مائرہ کا گیت

Naseer Ahmed
نصیر احمد

مائرہ کا گیت

از، نصیر احمد

دوستو! اسے پہلی بار میں نے مائرہ کے گیت کے آغاز سے چند لمحے پہلے ہال میں دیکھا تھا۔ میں اپنی سہیلیوں کے سنگ بے تابانہ اور والہانہ ہال میں مائرہ کا گیت سننے کے لیے داخل ہوئی تھی کہ اچانک میری نظر ایک خوش لباس سے گورے چٹے لمبے تڑنگے سے لڑکے پر پڑی۔ وہ دروازے کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا اور ایک ہی عجیب طریقے سے مُنھ بسور رہا تھا، جیسے اسے مائرہ کے گیت کے موقع پر حاضر ہونا اچھا نہیں لگ رہا ہو۔ یہ بات اس کے بگڑے ہوئے مُنھ سے بھی زیادہ عجیب تھی۔

ان دنوں ارد گرد کون تھا جسے مائرہ کا گیت نہ اچھا لگتا ہو۔ ایک کے بعد دوسری نے اسے دیکھا اور ہم لوگ سرگوشیاں کرنے لگیں۔ کسی نے کہا یہ ہوتا توجہ کھینچنے کا طریقہ، کسی نے کہا شاید موسیقی سے دل چسپی ہی نہیں ہے، زبر دستی لائے گئے ہیں۔ میں نے کہا چھوڑو یار ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی جو حسن و عظمت کی قدر ہی دل میں نہیں رکھتے۔ یہ میں نے کہا اور میں اس کی آنکھوں میں بھی جھانکنے لگی۔

اس کی آنکھیں بہت خوب صورت تھیں اور وہ آنکھیں دیکھ کر مجھے دو احساسات ہوئے، ایک ایسا غم جو کسی سے کہا نہ جا سکے اور ایک ایسا خلوص جو کہیں نہ مل سکے۔ اس وقت تو میں نے یہی سوچا، ہو جو ہو، مجھے کیا۔ میں نے کیا سارے لوگوں کا سمجھنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ مجھے کیا پتا تھا، یہ آنکھیں میری زندگی انھی دو احساسات سے بھر دیں گے، ایک ایسا غم جو کسی سے کہا نہ جا سکے اور ایک ایسا جو کہیں مل نہ سکے۔ بس چپ چاپ غم سہتی رہتی ہوں اور زندگی میں جتنا بھی اچھا ہو سکے کرتی رہتی ہوں۔

لیکن ان سب باتوں سے پہلے میں مائرہ کے گیت، مائرہ، اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں کہ اس کہانی میں یہی قابل ذکر لوگ ہیں۔ کیوں کہ یہ کہانی میں بتا رہی ہوں، اس لیے کچھ آپ میرے بارے میں بھی جان لیں گے۔ یہاں مجھے کچھ انکسار آمیز جملہ کہنا چاہیے، لیکن کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ مجھے منکسر جانیں یا مغرور، اس کہانی میں میں اتنی اہم نہیں ہوں۔

میرے خیال میں مائرہ کے گیت سے شروعات کرتے ہیں۔ مائرہ کا گیت کہتے ہی ایک سنسنی سی میرے جسم وجاں میں سفر کرنے لگی ہے۔ سرور و وجد کا اک عالم جو کچھ کہنے اور کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ گیت تو پہلے سے ہی تھا لیکن جیسے اسے مائرہ گاتی تھی، مائرہ کے بعد کسی کو اسے ویسے گاتے نہیں سنا۔

اس گیت کے بول بھی ہماری زبان میں نہیں تھے، لیکن ہماری حالت اسے سن کر ایسے ہو جاتی تھی جیسے اس گیت کے سوا کچھ سننے کی آرزو وقت کا ضیاع ہے۔ اس گیت کے ساز بھی مقامی نہیں تھے، لیکن یہ گیت ہمیں کبھی اجنبی نہیں لگا۔ شاید، چوں کہ اسے ہماری اپنی مائرہ گاتی تھی یا گیت میں کچھ ایسی بات تھی جو اجنبیت تھی وہ محسوس ہی نہیں تھی یا ہم میں ہی کچھ ایسی بات تھی کہ گیت کی اجنبیت کا احساس مٹا دیتی تھی۔ کیا وجہ تھی؟ یہ سب وہ سلسلے جوڑنے والا اور رشتے توڑنے والا ہی جانے کہ اسے ہی ان باتوں کی تفہیم ہوتی تھی۔

اب میں سوچ رہی ہوں کہ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ ذائقے اور آوازیں کب لفظوں میں سمٹتے ہیں۔ بس خام سی میں ایک خام سی کوشش ہی کر سکتی ہوں۔ میرے لفظ ضرور سنیں مگر انھیں اپنی زندگی کے کسی سب سے حسین تجربے سے جوڑیں تو شاید آپ کو اس گیت کے حسن کا کچھ اندازہ ہو۔ اگر نہ ہو سکے تو یہ میری بے بضاعتی اور نا لائقی ہی ہوگی، آپ کا کچھ دوش نہیں ہو گا۔ بہ ہر حال اتنا اندازہ آپ کو ہو جائے گا کہ یہ گیت آپ نے کہیں سنا ہے کیوں کہ یہ گیت اب گایا جاتا ہے لیکن اور لوگ اسے گاتے ہیں۔ کچھ تو شاید اسے مائرہ سے بھی اچھا گاتے ہیں مگر میرے ذہن میں اس گیت کا تصور مائرہ سے ہی وابستہ ہے۔

تو دوستو، یہ گیت کچھ ایسا تھا کہ آپ سین پر نمو دار ہوں تو کوئی دیوانہ طغیان کر رہا ہو، زنجیریں توڑ کر زندان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں، تھوڑے سے سمجھانے بجھانے کے بعد مان جائے، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد پھر بے قرار ہو جائے اور شور و غوغا کرنے لگے، تڑپنے لگے، پھڑکنے لگے، گریباں چاک کرنے لگے اور اچانک ہی کسی حرف تسلی سے اسے قرار آ جائے۔ لیکن قرار کے اس وقفے کے بعد، اس دیوانے پر وہ دیوانگی طاری ہو کہ اسے سنبھالنا، تھامنا، سمجھانا بجھانا مشکل ہو جائے اور اسی کشمکش، اسی اضطراب میں وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر جائے۔

جیسے چھڑی ہوئی جنگ میں داخل ہوں، جس میں کچھ توقف آئے، لیکن تؤقف کے بعد کا حملہ شدید ہو جائے۔ اور اسی طرح تؤقف کے لمحے کبھی مختصر اور کبھی طویل ہوتے ہیں اور حملے کی شدتیں بڑھتی جائیں، اتنی بڑھیں کہ آپ کو یوں لگے کہ اب یہ شدتیں کم نہ ہوں اور جب آپ کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ شدتیں کم نہ ہوں گے، اسی وقت یکا یک جنگ تھمتی تھمتی ختم ہو جائے۔

اس گیت کو کسی تکلف کے بغیر شروع کیے جانے والے سیکس کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تناظر میں تو سوچنے کی ہمت بھی نہیں رکھتی تھی اور نہ اب رکھتی ہوں، کہ میں دین دار بچی تھی، دین دار خاتون تھی، اب ایک دیندار بوڑھی ہوں، اس طرح کے تناظر وہی سوچتا تھا جس چیزوں کو کچھ زیادہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس نے تو اس گیت کو سیکس پر کچھ اس طرح ترتیب دیا ہوا تھا، جسے سن کر مجھے کبھی غصہ ہوتا، کبھی شرم سے کان سرخ ہو جاتے اور کبھی ہنس ہنس کر میں دُہری ہو جاتی۔

تلاطم، توازن، توقف، تلاطم، تؤقف، تلاطم، توازن، توقف، توازن، تلاطم، تلاطم، تلاطم، تؤقف اور ختم، ایسے وہ کہتا تھا۔ مجھے یقین ہے اس سے آپ کچھ غلط اندازے لگانا شروع ہو گئے ہوں گے، مگر بس اتنی سی بات ہے وہ کچھ مُنھ پھٹ تھا اور بے ہودگی کا اس کا احساس شاید مجھ سے ہم سب سے کچھ مختلف تھا۔


مزید و متعلقہ: کہانی سے نکالا ہوا آدمی  از، خرم شہزاد

اظہار عظمت  از، نصیر احمد


اور گیت کا سماں کچھ ایسا تھا کہ سب کچھ بندھا بندھا سا لگتا تھا۔ گیت کے بولوں سے ساز بندھے ہوتے تھے، سازوں سے سازندے بندھے ہوتے تھے اور سازندوں سے مائرہ کی شان دار آواز بندھی ہوتی تھی اور مائرہ کی آواز سے بندھے تھے۔ اور جب مائرہ کی آواز بندھوں کو کھولنے پر آتی تھی تو جیسے کسی نے زندان توڑ دیا ہو۔ پتا نہیں آپ کو جوش صاحب سے کچھ دل چسپی ہے کہ نہیں لیکن ان کی ایک نظم ہے شکست زنداں کا خواب۔ میں نے بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی، آپ سے باتیں کرتے کرتے وہ نظم یاد آ گئی ہے۔

مائرہ کی ساحرہ آواز کچھ ایسے ہی زنداں توڑتی تھی۔ سنبھلو کہ وہ زندان گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے، اٹھو کہ وہ بیٹھی دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں اور اس کے بعد مائرہ کی ساحرہ صدا کچھ اس ترتیب سے ہمیں سنبھالتی تھی کہ ہمیں اپنے دل طغیانیوں کے سنبھلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ بس کچھ ایسا ہی ماحول تھا اور اس وقت ہم تو جیسے مشینیں ہی تھے، مائرہ اگر اپنے گیت کی دریا کا بہاؤ دھیما رکھے ہم دھیمے ہو جاتے اور اگر مائرہ اپنے گیت کی لہروں کو پتھروں سے ٹکرائے، ہم بھی سر پٹخنے لگتے تھے۔ مائرہ اگر ہوشیاری کا فرمان جاری کرے، ہم ہوشیار ہو جاتے تھے اور اگر مائرہ دیوانہ بنائے ہم دیوانے بن جاتے تھے۔ اور وہ دروازے سے جڑا اپنی آنکھوں میں سارے جہاں کا درد بسائے مُنھ بسورتا رہتا تھا۔ اسے میں نے کبھی مائرہ کے گیت پر تھرکتا بھی نہیں دیکھا تھا۔ اور مائرہ کی خدائی میں ایک ہی وہی شیطان تھا، مائرہ کے پرلوک میں اک وہی راکھشس تھا، اور مائرہ کے گل زار میں ایک وہی خار تھا، اور مائرہ کو اس بات کا احساس تھا اور مائرہ اس بد دماغی کا علاج بھی کرنا چاہتی تھی لیکن میں سمجھنا چاہتی کہ وہ ایسا کیوں ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ وہ توجہ جیتنے کا فریب نہیں کر رہا۔ کوئی اور بات ہے۔ مائرہ کے اجنبی زبان کے اجنبی ساز اجنبیت کم کرتے تھے لیکن اس کی خاموشی اور اس کی حرکات و سکنات اجنبیت کا ایک احساس دلاتے رہتے تھے۔ اور لوگ بھی تھے جو اس بات کو نوٹس کرتے تھے لیکن آپ کو اندازہ ہے ہی کہ جس ماحول سے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہوں، اور کسی طرف سے لطف کی خرابی کے اندیشے ہوں تو سادہ توضیحات اچھی لگتی ہیں اور لوگ سادہ توضیحات سے چمٹ جاتے ہیں تو ان سارے لوگوں کے لیے اس کی مائرہ کے گیت سے دوری توجہ حاصل کرنے کا ایک کھیل ہی تھا۔ بس ایسے ہوتے ہیں کچھ لوگ۔ وہی بات جو میں نے سب سے پہلی کہی تھی لوگوں کے لیے اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کی تسلی بن گئی لیکن میرے اور مائرہ کے لیے یہ تسلی کافی نہ تھی۔

اسے انا کا مسئلہ تھا کہ جب سب اس کی آواز کے دیوانے ہیں، تو اسے کیا تکلیف ہے کہ اس کی آواز کےزیر و بَم سے اپنی سانسیں کیوں نہیں منسلک کرتا اورمیں نے ان خوب صورت آنکھوں میں بسے غم اور بے پناہ خلوص کا کارن جاننا تھا اور یہ طلب بڑھتی جا رہی تھی۔

میرے ذہن میں یہ بات بار بار آتی تھی کہ اس سے اپنے سوالوں کا جواب پہلے کون پوچھے گا میں یا مائرہ۔ اس سوال کا جواب بھی مجھے معلوم تھا کہ مائرہ نے ہی یہ سوال پہلے پوچھنا ہے۔ کسی اجنبی سے یہ پوچھنا کہ اس کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے ویسے بھی آسان نہیں ہوتا۔ بعد میں مجھے یہ پتا چل گیا کہ وہ اس قسم کا اجنبی تھا کہ جن کے کتنے بھی قریب ہو جائیں، وہ اجنبی ہی رہتے ہیں۔

جانے ایسا کیوں ہوتا ہے، اس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ اور پھر میرا پس منظر اور مزاج ایسا تھا کہ روزانہ ملنے والوں سے بھی گفتگو کا آغاز ایسے ہوتا تھا جیسے صدیوں بعد مل رہے ہوں۔اتنے تکلفات، اتنے آداب کہ لگتا تھا ایک دوسرے بات چیت نہیں کر رہے بل کہ ایک دوسرے کو حبسِ دم کی تربیت دے رہے ہوں۔

لیکن مائرہ تو جیسے دیوی تھی۔ اس کی ایک نگاہِ غلط انداز بھی انعام تھی اور اس کی تیوری بھی اکرام تھی۔ وہ اگر کسی کی طرف استفہامیہ نگاہوں سے بھی دیکھتی تو لوگوں کے لبوں سے مقالے جھڑنے لگتے تھے۔ اور اگر وہ کسی سے کچھ پوچھ بیٹھے تو لوگ گنگ سے ہو جاتے تھے لیکن اس کے سنگ گزرے پانچ منٹوں کی تفصیلات گھنٹوں تک سناتے رہتے۔ پھر وہ اتنی پر اعتماد تھی، ذہین اور ظریف تھی کہ کسی سے کچھ پوچھنا کسی کو حکم دینا اس کے لیے کچھ مسئلہ نہ تھا۔

اسے دیکھ کر دل کش جیسے الفاظ ذہن سے ابھرتے تھے۔ گندمی رنگت، اونچا لمبا قد، چوڑی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، متناسب اعضا، اور بھرے بھرے ہونٹ پر بکھری ہوئی ایک دل آویز مسکراہٹ۔ اور کندھوں پر بکھری ہوئی سیاہ زلفیں۔ تو دل کَشی اور دل آویزی سے مجسم مائرہ کے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی تھی اور وہ مائرہ نے وہ بات پوچھنی تھی اور مجھے پتا تھا مجھ سے پہلے پوچھنی ہے۔

ایک دن گیت سے کچھ دیر پہلے جب وہ راہ داری میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا اور میں اس سے کچھ دور کھڑی ہوئی تھی کہ مائرہ اچانک اس کے پاس رک گئی اور اس سے کہنے لگی۔

بات سنیں

جی کہیں

آپ سے ایک بات پوچھنی ہے؟

جی پوچھیں؟

آپ کو ہمارا گیت اچھا نہیں لگتا۔

(مائرہ اسی طرح شہزادیوں کی طرز میں گفتگو کرتی تھی۔)

آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ وہ بننے کی کوشش کرنے لگا۔

اب یہ تو نہ کہیں، یہ تو یہاں کی گھاس کی پتیوں کو بھی خبر ہو گئی ہے کہ آپ کو ہمارا گیت اچھا نہیں لگتا۔

گھاس کی پتیوں کو یہی خبر دینی تھی، اس لیے…

مگر کیا خرابی ہے ہم میں؟

یہ میں نے کب کہا؟ گیت اچھا نہیں لگتا، اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ آپ اچھی نہیں ہیں, یا اچھی نہیں لگتیں، آپ تو بہت اچھی لگتی ہیں۔

یہ سن کر میں جھنجھلا سی گئی کہ یہ حضرت تو کوئی دل پھینک سے َٹھرکی نکلے اور میں خواہ مخواہ آنکھوں میں خلوص و الم ماپتی رہی۔ آنکھیں تو روح کا قفل ثابت ہوئیں۔

ھاھا، شکریہ اور آپ بڑے چالاک شخص ہیں۔ لیکن جو اچھا لگتا ہے اس کی باتیں بھی تو اچھی لگتی ہیں، مائرہ نے مسکرا کر کہا۔

ارے نہیں، میں تو بہت سادہ لوح ہوں اور کوئی کتنا بھی اچھا لگے، سب باتیں تو کسی کی اچھی نہیں لگتیں، اس نے کہا۔

پھر کیسی پسندیدگی؟ مائرہ نے کہا۔

پرفیکشن؟ اس نے کہا

یس، مائرہ نے کہا۔

نا ممکن۔

ہمارے گیت کا حصہ بنیں، ممکن ہو جائے گی۔

اور اگر آپ کا گیت پرفیکٹ نہ ہو تو؟

یہ ہو ہی نہیں سکتا، آپ آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے سے انکار کر رہے ہیں۔

نہیں میں آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے کا اثبات کر رہا ہوں۔

تو بات یہیں روک دیں۔

یہاں کیوں روک دیں، بات کرتے ہیں، بات کرنے سے ہی بات بڑھتی ہے اور بات بڑھنے سے ہی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔

ھاھا، دیکھتے ہیں کس کی غلط فہمی دور ہوتی ہے؟ لیکن بات بڑھانے کی بنیاد تو ہو۔ ہمارا وقت تو بہت قیمتی ہے۔

سب کا ہوتا ہے،بس جب اپنا بہت زیادہ قیمتی لگنے لگے، دوسروں کے وقت کی قیمت کا احساس کم ہو جاتا ہے۔

تو آپ جذباتی بھی ہیں

ھاھا، درست باتوں اور گہرے جذبات کا ایک گہرا تعلق تو ہے۔

جیسے ہمارا گیت

آپ کے گیت میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔

کیسے؟ کچھ اشارہ تو دیں کہ ہمیں کچھ اندازہ ہو۔

جس زبان میں یہ گیت لکھا ہے، وہ زبان میں جانتا ہوں۔

تو؟

لمبی بات ہے؟

ٹھیک ہے پھر مل لیتے ہیں، اتنی بھی کیا لمبی بات ہو گی۔

پھر ملتے ہیں۔

اس طرح وہ ایک دوسرے سے مسکراتے ہوئے رخصت ہوئے۔ اور میں گیت کے متعلق سوچ میں پڑ گئی۔ جس زبان میں گیت تھا، تھوڑی بہت مجھے بھی آتی تھی۔ مجھے گیت میں کچھ خرابی نہیں نظر آ رہی تھی۔ پھر گیت کی خرابی کے معانی اور نتائج بھی تھے۔ گیت کی خرابی کے حوالے سے اس کی جرات مندی بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔

مائرہ سے بھی کچھ جلن ہورہی تھی۔ اپنے سے بہتر لوگوں سے اس جلن کو صرف چھپایا ہی جا سکتا ہے، مٹائی نہیں جا سکتی۔ لیکن میں دل میں یہ دعا بھی کر رہی تھی کہ مائرہ یہ مقابلہ جیت جائے اور وہ اجنبی ہم سب کی طرح گیت کا حصہ بن جائے اور یہ معاملہ ہی ختم ہو جائے۔ ادھر سے اس اجنبی کا اعتماد بھی دل دہلا رہا تھا کہ اگر مائرہ کے گیت میں کچھ خرابی واقعی نکل آئی تو سننے کے لیے کیا بچے گا۔

پھر اس بات کا بھی دکھ تھا کہ یہ گفتگو تو ان دونوں کے درمیان ہو گی۔ مجھے شاید یہ تو پتا چل جائے کہ کون جیتا مگر کیوں، کب اور کیسے کی تفصیلات کی خبر مجھے کیسے ہو گی۔

اور پھر وہ کوئی دل پھینک ٹھرکی نہیں لگتا کہ اس کی ساری توجہ گیت پر ہی تھی مگر اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ اسے مائرہ بہت اچھی لگتی ہے۔ اور اگر مائرہ اسے بہت اچھی لگتی ہے تو میں اس سارے معاملے میں کیوں دل چسپی لے رہی ہوں؟ مجھے ابھی سے ہٹ جانا چاہیے، بات میں بڑھی ہوئی بات بوجھ اٹھائے شاید زندگی ہی بیت جائے۔ اور واقعی ہی مجھے اسی وقت اس سارے معاملے سے ہٹ جانا چاہیے تھا لیکن میں اس معاملے سے ہٹ نہ سکی۔ بے خبر رہتی، علم نہ ہوتا،محبت نہ ہوتی، اور اسے کھو دینے کا غم ساری زندگی نہ سہتی۔ مگر آئندہ کی تفصیلات معلوم ہوں تو کیا ہو؟ زندگی اچھی ہو جائے، زندگی رک جائے؟ زندگی ختم ہو جائے،کیا ہو؟ بس اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔

بہت توانا ہوں تو شاید اپنی مرضی کا مستقبل ترتیب بھی دیں لیں لیکن وہ بھی تو بس ایک محدود مدت ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اندازے پھر الٹ پلٹ جاتے ہیں۔ بس انھی باتوں میں گُم سُم میں مائرہ کا گیت سننے کے لیے ہال کے اندر گئی اور اس دفعہ مجھے ایسے لگا کہ میں مائرہ کے گیت میں کُھب سی گئی ہوں، گندھ سی گئی ہوں۔ مجھے کیا پتا تھا بعد میں وہ میرے غیاب کی وہ توضیح کرے گا کہ میں خود بھی حیران ہو جاؤں گی کہ میں نے کبھی ایسے کیوں نہیں سوچا۔

یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں مگر اس گفتگو کے بعد وہ اور مائرہ عمارت کے لان میں، عمارت کے ساتھ چھوٹے پارک میں اور عمارت کی کینٹین میں اکٹھے نظر آنے لگے اور وہ میں دیکھتی رہی۔ کبھی ہنستے کھیلتے نظر آتے کبھی بحث مباحثوں کرتے نظر آتے۔ میں بس دیکھتی رہتی۔ کبھی اس سارے معاملے میں دل چسپی کم کرنے کے جتن کرتی مگر دل چسپی ختم نہ ہوتی۔ کبھی اپنے ذہن میں قائم کی ہوئی تصویر کے مطابق ان کی کامیابی کی دعائیں کرتی رہتی اور کبھی اس اجنبی کو دل ہی دل میں برا کہنے لگتی کہ عام سا لڑکا ہی تو ہے اور میں اسے یوں ہی شہزادہ رویا بنا رہی ہوں۔ اور کبھی مائرہ سے جلن ہونے لگتی کہ اس میں اتنی خوبیاں کیوں ہیں کہ اس نے اس اجنبی تک رسائی ہی بند کر دی ہے۔ اور کبھی اس اجنبی کے لیے بڑے نرم سے احساسات دل میں آ دھمکتے جن پر کبھی حیرت ہوتی اور کبھی غصہ اور کبھی ہنسی۔

جس بات کی میں منتظر تھی کہ یا تو وہ اجنبی مائرہ کے گیت کا حصہ بن جائے گا یا پھر مائرہ اپنا گیت گانا بند کردے گی، وہ بھی رُو نما نہیں ہو رہی تھی۔ گیت کے بارے میں بھی میں نے کچھ تنقیدی رویہ اپنا لیا تھا لیکن مجھے واقعی اس گیت میں کچھ خرابی نظر نہیں آتی تھی۔ کبھی کبھی ادھر ادھر آتے جاتے ان دونوں کے کچھ جملے بھی سنائی دیتے۔ اب آپ سے کیا چھپانا ادھر ادھر آنے جانے کا میں اہتمام بھی کرتی تھی مگر جو تجسس مجھ میں پیدا ہو چکا تھا اس کو اطمینان در کار تھا۔

ایک دفعہ کیفے ٹیریا میں مائرہ اس سے کہہ رہی تھی کہ ابھی یہ جو نظم تم نے مجھے سنائی ہے، اس کی کون سی لائن مجھے بیان کرتی ہے۔ اس اجنبی نے جھٹ سے کہا، تو فرعون کے رتھ کی گھوڑیوں میں سے ایک ہے۔ مائرہ کھکھلا کر ہنس دی مگر اس ہنسی میں کچھ مایوسی بھی شامل تھی جس کو چھپانے کے لیے مائرہ کی ہنسی ضرورت سے زیادہ اونچی تھی۔ شاید مائرہ سننا چاہتی تھی کہ وہ اجنبی کہے کہ اے میری پیاری، اے سراپا جمال تجھ میں کچھ عیب نہیں۔

ایک دفعہ مائرہ نے راہ داری میں مجھے روک لیا اور کہا اچھی نتاشا میری آنکھوں میں کیا ہے؟ میں کچھ حیران رہ گئی لیکن میں نے اس سے کہا، مائرہ جی لہر در لہر زندگی جس کی روانی تا ابد قائم رہے۔ مائرہ ہنسنے لگی اور کہا نتاشا تم واقعی بہت اچھی ہو۔ پہلے تو مائرہ کی ہم کلامی کے اعزاز کی خوشی کم نہیں ہوری تھی لیکن بعد میں مجھے سمجھ بھی آ گئی کہ صرف میں ہی نہیں دیکھ رہی تھی، وہ بھی دیکھ رہا تھا۔ اور مائرہ کا اچانک مجھ سے پوچھنا یہی پیغام تھا کہ وہ بھی دیکھ رہا ہے۔

سچی پوچھیے جب میری سوچ نے یہ رخ لیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں اتنی بھی غیر اہم نہیں ہوں، لوگ نوٹس لیتے ہیں اور کچھ کہنا بھی چاہ رہے ہیں۔ لیکن اگر لوگوں نے کچھ کہنا تھا تو مجھ سے براہ راست ہی کہنا تھا، رمز و اشارہ پر سپنوں کے محلات استوار کرنا تو نا دانی ہی ہوتی ہے۔

اور وہاں صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے تھے اور لوگوں نے بھی اس بات کو نوٹ کیا تھا اور باتیں ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ اور یہ باتیں میں سنتی رہتی تھی۔

تو جس توجہ کے لیے کھیل چل رہا تھا، وہ صاحب کو مل گئی۔ اب تو لمبا چکر چلے گا۔

کچھ چکر وکر نہیں ہے، نظر نہیں آ رہا تمھیں، تم عاشقی دیکھ رہے ہو ہمیں تو دوستی بھی نظر نہیں آ رہی۔

مائرہ اپنی، سیانی ہے، سمجھ دار ہے، کوئی الٹا سیدھا فیصلہ نہیں کرے گی۔

مائرہ اپنی ہے تو اس سے ہماری کیا دشمنی ہے؟

ہم اسے جانتے ہی نہیں۔ دشمنی تو کیا کرنی، لیکن نا پسندیگی کی یہ وجہ کیا کم ہے؟

یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔

تم سوچ نہیں رہیں۔ مائرہ کا گیت ہے، اپنا گیت ہے، ہمارا گیت ہے، کون دور کھڑا اس گیت کو مسترد کرتا ہے۔

تو کسی کو اگر کچھ اچھا نہ لگے تو کیا یہ اس کا حق نہیں ہے؟

یہ گیت اچھا نہیں لگتا؟ پھر زندہ کیوں ہیں؟ اس گیت سے تو ہم زندگی کے معانی لیتے ہیں۔ یہ کسی کو برا لگے گا، وہ ہمارا نہیں۔

ہاں اس طرح سے تو میں نے سوچا ہی نہیں۔

تو اب تم کیا کرو گے؟

بس دیکھتی جاؤ۔ تم گروہ، جماعت اور ہجوم کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ یہ لوگوں کا ایک اکٹھ ہی نہیں ہوتا، یہ اوزار بھی بنایا جا سکتا ہے، اسے ہتھیار بھی بنایا جا سکتا ہے۔

یعنی اس اجنبی کی خیر نہیں۔

یہاں سب اپنے ہیں اور جو اپنا ہو کر بھی پرایا رہنے پر مُصِر رہے گا، تو اسے وہی بننے دیا جائے جو وہ بننا چاہتا ہے۔

یہ کچھ زیادہ نہیں ہو جائے گا۔ تمھاری مائرہ پر نظر تو نہیں ہے؟

نہیں یار، ایسے مت سوچو، بس اگر ہم آج سے اتحاد کے لیے کچھ نہ کریں گے، تو سب کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ آج مائرہ جائے گی، کل تم، پرسوں میں، ترسوں کوئی اور تو پھر ہمارے پاس رہ کیا جائے گا۔ یاد رکھو، جب اس گیت کے گانے اور سننے والے نہ رہے تو ہم کچھ اور بن جائیں اور ایسے کھو جائیں گے کہ کسی اپنے کا سراغ ہی نہیں ملے گا۔

تم کیا کرو گے؟

تم لوگوں کو میرا ساتھ دینا ہو گا۔ سب کو۔

اور اس گفتگو کے بعد مائرہ پر ایک دباؤ سا بننے لگا۔ پہلے تو مائرہ نے اس بات کو اتنی اہمیت نہیں دی مگر جب لہجوں میں مائرہ کے لیے لپک سی غائب ہونے لگی تو مائرہ کو سوچنا پڑ گیا۔ مائرہ، حساب کتاب کی ماہر تھی اور جیسے کہتے ہیں اس کے سر میں میزان نصب تھا۔ جہاں وہ جڑی ہوئی تھی، وہاں وہ ساحرہ تھی اور سب اس کے والہ و شیدا تھا اور اپنے تمنائیوں کو خفا کرنا کب آسان ہوتا ہے۔ اور جہاں کا اس نے جستجو کے لیے سفر شروع کر دیا تھا، وہاں سے اسے ملتا کیا تھا۔ دوری کا ایک عمل شروع ہو گیا اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس اجنبی نے مائرہ کو روکنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی اور ایک ہموار سی دوری طے پا گئی۔

لیکن مائرہ کے گیت میں رچاؤ بڑھ گیا اور لوگوں کی شیفتگی میں بھی اضافہ ہو گیا اور وہ پھر تنہا ہو گیا۔ اس نے بھی تنہائی مٹانے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی گیت سے متعلق اپنی ناپسندیدگی چھپانے کی کوشش کی۔ میرے خیال میں اس اجنبی کو یہاں اور نہیں آنا چاہیے تھا۔ مائرہ چوں کہ پہلے سے زیادہ اپنی ہو گئی تھی، وہ اپنی طاقت کا غلط استعمال کر سکتی تھی۔ لیکن مائرہ نے ایک پر غرور سی دوری جس میں اپنے نیک ہونے کا یقین بھی شامل ہو گیا تھا تک ہی خود کو محدود رکھا۔

لیکن میری بے چینی بڑھ گئی تھی۔ اس نے مائرہ جیسی دیوی کو اتنی آسانی سے جانے کیوں دیا؟ وہ گیت کا حصہ کیوں نہیں بنتا؟ وہ گیت کے بارے میں اپنا نقطۂِ نظر واضح کیوں نہیں کرتا؟ وہ دوست بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ نا راضی کے اس اظہار میں اس کا کیا فائدہ ہے؟ کیا وہ کوئی پاگل تو نہیں؟ میں اسے کیوں پسند کرنے لگی ہوں؟ مائرہ کے اس سے دور ہونے میں مجھے خوشی کیوں ہو رہی ہے؟ گیت کا کیا راز ہے؟ یہ یہاں سے ہٹ کیوں نہ جاتا ؟

یہ سارے سوال میرے ذہن میں گونجتے رہتے اور ان سوالوں کے جواب مجھے چاہئیں تھے۔ پتا نہیں لوگوں کی زندگیاں اتنی پیچیدہ کیوں ہوتی ہیں اور اپنے ساتھ وہ دوسروں کی بھی زندگیاں مشکل کر دیتے ہیں۔

ابھی یہ سوال میں نے پوچھے ہی نہیں تھے لیکن میں محسوس کر رہی تھی کہ ارد گرد لوگوں کو اس تشنگی کا اندازہ ہو گیا تھا اور مجھے ایک بڑھتے ہوئے دباؤ کا احساس ہونے لگا تھا۔ ہمدرد اور مہر باں مشوروں کے بیچ چھپی ہوئی دھمکیاں مجھے سمجھ آنے لگی تھیں۔ اگر تھوڑا سا دباؤ بڑھ جاتا تو شاید میں تشنگی سے سمجھوتا بھی کر لیتی۔

اسی دوران میں نے اس اجنبی کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم کر لیا تھا۔ وہ کچھ علم اور عشق کی طرح ثابت ہوا۔ جتنی گرہیں کھلتیں اس سے زیادہ پڑ جاتیں۔ بہروپیا بھی کہہ لیں کہ اس کے اتنے روپ تھے کہ میں چکرا سی جاتی۔ کہیں وہ ہر دم ہنستا کھیلتا نظر آتا اور کہیں ہَمہ وقت مصروفِ گریہ۔ کہیں وہ شمعِ محفل ہوتا اور کہیں کسی کونے کھدرے میں تنہا پڑا ہوتا۔ کہیں وہ بڑی دانائی کی باتیں کرتا اور کہیں بس حماقت ہی حماقت۔ کہیں وہ مسئلے حل کر رہا ہوتا اور کہیں بس مسئلے پیدا ہی کر رہا ہوتا۔ کہیں وہ دلاور دکھائی دیتا اور کہیں سر پٹ بھاگتا ملتا۔

اس کا کچھ نہیں پتا چلتا تھا۔ لیکن دو تین چیزیں مستقل موجود رہتیں، ایک اس کی اجنبیت، ایک اس کی جستجو اور ایک اس کی اچھائی۔ اس سب کی لیکن بنیادی وجہ مجھے کبھی بھی سمجھ نہیں آئی۔ اس کے زندگی سے سلسلوں سے بھی تعارف ہوا لیکن کچھ خاص سمجھ نہیں آیا۔ اور اس کے گیت سے متعلق تحفظات تو پہلے ہی سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اس سے پوچھ ہی لوں۔

ایک دن میں لان میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی۔ وہ مجھ سے دور کھڑا اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک حسین و جمیل خاتون اس کے پاس آ کر ٹھہری اور وہ دونوں یوں گفتگو کرنے لگے۔

تو تابوت میں آخری کیل اجنبی نے اس سے کہا۔

یہ بات نہیں ہے، میں جس مرکز سے پچھڑ گئی تھی، وہاں لوٹ آئی ہوں، خاتون نے کہا۔

جھوٹ مت بولو۔ ایک اخلاقی اور انسانی زوال کو اتنے اونچے نام مت دو۔ مجھے تو جنت گم گشتہ کا باغی جنرل سانپ بنا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بل کہ اس سے بھی زیادہ زوال پذیر، اجنبی نے کہا۔

اور مجھے راندۂِ درگاہ، جس کا کچھ نہیں ہے، خاتون نے کہا۔

اب تو اصطلاحیں ہی بدل گئی ہیں۔ کہاں وہ تعصب کے ہاتھوں دکھ سہتی انسانیت اور کہاں تعصب کی عظمت کے قصیدے۔ تمھارا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ یہ تو شاید جانتے نہیں مگر تم جانتی ہو۔ اور جاننے والا کا لالچ اور خود غرضی کے لیے ایک بہتر بات سے دست بردار ہونا انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔

میں تم سے چخ چخ کر کے اپنا دماغ خراب نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے بس ایک غلطی درست کی ہے، خاتون نے کہا۔

ٹھیک ہے، تو جاؤ، اس دُرُستی کا جو پھل ہے سمیٹ لو۔ اپنے آپ کو دھوکا دیتی رہو۔ میں یہ دعا کروں گا کہ یہاں زندگی اچھی ہو جائے۔ لیکن تم نے پھر اس اچھی زندگی کا بھی حصہ بن جانا ہے۔ جاؤ تم، پھر نہیں ملیں گے۔ بس مجھے دکھ ہے تمھارا اخلاقی زوال میں نہیں روک سکا۔ لیکن کوئی کسی کا زوال کہاں روک سکتا ہے؟ بس محبت تھی اس لیے ضروری سمجھا۔ شاید اب بھی ہے، اس لیے بات کر رہا ہوں، اجنبی نے کہا۔

ھاھا، تم بس دیکھ نہیں رہے کون زوال پذیر ہے، خاتون نے کہا۔

پھر بات کر لیتے ہیں، پتا چل جائے گا۔ اجنبی نے کہا۔

نہیں میں بہت وقت ضائع کر چکی، خاتون نے کہا۔

میں نے کہا، تمھارے پاس کوئی کیس نہیں ہے۔ یہاں اکثر لوگوں کے پاس کوئی کیس نہیں ہے۔ بس سہولت کے لیے ظلم کیے جا رہے ہیں۔ اور تم جس ہونٹ قرمزی ڈورے ہیں، جس کی چھاتیاں انگور کے گچھے ہیں اور جو عورتوں میں سب سے جمیلہ ہے، تمھارے پاس بھی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے۔ بس پارسائی کی آڑ ہے، ستم کے جواز ہیں، جو غیر جانب دار منصفی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ اجنبی نے کہا۔

اور وہ حسین و جمیل خاتون اسے شدید نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہی وہیں چل دی۔ اب مجھ سے رہا نہیں گیا اور جو بات کافی دنوں سے ملتوی ہو رہی تھی وہ اچانک ہی وقوع پذیر ہو گئی۔

یہ کون تھی؟ میں نے سوچے سمجھے پوچھ لیا۔

وہ کچھ دیر حیرت سے دیکھتا رہا۔ پھر مسکرا کر بولا۔ تم نے سن ہی تو لیا ہے۔اب تکرار کی کیا ضرورت ہے۔

چلو نہیں کرتی؟ کچھ بھی نہیں پوچھتی لیکن یہ تو بتاؤ، تمھارا گیت سے کیا مسئلہ ہے؟ مجھے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ اور تمھاری اس گیت سے مستقل نا راضی سمجھ نہیں آتی۔ ایسی کیا خرابی ہے کہ تم اس گیت کی وجہ سے قرمزی ڈوروں سے بھی دور چلے گئے۔ مجھے اپنی روانی پر بھی حیرت ہو رہی تھی۔

مجھے پتا ہے تمھیں کافی دنوں سے بے چینی ہے، چلو بیٹھتے ہیں، میں تمھارے سامنے اپنا نقطۂِ نظر پیش کرتا ہوں۔

پھر ہم لوگ بیٹھ گئے اور وہ اپنی بات کہنے لگا۔

گیت میں خرابی اس میں موجود خیالات کا پسِ منظر ہے۔ تمھیں یاد ہے جس شام گیت کے متعلق اپنے اعتراضات کا اظہار مائرہ سے کر رہا تھا، اس دن تم نے یہ گیت پہلے سے بھی زیادہ ڈوب کر سنا تھا۔ یہ گیت کی خرابی ہے کہ اس کی بنیادی اپیل جنون کی ہے، خود کو گم کر دینے کی ہے، بھول جانے کی ہے، سوچنے سے فرار کی ہے، ذہنی غلامی کی ہے، پاگل پن کی ہے، تشدد کی ہے اور ظلم کی ہے۔ یہ گیت فکر کی صلاحیتیں ختم کر دیتا ہے اور فکر کی صلاحیتوں کے ساتھ محبت، ہمدردی اور مہر بانی کا بھی خاتمہ کر دیتا ہے۔ جو یگانگت نظر آتی ہے، وہ تو بس ڈھونگ ہے جو جنون، انکارِ ذات اور تشدد کے حقائق چھپانے کے لیے رچا جاتا ہے۔

گیت میں اجتماع کے لیے فرد کو برباد کیا جاتا ہے۔ اب مائرہ کو چُوں کہ اجتماع کی تجسیم سمجھتے ہیں، اس لیے وہاں صرف مائرہ ہوتی ہے، باقی سب اپنے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ جب وجود سے انکار کرتے ہیں تو فکر کی، فیصلے کی ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ فکر ان کے لیے ایک ایسی اذیت بن جاتی ہے جس کا انھیں درماں چاہیے ہوتا ہے۔ اور اس درماں کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ تمھارا وہم بھی تو ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا۔

تم نے تو کبھی بھیڑیوں کی غراہٹیں اور گیدڑوں کی ہُوکیں بھی نہیں سنی ہوں گی، جو گیت کے بعد برپا ہوتی ہیں۔

وہ تو ہم سب سنتے ہیں مگر ان کا گیت سے کیا تعلق ہے؟

خرد کے خاتمے کے بعد جنگل ہی تو ہوتا ہے۔ جب کوئی خیال خرد ختم کر دے، جنوں کو معتبر کر دے، تو انسانیت تو ختم ہی ہوتی ہے۔ ہم تم ایک جنگل میں رہ رہے ہیں۔ مجھے اس کا احساس ہے، تمھیں نہیں ہے۔ خیالات کے نتائج ہوتے ہیں اور وہ نتائج دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ خیالات سے عام کرنے سے پہلے سوچنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن خیالات کی اچھائی برائی یا ان کے نتائج سوچنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جب سوچنے کو ہی وہ اپنے لیے زہر قاتل سمجھیں گے، تو پھر کیوں وہ سوچیں گے۔ لیکن جب سوچیں گے نہیں، تو انسان انسان نہیں رہے گا۔

تو پھر نتائج کیا ہیں؟

کیا تم نہیں جانتی کہ روزانہ سینکڑوں کی تعداد بشکیر کیوں مرتے ہیں؟

بشکیر تو جنگلی، اجڈ اور گنوار ہیں۔ انھیں کب سے تم انسان سمجھنے لگے ہو؟وہ زندگی کے کہاں لائق ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے وہ ہمارے بچے تک کھا جاتے ہیں؟

ھاھا، اسی لیے تمھیں یہ گیت اچھا لگتا ہے۔ تم کسی کی انسانیت سے انکاری ہو، اور کسی کی انسانیت سے انکار کے بعد اپنی انسانیت قائم رکھنا آسان نہیں رہتا۔ بشکیر ہم سب کی طرح انسان ہیں اور اس انسانیت کی وجہ سے ان کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق ہیں۔ ان کی انسانیت سے انکار جنون ہے اور جنون کا مطلب ان کے حقوق سے انکار ہے اور ان کے حقوق سے انکار کا مطلب ان پر ظلم و ستم ہے۔ ان کے جرائم کے متعلق چٹ پٹی خبریں تمھیں اپنی ذمہ داری سے زیادہ عزیز ہیں لیکن ان کے امکانات کا تم یک سر انکار کر رہی ہو۔ تو تم بھی ادھر ہی دھنسی رہو گی۔ لیکن آج بشکیر ہیں، کل تاتار ہوں گے، پرسوں چیچن اور اس کے بعد ہم سب۔

اب اور کتنے ثبوت چاہییں، سب کچھ ہو تو رہا ہے۔ جہاں پر بھی کسی پر اختلاف کا، دوئی کا، دوری کا ٹھپہ لگا ہوا ہے، وہ وہاں سب سے زیادہ ستم زدہ نہیں ہے؟ اور اس ستم کےذمہ دار ہم اور ہمارے وہ خیالات جو خرد اور ضمیر کا انکار کرتے ہیں، جو فرد کی قوت فیصلہ کا انکار کرتے ہیں۔ یہ خیالات ابھی جو ماشا گئی ہے اس کے قرمزی ڈوروں کی طرح بھلے لگتے ہیں لیکن جب انھیں چیلنج کیا جائے تو وہ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی نفرت کی طرح ہیں۔ تم اس طرح سوچنا تو شروع کرو، تمھیں بات کی تفہیم ہو جائے گی۔

لیکن خیالات کو اور خیالات پر مبنی گیتوں کو بگاڑا بھی تو جا سکتا ہے؟ میں نے کہا۔

ہاں، لیکن خیالات بذات خود بھی مسئلہ ہو سکتے ہیں۔ اور جب صدیوں سے ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کر رہے ہیں تو ہمیں کہیں چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟ بہ ہر حال اب یہ سوچنا تمھارا کام ہے۔ میں اب بہت تنہا ہو گیا ہوں۔ قرمزی ڈوروں جیسے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی نفرت میں اور نہیں سہنا چاہتا۔ اب میں یہاں اور نہیں آؤں گا۔ اب میں نہ کسی ملنا چاہتا ہوں، نہ کسی کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میں نے اپنی ذمہ داری نبھا دی۔ جو میں نے کرنا تھا کر دیا۔ فیصلہ لوگوں نے ہی کرنا ہوتا ہے اور وہ تب ہی کریں گے جب انھیں اس میں اپنا مفاد نظر آئے گا۔ مفاد کی تبدیلی ایک ثقافتی پروجیکٹ ہوتا ہے۔ جب لوگ اس پروجیکٹ کا حصہ بنیں گے تو بشکیروں کی انسانیت بحال ہو گی۔ اچھا اب چلتا ہوں، اب تم سے پھر ملاقات ہو گی۔ اور وہ چلا گیا، ہمیشہ کے لیے نہ لوٹنے کے لیے۔

اور اسی لمحے مجھ پر یہ بات مُنکشف ہو گئی کہ مجھے اسی سے ہی تو محبت ہے۔ لیکن اس وقت میں سے یہ کہہ نہیں سکی اور اب اسے پلنگ پر ڈھونڈتی ہوں تو نہیں ملتا، شہر کی گلیوں میں بھی نہیں ملتا۔ بادیہ و بیابان سے بھی اس کی کوئی خبر نہیں آتی، گل گشت و گل زار میں بھی نہیں اور نہ کوہ بلند سے اس کا کوئی پیام آتا ہے۔

جیسے وہ کہتا تھا بشکیروں کے بعد تاتاروں کی بھی باری آئی، تاتاروں کے بعد، چیچنوں کی بھی اور چیچنوں کے بعد ہم سب کی بھی۔ مائرہ کسی دور دراز ملک میں چلی گئی۔ ماشا بھی بھیڑیوں اور گیدڑوں کے ساتھ بشکیروں، تاتاروں اور چیچنوں کا شکار کرتی رہی۔

اور میں بے چاری، خستہ و تَشنہ خیال کی اور گیت کی خامیوں کے بارے میں بات کرتی رہی۔ اور یہ گفتگو مجھے آج اقوام عالم کے سب سے بڑے اعزاز تک لے آئی ہے کہ آخرِ کار ہم لوگ اپنا حقیقی مفاد پہچان گئے اور بشکیروں، چیچنوں اور تاتاروں کے اور ہمارے انسانی حقوق کی صورت حال بہت بہتر ہو گئی۔ اب جیسے وہ کہتا تھا، ماشا اس بہتری سے بھی لطف اندوز ہونے لگی۔

دوستو، جب کوئی معاشرہ ایک بہتری کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو مجھے جیسے اعزاز پانے والوں کے ساتھ وہ سب لوگ اہم ہوتے ہیں جنھوں نے ایک اچھی صورت حال کی طرف ابتدائی قدم اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس اجنبی کا ذکر اس لیے ہو رہا ہے کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اگر نہ کرتی تو اس کا شاید ذکر بھی نہ ہوتا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں، جہاں تک ممکن ہے یہ ذکر ہونا چاہیے کیوں کہ ایسے ہی جو اچھائی ہم نے حاصل کی ہے برقرار رہ سکتی ہے۔

رہا مائرہ کا گیت، اب بھی گایا جاتا ہے مگر اس گیت کو سننے والوں کی تعداد بہت کم ہے، اتنی کم کہ وہ معاشرے پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ اب معاشرے کا یہی کام ہے کہ اس تعداد کو کم سے کم ہی رکھے۔ لیکن اس بات کے امکانات ہمیشہ رہیں گے کہ وہ گیت ایک بار پھر مقبول ہو جائے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ ہم لوگوں کی نا کامی ہی ہو گی۔