کہانی سے نکالا ہوا آدمی

کہانی سے نکالا ہوا آدمی

کہانی سے نکالا ہوا آدمی

(خرم شہزاد)

ڈائری کا خالی صفحہ کافی وقت گزر جانے کے باوجود خالی تھا۔ اب تو اس صفحے کو دیکھ کر مجھے اس ویران کچے راستے کا خیال آنے لگا تھا جس پر بننے والے ٹائروں کے نشانات بھی ہو ا نے بے دردی سے مٹا دیے ہوں۔ کہانی لکھنے کی غرض سے اس دن ،دفتر سے گھر وقت سے پہلے پہنچا،کپڑے بدلے بغیر، اپنے کمرے میں پڑی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ گیا۔جسے اس وجہ سے خریداگیا تھا کہ اس پر بیٹھ کر لکھنے میں آسانی رہے گی۔

کئی بار قلم اٹھایا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے لکھ نہیں پا رہا تھا۔ اپنے بائیں طرف رکھی الماری میں بیٹھی خاموش کتابوں کو کئی بار مخاطب کیا مگر آج جیسے وہ گفتگو پر مائل نہ تھیں۔ سامنے کی دیوار میں لگی کھڑکی سے جھانکتی روشنی بھی بے مصرف لگ رہی تھی۔ کمرے میں رکھی ہر چیز پر بے معنویت کی گرد جمنے لگی۔ معلوم نہیں کتنی دیر تک خالی صفحہ کے لیے اپنے لاشعور سے مختلف لفظ نکالتا رہا۔ حتٰی کہ کمرہ لفظوں سے بھرگیا۔ صوفہ پر، قالین پر،میز کے اوپر، نیچے ہر طرف لفظ ہی لفظ بکھر گئے۔

ایک روزن لکھاری
خرم شہزاد

پورے جسم، خاص کر ہاتھوں میں ایک عجیب سی سرسراہٹمحسوس ہونے لگی۔ مجھے اپنی پنڈلیاں کسی دھات میں ڈھلتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ میں نے کوٹ اتارا، نیکٹائی کو ڈھیلا کیا اور پنکھا چلا کرکرسی سے ٹیک لگائی۔ پنکھے کی تیز ہوا سے لفظ اڑنے لگے۔

لفظ نیلے،پیلے،سبز،سیاہ اورسفید رنگوں میں بدل کر سامنے پڑے ہوئے صوفے پر جمع ہو رہے تھے۔میں جاگ رہا تھا یا شاید ،میں سو رہا تھا۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں البتہ یہ گمان گزرا کہ میرے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھا کوئی مجھے گھوررہا ہے۔

وہ میرے سامنے کافی دیرتک خاموش بیٹھا رہا۔ میں نے بات کرنا چاہی مگراس وقت زبان مجھے اظہارکاغیرمناسب ذریعہ معلوم ہونے لگی۔اس سے پہلے کہ خاموشی کاشورمزیدبڑھتا۔ میز کے نیچے پڑے لفظوں کے ڈھیر سے میں نے چند الفاظ منتخب کیے۔ ترتیب لگانے کے بعد اس شخص کے سامنے انہیں پیش کیا۔کیا تم بول سکتے ہو؟وہ زیرِ لب مسکرایا ’’تو تم مان ہی گئے کہ مجھے تخلیق تو کیا جا سکتا ہے مگر مجھ پر لفظوں کی گٹھڑی نہیں لادی جا سکتی۔‘‘کون ہو تم؟ تمہیں کس نے تخلیق کیا ہے؟
میں تمہارے لفظوں سے بنا ہوا ایک کردار ہوں۔ اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔

کردارخود سے نہیں بولا کرتے ۔میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کردار تو مصنف کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہوتا ہے وہ جو چاہتا ہے اس سے اگلواتا ہے۔ ہاں تم ٹھیک کہتے ہوعام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے مختلف کردار ،کچھ ایسے ہی قصے سناتے ہیں کہ کس طرح ان کی زندگی غلامی میں گزرتی ہے۔ خود پر ہنسنے کے لیے انہیں کیسے مجبور کیا جاتا ہے۔ کس طرح ان کی بے بسی پر توجہ دلائی جاتی ہے۔ مگرخدا کا شکر ہے کہ میں تمہا ری اس معذوری پر آزادی محسوس کر سکتا ہوں۔‘‘کون سی معذوری؟میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
پچھلے دو گھنٹوں سے میں یہاں تمہارے سامنے ہوں اور تم ادھ کھلی آنکھوں سے مسلسل مجھے دیکھ رہے تھے۔ اب اگر بولے بھی تو مجھے ہی بلوانا چاہاتا کہ تمہاری رہنمائی ہو۔ میں اپنی شناخت کرواؤں۔جس سے تم کہانی لکھ سکو۔ لکھنے کے حوالے سے یہ تمہاری معذوری نہیں تو اور کیا ہے۔ویسے لکھت کے میدان میں نئے لگتے ہو ۔تم سے مل کر خوشی ہوئی۔مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ میں ایک ایسے کہانی کار کے ہاں کردار بنوں گا جو نکما ہے۔ کردار کا نمائندہ نہیں بل کہ اس کے ہاں اپنی نمائندگی خود کی جا سکتی ہے۔ویسے کوئی ،کسی کا نمائندہ بن بھی کیسے سکتا ہے؟

اس سوال پر میں ہمیشہ سے کڑھتا رہا ہوں ۔میں کیا سوچتا ہوں؟کیسا ہوں؟کیا چاہتا ہوں؟کوئی کتنا بھی خیر خواہ اور نیک نیت کیوں نہ ہو صحیح طور پر میری نمائندگی نہیں کر سکتا۔کوئی بھی نہیں۔اسی لیے میں نے غنیمت جانی کہ غیر یقینی تمہارے پہلو میں بیٹھی ہے۔

اس کا ہر ہر جملہ مجھے پسپائی کے عجیب تجربے سے روشناس کروا رہا تھا کہ اچانک یادآیااگر واقعی کردار یہ ہے تو لکھاری میں ہوں اس لیے مجھے اس سے مغلوب ہونے کی ضرورت نہیں۔اس خیال کا سہارا لے کرمیں نے پہلی بار سر سے پاؤں تک اسے غور سے دیکھا۔اس کی عمر ۴۰ سے۴۵ کے آس پاس ہو گی۔درمیانہ قد،تندرست اور تواناجسم،سفیدی مائل سیاہ بال ،بیضوی چہرہ ،جس پر گھنی مونچھیں ،خش خشی ڈھاڑی ،سر پرسفید ململ کی ڈھیلی ڈھالی سی پگڑی ،لان کا بغیر بین کے کرتا، جس پر ہاتھ سے نفیس کڑھائی کی گئی تھی ۔گریبان کے دو بٹن کھلے ہوئے۔سبز اور سیاہ دھاری داردھوتی باندھے ہوئے۔پاؤں میں سرخ رنگ کاکھسہ۔اس کے لباس میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ اس نے کرتے کے نیچے سیاہ رنگ کا شلوکا پہن رکھا تھا۔سفید کرتے کے نیچے سیاہ رنگ کا شلوکا غیر ضروری حد تک واضح تھا۔اس ایک عجیب بات کے علاوہ وہ آدمی مناسب وضع قطع کا حامل مکمل دیہاتی لگتاتھا ۔البتہ اس کا لہجہ قطعاً دیہاتیوں والا نہ تھا ۔ میں ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ پھر سے بولا۔’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
میں سوچ رہا ہوں کہ تم نے سفید کرتے کے نیچے سیاہ شلوکا کیوں پہن رکھاہے۔ چھوڑو تم اس بات کو نہیں سمجھ سکو گے۔اس لیے جانے دو۔ کوئی رد عمل یا دلچسپی نہ پا کر اس نے بات کو جاری رکھا۔ویسے میں بھی خوامخواہ تم سے چھپا رہا ہوں تم اس حوالے سے بالکل بے ضرر ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم میرے جسم پر موجود سیاہ نشان کے حوالے سے میرے خیال کو توہمات کے خانے میں رکھو گے۔جو میرے حق میں بہتر ہے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے اس نے کرتے کو اتار کر شلوکا کے نیچے اپنی کمر پر ایک سیاہ نشان دکھایا۔ جو انگوٹھے کے نشان سے مماثل تھا۔ اس کو اتنا چھپانے کی کیا ضرورت ہے اگر تھوڑی سی بھی سائینس سے واقفیت ہوتی تو تم کسی خوف کا شکار نہ ہوتے ۔میں نے اس کا مزاق اڑانے کے بجائے اپنے لہجے میں اپنائیت ظاہر کی۔

لیکن میری بات کو جیسے اس نے سنا ہی نہیں اوررازدارانہ انداز میں بولا۔شادی کو دس سال گزرنے کے باوجودجب میری ماں کے ہاں اولاد نہ ہوئی توایک دفع دروازے پر ایک فقیر آیا۔اماں نے اسے خیرات میں آٹا دینے کے بجائے روٹی اور سالن دیا تو بدلے میں دعا دیتے ہوئے اس فقیر نے کہا
’’میں تیرا دکھ جانتا ہوں بچہ۔ تو فکر نہ کر۔ تیری سنی گئی ہے ۔میں تجھے خوش خبری دینے آیا ہوں۔اللہ کے حکم سے تیرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گاجو بڑا بختوں والا ہے۔ میری بات کی نشانی، اس کی کمر پر گردن سے ذرا نیچے ایک سیاہ نشان ہو گا۔ بس اس نشان کو لوگوں کی نظر سے چھپائے رکھنا ورنہ حسد کا شکار ہو جائے گا۔‘‘

میں اب تمہاری باتوں سے بور ہونے لگا ہوں۔سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟جواب میں اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوتے کہا’’ میں تمہیں اپنی حقیقت بتا چکا ہوں۔‘‘اب کی بار میں اپنے لہجے کی سختی نہ چھپا سکا اور بولا فضول بات نہ کرو ایسانہیں ہو سکتا کہ میرے لفظوں کی مجسم صورت تم بنو۔میں تمہارے آنے کے بعد سے یہ سوچ رہا ہوں کہ تم ہو کیا چیز۔اگر تم واقعی میرے لفظوں سے بنے ہو تے تو ایسے ہر گز نہ ہوتے تم نے اپنا حلیہ دیکھا ہے مجھے اس حلیے میں تمہاری موجودہ زبان کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ہم دونوں کی زبان ایک ہے۔اگر تم حقیقی کردار ہوتے تو تمہاری زبان تمہارے حلیے کے مطابق ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ تم ایک گھٹیا بہروپیے لگ رہے ہو اور کچھ نہیں۔میری کہانی میں تمہاری کوئی گنجائش نہیں۔

’’اس نے قہقہہ لگایا، تم ٹھیک سمجھ رہے ہو کہ جو بہروپ میں نے بھر رکھا ہے میں اس کی زبان نہیں بول سکتا۔ اگر تمہارے نزدیک حقیقی کردارکے لیے یہی معیار ہے تو کیا تم خود اس پر پورے اترتے ہو؟ تم نے سر میں بائیں طرف سے مانگ نکال رکھی ہے۔ناک پر ’’رے بین ‘‘کا سفید شیشوں والاچشمہ ہے۔ سفید شرٹ کے ساتھ نیلی دھاری دار نیکٹائی باندھ کر، شوخ نیلے رنگ میں ’’یونی ورتھ‘‘ کا پینٹ کوٹ پہن رکھا ہے اور پیروں میں’’ باٹا‘‘ کے تسمے والا جوتا۔ کیا تم اس حلیے میں ملبوس اصل لوگوں کی اصل زبان میں روانی سے اپنے خیالات کی ترسیل کر پاتے ہو؟ نہیں نااس طرح سے دیکھا جائے تو ہم دونوں ہی بہروپیے ہوئے۔البتہ ہم دونوں میں ایک فرق ہے کہ میرے پاس اپنی شناخت کے لیے شناختی کارڈ نہیں۔ جس پر لکھے نمبروں کو کمپیوٹر کی محتاجی سے پڑھا جا سکتا ہو۔ یاد ہے ناں دفتر سے گھر آتے ہوئے راستے میں آنے والی دونوں فوجی چیک پوسٹوں پر تمہیں اپنی شناخت کروانا ہوتی ہے اورشناخت کنندہ فوجی کے کیبن پر جلی حروف میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے۔

’’قومی شناختی کارڈ کے بغیر افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔‘‘

تو اس جملے میں کیا پریشانی والی بات ہے میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا بلکہ اس پر تو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے کہ کوئی انجان آدمی یا دہشت گرد وہاں سے نہیں گزر سکتا۔ہنکارابھرتے ہوئے اس نے کہا’’ تو گویا شناختی کارڈ کی بدولت اپنے یا غیر میں فرق قائم کیا جا سکتا ہے؟ جان کر حیرت ہوئی‘‘۔ تم بہت فضول بولتے ہو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا کہ میری تحریر میں تمہاری کوئی گنجائش نہیں۔اور ہاں یہ مت سمجھنا کہ تم نے مجھے لاجواب کر دیا۔ بلکہ میں تمہاری باتوں کو توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ اب تم کو کیسے سمجھایا جا سکتا ہے کہ انسانی تہذیب میں ترقی کی کچھ واضح نشانیاں ہیں جو تمہاری عقل سے بالا ترہیں اس لیے تم اپنے علاقے میں ہی جا کر چین کی زندگی گزارواور کسی کی کہانی کے لیے خدارا اپنا قیمتی وقت قربان مت کرنا۔

اس کے ساتھ ہی میں نے کمرے کاگلی میں کھلنے والا دروازہ کھول دیا۔وہ خاموشی سے اٹھا اور یہ کہتا ہوا نکل گیا
’’ میرے حوالے سے لکھنے کے لیے جس اعتماد کی ضرورت ہے وہ تمہارے پاس نہیں۔البتہ تم سوچنا ضرور کہ میرے حوالے سے جو رائے تم نے قائم کی کیا وہ واقعی تمہاری اپنی ہے؟؟‘‘یہ سوال پوچھتے وقت اس کے چہرے پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ ابھری۔

بات کو مکمل کرتے ہوئے اس نے کہا’’ اوراس بات پر بھی غور کرنا کہ اگر تہذیبی ارتقاء کی بڑی نشانی بقول تمہارے(شناختی کارڈ) کبھی گم ہو گیا تو دفتر سے گھر کے راستے میں دو فوجی چیک پوسٹیں آتی ہیں۔ ‘‘اب وہ دروازے کے بالکل سامنے کھڑاتھا کہ اس کا وجود دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو نے لگا۔وہ جا چکا تھا مگر اس کی معنی خیز مسکراہٹ اور سوچ کی آخری دعوت نے میرے ذہن میں شناختی کارڈ کے گُم ہو نے پر بہت سے خدشات کو میرے سامنے لا کھڑا کیا۔میں۔۔ میں پولیس اسٹیشن جاؤں گا ایف۔آئی۔آر کٹوانے کے بعد اس کی کاپی لے کر تو اپنے گھر جا ہی سکوں گا۔کیا ایف۔آئی ۔آر آسانی سے کٹ سکتی ہے؟دفتر میں دن بھر کی خجالت کے بعد اس بات کا ثبوت آسانی سے فراہم کیا جا سکتا ہے کہ میں یہیں کا ہوں جہاں کا شناختی کارڈ بنا تھا اور اب گم ہو چکا ہے۔

میں نے دروازہ بند کیا کرسی کو میز کے ساتھ بڑی احتیاط سے ملایا۔ میز پر کھلی ہوئی ڈائری کو بند کیا۔ خلاف معمول اسے میز میں بنی دراز میں رکھ کر لاک کر دیا۔ کمرے سے باہرنکلا اور لان میں بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگانے لگا۔

1 Trackback / Pingback

  1. مائرہ کا گیت — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.