کربلا

Naseer Ahmed
نصیر احمد

کربلا

از، نصیر احمد

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور بھی نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

ظالم گویا ہوا۔ وہ تلواریں بڑے بڑے سَر کَشوں اور ظالموں کا سر توڑ دیتی ہیں جو ہم پہ بہت گراں ہیں۔ ظالم اپنے لشکر کی بے رحمی پر ناز کشا تھا کہ اس نے باغیوں سے سر کشی کا انتقام لے لیا۔ اس کے کاسہ لیسوں نے خوشامدانہ تائید سے ظلم کو خراج تحسین پیش کیا۔

مگر سیرتِ بتول کی امین خاتون بے خوفی سے نشان دہی کی کہ راستی و سلامتی، ایمان و ایقان کی راہ دشوار تو ظالم اور اس کے حواریوں دولت و حشمت کی تن آسانیوں کے لالچ میں ظالم اور اس کے حواریوں نے ترک کی۔ وہ اپنی بد بختی و بد نصیبی پر شادماں تھے، جیسے کوئی سیلاب تھامنے والا بند فصلوں کی سیرابی کی امید پر توڑ دے۔ جیسے کوئی سخت گیر جاہل اپنا گھر جلا کر آگ کے حصول کا دعویٰ کرے۔ جنھیں وہ سر کش و گمراہ کہہ رہا تھا، علم کے شہر، علم کے دروازے اور یقین کے راستے تو وہ خود ہیں۔ مگر اہلِ علم و حلم کے بلند مقامات جہالت اور بے لگام طاقت کی پستیوں کے مکین کے فہم و شعور سے بالا تھے۔ جو دوسروں کے لیے نشانِ منزل، زادِ راہ اور سفر کا حوصلہ ہیں وہ کیسے راہ کھو سکتے ہیں۔

ظالم سمجھے بیٹھا تھا کہ کنبہ لٹ جانے، دنیا اجڑ جانے سے حوصلہ ٹوٹ گیا ہو گا اور اہلِ بیت اللہ کی رسی چھوڑ بیٹھے ہوں گے۔ آہوں، کراہوں اور سسکیوں نے عظمت کردار اور جراتِ گفتار کا سبق فراموش کرا دیا ہو گا۔ غم نے اس قدر نڈھال کر دیا ہو گا کہ بچے کچھے رشتہ داروں کی سلامتی کے عِوض قہر و جبر کی چنگھاڑوں سے کےجواب میں خاموشی کو ترجیح دیں گے۔ چاند سے حسین چہرے غم و الم کی سیاہ گھٹاؤں کی تاب نہ لا کر تقسیم نور و آگہی کے اعلیٰ مقصد سے دست بردار ہو گئے ہوں گے۔

وہ اس خام خیالی میں مبتلا تھا کہ رخ حسین پہ چھڑی رگڑ کر اس نے نبی کے بوسوں کے عکس دھندلا دیے ہوں گے۔ برہنہ سر بازاروں میں تماشا بن جانے کے بعد دو بارہ چار دیواری کے محفوظ حصار کی شدید آرزو نے ظلم و جبر کو نوشتہ جان کر آواز حق کو گلے میں گھونٹ دینے کی مصلحت سمجھا دی ہو گی۔ نامور بہادروں کی تلواروں کی پناہ چھن جانے سے ظلم و جبر کے سامنے سر جھکانے کے آداب آ گئے ہوں گے۔ حریت فکر و عمل و تقریر کے روشن دیے صحرا کی تپتی ہوئی ریت میں پیاروں کی پیاس کے خیال نے اور قہر کی آندھیوں نے بجھا دیے ہوں گے۔ مگر یہاں تو سر انسان کی عظمت کے لیے بلند اور خدا کی خوشنودی کے لیے خم ہوتے رہے، تن سے جدا ہوتے رہے مگر مصلحت کے تقاضوں سے نا آشنا ہی رہے۔


متعلقہ:  واقعہ کربلا میں خواتین اور بچوں کا کردار  از، سیدہ مہ جبین کاظمی

واقعہ کربلا اور ہندو شعرا  از، زمرد مغل


آدمی کی بھلائی کے لیے اللہ کی راہ میں جہاد کی عظمتوں کو قربان کرنے کی رسم زمانہ سے اہلِ بیت نا آگاہ تھے۔ خلق خدا کی بہتری کا آموختہ دہن نبوی سے سننے والے خلق خدا پر ظلم کرنے والوں ہاتھوں کے مدد گار کیسے بن سکتے تھے۔ وہ آیاتِ الٰہی اور فرموداتِ نبیﷺ سے مختلف حکمرانی کے طور طریقوں کو کیسے قبول کر لیتے جہاں خلق خدا کی کمائی حکمران کی جاگیر قرار پاتی۔

ادھر تو بے چارگی، بے بسی ظالم سے پنجہ آزما ہونے کا حوصلہ بخشتی رہی۔ یہاں سے تو خورشید نے روشنی مستعار لی تھی، اس راہ گذر سے تیرگی کا گذر ممکن نہیں تھا۔ یہاں تو غم روشنی کا استعارہ بن گیا۔ جبر کے خلاف ایک فریاد مسلسل جسے ماہ و سال نے وہ آہنگ عطا کیا کہ آج بھی ظالم مسندوں پر ذکرِ کربلا سے کانپتے ہیں کہیں یہ آواز پھر سے عمل کا روپ نہ دھار لے اور وہ بے رحم طاقت کی حیلہ گریوں سے حاصل کردہ آسائشوں سے محروم نہ ہو جائیں۔

جن ہونٹوں کو رسول کریم ﷺ چوما کرتے تھے اور کہا کرتے تھے جو رحم نہیں کرتا، رحم کا مستحق بھی نہیں ہے، وہ لب کسی ظالم کی مدح خوانی کیسے کرتے۔ دربار تو ایک اور بھی ہے جہاں انصاف ہو گا۔ رہی عزت و توقیر کی بات تو شاعر نے خلیفہ عبدالملک کو کہہ دیا تھا جن کو دیکھ تو تجاہلِ عارفانہ سے کہہ رہا ہے کہ یہ کون ہے تو سن یہ وہ جوان ہیں کہ سر زمین بطحا ان کے قدموں سے آشنا اور ان پر فخر کرتی ہے۔

جناب زین العابدین کے گرد لوگوں کا ہجوم رومی سلطنت سے بھی زیادہ عظیم حکمرانی کے مالک مگر حرم کعبہ میں تنہا بادشاہ کے جلال کو گہناتا رہا اور اس کا سینہ حسد سے جلاتا رہا۔ مال و زر، جاہ و حشم کے سہارے عزت اور قبول عام حاصل کرنے کی خواہش بے کار ہے کیوں کہ عزت اللہ کی دین ہے اور اسی کو ملتی ہے جو مخلوق خدا کے درد بانٹتا ہے۔

وہ جس کا قیام کسی تخت پر نہیں، خلقِ خدا کے دلوں میں ہے اور جو آئینہ کی مانند ہے۔ اسی لیے تو پیغمبروں، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کا ذکر آتے ہی عقیدتیں اظہار پانے لگتی ہیں۔ قہر و غضب اطاعت پر لوگوں کو مجبور تو کر دیتے ہیں مگر عزت و احترام حسنِ اخلاق اور حسن نیت کی کمائی ہے۔ جو آدمی کو اہمیت دیتے ہیں وہی دونوں جہانوں میں صلہ پاتے ہیں۔ جنھوں نے شمشیر کو متاع شرف کے حصول کا ذریعہ بنایا تلوار کے زنگ آلود ہونے سے اور بازوؤں کے بل کھونے سے اپنے تمام اعزازوں سے محروم ہوئے۔ اوروں کا دھیان کیے بغیر اپنی مرضی نافذ کرنے کی تگ و دو آدمیوں سے رشتہ کمزور کر دیتی ہے۔تاج و تخت ماں جایوں کا لہو بہا کر مسند پر جلوہ افروز کراتے رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے۔ دوسروں کی بھلائی نیک نامی کی سیڑھیوں پہ چلنے کا طریقہ سکھاتی ہے اور دوسروں کی پا مالی بد نامی کے اندھے کنوؤں میں تڑپنے سسکنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔ مخلوق خدا کی آزادی سلب کر کے قد اونچا کرنے کی خواہش سراب ہے کیوں کہ ظالم کے مقرر کردہ قاتل بھی چیخ اٹھے تھے کہ مجھے سونے چاندی میں لاد دو کہ میں نے بڑا سردار مارا ہے جو حسب نسب میں سب سے زیادہ ممتاز ہے۔ یہیں پر عزت و شرف اور حق و باطل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔

یہ یزید کی غلط فہمی تھی کہ حسین کی بہن، علی کی بیٹی آئینِ حق گوئی اور بے باکی سے دست بردار ہو جائیں گی۔ شہزادی زینب دربار کے جاہ و جلال سے ذرہ برابر متاثر نہ ہوئیں۔ شہیدوں کے لہو کی تقدیس کا علم تھامے رکھا۔ دھمکیوں کے جواب میں آیات قرآن کو سہارا بنائے رکھا۔ یزید کے دربار میں رسول اکرم ﷺ کی تبلیغ کے پُر وقار انداز، جناب علی کے علم، جناب حسین کے حلم کی تمام تر تابانیوں کے ساتھ جابروں کو عذاب آخرت و دنیا سے ڈرایا۔ حُزن و ابتلاء نے اہل بیت کے ایمان کو مضبوطی ہی بخشی۔

یہیں پر بس نہ کیا بَل کہ کوفہ کے بے وفاؤں کو ان کی بز دلی پر ملامت کی۔ مہمان سے برتاؤ کے آداب بتاتے ہوئے ان کے مظالم کی شدت اور ان کی منافقانہ اشک ریزیوں کا پردہ چاک کیا۔ کوفہ والوں کو بتایا کہ تم شیریں زبان کنیزوں کی طرح دھیمے دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہو تا کہ تم اس زہر کو کام میں لاؤ جو تمھارے تالوؤں میں چھپا ہے۔ تمھاری حالت اس بُڑھیا کی طرح ہے جو ایک ہاتھ سے دھاگہ بَٹتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے کھول دیتی ہے۔ صبر جس کی تلقین نانا نے کی تھی اس کو وظیفہ زندگی بنا لیا اور رفتگان کی یاد نے دکھ کو عبادت کی شکل عطا کر دی۔

یزید کے ظلم کا سلسلہ یہیں پر ختم نہ ہوا۔ نبی ﷺ کے جگر گوشوں کے خون سے قبائلی نفرت کی پیاس بجھانے کے بعد اس کی استبدادی حکومت نے نبی ﷺ کے شہر کی دیواروں کو اہلِ مدینہ کے خون سے رنگین کر دیا اور قہقۂِ زن ہوا کہ کاش ہمارے بڑھے بوڑھے زندہ ہوتے تو وہ دیکھتے ہم نے بدر کا انتقام  لے لیا۔

اہلِ مدینہ کے وفد کا یہ فیصلہ کہ یزید مسلمانوں کی امارت کا اہل نہیں ہے اور یزید کے بیٹے کے اس کے لہو آلود تخت پر بیٹھنے سے انکار اور اس کے مرنے کے بعد بغاوتوں کا بنی اُمیّہ کے خاتمے تک برپا ہونے والا سلسلہ اس کی ظالمانہ حکومت کے خلاف اہل کربلا کی قربانیوں کی عظمت کی تاریخ گواہ ہے۔

ذکر حسین ظلم و جبر کے خلاف لڑنے والی قوتوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ دنیا کے ہر گوشے میں جہاں بھی لوگ آزادئِ انسان اور بہبود خلق کے لیے لڑ رہے ہیں حسین ان کے قافلہ سالار ہیں کیوں کہ ان سے بڑی قربانی کسی سے ممکن ہی نہیں ہے۔

عاشقوں کا ہر قافلہ خاکِ کربلا کو سرمہ نظر جانتے ہوئے صبر و استقامت اور عزم و استقلال کی دعا مانگتا ہے۔ خدا ہم سب کو یادِ حسین سے فیض یاب رکھے اور ظلم کی حمایت کی بجائے ظلم کی مخالفت کی جرات عطا فرمائے۔

چوں بگذرد نظیری کفن خونیں بہ حشر
خلقی فغاں کنند کہ این داد خواہ کیس