پرائیویٹ سکولوں کا کار و بار اور تعلیمی خلفشار

زاہد یعقوب عامر

پرائیویٹ سکولوں کا کار و بار اور تعلیمی خلفشار

از، زاہد یعقوب عامر

تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ چشم پوشی کی گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو اپنے جی ڈی پی کا چار فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ رقم ستر سالوں تک دو فیصد سے زیادہ مختص نہیں کی گئی تھی۔ ایسے میں ایک خواندہ انسان کی تعریف کو بھی ہم نے توڑ موڑ کر پیش کیا اور شرح خواندگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ ایک شخص جو اپنے دست خط کر سکتا ہو اسے بھی خواندہ متصور کیا جاتا رہا ہے۔

سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں نے تعلیم عام کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ سکول سسٹم اور نیٹ ورک وجود میں آئے اور پھر یکساں نظام تعلیم کا سٹرکچر تبدیل اور تباہ ہو گیا۔ یہ سکول تعلیم کے دُہرے معیار اور سٹیٹس ریس کو عام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پھر ہم نے دیکھا کہ تعلیم ایک کار و بار بن گیا۔ مالکان، تاجران اور سوداگران سامنے آئے۔ گورنمنٹ سکولوں کے بارے میڈیا اور این جی اوز نے بھرپور مہم چلائی۔ سیاست دانوں  اور سرکاری افسران نے ان سکولوں اور متعلقہ اداروں کو خوب بھنبھوڑا، نوچا اور ہمارا نظام تعلیم ایک کنفیوژن بن کر رہ گیا۔

سفید پوش افراد نے گورنمنٹ سکولوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں کو اپنی اولاد کی منزل سمجھا۔ جب کسی ریڑھی بان، مزدور، کم آمدن والے ملازم کا بچہ الاسٹک سے بندھی ٹائی کے ساتھ کندھے پر بوتل لٹکائے گھر سے نکلتا تو والدین کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا۔ ہم نے وقت بدلتے دیکھا کہ سکول مالکان اور ان کے بچے امارت اور عمارت کو بڑھاتے گئے۔ بچے مزید انگریزی بولنے لگے۔ تعلیم بہتر ہوئی مگر کوئی ایسا ادارہ یا میکانزم نہ رہا جو ان اداروں کے نصاب، تعلیمی سرگرمیوں، اور قواعد و ضوابط کا تعین کرتا۔ ہر سکول نے”ڈیڑھ انچ کا سکول” بنا لیا۔ اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ۔

ان سکولوں میں اساتذہ کو دو دو ہزار پر بھی نوکری کرتے دیکھا ہے۔ میٹرک پاس کیا، داخلہ نہیں لیا، چلیں ٹیچنگ کرتے ہیں۔ کسی کا تبادلہ دوسرے شہر ہوا۔ چلیں اپنے قریبی سکول ٹیچنگ کرتے ہیں۔ شادی نہیں فائنل ہوئی۔ لڑکی فارغ کے چلیں سکول جوائن کرتے ہیں۔ نصابی، غیر نصابی سرگرمیوں کو کلرز میں تبدیل کر دیا گیا۔ مختلف ہنر، مہارتیں، عمر کے ساتھ وابستہ مشقیں، کھیل، آموزش، سب بدل گی۔ کھیل کا میدان نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ بچہ انگریزی تو اچھی بول لیتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے قد، جسمانی ساخت، چُستی، ذہنی آسودگی سب پر ہمیں سمجھوتہ کرنا پڑا۔ سکول مالکان ٹیچنگ ٹیکنیکس، نصاب، تعلیمی نفسیات سب سے بے بہرہ۔ بس ان کو لائن بنا کر چلتے بچے اور لائن بنا کر فیس جمع کراتے والدین سے غرض۔ باقی سب مایا۔


مزید و متعلقہ: ہم بچے نجی اسکولوں کے لیے ہی تو پیدا کرتے ہیں  از، عثمان جامعی

آج ایک پروفیسر اپنے بچوں کی فیسوں کے لیے قرض لے رہا ہے؟  از، ڈاکٹر نوید اقبال انصاری


آج وقت اس نہج پر آن پہنچا کہ والدین فیسوں اور بچے بیگوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے بچے کا بیگ اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں۔ یہ اس بچے کی ہمت ہے کہ وہ اسے اٹھائے پھرتا ہے۔

جب فیس بِل آتا ہے تو والدین پریشان۔ کس سے کہیں۔ مخفی چارجز۔ فنڈز اور ٹیکس کا پوچھ بھی نہیں سکتے۔ اپنے بھی فوراً کہتے ہیں کہ کس نے کہا تھا پرائیویٹ پڑھاؤ۔ یہ آپ کی اپنی پسند ہے۔ اوکھلی میں سر دیا اب خود ہی برداشت کرو۔

اگر حکومتی قوانین، ریگولیٹری باڈی اور ذمہ دار اداروں کی بات کی جائے تو ان کا کردار نہ ہونے کے برابر۔ ایک دن میں میں سٹے آرڈر اور والدین کی آواز کئی سالوں کے لیے دب جاتی ہے۔ حالیہ آن پرائیویٹ سکولوں نے فیسوں میں بیس سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ کس سے پوچھا گیا؟ کیا انہوں نے اپنے اخراجات اور آمدن کا آڈٹ کرایا؟ کیا ان کے سکولوں میں سہولیات کی فراہمی اس حد تک ہے کہ ان کے مطابق مزید پیسے بڑھائے جائیں؟

ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر پنجاب اور سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے صادر فرمائے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیمی اداروں کے سوداگران پانچ اور آٹھ فیصد تک فیس بڑھا سکتے ہیں۔ وفاقی دار الحکومت میں بسنے والے سرکاری ملازمین اپنے بچوں کو سکول چھڑانے پر مجبور ہیں۔ تین بچوں کا فیس چالان جو کہ دو ماہ کا اکٹھا ہوتا ہے۔ ایک لاکھ روپے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو سرکاری تنخواہ یا اپنے دوسرے وسائل سے ادا کرتے ہیں۔ اپنی ضروریات قربان کر کے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے خواہاں ہیں۔ یہ سکول بچوں کے یونیفارم،  کتب، کینٹین، ہر چیز سے کمائی کرتے ہیں۔ ان کی کینٹین نو پرافٹ نو لاس۔ پر اس نہیں چلتی کہ انہوں نے ننھے بچوں کو دس روپے والی چیز بیس کی بیچنی ہوتی ہے۔ ان کے لیے اس سے منافع بخش کار و بار ہے ہی نہیں۔

ایوانِ اقتدار اور اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے احباب بھی سمجھتے ہیں کہ سکولوں کو یکساں تعلیم،  نصاب، فیس اور سہولیات کی فراہمی کرنی چاہیے مگر بولتے نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت شوق تھا مہنگے سکولوں میں پڑھانے کا۔ دیکھ لیں اب برداشت نہیں ہو رہا۔

آخر میں اتنا کہوں گا کہ ایک سری لنکا کے وفد سے ملاقات ہوئی۔ تعلیم کا ذکر آیا۔ میں نے تعلیمی نظام کا پوچھا۔ بولا کہ لوگ گورنمنٹ سکول میں داخل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جن کو میرٹ کی وجہ سے وہاں داخلہ نہ ملتا ہو۔ سری لنکا۔ جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی۔ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا۔ والدین کو بچوں کی فیس کے لیے چوری، رشوت نہ لینی پڑی۔ انہیں یکساں معیار تعلیم میسر آیا۔ انہوں نے اس کی قدر کو پا لیا اور شرح خواندگی تقریباً  سو فیصد تک لے گئے۔

ہم نے سکول مالکان کو بنایا۔ ان کے لیے اپنا رزق حلال نچھاور کیا۔ محض اس لیے کہ شاید میرا بچہ زمانے کی دوڑ سے پیچھے نہ رہ جائے۔ حالاں کہ ہم سب ایک چلتی گاڑی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ سانسیں پھولی ہیں۔ مگر نہ رک سکتے ہیں اور نہ بھاگ سکتے ہیں۔ خدارا ان پرائیویٹ سکولوں کے لیے بھی کوئی مؤثر ادارہ فعال بنائے جو ان کی عمارتوں، سٹاف، اساتذہ، نصاب، فیسوں، بنیادی حقوق و فرائض اور سیکورٹی کا آڈٹ کر سکے۔ پوچھ سکے۔ کچھ ان کو بتا سکے۔ نئی حکومت کو اسے ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا وگرنہ تعلیم ان پرائیویٹ سکول مالکان کی کمائی میں ڈوب رہی ہے۔ رُو بہ زوال ہے۔