیدری اور ان کے علاوہ عہد حاضر کے بہت سے دیگر نامور اور گمنام تخلیق کار ایسے ہیں کہ ان میں سے چند ایک کا قلم تو مرثیہ و سلام نویسی کے لیے ہی مختص رہا جبکہ باقی سخنورغزل و نظم کے ساتھ ساتھ ایک موزوں تناسب کے ساتھ نعت، مرثیہ اور سلام کو بھی لکھتے رہنے کی ادبی روایت کے حامل نظر آتے ہیں۔


متعلقہ: اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت  از، پروفیسر شارب ردولوی


بھارت ،امریکہ، کینیڈا،انگلینڈ ،یورپ اور عرب ریاستوں میں رہنے والے کئی گرانقدر ادبی قامت کے شعرائے اہل البیت کی فہرست اس مضمون میں شامل نہیں ہے لیکن آسٹریلیا میں مقیم کئی شعرا ئے اردو مثلاََ ڈاکٹر سید شبیر حیدر اور صباصادق بولانی، غزل نوشی گیلانی اور سعید خان کے ساتھ ساتھ سلام و نعت کہنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔

شاعری میں لغاتِ کربلا
عہد قدیم سے لے کر اب تک کے شعراء میں اگر مرثیہ کی مخصوص صنف سے ہٹ کر نگاہ کی جائے تو اردو زبان کی غزل کو بھی ہر عہد کے شعراء کربلا کی تشبیہات اور استعارات سے مزیّن کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اِس میدان میں مسلمان شعرا کے علاوہ اردو زبان کے بعض غیر مسلم شعراء کی تخلیقات بھی کربلائی استعارات اور افکار سے لبریز رہی ہیں اور یہ بات کربلا سے اردو کے لا زوال رشتے کی گواہی کو اور زیادہ مضبوط کر دیتی ہے۔ شاعری میں کربلا کے موضوع کی شعوری ترکیب مرثیہ ، سلام ، نوحہ او ر رباعی میں ظہور کرتی ہے جبکہ اس موضوع کی غیر شعوری ترکیب کا حوالہ اردو غزل و نظم میں موجزن نظر آتا ہے۔ اردو غزل کی لغات میں پیاس، وفا ،دشتِ بلا، شام غریباں، مقتل، نوکِ نیزہ، گریہء خون ، خیمہ ،قفس، درد ، خیر و شر، تشہیر، کوچہء عشق، فرات، دھوپ، سجدہ، جراحت،ماتم، سفر، یتیمی ، تشنہ دہانی ،غربتِ جاں ، چراغِ خیمہ ، آخری وداع، رسن بستگی،صبر، بیکسی، خنجرِ قاتل، شہیدِ وفا،مسافرت، حُر، گردِ سفر،تیغِ ستم، چہرے پہ خون ملنا،بندشِ آب،سر بُریدگی، بازو قلم ہونا، مشکیزہ، دریا، پامالی، بازارِکوفہ ، خاکِ مزار یا خاکِ شفا ، وقتِ عصر، چادرِ سر،عزا، مجلس اور اس جیسے کئی دیگر استعارات و اشارات کا معدن کربلا کے سوا کچھ اور قرار نہیں دیا جا سکتا۔

صنفِ مرثیہ کا تشخص
جدید تنقیدی بصیرت کی رُو سے مرثیہ گوئی کو فن شاعری کا سب سے حساس اور کٹھن عمل قرار دیا گیا ہے۔ باریک بین افراد جانتے ہیں کہ کئی اصنافِ سخن پر فنی گرفت رکھے بغیر ایک فکر انگیز اور جاندار مرثیہ نہیں کہا جا سکتا۔ شعر پر فنی گرفت کے ہمراہ جتنی فصاحتِ کلام، بلاغت ، حسّاسیت اور علمی وفکری مواد پر دسترس کی ایک کامیاب مرثیہ نگارکو ضرورت ہوتی ہے اتنی سعی ٔ نقد کسی اور صنفِ سخن میں مطلوب نہیں ہوتی۔
مرثیہ کے اجزاء
بنیادی طور پر ایک روایتی مرثیہ اپنی ترکیب میں مندرجہ ذیل اجزاء کا حامل ہوتاہے۔ تاہم جدید مرثیہ میں قدرے مختلف ترکیبی تجربات بھی سامنے لائے گئے ہیں۔
۱۔ تمہید ۲۔چہرہ ۳۔سراپا ۴۔ رخصت ۵۔ آمد ۶۔ رَجَز ۷۔ جنگ ۸۔ شہادت ۹۔ دعا

ہیئت ِمرثیہ
مرثیہ کی صنف کوشعری ہئیت کے لحاظ سے قطعات، مسدّس اور مخمّس کی صورت میں لکھنے کا رواج دبستانِ لکھنؤ کے مشاہیر نے قاِئم کیا تھا۔ سن ۱۲۴۹ ہجری میں میر انیس کی ولادت[ یعنی ۱۲۶۴ ھجری] سے پہلے اُن کے والد کے ایک ہم عصر شاعر میر ضمیر کے ایک مسدس میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ مرثیہ کو مروّجہ ہیئت میں لکھنے کی طرح انہوں نے ڈالی۔
دکن میں مرثیہ کی عمومی صورت نوحہ اور مثنوی سے مماثل تھی۔ بعد ازاں ہر دبستان میں مرثیہ برنگِ سلام کہنے کی تحریک بھی نظر آنے لگی۔ قدیم سلام کے بر عکس جدید سلام میں واقعہ نگاری کی جگہ نتائج اور احساساتِ لطیف کو جگہ دی جاتی ہے۔اسی لیے موجودہ عہد میں سلام نے غزل سے ترکیبی مماثلت کی بنا پر زیادہ کشش کے ساتھ مقبولیت حاصل کی ہے۔

میر انیس کا تعارف
میر انیس کا نام ببر علی اور انیس تخلص تھا۔ان کے والد میر مستحسن خلیق اور دادا معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن تھے۔انیس کی ولادت سن ۱۸۰۱ء میں فیض آباد میں ہوِئی اور وفات سن ۱۸۷۴ء میں لکھنو میں ہوئی۔ عربی ، فارسی ، قرآن و حدیث و تاریخ کے علاوہ فنونِ شہسواری و سپہ گری کی تعلیم بھی لکھنؤ کے نامی اور لائق اساتذہ سے پائی۔ فارسی نظم و نثر لکھنے پر بھی قادر تھے۔ لڑکپن ہی سے شعر کہنے لگے۔ شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کی فرمائش پر تبدیل کر کے انیس اختیار کیا۔اس خاندان میں شاعری کَئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہجہان کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکّن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولادفصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے” خدائے سخن ”کے نام سے پکارتے رہیں۔

انیس غزل سے مرثیہ تک
میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ” والد کی فرمانبرداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا [ مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ]میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔

چند شعر دیکھئے
شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کئے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
انیس یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
یہ اشعار بھی دیکھیے۔۔۔۔
نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یارو
کھولو تعویذِ شفا جلد مِرے بازو سے
………
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

لکھنوی ماحول اور انیس
مرثیہ کی میراث انیس کو اجداد سے منتقل ہوئی تھی مگر ان کی طبعِ رواں ذاتی لیاقت کربلا سے ایمانی وابستگی اور شاہانِ اودھ کے عہد حکومت میں لکھنو کے اندرعزاداری کے لیے مثالی ماحول کی دستیابی نے انیس کو مرثیہ نویسی اور مرثیہ خوانی کے فن میں طاقِ روزگار بنا دیا اور کچھ ہی عرصہ میں انیس نے سلاستِ زبان ، ادائیگی اور حسنِ بیان میں اپنے عہد کے راسخ البیان مرثیہ گو استادجناب میرزا سلامت علی دبیر اور دیگر اساتذہ ٔفن کو بھی مقبولیت میں قدرے پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جاگتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ نمازِ صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کرتے تھے۔ بعدِ دوپہربیٹوں اور شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ محفلِ احباب میں عقائد اور علوم وعرفانیات پر گفتگو کرتے تھے۔

مراثیٔ انیس کی تعداد
میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے مرثیوں کی تعدا د بارہ سوکے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔”مجلّہ نقوش انیس نمبر” میں بہ تحقیقِ عمیق میر انیس کے ۲۶ نایاب اور غیر مطبوعہ مراثی طبع کئے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کے کئی مرثیے ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں مختلف بیا ضوں کے اندر موجود ہیں۔ میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق چھ سو کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے اواخر میں میر انیس نے ایک سو ستاون بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ ” جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے” ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔ انیس نے حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کے بے نُقط خُطبہ کی تآسی میں کچھ ایسے مرثیے بھی لکھے جو بے نُقط تھے۔میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلٰی پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔

میر انیس کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

جنابِ انیس کے رقم کردہ مرثیے اب تک کروڑوں آنکھوں، زبانوں اور سماعتوں کو اپنے ملکوتی خصائل کا گواہ بنا چکے ہیں ۔ انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات و روایات ، تاریخ، تخیئل، ماحول، سراپا، رَجَز، مبارزت طلبی،مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات ، اعداد و شمار،منطق و فلسفہ ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفا ہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ انیس نے دبیر کے مقابلہ میں سلیس زبان استعمال کی۔ اس کے باوجود اردو ادب کے محققین کے مطابق طولِ تاریخ میں تراکیب و فرہنگ کا سب سے عظیم ذخیرۂ الفاظ میر انیس کے کلام میں ملتا ہے۔ عروض و قوافی ، صرف و نحو،تراکیب، صنائع و بدائع ،محاکات، محاورات اور بندشیں ان کے یہاں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ مرثیہ بیانیہ شاعری کا نام ہے۔ انیس نے اس میں ایک ناظر کی حیثیت سے خارجی اندازِ ملاحظہ اور مرثیہ کے کرداروں کی اپنی داخلی کیفیات کو بیک وقت یک جا کر کے واقعہ نگاری کو معجزاتی انداز تک متحرّک اور بے نظیر بنا دیا ہے۔میر انیس کا اجتماعی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک سماجی رسم کے درجہ سے اٹھا کے نفیس ترین ادبی صنف اور مرثیہ گوئی کو فنِّ لطیف میں بدل دیا ہے۔
میر انیس ایک اعلیٰ سخنور ہونے کے علاوہ نہایت خوش آواز بھی تھے۔ نقوش کے میر انیس نمبر میں روایت نقل ہے کہ لکھنؤ کے ایک بزرگ سید محمد جعفر مرثیہ خوان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے بچپن میں میر انیس کو بار ہا مرثیہ خوانی کرتے ہوئے سنا ہے۔ انیس کی آواز میں جو دلکشی تھی وہ کسی انسان کا تو کیا ذکر ،کسی خوش الحان پرند اور باجے کی آواز میں بھی نہیں ہے۔ جب کبھی وہ بے تکلّف احباب کی صحبت میں بند کمرے کے اندر اپنے دادا میر حسن کی مثنوی پڑھتے تھے تو راہ گیر کھڑے ہو کے دیر دیر تک سنا کرتے تھے۔”
منبر پہ مرثیہ تحت اللفظ پڑھنے میں بھی میر انیس کی مثل کوئی دوسرا نہ بن سکا۔ انیس پر لکھی گِئی کتب میں اس شانِ ادائیگی کا تذکرہ کئی راویوں کی زبان سے نقل ہوا ہے۔کتاب ”واقعاتِ انیس” میں علی مرزا پٹنے کا بیان ہے کہ وہ انیس کے متواتر سننے والوں میں سے تھے اور انیس بہ کمالِ توجّہ منبر سے انہیں مخاطب بھی کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
”جب وہ مرثئے کا کوئی مقام رقّت انگیز پڑھتے تھے تو جوشِ رقت میں خود بھی بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ضبطِ گریہ کی غرض سے نیچے کے ہونٹ کو دانتوں سے دبا لیتے تھے جس سے داہنی جانب کا رخسار متحرّک ہو جاتا تھا”۔
مولانا محمد حسین آزاد نے انیس کو لکھنو میں خود دیکھا تھا۔آبِ حیات میں انہوں نے انیس کے لیے لکھا ہے:
”کمال اور کلام کی کیا کیفیت بیان کروں۔ محویت کا عالم تھا وہ شخص منبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا اور معلوم یہ ہوتا تھا کہ جادو کر رہا ہے۔ انیس کی آواز ، اُن کا قد و قامت اُن کی شکل وصورت کا انداز غرض ہر شئے مرثیہ خوانی کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔”
مولوی عبد الحلیم شرر ”گزشتہء لکھنو” میں لکھتے ہیں کہ:
”میر انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔ یو نانیوں کے بعض مقرّروں کی نسبت سنا جاتا ہے کہ وہ آواز کے نشیب و فراز